New Age Islam
Mon Feb 10 2025, 06:47 AM

Urdu Section ( 4 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Inside The Mind of a Muslim Terrorist ایک مسلمان دہشت گرد کا باطن

جمال خاشقجی

27 اپریل 2013

Dzhohkar Tsarnaev، بوسٹن میراتھن بم دھماکے کا مشتبہ شخص، جو اسے بات کرنے اور تفتیش کاروں کے سوالات کے جواب دینے سے روکتے ہوئے شدید زخمی ہو گیا ، وہ تفتیش کا روں سے گھرا ہوا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس کا دماغ پڑھنے اور جوابات تلاش کرنے کے قابل ہیں ۔

کس طرح ایک نوجوان مسلم امریکہ پہنچے کے بعد تبدیل ہو تا ہے  ، کمیونٹی میں مل جاتا ہے ، " ہم میں سے کسی ایک کی طرح ایک امریکی شہری بن جا تا ہے  "(جیسا کہ اس کے دوستوں میں سے ایک کا کہنا ہے)، اور پھر  ایک ایسے نوجوان سے جو زندگی اور پیسے سے محبت کرتا ہے (جیسا کہ اس نے ایک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے اپنے پیج  پر لکھا ہے) ایک دہشت گرد میں کیسے تبدیل ہو جاتا ہےجو معصوم لوگوں کو قتل کرتا ہے؟

جس نے اکثر  سلامتی تجزیہ کاروں کو خوفزدہ کیا ہے ، وہ ایسے  شوقیہ دہشت گرد ہیں جو کسی بھی تنظیم سے منسلک نہیں ہیں  اور جو انٹرنیٹ کے ذریعے خود کو تقویت فراہم کر رہے ہیں ، اسی لئے  تجزیہ کار ان  کو پکڑنے کا کوئی سراغ نہیں  حاصل کر پاتے، اور  جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے ان کو بے نقاب نہیں کر پاتے ۔

گزشتہ ہفتے سیکورٹی حکام نے اسی طرح کے دو مقدمات کو طشت از بام کیا ، پہلا  کینیڈا میں اور دوسرا فرانس میں ۔ دونوں صورتوں میں، Tsarnaev بھائیوں کی ہی طرح نوجوان مرد تھے،  جو بوسٹن دھماکوں میں مشتبہ افراد ہیں ۔ یہ رجحان اسلام فوبیا کی ایک نئی لہر بھڑکا  سکتی ہے۔ غالباً، اب کوئی ایک امریکی قدامت پسند  اخبار یا ٹی وی چینل میں کہہ رہا ہے "میں کس طرح اس بات کا یقین کر سکتا ہوں کہ ہمارا نوجوان مسلم پڑوسی جو اچھا اور دوستانہ لگتا ہے، اور جو مجھ سے  کم امریکی نہیں ہے، اچانک ایک دہشت گرد میں تبدیل نہیں ہو  جائے گا ؟ "

اس سوال کے حوالے سے عربوں اور مسلمانوں کے طور پر ہماری پریشانی  کے باوجود، یہ ایک جائز سوال ہے، جو العربیہ جنرل منیجرعبد الرحمٰن  کے الفاظ یاد دلاتا ہے ، جو اپنی اس بات کو کہنے میں  کافی بہادر تھے کہ یہ ایک ‘‘ حقیقت ہے کہ تمام مسلمان  دہشت گرد نہیں ہیں ، لیکن یہ " یکساں طور پر یقینی  اور غیر معمولی تکلیف دہ ہے، کہ تقریبا تمام دہشت گرد مسلمان ہیں، ان الفاظ نے کچھ لوگوں کو سختی سے ان پر تنقید کرنے پر بھڑکا  دیا۔

دہشت گردی کی پیدا ہوتی ہوئی لہر  ؟

میں ان سیکورٹی حکام اور تفتیش کاروں کی مدد کروں گا  جو Dzhohkar Tsarnaev کے ذہن کو تاڑنا چاہتے  ہیں، اور ان تک وہ کچھ پہنچاؤں گا جو  عام طور پر ناراض مسلم ذہن میں گشت کرتا ہے، اگرچہ مجھے پتہ ہے کہ امریکی اور مغربی سیاستدان مسلم غصے کے پیچھے کے اسباب کا جواب دینے  کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں ۔

انہیں یقین ہے کہ وہ دہشت گردی کا  " جواز " فراہم کرتا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ وجوہات پر بحث ان کو ذمہ دار ٹھہرانے کا باعث بنے گا  اور ایسے کچھ فائلوں کو کھلوانے کا سبب ، جنہیں وہ  بند رکھنا چاہتے ہیں، اگرچہ ان کا بنیادی مقصد اس کے وجوہات کو حل کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ  ہونا چاہئے ۔ امریکی اور مغربی سیاستدان، روسی انتظامیہ جیسے مسائل پر بحث کرنے کو  ترجیح دیتے ہیں، وہاں کےصدر پوتن سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ چیچنیا قتل عام کا ذمہ دار کون ہے "تم نے وہاں کیا کیا" سیکورٹی تعاون، اور اس  کے جرائم کی تحقیقات کرنے کے لئے ایک کانگریس کمیٹی بھیجنے کے بجائے۔

سخت سیکورٹی کی کوششوں کے درمیان جو  دنیا بھر میں سیاستدانوں کی توجہ پر اپنا تسلط  جما لے گا ، وہ اسلامی دہشت گردی کی پیدا ہونے والی لہر کی کی پیش بندی نہیں کریں گے ، جس کی مجھے توقع ہے۔ جو لہریں 1990s کے وسط میں شروع ہوئی تھیں  وہ بوسنیا اور الجیریا میں ہونے والے واقعات کا ردعمل تھیں۔

دوسرے ہزار سال کی  لہر عراق، افغانستان اور چیچنیا پر مرکوز ہے، اور اس کے بعد ایک تیسری لہر پیدا ہوگی جو شام میں قتل عام کے ذریعہ بھڑکائی جائے گی، جسے اب کبھی نہیں ختم ہونے والی ناانصافی کی تصاویر کے ذریعے مسلمانوں کے  غصہ کو ایندھن فراہم  کیا جا رہا ہے ۔ وہ حقیقی تصاویر ہیں، جنہیں  ناراض نوجوان مسلمان YouTube اور WhatsApp پر آج دیکھ سکتے ہیں، اور عام طور پر اس کی 18 + کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ ایسی ویڈیوز ہیں  جنہیں نیوز چینلز نشر نہیں کر سکتے، جن میں  شامی حکومت کے ارکان کےآہستہ آہستہ لوگوں کو  ہلاک کرنے اور ان کے متاثرین پر تشدد کرنے ، اور بازو اور ٹانگیں کاٹنے کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔

ان تصاویر کو سوشل میڈیا سائٹس نہیں بلکہ بین الاقوامی جرائم کی عدالت کے حوالے کیا جائے چاہئے۔ ان کی تصدیق برما سے آنے والی تصاویر کی ایک لہر کے ذریعہ بھی کی جا رہی ہے ، جہان  دنیا آنگ سان سو، برما حزب مخالف کے لیڈر اور نوبل امن انعام یافتہ کی ان کی حمایت کی تعریف کر رہی ہے، جب کہ کسی نے بھی خفیہ  یا واضح طور پر، وہاں مسلم اقلیت کے جلائے جانے اور قتل کئے جانے اور ان کی عصمت دری کے جانے کا  کے بعد انسانی حقوق کی ان واضح خلاف ورزیوں کی مذمت نہیں کی ۔

طیش آور تصاویر

شاید Tamerlan Tsarnaev اور اس کے چھوٹے بھائی نے کچھ ان ویڈیوز اور تصاویر کو  دیکھ لیا تھا جس نے ان  کے غضب ناک  ذہنوں کو بھڑکا  دیا ، جو پہلے ہی چیچن کے طور پر جمع موجود تھا  ۔ انہوں نے ایسی بہت ساری تصاویر دیکھیں ہوں گی جن میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، انہوں نے شاید ایسے ویڈیوز دیکھے ہوں گے ، جن میں روسی افسر اپنے ایک چھوٹی سوئس چھری سے ایک چیچن جنگجو کو قتل کر رہا ہے- سست قتل کی بدترین قسم؛ مظلوم پھر پھڑا تا ہے، اور وہ آہستہ آہستہ اس طرح اس کا خون نکلتا ہے کہ  روسی اس پر ہنستے ہیں ۔

میں اس بات کا  اعادہ کرتا ہوں کی اس طرح کی ویڈیوز کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں بھیجا جانا چاہیے، اگر کوئی ایک بھی  سماعت کے لئے نہیں بھیجا گیا تو یہ کیسے ہو گا  ۔ آج بشار الاسد شام میں جو کر رہے ہیں وہ بالکل اسی طرح ہے  جو پوتن نے چیچنیا میں کیا ہے، مکمل طور پر تباہ شدہ گروزنی کی تصاویر موجود ہیں۔ ناراض مسلم ذہن آج پھر سے انہیں مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہے   کہ جو لوگ بشار اور اس کی حکومت کی حفاظت میں وہی ہیں ، جنہوں نے  گروزنی کو تباہ کر دیا اور 000،100 سے زائد چیچن کو ہلاک کیا  ۔ غضب ناک  ذہن اس طرح کے بین الاقوامی منظر نامے یا مفادات کے توازن جیسی کسی بھی دوسری تفصیل کو نہیں دیکھتے، یہ ایک ایسا  دماغ ہے جو سوچنے کے قابل نہیں ہے ۔اگر  Tsarnaev او ر اس کے بھائی منطقی طور پر سوچتے ،تو وہ بوسٹن میراتھن کو  اور اس درد مند شہر کو نشانہ نہیں بناتے جس نے انہیں آباد کر رکھاتھا۔

ناراض مسلم ذہنوں پر ان ویڈیوز کا اثر کافی ہے، یہ ناانصافی کے مجموعہ احساس کو پیدار کرتا ہے، کیونکہ وہ خود کو ایک ایسی اقلیت کے طور پر دیکھتا ہے جسے ہدف بنایا گیا ہے اور پوری دنیا اس کے خلاف ہے۔ اسے اس بات کا یقین ہے کہ امریکی بشار کی خفیہ حمایت کرتے ہیں، اور پوتن کے جرائم اور برمی رہنما کی منافقت کے تئیں خاموشی سادھے ہوئے ہے ۔ وہ اس بات کا یقین رکھتا ہے (اور اسے اس کا حق ہے) کہ گزشتہ صدی کے جرائم اور جن کا ارتکاب آج کیا گیا ہے مسلمانوں کے خلاف ہیں ۔ واحد مستثنیات نازیوں کے ذریعہ تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد یہودی ہیں، اور عثمانیوں کے ذریعہ تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد آرمینی ہیں ۔

اس غضب ناک  دماغ کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان دونوں فرقوں کو دنیا کی معذرت خواہی اور معاوضہ حاصل ہے۔ صرف مسلمان کو ہی معذرت خواہی حاصل نہیں ہوتی، ہمیں عرب مسلم ضمیر میں فلسطینی درد کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے: ایک بھی ایسی  کمیونٹی نہیں ہے جسے اس طرح بے گھر کیا گیا ہو ، جس طرح  فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا تھا، اور ابھی تک، کوئی ان سے معذرت خواہی  کے لئے تیار نہیں ہے ۔ کون ان نکالے جانے والوں کی یاد میں نیویارک میں ایک میوزیم کا تقاضہ کرنےکی ہمت کرتا ہے ؟ کون ایک سرکاری روسی معذرت خواہی کا مطالبہ ان  1.5 ملین چیچن کے لئے کرنے کی ہمت کرے ، جنہیں زبردستی ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ، اور انہیں سوویت یونین کی سرحدوں پر منتشر کر دیا گیا ، جہاں  ہزاروں بیماریوں اور بھوک کی وجہ سے مر گئے؟

جب چیچن نےاپنی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے بغاوت کر دیا  ، تو روسیوں نے ان کے خلاف ظالمانہ  جنگیں شروع کر دیں، اور پھر، دنیا نے ان دستاویزی اور سچی تصاویر کو دیکھنے پر رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس قسم کی کئی کہانیاں ناراض مسلم ذہن پر اس طرح سے حملہ کر رہی ہیں کہ ان کی منطق مفلوج ہو  رہی ہے،اور ایک رحم دل  نوجوان ایک  خطرناک دہشت گرد میں تبدیل ہو رہا ہے ۔

اس مضمون میں کچھ لوگ یہ سوچیں گے کہ ، میں دہشت گردی کے لئے بہانے تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن نہیں، کوئی بھی دہشت گردی کا جواز نہیں  پیش کر سکتا، اس کا قلع قمع کرنے کا واحد راستہ اس کی وجوہات کا تصفیہ کرنا ہے ۔ کسی ایک کو اپنے اندر مغرب کو یہ بتانے کی جرات پیدا کرنا  ضروری ہے: غصہ پیدا کرنے والی  دہشت گردی کے پیچھے وجہ، تمہارے دہرے معیار ہیں۔

جمال خاشقجي  ایک سعودی صحافی، کالم نگار، مصنف، اور آنے والی العرب نیوز چینل کے جنرل مینیجر ہے۔پہلے انہوں نے شہزادہ ترکی الفیصل کے لئے ایک میڈیا معاون کے طور پر خدمات انجام دیں ہیں جبکہ امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر تھے ۔

ماخذ:

http://english.alarabiya.net/en/views/news/middle-east/2013/04/27/Inside-the-mind-of-a-Muslim-terrorist.html

URL for English article

 https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/inside-mind-muslim-terrorist/d/11341

URL for this article

https://newageislam.com/urdu-section/inside-mind-muslim-terrorist-/d/11415

 

Loading..

Loading..