New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 12:50 AM

Urdu Section ( 19 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

And Jehlum Continued To Flow: ور جہلم بہتا رہا: جب کشمیر نے ہنگامہ آرائی، فتنہ و فساد اور سانحات کا مشاہدہ کیا

 

مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

15 مئی 2023

 اور جہلم بہتا رہا

 مصنف: خالق پرویز

 ناشر: القلم پبلی کیشنز، بارہمولہ، کشمیر، انڈیا

 سال اشاعت: 2021

 صفحات: 192 قیمت: 200 روپے

 آئی ایس بی این: 9788195276707

------

 

 

 وادی کشمیر نے بڑے ہنگاموں، فتنوں اور سانحات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایک طرف اس کی بلا کی خوبصورتی، سرسبز و شاداب میدان اور برف سے ڈھکے پہاڑ ہر آنے والے سیاح کو مسحور کردیتے ہیں۔ تاہم، دوسری طرف، تشدد، بھیانک اموات اور سیاسی بدعنوانی نے اس کے باشندوں کو ناامیدی اور مایوسی کے ایک خوفناک ماحول میں ڈھکیل دیا ہے۔ بیرونی لوگوں کو یہ وادی دلکش نظر آتی ہے، لیکن یہ وادی ان باشندوں کے لیئے ایک قبر سے کم نہیں جو اس دلدل سے نبرد آزما ہیں۔

 زیر نظر کتاب مسئلہ کشمیر اور اس کے ساتھ کیا غلط ہوا اس کا کوئی اکیڈمک مطالعہ تو نہیں بلکہ کشمیر کے سانحات اور وہاں کی سیاست کے شکار لوگوں کی ایک روداد ضرور ہے۔ خالق پرویز ایک ادیب، شاعر، صحافی اور سیاسی کارکن ہیں، جنہیں اپنی سیاسی سرگرمی اور بعد میں اپنی تحریروں کی بھی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس سے قبل بھی ان کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب بعنوان جلائے وطن کو قارئین کی طرف سے کافی پذیرائی ملی تھی۔ مجھے دونوں جلدوں کا تجزیہ کرنے کا شرف حاصل ہوا، اور اب اس کتاب میں خالق پرویز نے اپنے منفرد انداز تحریر میں 1980 کی دہائی سے آگے جا کر کشمیر میں 1990 کی دہائی میں شروع ہونے والی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے دستاویزات پیش کی ہیں۔ وہ مسلح ٹکراؤ، ہنگامہ خیزی، ریاستی جبرو تشدد اور اس کی پاداش میں پورا معاشرہ کیسے بدلا؛ ان تمام باتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔

 یہ کتاب سماجی، اقتصادی اور مذہبی پہلوؤں کے بارے میں مصنف کے تجربات کی عکاسی ہے۔ وہ اپنے آپ کو لکھنے میں مصروف رکھتے ہیں کیونکہ وہ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بیکار رہ کر وقت ضائع کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ قاری کو اپنے بچپن میں واپس لے جاتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک شرارتی بچے کی طرح میں ایک انوکھے انداز سے دودھ چوری کرکے پیتا تھا۔ انہوں نے 1947 میں قبائلی حملے کی بھیانک تفصیلات درج کیں، جس میں ان کے آبائی شہر بارہمولہ کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔

 قبائلیوں نے بارہمولہ میں عیسائی مشنریوں اور نرسوں کو نشانہ بنایا، لیکن انہوں نے مسلمانوں کو نہیں بخشا، کیونکہ وہ بھی مارے گئے اور املاک لوٹ لی گئیں۔ ان واقعات کے عینی شاہد ہونے کے ناطے، وہ لکھتے ہیں کہ حملے کے دوران کیا کیا ہوا، جب کہ قبائلی اپنے خاص اہداف یعنی سکھوں کی تلاش میں تھے۔ اس افراتفری کے ماحول میں، پرویز نے بچپنے میں ہی بہادری کا مظاہرہ کیا اور ایک مقامی مولانا کی تلوار چرا لی۔ بعد میں جب معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو بارہمولہ پر بمباری کی گئی اور اس فضائی بمباری اور قبائلیوں کے مظالم کی وجہ سے ان کے خاندان کو ہجرت کرنا پڑی۔

 قبائلی یلغار، اس کے نتائج اور آسمان سے بمباری کے دلخراش مناظر کو بیان کرتے ہوئے خود نوشت کی تفصیلات اور خاندانی تاریخ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ دائیں بازو کے ارکان اور ڈوگرہ فورسوں کے ذریعہ جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں جو کم سے کم بات کی گئی ہے وہ بھی جمع کی گئی ہے۔ جموں کا قتل عام تقسیم کے دلخراش سانحے کے دوران مسلمانوں کا فراموش کردہ قتل عام ہے۔ اب ماہرین تعلیم، صحافی اس کا تذکرہ کر رہے ہیں اور عام لوگ اس کے بارے میں جان رہے ہیں۔

 ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم سے قبل نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے کارکنوں اور ارکان کے درمیان ٹکراؤ، ایک ایسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جس نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔ پھر برصغیر کے دیوبندی و بریلوی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کشمیر میں بھی تقسیم کی راہ ہموار ہوئی۔ کشمیر کے عظیم رہنما شیخ محمد عبداللہ کو ان کے دوست، ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے دھوکہ دیا، اور جیل میں ڈالا اور غیر قانونی طور پر اقتدار سے ہٹا دیا۔ چنانچہ جب وہ رہا ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ عوام میں مقبولیت کھو رہے ہیں، چنانچہ انہوں نے حضرت بل کے مزار کی تعمیر نو کی تحریک شروع کی اور اس تحریک کے دوران انہوں نے کبھی ہندوستان کے خلاف بات نہیں کی۔ اگرچہ ان کی قید کے دوران بھی شیخ کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جارہی تھی اور برسر اقتدار حکومت نے ان پر بڑی شفقت کا مظاہرہ کیا۔

 پرویز کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق معلوم ہوتا ہے جس کی عکاسی ان کی تحریروں میں بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی جلاوطنی اور پھر وہاں سے اپنی واپسی کو اپنی دو جلدوں کی کتاب میں دستاویزی شکل دی ہے۔ کشمیر واپس آ کر وہ آباد ہو گئے، اپنا کاروبار شروع کیا اور پھر ایک ہفتہ وار اخبار کامراز کی ایڈیٹنگ شروع کر دی۔ بعد میں، شورش کی وجہ سے، انہیں اس ہفتہ وار کو بند کرنا پڑا جو ابھی اپنے ابتدائی دور میں تھا (ص-111)۔ انہوں نے وادی کشمیر کی صحافتی تاریخ میں اپنے ہفت روزہ کے ذریعے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کا ارادہ کیا، کیونکہ یہاں زیادہ تر صحافت بکاؤ ہو چکی تھی، جب کہ اس عمل میں حقیقی صحافت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ روداد آگے بڑھتی ہے، ہم ان کے دوستوں، خاندان اور متعلقین و محبین کے بارے میں زادہ جاننے لگتے ہیں۔ انہوں نے کچھ جعفر علی دہلوی کا ذکر کیا، جن کا تعارف ایک باعمل مسلمان کے طور پر پیش گیا ہے، جنکی نمازیں کافی طویل ہوا کرتی تھیں۔ لیکن پرویز، جیسا کہ وہ قاری کو پہلے ہی بتا چکے ہوتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ وہ خود اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جعفر بنیادی طور پر بدعنوان ہے اور اس نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خاندان کے افراد، بچوں اور دیگر متعلقین کو محکمہ جنگلات میں تقرری کروائج، اور اس طرح اقربا پروری کو فروغ دیا۔ ہم کئی بار اسلام کی روح کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہم لمبی نمازوں کو تقویٰ اور دن داری کے ساتھ مخلوط کر دیتے ہیں، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کو نجی اور عوامی زندگی کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اسلام ایک جامع دین ہے، یا تو اپ اس کی اقدار کی پیروی کرتے ہیں یا اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ دین کے بعض حصے کو ماننا اور بعض کو اپنے مفادات کے پیش نظر رد کر دینا، یقیناً اسلام کی حقیقی تعلیمات سے سرتابی ہے۔

 پرویز نے موت کا سامنا کرنے والے اپنی تجربے (ص-118-120) کا بھی ذکر کیا۔ اس روداد کو پڑھ کر ہمیں نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ بارہمولہ کے مختلف کرداروں سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ کس طرح کشمیر میں ذات پات کا نظام رائج ہے اور ہندو انتہاء پسند تنظیم پنون کشمیر کشمیری مسلمانوں کے خلاف بولنے اور زہر اگلنے میں ملوثگی ہوئی ہے۔ یہ روداد ایک پرلطف مطالعہ ہے اور زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے، لیکن بعض اوقات اس کتاب کی چند غلطیاں ذائقہ خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان غلطیوں کو کسی اسکالر کو سنا کر دور کیا جا سکتا تھا، جو کتاب میں مذکور مختلف واقعات اور تاریخوں کے بارے میں حقیقت کی جانچ کر سکتے تھے۔ یہ غلط ہے کہ 1975 میں اندرا شیخ معاہدے کے بعد شیخ عبداللہ کو جی ایم صادق نے اقتدار سونپا تھا۔ یہ میر قاسم نے ہی کیا تھا (P-88-89)۔

 مجموعی طور پر یہ روداد قارئین کو مایوس نہیں کرتی، یہ پڑھ کر تازگی حاصل ہوتی ہے۔ تاہم جن لوگوں نے پرویز کی ابتدائی تحریریں پڑھی ہیں وہ چند مقامات پر بعض واقعات کی تکرار محسوس کریں گے۔ یہ کافی اہم روداد ہے جسے وسیع پیمانے پر شائع کرنے اور دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پرویز اس کتاب کو لکھنے کے لیے ہماری تعریف کے مستحق ہیں، حالانکہ 1990 کی دہائی کے واقعات کو زیادہ باریک بینی اور وضاحت کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا جا سکتا تھا۔

------

English Article:  And Jehlum Continued To Flow: Kashmir Witnessed Turmoil, Travesty and Tragedies

 

URL:    https://newageislam.com/urdu-section/jhelum-kashmir-tragedies-/d/129807


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..