New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:16 PM

Urdu Section ( 20 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Journalism in the Digital Age: Spectacle or Mirror of Reality? ڈیجیٹل دور میں صحافت: تماشہ یا حقیقت کا آئینہ؟

کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام

20 اکتوبر،2025

"وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں،  نہ میں لکھ سکا، نہ میں پڑھ سکا، کہ زباں ملی تو کٹی ہوئی،  کہ قلم ملا تو بکا ہوا" (اقبال اشعر)

انسان نے جب سے اپنی آواز بلند کرنا شروع کی، سچ کی تلاش اس کی فطرت بن گئی۔ یہی تلاش صحافت کی بنیاد بنی، جو محض خبر رسانی نہیں بلکہ سچائی، انصاف اور جمہوری اقدار کی محافظ ہے۔ آج جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دور میں، صحافت کی اصل روح زخمی اور اس کا علامتی  چہرہ بدل چکا ہے۔

سوشل میڈیا نے یقیناً اظہارِ رائے کو جمہوری بنیادوں پر وسعت دی ہے  لیکن سچ اور جھوٹ، تحقیق اور افواہ کے درمیان حد مٹ گئی ہے۔۔ اب ہر فرد کے پاس آواز ہے،  اپنے آپ میں وہ ایک رپورٹر بن چکا ہے ، ہر موبائل ایک کیمرہ ہے، اور ہر اسمارٹ فون ایک ممکنہ "نیوز روم"۔ فیس بک، یوٹیوب، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز نے عوامی رابطے کو ایک نئی شکل دی ہے، مگر اس آزادی کا ایک تاریک پہلو بھی ہے ،  وہ ہے بے لگام، غیر مصدقہ اور سنسنی خیز "شور"، جہاں خبریں صرف شہرت یا توجہ حاصل کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ جو صحافت کبھی کمزوروں کی آواز تھی، آج کارپوریٹ مفادات کی بندگی کر رہی ہے، جہاں سچ بولنے کا حوصلہ دبا دیا گیا ہے۔ خبریں اب سوچ و سمجھ کی دعوت دینے کی بجائے صرف تماشہ بن چکی ہیں۔ یہ مسئلہ محض تکنیکی نہیں بلکہ اخلاقی اور ذہنی انحطاط کی علامت ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ  ایک دور تھا جب خبریں باریک بینی، ایڈیٹرز کی جانچ اور اخلاقی معیار کے تحت نشر ہوتیں، لیکن آج "بریکنگ نیوز" کی دوڑ میں صداقت، سنجیدگی اور سچائی دم توڑ رہی ہے۔ یہ المیہ صرف ایک ملک یا خطے کا نہیں، بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے جہاں سوشل میڈیا پر تیز رفتاری نے تحقیق کو نگل لیا اور سنسنی نے حقیقت کو دھندلا دیا ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2024 میں دنیا بھر میں 54 صحافی اپنے کام یا پیشے کی وجہ سے قتل ہوئے، جن میں سے ایک تہائی ہلاکتیں اسرائیلی فوج کے ہاتھ ہوئیں۔ اس کے علاوہ، تقریباً 550 صحافی قید میں ہیں جن کی واحد "خطا" یہ تھی کہ انہوں نے سچ کو طاقت کے آگے جھکنے نہیں دیا۔

ماریا ریسا، نوبل انعام یافتہ صحافی کہتی ہیں:

Without facts, you can't have truth. Without truth, you can't have trust. Without trust, we have no shared reality.”

(حقائق کے بغیر سچ نہیں، سچ کے بغیر اعتماد نہیں، اور اعتماد کے بغیر ہم ایک سماج نہیں رہتے۔)

آج کی دنیا میں صحافت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اکثر اس کے جوہر کے خلاف ہے۔ بہت سے لوگ بغیر کسی تربیت، تحقیق یا ضابطے کے خود کو "جرنلسٹ" کہلاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی خبروں کی بھرمار ہے جو نہ صرف جھوٹی ہیں، بلکہ معاشرے میں نفرت، خوف اور تقسیم کو ہوا دیتی ہیں۔

کسی ناقد نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ جب صحافت بے لگام کاروبار بن جائے، تو وہ اپنا ضمیر کھو بیٹھتی ہے۔

نوجوان نسل میں اب بھی ایسے طلبہ موجود ہیں جو صحافت کو ایک مقصد سمجھ کر اپناتے ہیں۔ وہ سچائی، تحقیق، اور انسانی فلاح کو اپنا ہدف بناتے ہیں۔ لیکن جب وہ میدان میں اترتے ہیں تو انہیں اقتصادی عدم تحفظ، اخلاقی دباؤ، اور سچ کے عوض جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

صحافت کی اصل قوت اس کی غیر جانبداری، حق گوئی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ دنیا کے ہر مذہب، تہذیب اور معاشرے نے سچ بولنے کو ایک اخلاقی عمل قرار دیا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا" (سورۃ الانعام: 152)

یعنی جب بھی بات کی جائے تو انصاف کے ساتھ کی جائے۔ اسلام میں عدل اور انصاف کو بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔ بات چیت میں صداقت اور حق پسندی کا تقاضا کیا جاتا ہے، چاہے حالات کس قدر بھی مشکل ہوں۔ قرآن کی یہ تعلیم انسان کو نہ صرف سچ بولنے کی تلقین کرتی ہے بلکہ یہ بھی کہ گفتگو میں مبالغہ آرائی، جھوٹ، فریب اور ظلم سے بچنا ضروری ہے تاکہ سماجی انصاف قائم رہے۔ اسلامی اخلاقیات میں زبان کو ایک طاقتور ہتھیار سمجھا جاتا ہے، جسے درست اور مہذب استعمال کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔

بائبل میں ہے:

You will know the truth, and the truth will set you free.” (John 8:32)

اس آیت میں سچائی کو ایک ایسی روشنی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بندشوں کو ختم کرتی ہے اور روح کو آزاد کرتی ہے۔ عیسائیت میں سچ بولنے اور سچائی پر عمل کرنے کو روحانی آزادی اور نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سچائی کو صرف ایک علمی حقیقت نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ بائبل میں جھوٹ سے سخت منع کیا گیا ہے اور ہر مؤمن کو سچائی کی راہ پر چلنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ وہ خدا کی مرضی کو پورا کر سکے۔

بدھ مت کی تعلیمات میں "Right Speech" یا صحیح گفتار نوبل ایٹ فولڈ پاتھ کے آٹھ اصولوں میں سے ایک اہم ستون ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بولتے وقت ہمیں ہمیشہ سچ بولنا چاہیے، زبان کا استعمال دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے بجائے ہمدردی، نرمی اور سمجھداری کے ساتھ کرنا چاہیے۔ بدھ مت میں الفاظ کو طاقتور تصور کیا جاتا ہے کیونکہ وہ دل و دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ زبان سے ناپسندیدہ، جھوٹے یا نفرت انگیز کلمات بولنا روحانی ترقی کے خلاف ہے۔ اس لیے صحیح گفتار کا مقصد صرف سچ بولنا نہیں بلکہ بات چیت کو پرامن اور مفید بنانا بھی ہے۔

ہندو مذہب میں سچائی (ساتیا) کو سب سے اعلیٰ اخلاقی اصول سمجھا جاتا ہے، اور اسے "دھرم" یعنی دین کی بنیاد کہا گیا ہے۔ مہا بھارت جیسے عظیم ادب میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سچائی ہی زندگی کا راستہ ہے اور اس پر چلنے سے ہی انسان حقیقی خوشحالی حاصل کرتا ہے۔ ہندو فلسفے میں زبان اور بول چال کو پاکیزہ اور نرم بنانا ضروری سمجھا جاتا ہے، کیونکہ زبان سے نکلنے والے الفاظ کا اثر نہ صرف دوسروں بلکہ خود بولنے والے کی روح پر بھی پڑتا ہے۔ ہندو ازم میں جھوٹ، چالاکی اور فریب کو منفی اخلاقیات تصور کیا جاتا ہے اور انہیں برائی کے طور پر روکا جاتا ہے تاکہ معاشرتی ہم آہنگی قائم رہے۔

یہ چاروں مذہبی تعلیمات، باوجود مختلف ثقافتی اور فلسفی پس منظر کے، ایک گہرا مشترکہ پیغام دیتی ہیں: زبان اور گفتار میں سچائی، انصاف، نرمی اور ذمہ داری کا ہونا ضروری ہے۔ یہی اصول انسانی زندگی کو باوقار، معاشرت کو منظم، اور سماج کو پائیدار بناتے ہیں۔ ہر مذہب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ الفاظ نہ صرف بات چیت کے ذریعہ ہیں بلکہ انسانی کردار کی بھی عکاسی کرتے ہیں، اور یہی الفاظ ہمیں بہتر انسان بننے کی راہ دکھاتے ہیں۔

یہ ذمہ داری صرف صحافیوں تک محدود نہیں بلکہ ہر فرد، ہر ادارے اور ہر سماجی طبقات پر لازم ہے کہ وہ سچائی پر مبنی صحافت کا پورے جذبے اور اخلاص کے ساتھ ساتھ دے۔ صحافت کی بقا دراصل انسانی شعور، جمہوریت اور انصاف کی بقا سے جُڑی ہوئی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کو صرف کاغذی قانون تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عملی سطح پر بھی اس کا مؤثر نفاذ یقینی بنایا جائے۔ میڈیا اداروں کو اخلاقی تربیت دی جائے اور انہیں پیشہ ورانہ اصولوں کی پابندی پر سختی سے عمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جھوٹی اور گمراہ کن خبروں کے خلاف مؤثر قانونی و سائنسی اقدامات کیے جائیں، اور یہ عمل بلا تفریق مذہب و ملت ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ ،  عوام میں "میڈیا لٹریسی" یعنی خبروں کو سمجھنے، پرکھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جائے۔ اگرچہ آج صحافت بے شمار چیلنجز اور آزمائشوں کا سامنا کر رہی ہے، مگر سچ کی روشنی کبھی مدھم نہیں پڑتی۔ جب تک ایک بھی صحافی اپنے ضمیر کے ساتھ ایمان داری سے کھڑا ہے، جب تک ایک بھی قاری حقیقت کی قدر کرتا ہے، اور جب تک ایک بھی نوجوان صحافت کو اپنا مقدس فریضہ سمجھ کر آگے بڑھتا ہے، تب تک صحافت صرف زندہ نہیں رہے گی بلکہ انسانیت کی بصیرت اور آواز بھی بنی رہے گی۔

اگر قلم جھک جائے تو ضمیر کی بیداری ناگزیر ہے، اور اگر قلم بکے تو قاری کا اسے ٹھکرا دینا فرض ہے۔ کیونکہ جہاں سچ کی آواز کو دبایا جاتا ہے، وہاں ظلم کی گونج بلند ہوتی ہے، اور جہاں صحافت فروخت ہو جائے، وہاں سماج کے رشتے بکھر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت کی آزادی اور سالمیت نہ صرف ایک پیشہ ورانہ ضرورت ہے بلکہ انسانی وقار اور اجتماعی انصاف کی بنیاد بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کنیز فاطمہ عالمہ فاضلہ ، اسلامک اسکالر اور نیو ایج اسلام کی مستقل کالم نگار ہیں

----------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/journalism-digital-age-spectacle-reality/d/137320

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..