New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 11:41 PM

Urdu Section ( 12 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Thank you Justice Chandrachud... ...شکریہ جسٹس چندر چوڑ

ودود ساجد

10 نومبر 2024

 اپنیسبکدوشی سے دو دن پہلے اوراپنے کام کاج کے آخری دن چیف جسٹس آف انڈیاڈی وائی چندر چوڑ نے ایک اہم فیصلہ دے کربیک وقت دو کام کرڈالے۔ ایک طرف جہاں انہوں نے خود اپنا نام تاریخ کے اوراق میں درج ہوجانے کا انتظام کرلیا وہیں دوسری طرف اس ملک کے کروڑوں مسلمانوں اور ان کے ہزاروں اداروںکے تحفظ کا تاریخی انتظام بھی کردیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق راہ ہموار کرنے والے اس تاریخی فیصلہ نے سیاسی محاذ پر بھی ان شرپسندوں کو شکست فاش سے دوچار کردیا جنہیں ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے اداروں کے وجودسے رہ رہ کر تکلیف ہوتی رہتی ہے۔یہ فیصلہ محض علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوہی فائدہ نہیں پہنچائے گا بلکہ اس کا مثبت اثر ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ قائم دوسری یونیورسٹیوں‘ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس پر بھی پڑے گا۔چند روز قبل ہی یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ(ایکٹ) کے تعلق سے سپریم کورٹ کےایک اور فیصلہ نے پہلے ہی ملک بھر میں پھیلے ہوئےدینی مدارس کے تحفظ کا بھی انتظام کردیا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) کے اقلیتی کردار سے متعلق مقدمہ کی سماعت کرنے والی سات رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلہ نے کچھ حلقوں میں ’کنفیوزن اور خوف‘ بھی پیدا کردیا ہے۔سوال کیا جارہا ہے کہ جب سپریم کورٹ نے اس بنیاد کو ہی ختم کردیا ہے جس پراے ایم یو کے اقلیتی کردار کو ختم کیا گیا تھا تو پھر یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو حتمی طورپر طے کرنے کاکام تین ججوں کی مستقل بنچ پر نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔یہ سوال غلط بھی نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے اقلیتی اداروں کے اقلیتی کردار کے تعلق سے ایک وسیع ترسوال کو ہمیشہ کیلئے طے کردیا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ مذکورہ سوال خصوصی طورپرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہی معاملہ میں اور اسی کےتعلق سے پیدا ہواتھا۔ایسے میں جہاں سپریم کورٹ نے ایک عمومی اور وسیع تر سوال کو طے کردیا وہیں محض ایک سطر اور لکھ کرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے سوال کو بھی طے کردینا چاہئے تھا۔ سپریم کورٹ کے دو معروف وکلاء ایم آر شمشاد اور اسد علوی بھی اسی خیال کے ہیںکہ بنچ ایسا کرسکتی تھی۔

ایم آر شمشادکہتے ہیں کہ فیصلہ میںایک سطر اور لکھی جاسکتی تھی اورعدالت کواس کا اختیار حاصل تھا۔لیکن اگر ایسا نہیں کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑی بنچ کا کام پیرا میٹر(پیمانہ)طے کرنا ہے جو اس نےکردیا‘اب اس کی بنیاد پرتین ججوں کی مستقل بنچ کو فیصلہ کرنا ہےجوکوئی مشکل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ 1967کا عزیز باشا کیس میں سنایا جانے والا فیصلہ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگرکوئی انسٹی ٹیوشن ‘قانون بناکر یونیورسٹی  بنادیا جائے گا تووہ مائناریٹی نہیں رہے گا‘بعد میںالہ آبادہائی کورٹ نے بھی اسی کی بنیاد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کردیا تھا۔چونکہ عزیز باشا کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کا تھا اس لئے اس پر نظرثانی سات رکنی بنچ ہی کرسکتی تھی۔

  اسد علوی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ محض ایک سطر کا اضافہ کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قضیہ کو فیصل کرسکتی تھی لیکن تین ججوں کی جو بنچ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قضیہ پر غور کرے گی وہ سات رکنی بنچ کے فیصلہ میں دی گئی بنیادوںکو نظرانداز نہیں کرسکے گی۔انہوں نے کہا کہ جھگڑے کی جڑ عزیز باشاوالا فیصلہ ہی تھا۔وہ فیصلہ اب کالعدم ہوچکا ہے اور اب ادارہ قائم کرنے والے کی نیت دیکھی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ لطف کی بات یہ ہے کہ عزیزباشا کیس کے فیصلہ کی پہلی سطر ہی ادارہ کے قیام میںسرسیدکی محنت کے ذکر سے شروع ہوتی ہے۔ممتاز ماہر قانون اور کٹیہار لا یونیورسٹی کے وائس چانسلر فیضان مصطفی نے بھی اس فیصلہ کو انتہائی جامع قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں بحث کے دوران انہوں نے خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے اتنا مواد اور اتنے شواہد جمع کردئے ہیں کہ جن کی بنیاد پر اس سوال کو طے کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔

مذکورہ فیصلہ اس مضمون کے اشاعت کیلئے جانےسے محض ایک روز پہلے ہی آیا ہے ۔لہٰذا اس طویل فیصلہ کے بھرپورمطالعہ کیلئے وقت درکار ہے۔اس کے علاوہ سات رکنی بنچ کے تین ججوں نے اپنے اپنے فیصلے الگ الگ لکھے ہیں۔ان میں کچھ نکات تینوں کے یہاں مشترک ہیں لیکن بعض نکات ایک تیسرے سے مختلف ہیں۔میرا خیال ہے کہ ماہرین قانون کو اور خاص طورپر اے ایم یو انتظامیہ کے وکلاء کو ان تینوں ججوں کے فیصلوں کا بھی تفصیلی مطالعہ ضرور کرنا چاہئے تاکہ جب تین ججوں کی مستقل بنچ کے سامنے اقلیتی کردار کا قضیہ پیش کیا جائے تو اس میں کوئی قانونی جھول نہ ہو۔تاہم نافذالعمل تو چار ججوں کا ہی (اکثریتی)فیصلہ ہوگا جس میں بہرحال کوئی ابہام اور کوئی جھول نہیں چھوڑا گیا ہے۔

جو لوگ اس قضیہ کو نئے سرے سے سمجھنا چاہتے ہیں ان کیلئے یہ تلخیص مفید ثابت ہوگی:سرسید احمد خاں نے براہ راست علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم نہیں کی تھی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان کی کاوشیں‘ جاں فشانیاںاوران کی ذاتی دلچسپی اورقربانیاںنہ ہوتیں تو دوسرے لاکھ ادارے ہوتے لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ ہوتی۔سرسید انگریزوں کے اس زمانے میں تھے جب انگریزی استعمار(سادہ زبان میں ہندوستان پر انگریزوں کی ناجائزحکومت اورناجائز قبضہ) کے خلاف ہندوستانی عوام اور کلیدی طورپر ہندوستانی مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔1857میں انگریزوں کے خلاف مہم کی ناکامی کے بعد مسلمان دلبرداشتہ ضرور تھے لیکن وہ اپنی مہم سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ ایسے میں سرسید احمد خاں نے محسوس کیا کہ مسلمان کہیں جدید تعلیم اور سائنسی علوم میں پیچھے نہ رہ جائیں۔1877میںانہوں نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی سے نکالنے اور علمی طورپراوپر اٹھانے کیلئے ’محمڈن اینگلواورینٹیل کالج‘(ایم اے او) قائم کیا۔اس ضمن میں سرسید کی کاوشوںکا مطالعہ جوتصویر پیش کرتا ہے وہ تصویر19ویں اور 20ویں صدی کی کسی دوسری(عصری) تعلیمی تحریک کے مطالعہ سے بنتی ہی نہیں۔میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کوسرسیدکی کاوشوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔یہاں اس بحث کو چھیڑنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ سرسید کی تعلیمی مہم کے خلاف اس دور کے علماء نے فتوے دئے تھے۔

سرسید کے اس کالج کے قیام کی چار دہائیوں کے بعد1920میں حکومت نے ایک ایکٹ پاس کرکے اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیدیا تھااور اس کا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی رکھاگیا تھا۔یہ دراصل سرسید کے خوابوںکی تعبیراور تکمیل تھی۔انہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بارہا اس کا ذکر کیا تھاکہ ان کا یہ کالج ایک دن یونیورسٹی بن جائے گا اور وہ یونیورسٹی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کی سمت کام کرے گی۔لہذا اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ یہ یونیورسٹی مسلمانوں (سرسیداور ان کے رفقاء)نے قائم کی تھی اور مسلمانوں کیلئے قائم کی تھی۔اس ادارہ نے محض تین دہائیوں میں معیار تعلیم کے اعتبارسےوہ مقام حاصل کرلیا کہ1950میں پارلیمنٹ نے اسے ’قومی اہمیت کا حامل ادارہ‘قرار دیدیا۔1951میں اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کرکے یونیورسٹی کورٹ میں غیر مسلم ممبران کی شمولیت کا التزام کردیا گیا۔ 1965میںایکٹ میںایک اور ترمیم کی گئی اوریونیورسٹی کی ایگزیکٹوکونسل کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا۔ اقلیتی رتبہ کی حامل اس یونیورسٹی کی مشکلات کا آغاز1967میںاس وقت ہوا جب ان دو ترمیمات کو سپریم کورٹ میںچیلنج کیا گیا۔عزیز باشا کے نام سے مشہوراس مقدمہ میں پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ اے ایم یو کو اقلیتی کردار کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔اس فیصلہ کا اثر ختم کرنے کیلئے اندرا گاندھی حکومت نے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کرکے ڈکلیر کردیا کہ اس یونیورسٹی کا قیام مسلمانوں کی تعلیمی اور ثقافتی ترقی کیلئے کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی کی مشکلات کے دوسرے دور کا آغاز اس وقت ہوا جب 2005میںمسلم طلبہ کیلئے یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کورسز میں 50فیصدریزرویشن کا التزام کردیا گیا۔اس فیصلہ کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا جہاں2006میں دورکنی بنچ نے 1967کے سپریم کورٹ کے (عزیز باشاکے)فیصلہ کا حوالہ دے کرنہ صرف 50فیصد ریزرویشن کی پالیسی کو بلکہ 1981میں ایکٹ میںکی گئی ترمیم کو بھی کالعدم قرار دیدیا۔ کانگریس کی منموہن سنگھ حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔لیکن تقریباً دس سال تک یہ مقدمہ آگے نہیں بڑھا۔ 2016میں بی جے پی کی مودی حکومت نےسپریم کورٹ میں منموہن سنگھ حکومت کا دائر کردہ حلف نامہ یہ کہہ کر واپس لے لیاکہ یوپی اے حکومت کا فیصلہ اس عوامی پالیسی کے خلاف تھا جس کے تحت سینٹرل یونیورسٹیوںمیں ایس سی ‘ایس ٹی‘ اوبی سی اور اقتصادی طورپر کمزور طبقات کو ریزرویشن دیا جاتا ہے۔اس کے تین سال کے بعد سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے اس قضیہ کو سات ججوں کی بنچ کو سونپنے کی سفارش کردی۔

(سابق) چیف جسٹس چندر چوڑنے اپنے دوسالہ دور میںچند متنازعہ فیصلے دے کر جو بدنامی کمائی تھی اور شعوری یا لاشعوری طورپرحکومت نوازی کا جو شہرہ حاصل کرلیا تھا وہ زیر بحث فیصلہ سے مدھم پڑگیا ہے۔ان کے اس فیصلہ کے بہت سے نکات پر عرصہ تک جائزے آتے رہیں گے لیکن اس امر کو ملک کے ہر طبقہ نے شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے کہ اپنے اس آخری فیصلہ سے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوںکے حوالہ سے شرپسندوں اورفرقہ پرستوںپر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ جس کے اثرات ایک طویل عرصہ تک محسوس کئے جائیں گے۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل  30کی جو انتہائی جامع ‘وسیع تر‘ناقابل تسخیراور مربوط تشریح کی ہے اس سے اس ملک کے مسلمانوں پر بند بہت سے نفع بخش دروازے کھل جائیں گے اور بہت سے تکلیف دہ سوراخ بند ہوجائیں گے۔ آئین کا آرٹیکل 30بنیادی ہے اور اس ملک کی تمام اقلیتی اکائیوں کو اپنی پسند کے تعلیمی اداروں کے قیام اور پھر ان کے انتظام کا مکمل حق دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس بنیادی حق کو نہ صرف مزید محفوظ اور مضبوط کردیا ہے بلکہ اپنے اس فیصلہ سے جارحیت پسندوںاورفرقہ پرستوں کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چھین کر ناکارہ بنادیا ہے جس سے وہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس ملک کی اقلیتوں اور خاص طورپر مسلمانوں کو مسلسل زخمی کرتے آرہے تھے۔ایک بات یونیورسٹی کے انتظام کاروں سے بھی کہنی ہے کہ آئین آپ کو اپنی مرضی سے انتظام چلانےکی چھوٹ دیتا ہے بدنظمی کی نہیں۔گوکہ یہ ایک مستقل موضوع ہے لیکن ہم آج اتناعرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اب انتظامیہ کو بھی خود احتسابی کرنی ہوگی۔

10 نومبر 2024 ، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

----------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/justice-chandrachud/d/133688

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..