ودود ساجد
20 اپریل 2025
ترمیمی قانون2025 کے خلاف سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ میںدو روزہ بحث کے بعد جو کچھ ہوافی الحال وہ بہت ہے اور غنیمت سے زیادہ ہے۔سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف16اپریل کی صبح 11بجے تک مجموعی طورپر73عرضیاں دائر ہوچکی تھیں۔ عرضی گزاروں میںملی تنظیموںکے علاوہ غیر مسلم افراداور سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔16اور 17اپریل کوابتدائی دس عرضیوںپر سماعت ہوئی تھی۔دو گھنٹے کی ابتدائی سماعت کے دوران یہ واضح ہوگیا تھا کہ چیف جسٹس کی قیادت والی سہ رکنی بنچ کیا چاہتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔ قانون میں ترمیم کرنا یا نیا قانون بناناپارلیمنٹ کا خصوصی اختیار ہے۔عدلیہ یہ تصور کرکے آگے بڑھتی ہے کہ پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے تو آئینی بنیادوں پر ہی بنایاہوگا۔لہذا وہ پہلی سماعت میں قانون پر کوئی اسٹے نہیں لگاتی بلکہ سرسری سماعت کے بعدمحض نوٹس جاری کرکےحکومت کو جواب دینے کا موقع دیتی ہے۔یہ ذمہ داری قانون کے خلاف عرضی دائر کرنے والوںکی ہوتی ہے کہ وہ ٹھوس دلائل اورپختہ شواہدسے ثابت کریں کہ یہ قانون غیر آئینی ہے۔اس عمل میں مہینوں اور کبھی کبھی تو برسوں لگ جاتے ہیں۔
16اپریل کی سماعت کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ وقف ترمیمی قانون کے تعلق سے سپریم کورٹ میں غیر معمولی واقعہ ظہورپزیر ہوا ہے۔جو ماہرین قانون ‘سماعت کی کارروائی کو دیکھ رہے تھے انہیں حیرت ہے کہ پہلی ہی سماعت میں بنچ نے حکومت پر سوالات کی بوچھار کرڈالی۔عام طورپر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بنچ کے تینوں جج مقدمہ سے متعلق دستاویزات اور وقف قانون کا مطالعہ کرکے آئے تھے۔دو گھنٹے کی سماعت اور سوال وجواب کے بعدبنچ نے اپنا ارادہ ظاہر کردیا اور کہا کہ ہم فوری طورپر کم سے کم قانون کےتین نکات کے تعلق سے عبوری حکم جاری کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے وقف بالاستعمال کو ختم کرنےاوروقف کونسل اور وقف بورڈوںمیں غیر مسلم ممبران کی شمولیت کے التزام وغیرہ پرمختلف طریقوں سے حکومت سے سوالات کئے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںمیں جوخدشات اور سوالات اپوزیشن کے ممبران نے 15-20 گھنٹوں کی بحث میںاٹھائے بعینہ وہی خدشات وسوالات بنچ نے اور خاص طورپر چیف جسٹس نے بھی اٹھائے۔چیف جسٹس سمیت دو ججوں نے حکومت کے وکیل اور سالیسٹر جنرل تشار مہتاسےسخت سوالات کئے اور کئی مواقع پر جسٹس سنجے کمارنے ناگواری بھی ظاہرکی۔لیکن تشار مہتا عدالت کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے پائے۔بورڈوںمیں غیر مسلم ممبران کو رکھنے کے سوال پر جب چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ہندو مندروں کے بورڈوں میں بھی مسلمانوں کو رکھا جائے گا تو حکومت کے وکیل نے اس کا براہ راست جواب نہ دے کریہ کہہ ڈالاکہ اس منطق کی رو سے تو موجودہ بنچ کو بھی یہ مقدمہ نہیں سننا چاہئے۔ یعنی مقدمہ مسلمانوں کے وقف کا ہےتو سماعت ہندو جج کیوں کررہے ہیں؟ چیف جسٹس نے حکومت کے وکیل کو اس پر سخت لعن طعن کیا۔انہوں نے کہا کہ جب ہم یہاں بیٹھتے ہیں تو ہم اپنی مذہبی شناخت کو الگ رکھ دیتے ہیں۔اس وقت ہم خالصتاً سیکولر ہوتے ہیں اور محض آئین کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب پارلیمنٹ میںبی جے پی کے لیڈر‘خاص طورپر وزیر برائے اقلیتی امور اور وزیر داخلہ بار بار جو ش میں آکراپوزیشن کے سوالات اور خدشات کا جواب دے رہے تھے تو ان کاایک قابل وکیل عدالت کے مختصرسوالوں کا جواب کیوں نہیں دے سکا؟۔جو بات وہ پارلیمنٹ میں کہہ رہے تھے اسی کو عدالت کے سامنے کہنے میں کیا تکلف تھا؟۔سچی بات یہ ہے کہ کوئی صحیح جواب ان کے پاس تھا ہی نہیں‘نہ پارلیمنٹ میں اور نہ عدالت میں۔وہ محض طاقت اور بد زبانی کے زور پراپوزیشن کو خاموش کرا رہے تھے۔آخر چیف جسٹس کے اس سوال کا کیا جواب ہوسکتا تھا کہ چودھویں‘ پندرہویں اور سولہویں صدی میں تعمیرمساجداور تاریخی عمارتوں کے کاغذات کہاں سے آئیں گے؟اور یہ کہ اگر وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں غیر مسلم ممبران ہوں گے تو کیا مندروں کے بورڈوں میں بھی مسلم ممبران کو رکھا جائے گا؟۔ پارلیمنٹ میں وزیربرائے اقلیتی امور کرن رجیجو ہتک آمیز انداز میں اپوزیشن کے ممبران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان کی سمجھ میں نہ آئے تو میرے پاس کیا علاج ہے۔ تو آخر یہی بات عدالت کے سوالوں کے جواب میںحکومت کیوں نہیں کہہ سکی؟۔عدالت نے حکومت کواگلے روز جواب کے ساتھ آنے کو کہالیکن اگلے روز بھی حکومت کے وکیل کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔حکومت کے مطالبہ پر تحریری جواب داخل کرنے کیلئے عدالت نے سات دن کا وقت ضرور دیا لیکن جو کام خود عدالت کرنا چاہتی تھی وہ اس نےحکومت سے ہی کرادیا۔
حکومت عدالت کےذلت آمیز اسٹے سے بچنا چاہتی تھی لیکن اسے خود مذکورہ غیر آئینی نکات پر عمل آوری کو روکنے کی یقین دہانی کرانی پڑی۔عملاً یہ بھی اسٹے ہی ہے۔کیونکہ عدالت نے حکومت کی اس یقین دہانی کو ریکارڈ پر لے لیا ہے۔مسلمانوں اور ان کی جماعتوں کو اس سلسلہ میں منفی تبصروں سے گریز کرنا چاہئے۔موجودہ چیف جسٹس کی مدت کار13مئی کو پوری ہورہی ہے۔اگلی سماعت پانچ مئی کو ہے۔عدالت نے واضح طورپر اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اگلی تاریخ پرحکومت کے جوابات پر ابتدائی بحث ہوگی اور عبوری حکم جاری کرنےپر غور کیا جائے گا۔لہذا اسٹے کا متبادل عدالت نے اب بھی بند نہیں کیا ہے۔کسی قانون پر پہلی ہی سماعت میں اتنی پابندی کی مثال مشکل سے ملے گی۔ تمام ماہرین قانون کہہ رہے تھے کہ اس مقدمہ کے نپٹارے میں پانچ چھ سال لگ جائیں گے لیکن چیف جسٹس نے واضح کردیا کہ اگلے پانچ چھ مہینے میں تصفیہ ہوسکتا ہے۔ ہاں اب محض پانچ اہم عرضیوں پر ہی سماعت ہوگی۔یہ بھی معاملہ کو جلد نپٹانے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کی للکار کے بعدلوک سبھامیں وقف قانون کے تعلق سے بحث کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ نے بیان دیا تھا کہ’ کوئی ریاست کیسےانکار کرسکتی ہے اورہر ایک کو یہ قانون ماننا پڑے گا‘۔لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ 17اپریل کو حکومت کے وکیل کو چیف جسٹس کے استفسار پر یقین دہانی کرانی پڑی کہ’ کوئی ریاست بھی اس قانون پراگلی سماعت تک عمل درآمد نہیں کرے گی اور اگر کسی نے کیا تو اسے کالعدم مانا جائے گا‘۔
حکومت دعوی کر رہی ہے کہ اسے ان لاکھوں مسلمانوں کے میل‘فون اور خطوط موصول ہوئے ہیں جو اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں۔یہ دعوی اس لایق بھی نہیں ہے کہ اس پر گفتگو کرکے وقت کو ضائع کیا جائے۔ اب معاملہ عدالت میں ہے جہاں محض آئین کی کسوٹی پر قانون کو پرکھا جائے گا۔لیکن پھر بھی اس پر تو گفتگو ہونی ہی چاہئے کہ وہ کون لوگ ہیں جو حکومت کے اس انتہائی غیر آئینی‘ نقصان دہ اور یکطرفہ اقدام کی حمایت کر رہے ہیں؟۔جو مسلمان بی جے پی میں ہیں‘اور جن کی تعداد آٹے میں نمک جتنی ہے‘وہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ان میں سے بیشتر کو اس قانون اور اس کی شرانگیزیوں کا علم تک نہیں ہے۔اور جن کو علم یا اندازہ ہے بھی وہ بھی وہ محض اپنے ذاتی اور انتہائی چھوٹے فائدے دیکھ رہےہیں۔ نہیں معلوم کہ انہیں اس خالص دینی مسئلہ کی شرعی حساسیت کا بھی علم ہے یا نہیں۔بل پر جب عوامی رائے لی جارہی تھی تو ایک دو لوگ کچھ بے خبر قسم کے ٹوپی والوں کو ساتھ لے جاکر حکومت اور اس کے ذمہ داروں سے مل کر اس بل کی حمایت کا اعلان کر رہے تھے۔حکومت انہیں تو بہت زیادہ اہمیت دے رہی ہے لیکن جن درجنوںملی تنظیموں‘لاکھوں سیکولر ہندئوں اور کروڑوں مسلمانوں نے ای میل بھیج کر اپنے اختلاف اور شدید اعتراض کا اظہار کیا ان کا کوئی ذکر نہیں۔یہاں تک کہ ایسے لوگوں کو بھی میٹنگوں میں بلایا گیا جو خود اوقاف پر قابض ہیں۔وشوہندوپریشداور بجرنگ دل تک کو بلایا گیا۔آخر وقف سے ان کا کیا لینا دینا؟قانون بن جانے کے بعد بی جے پی میں شامل ایک دو مسلمانوں کے ساتھ ’قادیانیوں‘ کا بھی ایک وفد وزیر اقلیتی امورسے ملا۔اسی طرح بوہرہ فرقہ کے ایک وفدنے بھی موجودہ سیدنا کی قیادت میں وزیر اعظم کے گھرجاکران کی ستائش کی اور اس قانون کی حمایت وتائید کی۔لیکن ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ سیدنا کے پیروکاروںنےاس قانون کی تو حمایت کی ہے لیکن ساتھ ہی بوہرہ فرقہ کو اس قانون کے دائرہ سے باہر رکھنے کی بھی درخواست کی ہے۔
17اپریل کو ‘جب حکومت سپریم کورٹ میں اس قانون کے تین انتہائی متنازعہ نکات پر عمل درآمد کو روک کر اپنی سبکی کراچکی تھی‘بوہرہ فرقہ کے موجودہ سیدنا کی قیادت میں ایک اچھا بڑا وفد وزیر اعظم کے گھرجاکر وقف قانون پر ان کی ستائش کر رہا تھا۔خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے اس ملاقات کو ’لائیو‘دکھایا تھا۔بعض واقعات کو تبصرہ کے بغیر ہی نقل کردینا اچھا ہوتا ہے۔ لہٰذا 17اپریل کوجو کچھ میں نے اے این آئی کے لائیو میں دیکھا اس میں یہ بھی تھا کہ سیدنا کے افتتاحی ستائشی کلمات کے بعد وفد میں شامل بوہرہ فرقہ کے ایک رکن نے کھڑے ہوکر وزیر اعظم کی ستائش کی اور انہیں بتایا کہ ’ہم نے(بوہرہ فرقہ نے)ممبئی میں فلاں جگہ ایک بڑے قطعہ زمین کا سودا کیا‘ہم نے یہ جگہ بڑی مشکل سے اور اچھی خاصی رقم دے کر حاصل کی تھی‘لیکن کچھ ہی دنوں بعد وقف بورڈ کا نوٹس ملا کہ یہ جگہ وقف کی ہے‘اسے خالی کیجئے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ قانون بنادیا۔‘ایک اور رکن نے مائک لے کر کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ وقف پر قانون بنادیالیکن ہماری ایک درخواست ہے کہ ہمیں(بوہرہ فرقہ کو) اس قانون کے دائرہ سے باہر رکھا جائے۔‘اس وفد میں بوہرہ فرقہ کی خواتین بھی تھیں۔وزیر اعظم کی ایک طرف سیدنابیٹھےتھے اوردوسری طرف وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو بیٹھے تھے۔
بوہرہ فرقہ کے وفد کے ساتھ وزیر اعظم کی ملاقات کا جو اہم ’حاصل‘ تھا وہ خود وزیر اعظم کا ایک اہم انکشاف تھا۔شاید اس وفد کی ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو پر اخبارات نے توجہ نہیں دی۔وزیر اعظم نے موجودہ سیدنا سے بھی اپنے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ بتایااس کا مفہوم یہ ہے کہ ’تین سال سے میں سیدنا کے رابطہ میں ہوں۔جب انہیں معلوم ہوا کہ میں وقف قانون پر کام کرنا چاہتا ہوں توانہوں نے خوشی ظاہرکی اوران تین برسوں میں سیدنا نے اس قانون کے تعلق سے ہمارا بہت تعاون کیا ہے۔ بہت سے نکات پر ہماری رہ نمائی کی ہے۔یہاں تک کہ کوما‘ ڈیش اور فل اسٹاپ تک لگانے میں ہماری مدد کی ہے۔‘‘واللہ اعلم بالصواب
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/judiciary-challenges-amended-waqf-law/d/135275
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism