مولانا عبدالحمید نعمانی
2دسمبر،2024
ہندوتووادی سماج اور ہندوسماج میں فرق کرکے مختلف معاملات ومسائل پر بات کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ اصل ہندو سماج کا رویہ، دھرم اور روحانی معاملے میں عموماً مثبت رہاہے، لیکن برٹش سامراج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ہندو اکثریتی سماج کے ایک بڑے حصے کو فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ نفرت کی راہ پر ڈال کر ہندوتو وادی بنانے کی بھرپور کوشش کی گئیں۔2014 ء میں مرکز او رکچھ ریاستوں میں اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ فرقہ وارانہ ہندوتو آخری درجے پر پہنچ گیا ہے۔ تاریخی مساجد او رمعاہدہ وماثر کے مندر اور ہندو عمارت ہونے کی دعویداری کی نفرت وتفریق انگیز سیاست، برطانوی دور حکومت میں شروع ہوئی،بابری مسجد، جامع مسجد بنارس گیان واپی، متھرا عید گاہ مسجد وغیرہ کے معاملے اسی ذیل میں آتے ہیں۔ شاہی جامع مسجد سنبھل کے متعلق بات بنانے کی کوئی راہ گنجائش نہیں تھی تاہم اسے بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا، جس طرح گیان واپی کے تنازعہ پر عدالت نے برٹش دور 1937 ء میں یہ فیصلہ دے کر تنازعہ کو ایک طرح سے ختم کردیا تھا کہ تمام تر متعلقہ جگہیں اور جائداد یں، نیچے سے اوپر تک مسجد کی ملکیت ہیں، اسی طرح 1878 ء میں جامع مسجد سنبھل کے مقدمہ چھید ا سنگھ بنام محمد افضل میں ہندو فریق کے دعوے کے مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ اس پر کثیرشواہد ہیں کہ یہ عمارت طویل زمانہ سے بطور اسلامی مسجد کے استعمال کی جارہی ہے۔ یہ کہنا ناقابل توجیہ حد تک لغو ہے کہ بہ وقت ضرورت اسے ہند و بھی استعمال کرتے رہے ہیں، اس لیے مع کل اخراجات عدالت ہم اسے (ہندوفریق کے دعوے کو)خارج کرتے ہیں،(جج سراسٹوراٹ چیف جسٹس ہائی کورٹ) اس کی ہندو فریق کی طرف اپیل کرنے پر صادر فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ دیا کہ اپیل مع اخراجات خارج کی جاتی ہے۔
اس فیصلے کے بعد جامع مسجد سنبھل کا معاملہ تقریباً ختم اور سردخانہ میں چلا گیا تھا لیکن تقسیم وطن او رملک آزادی کے بعد پیدا شدہ آشوب حالات میں فرقہ پرست عناصر کی طرف سے فرقہ پرستی کی مہم از سر نو شروع کی گئی، آر ایس ایس او رہندو مہاسبھا نے تحریک آزادی میں اپنے رول سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف ناموں اور عنوانات سے فرقہ واریت کوابھار کر سماج میں اپنی حیثیت او رجگہ بنانے کی مہم کا آغاز کیا، اس سلسلے میں جامع مسجد سنبھل کو ہری ہر او رکلکی اوتار مندر سنبھل میں کلکی اوتار کے ظہور کے نام پر مذہبی جذبات کے استحصال و استعمال کی منصوبہ بندی کی گئی، اس معاملے میں سب سے آسان راستہ، مسلم حکمرانوں خصوصاً مغل حکمرانوں کے خلاف اکثریتی سماج کو مشتعل کرکے لوگوں کو اپنے ساتھ لینا ہے۔ اس میں پوری طرح اپنے منشاء و مقصد کے مطابق تو کامیابی نہیں ملی، تاہم جزوی کامیابیوں کے اثرات بھی ملک پر بڑے دور رس او ربھیانک شکل میں مرتب ہونے کی راہ ہموار ہوگئی، پہلا قابل ذکر بڑا فساد 1924 ہوا تھا، 1948ء سے 1998 ء کے درمیان 1956، 1976، 1980، 1986،1995، 1998 ء میں فسادات ہوئے۔ 1976ء میں تو فرقہ پرست شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر پوجا پاٹ تک کی اور اس کی مخالفت کرنے پر امام مسجد کو شہید کردیا تھا، ان تمام تر شنیع حرکات کے بعد بھی فرقہ پرستوں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں مطلوبہ کامیابی نہیں مل سکی لیکن بابری مسجد، رام جنم بھومی مندر کی سیاست آمیز تحریک سے پیدا شدہ مخصوص حالات میں حقائق و انصاف پر مبنی فیصلے کے بجائے ہندو اکثریت میں بعد کے دنوں میں پیدا کردہ جذبات او رہندو دھرم گرنتھوں سے باہر مفروضہ آستھا پر مبنی فیصلے نے ہندوتو وادیوں کے لئے کئی راستے کھول دیے ہیں، انہوں نے بابری مسجد سے متعلق فیصلے او رکاشی، متھرا، دھار وغیرہم کے سلسلے میں، 1991ء کا عبادت گاہ قانون ہونے کے باوجود قانون کے بر خلاف دعوؤں کے متعلق عدالتی رویے سے حوصلہ و تقویت پاکر اسلامی اور مسلم معابدوماثرپر’قبضہ کرو مہم‘ کا آغاز کردیاہے۔
عبادت گاہ قانون کا مقصد، مندر مسجد تنازعات کو ختم کرناتھا، لیکن 15/ اگست 1947 ء کے کردار کوبدلے بغیر متعلقہ عمارت کی پوزیشن جاننے کی بے معنی اجازت نے معاملے کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ جس طرح گزشتہ کئی دہائیوں او رماضی وحال میں مختلف عدالتوں کے ججز نے کھلے عام، ہندوتو، آر ایس ایس وغیرہ سے نظریاتی وابستگی کااظہار کیاہے، اس کے پیش نظر جامع مسجد سنبھل، جامع مسجد بنارس، دھار مسجد، مزار وغیرہ کے سلسلے میں، ہندوتو وادی فریق کے دعوؤں کو قبول کرنے کے سلسلے میں حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ غیر جانبداری پر مبنی ہے۔ اس میں ہری شنکر جین اور ان کے بیٹے وشنو شنکر جین شامل ہیں۔ وہ پوری طرح آر ایس ایس او ربی جے پی کے عزائم ومقاصد کے مطابق کرتے نظر آتے ہیں، وشنو شنکر جین سے مختلف چینلز ہماری بار بار بحث و گفتگو ہوئی ہے، وہ کسی دعوے کا واضح ثبوت ودلیل دینے کی بجائے اپنے دعوے کو ہی دلیل وثبوت بناکر پیش کرتے ہیں اور کہیں کی باتوں کو کہیں سے جوڑ کر اپنی دلیل بنالیتے ہیں۔ جامع مسجد بنارس گیان واپی کے سلسلے میں انہوں نے ماثر عالمگیر ی کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ وہ اورنگزیب نے کاشی وشو ناتھ مندر توڑ کرمسجد کی تعمیر کی ہے، حالانکہ ماثر عالمگیری میں ایسا بالکل نہیں ہے، اب وشنوشنکر جین نے بابر نامہ کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ بابر نے ہری ہر مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کرائی تھی، مناکشی جین، آچاریہ پرمود کرشنم جیسے کچھ لوگ اس سلسلے میں بابر نامہ کے ساتھ ابوالفضل کی آئین اکبری کا بھی حوالہ دے رہے ہیں، اویسی صاحب کے اس تبصرے کو کہ بابر نامہ وغیرہ جائے بھاڑ میں، کو اپنے رنگ میں پیش کیا جارہاہے کہ بابر نامہ اور آئین اکبری میں ایسا کچھ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جامع مسجد سنبھل مندر توڑ کر بنائی گئی ہے، جب کہ حقیقتاً ’بابر نامہ‘ اور ’آئین اکبری‘ میں مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے، ہم نے بذات خود دونوں کتابیں پڑھی ہیں، پتا نہیں ہندوتو وادیوں کے پاس کس زبان کا کون سا ایڈیشن ہے؟ معروف مؤرخ پروفیسر شری رام شرما او رپٹنہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رہ چکے رام پرشاد کھوسلا وغیرہ، اس کی بہت مضبوطی تردید وتغلیط کرچکے ہیں کہ بابر نے کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر کی ہے، پروفیسر شرما نے اپنی کتاب مغل امپائر (صفحہ،55 مطبوعہ 1945ء) میں لکھا ہے ’ہمیں کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی ہے کہ بابر نے کسی مندر کو توڑا ہے‘۔
جب کہ پروفیسر کھوسلا اپنی کتاب مغل کنگ (مطبوعہ 1934، صفحہ 207)میں لکھا ہے۔’بابر کی تزک (بابر نامہ) میں ہندوؤں کے کسی مندر کے انہدام کا کوئی ذکر نہیں ہے،وہ مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے بری تھا‘۔ اس پر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ میں تحریر شائع ہوچکی ہے،مغلیہ عہد کے لٹریچر میں سنبھل،سرکار سنبھل کے طور پر درج ہے، اس کا شریمد بھگوت مہاپران، بھوشیہ پران، کلکی پران وغیرہ میں درج شنبھل اور سنبھل سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو انتم رشی، کلکی اوتار کی بعثت وظہور کی جگہ ہے۔ ڈاکٹر وید پرکاش اپادھیائے نے اپنی کتاب، کلکی اوتار اور حضرت(محمد صلی اللہ علیہ وسلم) میں بہت مضبوط دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ شنبھل گرام او رکلکی اوتار، مکہ مکرمہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ آچکے ہیں، اس لحاظ سے شنبھل او رکلکی اوتار کا تعلق بھارت سے نہیں ہوسکتا ہے اس لیے کلکی اوتار اور اس کے ظہور کی جگہ ہونے کے نام پر جامع مسجد سنبھل کو ہری ہر مندر کی جگہ قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، اس تناظر میں بات بہت صاف ہے کہ شاہی جامع مسجد سنبھل ایک حقیقت ہے جس کہ اس کی جگہ موجود مندر تو ڑ کر مسجد کی تعمیر او روہاں پر کلکی اوتار ہونے کی باتیں، افسانہ اور مفروضہ کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔
2دسمبر،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/jama-masjid-sambhal-reality-myth/d/133925
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism