جاوید آنند
7 نومبر، 2016
دس سالوں سے میں انہیں جانتا ہوں ان دس سالوں میں ان کا ایسا رویہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ طاہرہ آپا نے کہا "السلام علیکم، بھائی"۔ اور انہوں نے کوئی بھی توقف کیے بغیر مزید کہا کہ "میں دو تین دن سے پریشان ہوں، آپ کو فون کرنے والی تھی"۔
ان کے لیے وہی چیز پریشانی کا باعث ہے جو بات آج کل بہت سی مسلم خواتین کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے؛ اور وہ یہ نعرہ یہ ہے کہ "اسلام خطرے میں" جسے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (AIMPLB) نے بلند کیا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں کو چھوڑ کر تقریبا تمام مسلمان مذہبی اداروں اور سیاسی مسلم رہنماؤں نے بھی اس نعرے کے ساتھ اپنی آواز بلند کی ہے۔ پورے ملک کے مسلمانوں کو مساجد کے اندر اس بات کی تربیت دی جا رہی ہے کہ شریعت کو بچانے کے لئے اپنی زندگی کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوجاؤ۔ مسلم پرسنل لاء میں کسی بھی "مداخلت" کے خلاف مزاحمت کرنے کے لئے بورڈ کی طرف سے ملک بھر میں شروع کیے گئے دستخطی مہم کی مخالفت کرنے والے ہر شخص کو "اسلام کے دشمن" کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
اس عقیدہ کی بنیاد پر کہ وہ "اللہ کے قانون" کا دفاع کر رہے ہیں مسلمان مرد اور عورتیں اس دستخطی مہم میں شامل ہو رہی ہیں۔ مسلم خواتین کارکنان کی رپورٹ کے مطابق "وہ چھوٹے بچوں کی بھی دستخط جمع کر رہے ہیں"۔ کچھ مسلمان جو اسلام کو بہتر طریقے سے جانتے ہیں وہ اس پر دستخط کرنے سے علی الاعلان انکار کر رہے ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تین طلاق، نکاحِ حلالہ اور تعدد ازدواج پر پابندی لگا دی جائے۔ طاہرہ اپا انہیں میں سے ایک ہیں۔
انہیں اس پیچیدہ مسئلہ کو سمجھانے والا کوئی نہیں ہے۔ مولوی ان کے بیٹے کو اپنے دام فریب میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسے یہ ماننے پر مجبور کر رہے ہیں کہ اس کی ماں اسلام مخالف ہے۔ اس کے نتیجے میں بیٹا، ماں اور خاندان کے باقی تمام افراد کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ پریشان حال بیٹا اپنی ماں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ"کل کو آپ کی اسلام مخالف مہیلا منڈل مسجد کو توڑوانے کی بھی بات کرے گی۔ آپ چھوڑو یہ کام۔ طاہرہ آپا اپنی اس سرگرمی کو کسی بھی طرح ترک نہیں کریں گی۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کی اس دھمکی سے پریشان ہے کہ ، "اگر تم نے مہیلا منڈل نہیں چھوڑا تو میں اپنے بچوں سمیت جان دے دوں گا۔ اگر وہ اس دھمکی پر عمل کرتے ہوئے کچھ کر لے تو کیا ہوگا؟
اسے اس ذہنی فساد سے نجات صنفی تعلقات پر قرآن کی آیات پر مبنی ایک چھوٹی سی جیب سائز کی کتاب نے دیا۔ ان کو پڑھنے کے بعد بیٹے کے ذہن میں اسلام کی ایک ایسی تصویر پیدا ہوئی جو اس اسلام سے بہت مختلف ہے جو علماء مسلمانوں کو سکھا رہے ہیں۔ کم از کم اس کتاب سے اس کا ذہنی فساد کم ہو گیا۔
طاہرہ اپا ہی صرف ایسی مسلم عورت نہیں ہیں جنہیں "غیر انسانی، غیر انصاف پسند، خواتین مخالف اور غیر اسلامی" مسلم پرسنل لا کی اصلاح کا مطالبہ کرنے پر اس طرح کی مخالفت اور مزاحمت کا سامنا ہے، جیسا کہ اس کا مطالبہ 20 سے زائد مسلم اکثریتی ممالک میں کیا جا رہا ہے۔ ممبئی کی ایک دوسری بستی میں رہنے والی برقعہ پوش زینت اپا نے سماج وادی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے مبینہ طور پر ایک عوامی جلسے میں جو کہا اسے بیان کرتے ہوئے کہا کہ "اگر چار شادی نہیں کریں گے تو کیا ہماری بیواؤں کو کوٹھے پر بیٹھائیں گی؟"۔ اعظمی نے بعد میں واضح کیا کہ وہ عام طور پر مسلمان عورتوں کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ صرف اپنے خاندان کی خواتین کی بات کر رہے تھے۔
کچھ دنوں کے بعد، اصلاحات کی حمایت میں دستخطی مہم کے خلاف مہم چلانے والی زینت اپا کی بستی کی مسلم خواتین کو مردوں کی ایک جماعت نے دھکا دیا اور ان کے ساتھ زیادتی بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس کے بعد سے، تین طلاق، حلالہ اور تعدد ازدواج میں اصلاحات کی مطالبہ کرنے والی عورتوں کو بھی ڈرا دھمکا کر ان سے بورڈ کی حمایت میں دستخط کروایا جا رہا ہے"۔
لیکن پورے ممبئی سے 25 مسلم خواتین کے ایک اجتماع سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ۔ "دین اور دستور دونوں ہمارے حق میں ہیں۔ ہم لڑیں گے۔
ماخذ:
indianexpress.com/article/opinion/columns/muslim-women-opposing-triple-talaq-polygamy-face-attack-3740726/
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/the-quran-constitution-our-side/d/109033
URL for this article: