New Age Islam
Wed Jun 25 2025, 03:56 AM

Urdu Section ( 20 Sept 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Jamaat-e-Islami Kashmir's Return to Electoral Politics: History, Importance, and Relevance جماعت اسلامی کشمیر کی انتخابی سیاست میں واپسی: اس کی تاریخ اور اہمیت و افادیت

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 17 ستمبر 2024

 تقریباً 37 سال کے وقفے کے بعد، پھر جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی سیاسی میدان میں واپسی ہو رہی ہے، جو کہ 2024 کے انتخابات میں، خطے کی سیاسی ہلچل کا ایک عظیم لمحہ ہونے والا ہے۔

 اہم نکات:

 1.   1970 کی دہائی میں، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) نے انتخابی سیاست کو، اسلامی طرز زندگی کی وکالت کرنے، اور ہندوستان کے مسلط کردہ سیکولر فریم ورک کو چیلنج کرنے کے، ایک پلیٹ فارم کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔

 2. 1980 کی دہائی کے آخر تک، کشمیر کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہو چکا تھا، اور جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) ایک دوراہے پر کھڑی تھی۔ اور یہ پارٹی مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (MUF) کا حصہ بن گئی، ایک ایسا اتحاد جس نے 1987 کے انتخابات میں، اسلام پسندی کے نام پر مقابلہ کیا۔

 3.  1990 اور 2000 کی دہائیوں کے دوران، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) نے، خود کو انتخابی سیاست سے دور رکھا، اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC)، جیسی علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ اتحاد کیا۔

 4. 2024 کے انتخابات میں، جماعت اسلامی کشمیر کی شرکت، وہاں کی سیاسی حکمت عملی میں ایک اہم تبدیلی ثابت ہونے والی ہے۔

------

تعارف

ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ کی حامل، ایک سماجی اور مذہبی تنظیم- جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے)، نے جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تقریباً 37 سال کے وقفے کے بعد، پھر جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی، سیاسی میدان میں واپسی ہو رہی ہے، جو کہ 2024 کے انتخابات میں، خطے کی سیاسی ہلچل کا ایک عظیم لمحہ ہونے والا ہے۔ اس مضمون میں جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی تاریخ، اس کے انتخابی سیاست میں دوبارہ واپس ہونے کی وجوہات، اور ایسے حالات میں جموں و کشمیر (J&K) پر مرتب ہونے والے اس اقدام کے مضمرات پر، روشنی ڈالی گئی ہے، جب وہاں کی سیاسی صورتحال انتہائی نازک ہے۔

جماعت اسلامی کشمیر کا تاریخی پس منظر

1945 میں قائم ہونے والی جماعت اسلامی کشمیر نے، ابتدا میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی اصولوں کی تبلیغ و اشاعت پر توجہ مرکوز رکھی، لیکن جلد ہی یہ خطے میں ایک سیاسی قوت بن کر ابھری۔ اس تنظیم نے جماعت اسلامی سے نظریاتی تحریک حاصل کی، جسے ابوالاعلیٰ مودودی نے جنوبی ایشیا میں قائم کیا تھا، جس کا ہدف شرعی قانون سے چلنے والی ایک اسلامی ریاست کے قیام کو فروغ دینا تھا۔ جماعت اسلامی کشمیر نے 1951 کے اوائل میں ہی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن اس کی انتخابی تاریخ ہنگامہ خیز رہی ہے، جس میں کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔

1970 کی دہائی میں، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) نے انتخابی سیاست کو، اسلامی طرز زندگی کی وکالت کرنے، اور ہندوستان کے مسلط کردہ سیکولر فریم ورک کو چیلنج کرنے کے، ایک پلیٹ فارم کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ ابتدائی طور پر، پرامید ہونے کے باوجود، ان کا سیاسی سفر چیلنجوں سے بھرا رہا۔ دھاندلی کے الزامات سے 1971 اور 1983 کے انتخابات میں ان کی سیاسی شرکت متاثر ہوئی، اور جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کو صرف چند سیٹیں ہی حاصل ہوئیں۔ تاہم، یہ انتخابی ناکامیاں، پارٹی کو زمینی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے سے نہیں روک سکیں، اور اس کا سبب، اس کے اسکولوں اور سماجی بہبود کے پروگراموں کا ایک مضبوط نیٹ ورک رہا۔

علیحدگی پسندی کی طرف رجحان اور انتخابات کا بائیکاٹ

1980 کی دہائی کے آخر تک، کشمیر کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہو چکا تھا، اور جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) ایک دوراہے پر کھڑی تھی۔ اور یہ پارٹی مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (MUF) کا حصہ بن گئی، ایک ایسا اتحاد جس نے 1987 کے انتخابات میں، اسلام پسندی کے نام پر مقابلہ کیا۔ جب ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی خبریں سامنے آئیں، تو اس سے بہت سے کشمیریوں میں جمہوری عمل سے مایوسی اور ناامیدی پھیل گئی۔ یہ بے چینی اور عدم اطمینان، خطے میں مسلح شورش کا ایک مضبوط محرک بنی۔ جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کے بہت سے اراکین، سیاسی مواقع کی کمی سے مایوس ہو کر، علیحدگی پسندوں سے جا ملے۔

1990 اور 2000 کی دہائیوں کے دوران، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) نے، خود کو انتخابی سیاست سے دور رکھا، اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC)، جیسی علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ اتحاد کیا۔ حزب المجاہدین جیسی عسکریت پسند جماعتوں کے ساتھ، اس کی نظریاتی قربت سے، ایک ایسی پاکستان حامی جماعت کے طور پر، اس کی شبیہ مزید مضبوط ہوئی، جو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہاں ہے۔ اس عرصے کے دوران، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) نے، انتخابات کا جم کر بائیکاٹ کیا، اور اس خیال کو فروغ دیا، کہ ہندوستانی جمہوری عمل میں حصہ لینے سے، کشمیر کے متنازعہ فیہ علاقے پر، ہندوستان کے قبضے کو جواز حاصل ہو جائے گا۔

2024 کے انتخابات میں جماعت کی شرکت: ایک اسٹریٹجک تبدیلی

اب ایک اہم پیش رفت دیکھنےکو یہ مل رہی ہے، کہ جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) نے، 2024 کے جموں و کشمیر کے انتخابات میں، اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے، اگرچہ بالواسطہ طور پر وہ آزاد امیدوار ہوں گے۔ یہ انتخابات کے بائیکاٹ کی دہائیوں پر محیط، اس کی حکمت عملی سے یکسر انحراف کی علامت ہے۔ انتخابی میدان میں دوبارہ اترنے کا فیصلہ، ان کے برسوں کی خود احتسابی اور خطے میں بدلتے سیاسی محرکات کے بعد آیا ہے، خاص طور پر 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد۔ آرٹیکل 370 نے جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات دیے تھے، جسے حکومت ہند نے ڈرامائی طور پر ہٹا دیا تھا، جس سے سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد، اس خطے کو یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا، جو کہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئے سیاسی مواقع بھی پیدا ہوئے۔

2024 میں جماعت کی سیاسی شرکت کو، بہت سے لوگ مرکزی دھارے کے سیاسی عمل میں، اس کی دوبارہ واپسی کی کوشش سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) ابھی تک، اس ملک کے ان لاءفل ایکٹیوٹی (پریونشن) ایکٹ کے تحت، تکنیکی طور پر ممنوع ہے، لیکن اس کے اراکین پلوامہ، کولگام اور دیوسر جیسے حلقوں میں، آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ تقریباً چار دہائیوں میں پہلی بار، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے)، کشمیر پر ہندوستانی حکومت کی نظریاتی مخالفت کے باوجود، سیاسی میدان میں واپس آئی ہے۔ اس تبدیلی کو، تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی ماحول میں، تنظیم کی بقا اور اس کی اہمیت و افادیت کو یقینی بنانے کے لیے، ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی واپسی کی اہمیت و افادیت

جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی انتخابی سیاست میں واپسی، کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے:

1. مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہونا: کئی عشروں تک علیحدگی پسند ایجنڈے کو فروغ دینے کے بعد، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ، اس کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کا اشارہ ہے۔ اس اقدام کو، 2019 کے بعد خطے میں بدلتے ہوئے سیاسی حقائق کو قبول کیے جانے سے بھی، تعبیر کیا جا سکتا ہے، جب حکومت ہند نے جموں و کشمیر پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے، جارحانہ اقدامات کیے تھے۔

2. زمینی سطح پر اس کا اثر: جماعت کے پاس تعلیمی اداروں اور سماجی بہبود کے پروگراموں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے، جس کی مدد سے کشمیر میں جماعت نے اپنی پکڑ مضبوط بنا رکھی ہے۔ یہ تنظیمی طاقت، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کو، بالخصوص جنوبی کشمیر میں، ووٹروں کو متحرک کرنے کی منفرد صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ، کئی برسوں تک انتخابی بائیکاٹ کے دوران اس کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے، لیکن اس کی واپسی سے، اس کی سیاسی اہمیت کو پھر سے تقویت ملے گی۔

3. نئے سیاسی چیلنجز کے تناظر میں اہمیت و افادیت: جموں و کشمیر کا سیاسی منظر نامہ اب ویسا نہیں رہا، جیسا کہ 1980 کی دہائی میں تھا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی، اور اس کے نتیجے میں خطے کی تنظیم نو نے، سیاسی شرکت کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی شرکت، روایتی کشمیری سیاسی جماعتوں، مثلا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) اور نیشنل کانفرنس (NC) کا متبادل بن سکتی ہے، کیونکہ یہ دونوں جماعتیں 2019 سے کافی کمزور ہو چکی ہیں۔

4. علیحدگی پسند سیاست پر اس کا اثر: جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کا انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ، علیحدگی پسند تنظیموں کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جو کئی دہائیوں سے جماعت کی نظریاتی حمایت پر انحصار کرتی رہی ہیں۔ انتخابات میں حصہ لے کر، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے)، یہ پیغام دے رہی ہے، کہ وہ احتجاج و اختلاف کے باوجود، ہندوستانی سیاسی نظام کے اندر کام کرنے کے لیے تیار ہے، جس سے کشمیر میں علیحدگی پسند تحریکوں کے حق میں دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

موجودہ منظر نامے میں جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی سیاسی شرکت کی اہمیت و افادیت

جموں و کشمیر میں 2024 کے انتخابات، صرف انتخابی سیاست کا ایک اور دور نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زبردست علامتی اور عملی اہمیت و افادیت ہے۔ ایک تو یہ کہ اس خطے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد، یہ اولین قانون ساز انتخابات ہیں۔ جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کے آنے سے، جو ایک طویل عرصے سے علیحدگی پسندی کی حمایت کرتی رہی تھی، انتخابات کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔

مرکزی دھارے کی سیاست میں جماعت کے داخلے کو، ایک وسیع تر رجحان کا ایک حصہ مانا جا سکتا ہے، جہاں سابقہ علیحدگی پسند جماعتیں، بدلتے ہوئے سیاسی ماحول کی روشنی میں، اپنی حکمت عملیوں کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ، ممکن ہے کہ اس کے باوجود بھی، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کے اندر کچھ طبقے علیحدگی پسندی کی وکالت جاری رکھیں گے، انتخابات میں اس کے اراکین کی شرکت، اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ موجودہ تناظر میں، انتخابی سیاست ان کے مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ پائیدار راستہ پیش کر سکتی ہے۔

خلاصہ

2024 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کشمیر کی شرکت، اس کی سیاسی حکمت عملی میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ ہے۔ الیکشن لڑنے کے ابتدائی دنوں سے لے کر علیحدگی پسندی تک، اور بائیکاٹ کے دور سے لے کر انتخابی سیاست میں اس کی حالیہ واپسی تک، جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کا سفر، کشمیر کی سیاسی تاریخ کی وسیع تر پیچیدگیوں کا آئینہ دار ہے۔ اس کی واپسی صرف ایک حکمت عملی نہیں، بلکہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ جموں و کشمیر میں سیاسی منظر نامہ تیار ہو رہا ہے۔ آیا جماعت اسلامی کشمیر (جے آئی جے کے) کی سیاسی شرکت کوئی بامعنی تبدیلی لائے گی، یا خطے میں مزید تقسیم اور انتشار کا باعث بنے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے، لیکن اس کا سیاسی میدان میں دوبارہ داخل ہونے کا فیصلہ، کشمیر کی سیاست میں اس کی پائیدار اہمیت و افادیت کو واضح کرتا ہے۔

----- 

English Article: Jamaat-e-Islami Kashmir's Return to Electoral Politics: History, Importance, and Relevance

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/jamaat-islami-kashmir-electoral-politics-relevance/d/133241

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..