جاوید آنند
پیارے مسلم والدین،
سلام مسنون!
آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ ہندوستان اور دنیا بھرمیں اور خاص طور پر مسلم اکثریتی ممالک میں مسلمانوں کا حال کتنا پریشان کن اور دشوار ہوچکا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں، اور مسلمان کیا چاہتے ہیں؟ یہی وہ سوال ہے جس کو آج دنیا پوچھ رہی ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس سوال سے مسلمانوں اور ان کے عقیدے کے خلاف تعصب کی بو آرہی ہے۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یا آپ کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ ایک زندہ عقیدے کے مانند اوربھی کئی اسلامی مذاہب موجود ہیں۔ جن میں سے بہت سے مذہبی عقیدے کی بدنما تصویر ہیں۔
گیتا کی کیا تعلیمات ہیں؟ یہ سوال اس پر موقوف ہے کہ سائل مہتما گاندھی ہیں یا ناتھو رام گوڈ سے؟ یہی مسئلہ اسلام کے ساتھ بھی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ مولانا ابو الکلام آزاد کو سنتے ہیں یا اسامہ بن لادن کو۔ لہذا، دفاعی بننے کی ہرگز ضرورت نہیں۔
ممبئی کے قریب واقع کلیان شہر سے چار مسلم نوجوان داعش کے جہاد میں شامل ہونے کے لئے ملک شام روانہ ہوتے ہیں۔ داعش کا قائد ابو بکر البغدادی ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو اپنی خلافت کا دعوی کرتا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کوشہ دیتا ہے۔ نیز نسلی و مذہبی تطہیر کی بات کرتا ہے۔ اب دیکھئے کہ متبعین اور عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد رکھنے والے یوپی کے ایک مولانا اس شیطان کی وفاداری کا حلف لیتے ہیں۔ تامل ناڈو کے ۲۰ مسلم نوجوان داعش کی ٹی شرٹ پہن کر فوٹو کھنچواتے ہیں اور اس کو فیس بک پر پوسٹ کرتے ہیں۔ کلیان شہر کا ایک لڑکا پہلے ہی ‘‘شہید’’ ہو چکا ہے۔ اس دوران ہندوستان کی مختلف زبانوں میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے پیغامات اور میسجز مسلمانوں کے درمیان خلافت کے غلط تصور کو غذا فراہم کر رہے ہیں۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر القاعدہ بھی اپنی ایک شاخ ہندوستان میں قائم کرنے کے درپے ہے۔
آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بیٹا کبھی یہ پر تشدد راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ لیکن کلیان کے غمزدہ اور پریشان والدین نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے لڑکے یہ راستہ اختیار کریں گے۔ لہذا مسلم والدین دوبارہ غور و خوض کریں۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ اس اسلام سے واقف ہوں جو مدارس، مساجد اور اسلامی مراکز میں آپ کے نونہالوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ ذاکر نائک کے پیس ٹی وی چینل کو غور سے دیکھئے۔ آپ کو سمجھ آجائےگا کہ اس کا امن و آشتی اور Peace سے کوئی رشتہ ہے ہی نہیں۔ یہ محض دوسروں پر مسلم بالا دستی کی بات کرتا ہے۔ ہمارے درمیان اسلام کی مختلف تشریحات و توضیحات پائی جاتی ہیں۔ ہمیں خاص طور سے ان سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق سیاسی اور جہادی نظریہ پر مبنی متشدد اسلام سے ہے۔ یہاں اختصار کے ساتھ ان سب کی حقیقت پیش خدمت ہے۔
سیاسی اسلام کے علمبردار (وہابیت، سلفیت، اہل حدیث، جماعت اسلامی ہند): یہ تمام محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکار ہیں ( جو سعودی عرب پر حکمرانی کرنے والے قبیلہ کے مذہبی پیشوا ہیں)، سید قطب (مصر: اخوان المسلمین) اور مولانا ابو الاعلی مودودی (ہندوستان، پاکستان؛ جماعت اسلامی)۱۹۸۰ کی دہائی میں سویت قبضہ کے خلاف افغانی جہاد نے ان طاقتوں کو قریب آنے اور آپس میں مل کر پنپنے کا مزید موقع فراہم کیا۔ ان کا اتحاد اس عقیدہ میں ہے کہ مسلمانوں کی لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ممکنہ وسائل کے ذریعہ شرعی قوانین نافذ کرنے کے لیے اسلامی ریاست کا قیام کریں۔
تشدد پسند جہادیت (القاعدہ، داعش، بوکو حرام اور پاکستان و بنغلادیش کی متعدد تنظیمیں)، یہ وہ تنظیمیں ہیں جو سیاسی نظریہء اسلام کو اپنے فکری مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ‘‘تمام ممکنہ وسائل’’ کی توضیح و تشریح میں، بہر حال، مکمل آزادی ہے۔
لہذا، محتاط رہیئے، کہیں آپ کا لخت جگر سیاسی اسلام کے نظریات سے متاثر نہ ہوجائے۔ اگرچہ ضروری نہیں کہ اس کا شاخسانہ ہمیشہ تشدد پسند جہادی نظریہ کی شکل میں ہی نمودار ہو، لیکن اسلامی ریاست کا خواب اسلام کے نام پر ہورہے سفاکانہ جرائم کی طرف راہ ہموار کرتا ہے۔ یقینا، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ جیسے مسلم والدین سیاسی اسلام کے نظریات کے خود بہ خود شکار نہیں ہوتے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے، تو پھر دوستو میں کیا عرض کروں؟
جاوید آنند صاحب Communalism Combat (فرقہ واریت سے جنگ) کے شریک مدیر اور مسلمس فار سیکولر ڈیموکریسی کے جنرل سیکرٹری ہیں.
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/listen,-muslim-parent/d/99217
URL for Urdu article:
https://newageislam.com/urdu-section/listen,-muslim-parent-!/d/99290