پرویز حفیظ
25ستمبر،2024
بنگلہ دیش میں حال میں ایک انہونی ہوگئی۔ ۱۱؍ ستمبر کے دن راجدھانی ڈھاکہ کے نیشنل پریس کلب میں محمد علی جناح کی ۷۶؍ ویں برسی منائی گئی۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی باربانی پاکستان کو نہ صرف خراج عقیدت پیش کیا گیا بلکہ کئی مقرروں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جناح کو صرف پاکستان کا ہی نہیں بنگلہ دیش کا بھی بابائے قوم تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر پاکستان نہ بنتا تو بنگلہ دیش کا قیام بھی ممکن نہ ہوتا۔ پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کامران دنگل اس تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ بنگلہ دیش میں جناح کی برسی کا انعقادکرانے والی تنظیم کا نام نواب سلیم اللہ اکادمی ہے۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ نواب خواجہ سلیم اللہ ڈھاکہ کے مشہور نواب تھے جنہوں نے ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی۔جناح سات سال بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈھاکہ میں ۱۱؍ستمبر کو ہوئے اس پروگرام میں اردو میں تقریریں بھی کی گئیں اور شاعری بھی سنائی گئی۔ ۵؍اگست کو شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد سے مختلف یونیورسٹیوں میں اردو قوالیوں کے پروگرام بھی منعقد کئے جارہے ہیں ۔ پچاس برسوں کے بعد بنگلہ دیش میں جناح اور اردو زبان کے چرچے ہورہے ہیں ۔ حوادث زمانہ اور کیاکیا رنگ دکھائے گا؟بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہمسایہ ملک میں جناح ایک ناپسندیدہ شخص اور اردو ایک ناپسندیدہ زبان بن گئی تھی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بے شمار اسباب میں ایک اہم سبب اردو کو مشرقی پاکستان پر مسلط کرنے کاجناح کا فیصلہ بھی تھا۔ بنگلہ دیش آزاد تو ۱۹۷۱ء میں ہوا لیکن علاحدگی کے بیج ۱۹۵۲ء میں ہی بودیئے گئے تھے جب مشرقی پاکستان کے عوام بھاشا آندولن کے لئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اس عوامی تحریک کی بنیاد اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ( ۲۴؍مارچ ۱۹۴۸ء) جناح نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کیمپس میں یہ اعلان کیا کہ پورے پاکستان کی واحد ریاستی زبان اردو ہوگی۔ حیرت اس بات پرہے کہ جناح جیسا قابل اور منجھا ہوا سیاستداں یہ کیسے بھول گیا کہ پاکستان کی کل آبادی میں بنگلہ بولنے والے باشندوں کا تناسب ۵۶؍ فیصد تھا جبکہ اردو ۱۰؍ فیصد سے بھی کم پاکستانیوں کی مادری زبان تھی۔ زبان کے ایشو پر ہوئے پرتشدد احتجاج کے بعد چند برسوں کے اندر پاکستانی حکومت نے بنگلہ زبان کو بھی اردو کے ساتھ سرکاری زبان کا درجہ دے دیا لیکن مشرقی پاکستان کے شہریوں کے دلوں میں جو لسانی منافرت اور نسلی بدگمانی پیدا ہوگئی تھی وہ ختم نہ ہوسکی۔ہندوستان اور بنگلہ دیش کے قوم پرست لیڈران کی نظروں میں جناح ویلن بنے رہے۔ ہندو قوم پرست جناح کو ہندوستان کے بٹوارہ اور پاکستان کے قیام کے لئے تنہا ذمہ دار ٹھہراتے رہے جبکہ بنگلہ دیش میں مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے لیڈران بنگلہ زبان کی حق تلفی کرکے اردو ان پر مسلط کرنے کی وجہ سے جناح سے شدید بدگمان رہے۔ اسی لئے پچھلے دنوں جناح کے قصیدے پڑھے جانے لگے تو دنیا کا حیرت زدہ ہونا فطری تھا۔
شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کے خاتمہ کے بعد بنگلہ دیش میں بھاری سیاسی اور نظریاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں ۔ بنگہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن کے صرف مجسمے ہی نہیں گرائے گئے بلکہ ان کے خلاف عوام کا برین واش بھی کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب جناح کی شخصیت اور خدمات کا ازسر نو اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناح کی قدر و قیمت اور ہندوستان کی تقسیم میں ان کے رول کا معروضی جائزہ لینے کی کوششیں بھارت میں بھی ہوئی ہیں ۔ جناح کی شخصیت میں کوئی ایسی بات یقینی تھی جو ان کے مخالفین کو بھی ان کا گرویدہ بنادیتی ہے۔ ایل کے اڈوانی کا شمار بھارتیہ جنتا پارٹی کے چوٹی کے لیڈروں میں ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بی جے پی کو حاشئے سے اقتدار کے گلیاروں تک پہنچانے میں اڈوانی کی کامیاب قیادت کا بہت بڑا کردار رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔بی جے پی اور پورے سنگھ پریوار کا پاکستان اور جناح کے متعلق کیا نظریہ ہے، یہ قارئین کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اڈوانی جن کا تعلق کراچی سے ہے، ۲۰۰۵ء میں جب پاکستان کے دورے پر گئے تو ان کے سر بدل گئے۔ انہوں نے نہ صرف جناح کے مزار پر حاضری دی بلکہ قائد اعظم کے متعلق تحسین آمیزخیالات کا اظہار بھی کیا۔ اڈوانی نے لکھا کہ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جوتاریخ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑجاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو خود تاریخ بناتے ہیں ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اڈوانی امریکی مورخ اور جناح کے سوانح نگار Stanley Walport کے خیالات سے کافی متاثر تھے۔ والپورٹ نے اپنی تصنیف Jinnah of Pakistanکے پیش لفظ میں لکھا ہے: ’’بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص تاریخ کے دھارے کو موڑ دے؛ایسے لوگ اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیں اور ایسا شخص تو تقریباً نایاب ہے جسے ایک قومی ریاست کی تشکیل کا اعزاز حاصل ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے سر انجام دیئے۔‘‘
اڈوانی نے سروجنی نائیڈو کے پرانے قول کو یاد کرتے ہوئے جناح کو ’’ ہندو مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ بھی کہا۔ اڈوانی نے اس جناح کو جسے بی جے پی ہمیشہ ہندو مخالف سمجھتی رہی ہے’’ سیکولر‘‘ قرار دے کر سنگھ پریوار کی نیند حرام کردی۔ ان کے ہندوستان لوٹنے سے قبل آر ایس ایس نے ان کے خلاف مورچہ کھول دیا۔ اڈوانی پر اپنا بیان واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے پارٹی کی صدارت سے ہی استعفیٰ دے دیا۔ اس واقعے کے بعد اڈوانی سخت گیر ہندوتوا خیمے کی نظروں سےگر گئے۔ جناح کے متعلق اپنے خیالات کے بیباکانہ اظہار کی اڈوانی کو بھاری قیمت چکانا پڑی، انہیں وزیر اعظم یا صدر جمہوریہ بننے نہیں دیا گیا۔بی جے پی کے ایک اور اہم لیڈر جسونت سنگھ (جو وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ رہ چکے تھے)تو اڈوانی سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ Jinnah: India, Partition, Independence نام کی ان کی کتاب جب شائع ہوئی تو گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔ جسونت سنگھ نے یہ ثابت کردیا کہ تقسیم ہند کیلئے جناح نہیں بلکہ نہرو ذمہ دار تھے۔ جسونت سنگھ کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔
محمد علی جناح کو گزرے ایک زمانہ گزر گیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے فخر سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ’’محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ہمیشہ کے لئے ڈبودیا ہے۔‘‘ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا ملک پچیس برسوں کے اندر دو لخت ہوگیا اس لئے اندرا گاندھی کا یہ دعویٰ کوئی ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ کسے معلوم تھا کہ ۵۳؍ برسوں کے بعد اسی بنگلہ دیش میں جناح کی نہ صرف برسی منائی جائے گی بلکہ ان کے دو قومی نظریے کو جائز بھی ٹھہرایا جائے گا؟
25ستمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، ممبئی
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/jinnah-death-anniversary-bangladesh-history/d/133283
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism