جوسیف سی وائی لیو
5مئی 2016
27 اپریل، 2016 کو انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریسی ذیلی کمیٹی میں، میں نے جنوبی مشرقی ایشیا میں اسلامی ریاست کے خطرےکا تخمینہ پیش کیا۔
میں نے اس کی شروعات اپنی اس دلیل سے کی کہ دہشت گردی خطے کے لئے کوئی نیا رجحان نہیں ہے، بلکہ اس کی ابتداءنوآبادیاتی مخالف جدوجہد کے دور میں ہی ہو چکی تھی۔اور اس کی رفتارالقاعدہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم جماعہ اسلامیہ کی جانب سے حملوں کے ایک سلسلہ کے ساتھ11/9 کے بعد تیز ہوئی۔
اس پس منظر میں، حال ہی میں جکارتہ اور جنوبی فلپائن پرداعش سے متاثرحملےان خطرات کی ایک بروقت یاد دہانی ہیں جو جنوبی مشرقی ایشیائی معاشروں کو دہشت گردی سے مسلسل لاحق ہو رہے ہیں۔
اسلامی ریاست کے سلسلےمیں یہ خطرہ تین شکلیں اختیار کر چکا ہے۔ سب سے پہلا، اسلامی ریاست سے متاثر مقامی گروہ یا مقامی افراد کے حملوں کا خطرہ۔ہو سکتا ہے کہ ان جماعتوں یا افراد کا براہ راست رابطہ اسلامی ریاست سے نہ ہو۔
بلکہ ان کے ساتھ مقامی رنجش ہوتی ہے جس کے لئے اسلامی ریاست کے ذریعہ فراہم کردہ علیحدگی پسندی رفتار پکڑتی ہے،اور عام طور پر انٹرنیٹ کے ذریعہ وہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ جکارتہ کا حادثہ اس کی ایک مثال تھی۔
دوم،شام اور عراق سے واپس لوٹنے والوں کی جانب سے درپیش خطرات۔ خاص طور پراس بات کے امکانات بھی ہیں کہ ایسے سخت دل عسکریت پسنداس خطے میں حملوں کی تیاری اور منصوبہ بندی کرنے کے لیے میدان جنگ کے تجربہ اور آپریشنل علم کے ساتھ واپس لوٹیں گے۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ اب تک جن واپس آنے والوں کوحراست میں لیا گیا ہے ان میں ایسے جلا وطن شامل ہیں جو شام اور عراق جانے کی اپنی کوشش میں ناکام رہے ہیں۔
تیسرا خطرہ جلد ہی جیل سے رہا کیے جانے والے عسکریت پسندوں کی جانب سے درپیش ہے۔اس لیے کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ انڈونیشیا میں جیل کاکمزور نظام اور جیلوں کے اندر بنیاد پرستی کی دی جانے والی تعلیمات ہے۔
تاہم، ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئےکہ جلد رہا کیے جانے تمام عسکریت پسند اسلامی ریاست کے حامی یا ہمدرد نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان میں ایک بڑی اکثریت ان عسکریت پسند جماعتوں کے اراکین کی ہے جو اسلامی ریاست کے خلاف ہیں۔
لہذا،سوال یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی جانب سےدرپیش خطرات کتنے سنگین ہیں؟ ان کے خطرات یقینی طور پر حقیقی ہیں اور وہ ان وجوہات کی بنا پر جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہماری توجہ کے طالب ہیں۔لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس بات کا بھی دھیان رکھنا ضروری ہے کہ اس سلسلے میں ہم سے کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو جائے۔میں اس ضمن میں تین نکات پیش کرتا ہوں۔
اول،جب ہم جنوبی مشرقی ایشیا میں اسلامی ریاست کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس وقت"جنوبی مشرقی ایشیائی اسلامی ریاست" جیسی کوئی چیزنہیں ہے۔ اور نہ ہی اسلامی ریاست -سینٹرل نے باضابطہ طور پر جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک میں اپنی دلچسپی اور اپنے کسی مفاد کااعلان کیاہے۔
اس خطے کے اکثر حصے جن میں ہمارا سابقہ انتہا پسند جماعتوں اور افراد سے ہے خود اپنی خواہش اور مرضی سے اسلامی ریاست کے ساتھ بیعت کا حلف اٹھا چکے ہیں۔مثال کے طور پر، ابو سیاف گروپ کو ہی دیکھ لیں جس کا اتحادپہلے القاعدہ کے ساتھ تھا لیکن دو سال پہلے اس نے اسلامی ریاست کے ساتھ اپنے اتحاد کا اعلان کر دیا ہے۔
9 اپریل کوابو سیاف نے بسیلن جزیرے پر ایک فلپائنی فوجییونٹ پر حملہ کیاجس میں 18 فوجی ہلاک ہوئے۔اسلامی ریاست-سینٹرلنے کہا کہ ان حملوں کو اس کے جنگجوؤں نے انجام دیا تھا۔
دوم، عراق اور شام میں لڑنے والے جنوبی مشرقی ایشیائی باشندوں کی تعداد نسبتا بہت کم ہے۔پورےانڈونیشیامیں ان کی تعداد تقریبازیادہ سے زیادہ 700 ہوگی۔اگر ان کا موازنہ کیا جائے تو ان میں ہزاروں جنگجوؤں کا تعلق یوروپ سے ہے۔
اس کے علاوہ ، وہاں 40 فیصدکے قریب جنوبی مشرقی ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی تعداد -جکارتہ کےانسٹیٹیوٹفار پالیسی انالسس آف کنفلکٹ [Institute for Policy Analysis of Conflict] کے ڈائریکٹرسڈنی جونز کے مطابق - عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔
سوم،اسلامی ریاست پر ہماری تشویش میں ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ہم جزئیات کے چکر میں اصل مسئلہ کو فراموش نہ کر دیں۔اس لیے کہ جنوبی مشرقی ایشیا میں سرگرم عمل متعدد عسکریت پسند گروپ موجود ہیں۔ کئی جماعتیں ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں؛ان خطوں میں سرگرم عمل تمام جماعتیں اسلامی ریاست کے ساتھ اتحاد نہیں چاہتی ہیں اور نہ ہی تمام جماعتیں اسلامی ریاست کی گرویدہ ہیں۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ زیادہ بڑا اور دیرپاء خطرہ در اصل الجماعہ اسلامیہ سے ہے جس کا نیٹ ورک اس خطے میں اسلامی ریاست کی حامی جماعتوں سے کہیں زیادہ وسیع اور مضبوط ہے۔
دہشت گردی کا مقابلہ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالعموم جنوبی مشرقی ایشیا میں دہشت گردی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
یہاں بھی یہ امر ضروری ہے کہ ہم چیزوں کو انہیں کے تناظر میں دیکھیں۔ جی ہاں، آج جنوب مشرقی ایشیا کے لیے دہشت گردانہ حملوں کا سوال بدقسمتی سے اب کوئی "اگر"، لیکن "کب" کا معاملہ نہیں رہا۔
اگر چہ اسلامی ریاست کا اثر و رسوخ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوگا، لیکن دہشت گردی خطے کی پہچان بن چکی ہے، اور کبھی بھی اسے فوراًختم نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن دہشت گردی کا ارتکاب خواہ الجماعہ اسلامیہ کرے خواہ اسلامی ریاست کرے، یہ اب جنوبی مشرقی ایشیائی معاشروں کے وجود کے لیےخطرہ نہیں ہے۔ایک آپریشنل نقطہ نظر سے تمام اشارے اس امر کی طرف غماز ہیں کہ خطرے کی سطح کم ہی رہے گی۔یقیناً دہشت گردی کی لچکدار اور ارتقائی نوعیت کے پیش نظر اس کی صورت حال میں تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا،ایک ممکنہ عنصر جو کسی تبدیلی کی وجہ بن سکتا وہ اسلامی ریاست-سینٹرل کا دیدہ و دانستہ جنوبی مشرقی ایشیاکی طرف متوجہ ہونا ہے۔ تاہم، ابھی اس کا امکان نہیں، اس لیے کہ ابھی یہ گروپ عراق اور شام میں اپنی بنیاد مضبوط بنانےاور لیبیا اور یورپ تک اپنی جنگ کو وسعت دینےکی اپنی فوری ترجیح پر عمل پیرا ہے۔
ایک آخری فیصلہ
مطمئن ہوئے بغیر ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ علاقائی حکومتیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیےآج سے تقریباً دیڑھ دہائی قبل کے مقابلے میں آج زیادہ بہتر طریقے سے ساز و سامان سے لیس اور تیار ہیں، اگرچہ مزید آپس میں تعاون اور امریکہ کی کچھ مدد کے ساتھ ان کی صلاحیت میں بھی بہتری آئی ہوگی۔
ماخذ:
themalaymailonline.com/what-you-think/article/how-serious-is-the-threat-of-islamic-state-to-southeast-asia-joseph-c.y.-li
URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/how-serious-threat-islamic-state/d/107228
URL for this article: