New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 12:38 PM

Urdu Section ( 11 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Issue of Jihad: Causes Of Misunderstanding–Concluding Part - 3 مسئلۂ جہاد-غلط فہمی کے اسباب

ذیشان احمد مصباحی، نیو ایج اسلام

11 ستمبر،2023

مسئلۂ جہادکو ان اسلامی مسائل میں سرفہرست رکھا جاسکتا ہے،جن کی تفہیم وتعبیر میں ابہامات ہی نہیں غلط فہمیاں بھی روا رکھی گئی ہیں۔بدقسمتی سے موجودہ عہد میں جہاد ، فساد کے معنی میں بدنام ومتعارف ہوگیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال باربار دہرایا جاتا ہے کہ آیا اسلام کا فلسفۂ جنگ امن کا سفیر ہے یا دہشت کا داعی؟ یہ سوال اور بھی اہم ہوجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم (۱۹۳۹ء- ۱۹۴۵ء)کے بعد جنگ کا رخ بطور خاص یورپ سے مڑ کر عالم اسلام کی طرف ہوگیا، تب سے اب تک عالم اسلام مسلسل جنگوں کی زد پر ہے۔ اب ایک عام آدمی تو گہرائی سے ان جنگوں کے اسباب وعوامل اور اثرات پر غور نہیں کرتا، ایسے میں اسلام دشمن عناصر کا فریبی ذہن بہ آسانی عوام کو اپنا شکار بنالیتاہے اوروہ اس طلسم میں جینے لگتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ان آتش فشانیوں کا سرا اسلامی فلسفۂ جنگ سے مربوط ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ جہاد کی تفہیم وتعبیر میں جو غلطیاں کی گئی ہیں، یا در آئی ہیں، ان کا ذمہ دار کون ہے؟اس میں شک نہیں کہ اس کے ذمہ دار مستشرقین،سنگھی مفکرین اور دیگر متعصبین کے ساتھ خودمسلمان بھی ہیں، بلکہ بطور مسلمان ہمارے سر اس کی ذمہ داری زیادہ آتی ہے، کیوں کہ اس کی درست تفہیم صرف علمی واخلاقی ہی نہیں، بلکہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ اس سیاق میں دوسرے لوگ تو صرف علمی واخلاقی سطح پر مجرم ہیں، ہمارا دینی جرم ان پر مستزاد ہے۔

یہاں ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ تفہیم جہاد میں غلط فہمیوں کے اسباب کیا ہیں؟ اس سلسلے میں چند اہم اسباب درج کیے جاتے ہیں:

۱-دین کے خلاف ایک لادینی مزاج- سیکولرازم اور الحاد کے بڑھتےرجحانات کے تناظر میں جو دانش وری (intellectualism)ظہور پذیر ہوئی ہے، مذہبی تعلیمات اور اخلاقیات میں جراثیم تلاش کرنا اس کا ایک مسلسل ومحبوب مشغلہ بلکہ فریضہ ہے۔اس قسم کے دانش ور مذہب سے ڈرتے رہتے ہیں، یا دوسروں کو ہر وقت ڈراتے رہتے ہیں اور اپنی اخلاق سوز، لامحدود اور بے اصول حریت پسندی کو جواز فراہم کرنے کے لیے مذہبی اور اخلاقی اصولوں کا مذاق اڑاتے رہنا ضروری سمجھتے ہیں۔جہاد بھی ان کے تمسخر کا نشانہ بنتا رہا ہے۔

۲-اسلام کے خلاف تعصبات- استشراق کا وہ گروہ جو علمی لبادے میں مشرقی تہذیبوں خصوصاًاسلام پر تسلط کے لیے کھڑا ہوا،اس نے اپنے الطاف وعنایات سے جہاد کو بھی محروم نہیں رکھا۔ اس کے پیچھے یہ نفسیات بھی کہیں نہ کہیں کار فرما رہی کہ صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد انہیں جنگ کا دوسرا نقشہ مرتب کرنا تھا۔ یہ کام انہوں نے لوح وقلم کے ذریعے علم وتحقیق کے نام پر کیا۔ اس کے لیے سب سے آسان راستہ یہ تھا کہ اسلام کو ایک جنگ جو اور خونخوار مذہب بناکرپیش کردیاجائے۔ برصغیر کی اسلام دشمن تنظیموں اور متعصب مفکرین کو بھی اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔

۳-آیات جہاد کی خلافِ سیاق تفہیم-اس قسم کے متعصبین کے استدلال کا جو سب سے بڑا سقم ہے، وہ آیات جہاد کو ان کے سیاق سے ہٹاکر دیکھنا ہے۔ فہم نص کے حوالے سے یہ ایک عام اصول ہے کہ اگر آپ کسی بھی نص(text) کو اس کے سیاق(context) سے ہٹا کر دیکھیں گے تو اس کا مفہوم گڈمڈ ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے اس جرم کا ارتکاب متعصب گروہوں نے بہت ہی چابک دستی سے کیا ہے۔ اس لیے آیات جہاد کی خلاف سیاق تفہیم کو بھی اس حوالے سے پیدا غلط فہمیوں کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

آیات قرآن کو ان کےسیاق میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان آیات کے نزول کے عہد اور ان کے پس منظر کو سمجھا جائے، مختلف آیات قرآنیہ کو ایک دوسرے سے مربوط کیا جائے، سیرت رسول اکرم ﷺسے ان کی عملی تطبیق کو سامنے رکھا جائے،نیزعربی زبان اورقواعد پر نظر رکھی جائے، اس کے بعد ہی آیات جہاد یادیگر آیات قرآنیہ کی درست تفہیم ممکن ہوسکے گی۔

۴-عالم اسلام کا میدان جنگ بن جانا-گذشتہ پوری صدی کا مطالعہ کیجیے توعالم اسلام جنگ کے شعلوں میں جلتا ہوانظر آئے گا۔اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کی وجہ سے بھی اس فکر کو ہوا ملی کہ اسلام کا جہادی نظام جنگ جویانہ نظام ہے۔ یہاں تک کہ کوئی دوسرا نہ ملے تومسلمان خود آپس میں بھی لڑتے رہتے ہیں۔حالاں کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ عالم اسلام کا شعلوں میں جلنا، کسی ایک سبب سے نہیں ہے، بلکہ اس کے متعدد اسباب ہیں۔ مثلاً:

الف-اٹھارہویں اور انیسویں صدی استعمارکی صدی تھی۔ اس نے پوری دنیا کو غلام بنا رکھا تھا۔ مسلمانوں کے ادارۂ خلافت کے سقوط میں بھی اس کا بڑا دخل تھا۔ انیسویں صدی میں پوری دنیا میں ان غاصبین کے خلاف تحریک آزادی شروع ہوئی،جس سے ہندوستان بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ عالم اسلام نے بھی اس کے لیے طویل جنگیں لڑیں۔

ب-جس طرح استعمارنے اپنے تسلط کے لیے divide and rule(تقسیم کرو اور حکومت کرو)کو ہتھیار بنایا، اسی طرح اپنی بساط سمیٹنے کے بعد بھی اہل وطن کو اس مکر کے ذریعے مختلف قسم کی جنگوں میں ڈال دیا۔کشمیر اور فلسطین کی مثالیں سرفہرست ہیں۔ لیکن دوسری مثالیں بھی ان سے کم اہم نہیں ہیں۔ خصوصاً عالم عرب کی ٹکڑیوں میں تقسیم اور ان کے بیچ سیاسی رقابتیں پیدا کرکے انہیں مستقل باہم دست وگریبان رکھنا اور اس طرح سے غلامی کے بعد بھی انہیںغلام بنائے رکھنے کی پالیسی ، ایک مستقل بیرونی سیاسی سازش ہے، اس کا تعلق اہل عرب کے مذہب یافلسفۂ جہاد سے نہیں ہے۔

ج-مشرق وسطیٰ جہاں گذشتہ صدی پیٹرول کی بازیافت ہوئی اور جو مغربی مصنوعات کی کھپت کے لیے ایک اچھا بازار تھا، اس کے مختلف ملکوں کو کسی بھی طرح سے الجھا کے رکھنا بیرونی طاقتوں کے لیے ضروری تھا، تاکہ وہاں بیرونی طاقتیں قیام عدل وانصاف کے نام پر بندر بانٹ کا کھیل جاری رکھ سکیں۔ الغرض عالم اسلام کا معاشی استحصال بھی وہاں برپا جنگوں کے لیے ایک بڑا محرک رہا ہے۔

د-دوسری طرف عالم اسلام میں استعماری مکر اوراقتصادی فریب کے خلاف شدید نفرت پیدا ہونے لگی۔ اس بڑھتی ہوئی نفرت نےاپنے اظہار کے لیے ادارۂ خلافت کی بازیابی اور الجہاد کا نعرہ بلند کیا۔ ان مغلوب الغضب قوتوں نے اسلامی جہاد کی وہ تفسیر کی جو خوارج کی تفسیر سے قریب تر ہے۔ ان ہیجانی عناصر کے مغلوب الغضب فکروکردار نے اب تک نہ تو ادارۂ خلافت کا احیا کیا اور نہ ہی عالم اسلام کو مغربی یلغار اور اقتصادی استحصال سے آزادی دلائی،البتہ فلسفۂ جہاد کی بدنامی اور مسلمانوں کے بیچ تکفیریت کے فروغ اور کشت وخون کے شرم ناک مناظر ضرور پیش کیے۔یہ مسئلہ ہنوز مسئلہ ہی ہے!

۵-بعض علماے اسلام کی تعبیرات جہاد-اس سلسلے میں بعض علماے اسلام کی تعریفات جہاد نے بھی کم کردار ادا نہیں کیا۔ مثال کے طور پر معروف حنفی فقیہ علامہ علاء الدین حصکفی(۱۰۸۸ھ) لکھتے ہیں:

الدُّعَاءُ إلَى الدِّينِ الْحَقِّ وَقِتَالُ مَنْ لَمْ يَقْبَلْهُ.( الدر المختار، کتاب الجہاد)

 دین حق کی دعوت دینے اور جو اسے قبول نہ کرے اس سے لڑنے کا نام جہادہے۔

بعض علماے اسلام کی طرف سے کی جانے والی جہاد کی اس قسم کی روایتی تعبیرات ہی ایسی ہیں، جن سے اسلام کی ایک خونخوار شبیہ سامنے آتی ہے۔ ان کے بجائے ایک دوسرے حنفی فقیہ جو انہی کے ہم نام ، مگر ان سے پانچ سو سال پہلےکے ہیں، علامہ علاء الدین کاسانی حنفی(۵۸۷ھ)لکھتے ہیں:

 بَذْلُ الْوُسْعِ وَالطَّاقَةِ بِالْقِتَالِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - بِالنَّفْسِ وَالْمَالِ وَاللِّسَانِ، أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ.( بدائع الصنائع، کتاب السیر)

اللہ کی راہ میں جانی، مالی، لسانی اور دیگر طریقے سے جنگ کرتے ہوئے اپنی پوری طاقت صرف کردینا۔

عام علماے اسلام نے جہاد کی تعریف کے لیے اسی طرح سے ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ کی مختصر مگر جامع تعبیر استعمال کی ہے، جس کی طرف کہیں نہ کہیں کتاب وسنت میں اشارات موجود ہیں۔ اس کے برخلاف اول الذکر تعبیر مخصوص سیاسی ومعاشرتی عہد کے مخصوص ذہن کی پیداوار ہے۔ راست طور پر کتاب وسنت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔افسوس اس کا ہے کہ اس بدلے ہوئےعہد میں جب ممالک دار الحرب اور دار الاسلام کی متعینہ تحدید سے نکل چکے ہیں(1)، اب بھی بعض حضرات آنکھ بند کرکے اسی قسم کی تعریفات اپنی کتابوں میں لکھتے چلے جاتے ہیں۔یہ حضرات کہیں نہ کہیں مقاصد شرع اور احوال زمانہ سے چشم پوشی کے مرتکب ہیں۔ مثال کے طور پرمولاناجمیل احمد سکروڈوی (۱۹۴۶-۲۰۱۹ء) سابق استاذ دار العلوم دیوبند کی یہ تعریف دیکھیےجو انہوں نے اشرف الہدایہ شرح ہدایہ میں لکھی ہے:

’’شریعت میں جہاد دین حق کی طرف بلانے اور جو اسے قبول نہ کرے اس سے قتال کرنے کو کہتے ہیں۔اور ظاہریہ ہے کہ عرب کے سوا جو شخص مطیع ہونے اور جزیہ دینے پر بھی راضی نہ ہو، اس سے بھی قتال کرنا۔‘‘(اشرف الہدایہ، جلد :۷، صفحہ اول)

اس کے برعکس علامہ کاسانی حنفی کی تعریف-جو اوپر مذکور ہوئی اور بالعموم متقدمین نے بھی اسی انداز میں جہاد کی تعریف کی ہے- بہت حد تک جامع ہے۔ اس کے اجمال میں جہاد کے وہ تمام شرائط وآداب شامل ہیں، جن کو فقہاے اسلام نے تفصیل سے لکھا ہے۔ اس میں یہ نہیں ہے کہ جو اسلام قبول نہ کرے اس سے جنگ کرناجہاد ہے، بلکہ اس میں اللہ کی راہ میں جنگ کرنےکو جہاد کہا گیا ہے، خواہ وہ اپنے وجود کے ذریعے ہو، زبان کے ذریعے ہو یا کسی اور ذریعے سے ہو۔ ظاہر ہے کہ زبان سے کسی کی گردن نہیں کاٹی جاتی، بلکہ کسی کے شبہات کا علمی جواب دیا جاتا ہے، لہٰذا اس تعریف سے معلوم ہوا کہ علمی استدلال بھی جہاد کے خانے میں شامل ہے۔

 اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جنگ نہیں ہے، بلکہ اظہار حق وانصاف اور دفاع ظلم وجور کے لیے جو قدم بھی اٹھایا جائے، وہ فی سبیل اللہ کا حصہ ہے۔مزید وضاحت ’’مفہوم جہاد‘‘ اور ’’اقسام جہاد‘‘ کے ذیل میں گزر چکی۔

آیات جہاد کی ان تفاسیر کو بھی اسی ذیل میں رکھا جائے گا جن کے اندر بہت سے مفسرین نے آیات قتال اور آیات سلام میں تطبیق کے بجائے ، آیات سلام کی تنسیخ فرمادی ہے۔

المختصر! فلسفۂ جہاد کے گرد شکوک وشبہات پیدا کرنے والے یہ چند اہم اسباب ہیں۔

 (۱)یہ ایک تفصیل طلب بحث ہے۔ مختصریہ کہ دارالحرب اور دار الاسلام کے علاوہ ایک تیسری صورت بھی ہے۔ ماضی میں اس کی مثال دار المعاہدہ کی تھی، گو کہ اس کی مثالیں کم تھیں، اب اس کی مثال میں دار الجمہوریہ کابہ کثرت وجود ہے۔

۔۔۔۔۔

نوٹ: تین قسطوں پر مشتمل یہ مضمون جہاد کے موضوع پر مولانا ذیشان مصباحی کی جلد ہی زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے والی کتاب سے ماخوذ ہے ۔

Part: 1 – The literal and conventional Meaning of Jihad - Part 1 جہاد کا لفظی اور عرفی مفہوم

Part: 2- Types of Jihad: A Critical Look - Part 2 اقسام جہاد - ایک تنقیدی نظر

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/jihad-causes-misunderstanding-concluding-part-3/d/130645

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..