سید منصور آغا
15 نومبر ، 2012
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے
فاضل جج حسنین مسعودی نےاپیل محمد نسیم بھٹ بنام بلقیس اختر میں نصوص شرعیہ کے حوالے
سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا جو اختیار اس کے شوہر کو
دیا ہے وہ ‘مطلق’ (absolute) نہیں ہے۔ اپنے فیصلے کے آغاز میں لائق جج نے اسلام میں عقد نکاح
کی حقیقت بیان کی ہے اور پھر طلاق کے طریقوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ طلاق احسن
ہی وہ طریقہ ہے جس کو قرآن نے سند جواز approval حاصل ہے۔ طلاق احسن اور حسن دونوں رجعی ہیں ۔ ان
میں یہ گنجائش رہتی ہے کہ ایک مقررہ مدت میں مرد اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلے اور چاہے
تو بیوی سے رجوع کرلے تاکہ خاندان ٹوٹنے سے بچا رہے ۔ یہ ذکر پہلی قسط میں آچکا ہے
۔ اس کے بعد جسٹس حسنین مسعودی نے ان شرائط کا احاطہ کیا ہے جن کی پابندی قرآن اور
سنت کی روسے کی جانی چاہئے ۔ لکھتے ہیں :
طلاق غیر رجعی کی صورت میں
، جس میں شوہر دو مرتبہ یعنی لگاتار دو طہر کے دوران طلاق دیتا ہے اور اس کے بعد بیوی
کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے یا تیسری مرتبہ طلاق دےدیتا ہے یعنی تین طلاق دیتا
ہے یا طلاق کا کوئی اور طریقہ اختیار کر کے طلاق غیر رجعی نافذ کرنے کا عندیہ ظاہر
کرتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا ۔قرآن پاک سورۂ
البقرہ کی آیت 230 میں کہتا ہے : ‘‘ اگر (دوبار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو
تیسری بار) طلاق دے دی تو پھر وہ اس کیلئے حلال نہ ہوگی، الایہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے
شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے ۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں
کہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدود پر قائم رہیں گے تو ان کیلئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر
لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ’’ ۔ طلاق احسن کی صورت میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ، لیکن
کیونکہ طلاق بدعی کا طریقہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، بحث اسی طریقہ ٔ طلاق تک محدود
رہے گی۔
اگرچہ اسلام اس امکان کونظر
میں رکھتا ہے کہ زوجین کے درمیان نا قابل عبور وجوہ سے کوئی ایسی صورت پیدا ہوسکتی
ہے جس میں رشتۂ مناکحت خطرے میں پڑ جائے ، چنانچہ وہ ایسی ناگزیر صورت میں فسخ نکاح
کیلئے ایک متعین طریقۂ کار تجویز کرتا ہے لیکن اس میں بھی شادی کو بچانے کی ہر ممکن
تدبیر پر زور دیتا ہے ۔ چنانچہ اسلام چاہتا ہے کہ فریقین یہ سمجھیں کہ شادی کا تانا
بانا باہم انس و محبت ، وفا شعاری ، فکر مندی
، باہم سمجھ بوجھ اور رعایت پر قائم ہے اور اختلافات کو انہی اصولوں کے تحت دور کیا
جانا چاہئے ۔ طلاق کا راستہ صرف اسی صورت میں اختیار کیا جانا چاہئے جب تعلق اس حد
تک ٹوٹ گیا ہو کہ کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہ ہو اور صورت یہ پیدا ہوگئی ہو کہ فریقین
اور معاشرے کے مفاد میں یہی ہوکہ ان میں علٰیحدگی کرادی جائے تاکہ وہ دونوں نئی زندگی
شروع کرسکیں ۔ اس میں بھی فریقین ، خاندان اور سماج کا بھلا ہی پیش نظر ہے ۔ دوسرے
لفظوں میں اسلام اس وقت تک طلاق کے سخت خلاف ہے جب تک علٰیحدگی کے سوا کوئی چارۂ کار
باقی نہ رہا ہو۔
طلاق سے متعلق قرآن کے احکامات اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
مطالعہ سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی شریعت میں طلاق کی حوصلہ شکنی کی گئی
ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ شوہر کے طلاق دینے کے عمل کو مشکل اور طویل بنایا جائے
دوسری طرف فریقین کے درمیان شکوے و شکایات کو دور کرنے اور ان میں صلح صفائی کی ہر
ممکن تدبیر اختیار کی گئی ہے۔ سورۂ الطلاق (65) کی آیت ایک اور دو میں (جن کا ذکر
بعد میں آئے گا) طلاق پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور یہ یقینی بنایا گیا ہے
کہ ایسی صورت پیدا کی جائے جس سے میاں اور بیوی کےدرمیان ہموار پیدا ہوسکے ۔ چنانچہ
(ایک یا دو) طلاق کے باوجود بیوی کو اسی گھر میں رہنا ہے ۔ شوہر کو حکم دیا گیا ہے
کہ اس کو گھر سے نہ نکالا جائے تاکہ وہ شوہر کے سامنے رہے کہ ممکن ہے اس کو رغبت پیدا
ہو اور وہ اپنے فیصلے پر مکر ر غور کر کے بیوی سے رجوع کرلے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘‘جبرئیل علیہ السلام’’ نے بیوی کے اتنے حقوق مجھے بتائے اور اس
حد تک تلقین کی کہ میں یہ سمجھا ہوں بجز زانیہ بیوی کو طلاق نہ دی جائے ’’۔ امام جعفر
صادق رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے نزدیک اس گھر سے اچھا کوئی گھر نہیں جس میں
زوجین میں اتفاق و محبت ہو اور اس سے بد تر کوئی گھر نہیں جس پر اللہ کا غضب نازل ہو
جس میں عقد نکاح کو طلاق سے کاٹ دیا جائے ’’۔امام صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘‘ قرآن میں طلاق کا ذکر کئی جگہ آیا ہے اور یہ
کہ طلاق کی تفصیلات کے بیان کے اس قدر اہتمام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر قرآن
پاک میں کتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ طلاق کا دشمن ہے ’’۔ ‘‘ المکار
م الاخلاق’’ میں طبرسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے ‘‘نکاح کرو مگر طلاق مت
دو، طلاق سے عرش الہٰی کا نپ اٹھتا ہے ’’۔ ابوداؤد ، کتاب السنہ میں ایک دوسری حدیث
میں منقول ہے ‘‘ حلا ل چیز وں میں اللہ کی نظر میں طلاق سے زیادہ نا پسندیدہ کوئی چیز
نہیں ’’ اور حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘‘جو شخص بار بار طلاق دیتا
ہے وہ اللہ کی نظر میں دشمن ہے ’’ ۔جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے لکھا ہے ‘‘جہاں تک ہوسکے طلاق سے بچو، طلاق میری نظر
میں سب سے نا پسندیدہ عمل ہے ۔’’
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ اُم ایوب
کو طلاق دینے کا ارادہ کر چکے ہیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ طلاق
کی کوئی معقول وجہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘بیشک اُم ایوب کی طلاق
ایک بڑا گناہ ہے ۔’’ چنانچہ طلاق دینے کے حق یا اختیار کا استعمال بلا جواز حقیقی یونہی
غصہ میں یا من چاہے نہیں ہونا چاہئے ۔ مسلم شادی اور طلاق اور خاندانی معاملات سے متعلق
شرعی ماخذ ات، قرآن اور سنت کے اس سرسری مطالعہ سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ شریعت نے شوہر
کو طلاق کا حق تو دیا ہے مگر یہ حق قطعی ، بلا جواز اور غیر مشروط نہیں ہے۔ اس نظریہ
کی مزید توثیق سورۂ نساء کی آیت 35 سے ہوتی ہے ۔ ‘‘ اور اگر تم لوگوں کوکہیں میاں
اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہوتو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور
ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کردو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان
کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے ۔’’ (
35:4)
چنانچہ قرآن حکم دیتا ہے
کہ جب بھی زوجین کے درمیان غصہ ، گرمی یا نا چاقی ہوتو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ مرد
طلاق کا حق استعمال کر کے شادی کے اس بندھن کو توڑ ڈالے جس میں کچھ ناہموار ی پیدا
ہوگئی ہے ۔ اس تنازعہ کے حل کا پہلا قدم قرآن یہ بتاتا ہے کہ ایک حکم شوہر کے خاندان
سے اور دوسرا بیوی کے خاندان سے مقرر کیا جائے اور ان کو اتنی مہلت دی جائے کہ وہ تنازعہ
کے حل کی ہر ممکن کوشش کرسکیں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ دیں گے اس کو دونوں فریق قبول
کریں گے۔ یہ اہم بات قابل غور ہے کہ قرآن نے ‘حَکَم ، (arbiter) کا لفظ استعمال کیا
ہے، ثالث (mediator) کا نہیں ۔ چنانچہ ان کو محض ثالثی ہی نہیں کرنی ہے بلکہ تنازعہ کو
حل کرنے کیلئے بصورت منصف حُکم بھی صادر کرنا ہے اور یہ امید کی گئی ہے کہ فریقین ان
کے حکم پر عمل کریں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ حَکَم کی تقرری کے حکم کےساتھ (اگلی آیت
میں ) ہی قرآن نے یاد دلادیا ہے ‘‘اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار
میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرتا ہو’’ (النساء :36) یہ اس بات کی تلقین ہے
کہ فریقین سرکشی اور خود سری اختیار نہ کریں اور اس فیصلے یا مشورے پر عمل کریں جو
حکم دیں۔ (مغروریت اور تکبر کی روش پر اس اظہار نا پسند یدگی کے ساتھ اسی آیت مبارکہ
(63) کے ابتدائی حصہ میں یہ حکیمانہ نصیحت بھی فرمائی گئی ہے : ‘‘ اللہ کا کہا مانو،
اس کے (حکم کے ) ساتھ کسی اور (کے حکم کو ) شریک نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ بھلا برتاؤ
کرو، قرابت داروں اور یتیموں او رمسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور پڑوسی رشتہ دار
، اجنبی ، ہمسایہ سے ، پہلو کے ساتھی سے اور مسافر سے، ان عورتوں مردوں سے جو تمہارے
قبضے میں ہیں احسان کامعاملہ رکھو ۔’’ اس تلقین کی روشنی میں جو عورت نکاح میں آئی
اور جس نے برضاور غبت خود کو مرد کے حوالے کیا، بدر جہا حسن سلوک کی حقدار ہے ۔ مترجم)
قرآن حکم دیتا ہے : ‘‘ اے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی مدت کیلئے طلاق
دیا کرو اور عدت کے زمانے کو ٹھیک سے شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے (زمانۂ
عدت میں )نہ تم ان کو گھر وں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ، الایہ کہ وہ کسی صریح
برائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے
تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ (موافقت
کی )کوئی صورت پیدا کرے پھر جب وہ اپنی (عدت کی ) مدّت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا تو
انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں ) روکے رکھو یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو جاؤ
اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں اور گواہی ٹھیک ٹھیک
اللہ کیلئے ادا کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ہر اس شخص کو
جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا، اللہ
اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق (سامان
زندگی، آسائش) دے گا، جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔(65: 1,2)
سورۂ طلاق کی یہ ابتدائی
آیات طلاق کے اختیار پر کچھ پابندیاں عائد کرتی ہیں۔ ان آیات کے بموجب مرد کے پاس
طلاق کی معقول وجہ ہونی چاہئے ۔ مقررہ مدت (طہر) میں ہی طلاق دینی ہے اور اس کا اعلان
ایام ماہواری کے بعد قبل اس کے کہ اس سے ہم بستر ہوا ہو، کیا جائے گا۔ اگر اس مدت طہر
میں ہم بستری ہوگئی تو مرد کوطلاق کیلئے عورت کی آئندہ ماہواری سے فراغت کا انتظار
کرنا ہوگا۔ ایک شرط یہ ہے کہ طلاق دو انصاف پسند خدا ترس گواہوں کی موجودگی میں دی
جائے گی ۔ قرآن اور سنت نے جو طریقہ مقرر
کردیا ہے، اس سے تجاوز یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ طلاق احسن ہے۔ سورۂ طلاق
کی محولہ بالا آیات میں اور قرآن اور سنت
میں جہاں کہیں بھی طلاق کاذکر ہے، وہ طلاق احسن ہی ہے ۔ اس رائے پر پہنچنے کی کوئی
وجہ نہیں ہے کہ طلاق کے سب سے زیادہ منظور شدہ (approved) طریقۂ کار میں مذکور
شرائط کو طلاق کی انتہائی ناپسندیدہ او رمذموم طلاق بدعی پر نافذ نہیں کیا جانا چاہئے
۔ اس رائے کے برخلاف طلاق بدعی پر شرائط مذکورہ بالا کا سختی سے نفاذ مطلوب ہے ۔ اس
کے بعد جسٹس مسعودی نے طلاق کیلئے تمام شرائط کو متعین طور سے گنوادیا ہے اور صد ر
اول کے چند واقعات سے استدلال کر کے ان شرائط کو قانونی شکل دی ہے جن کو پورا کرنا
معزز عدالت کی رائے سے طلاق کے قابل قبول ہونے کیلئے ضروری ہے۔ اگر یہ اصرار کیا جاتا
ہے کہ ان شرائط کو بالائے طاق رکھ کر طلاق کا فیصلہ کیا جائے تو یہ قرآن اور سنت کی
روح سے میل نہیں کھاتا ۔) اس حصے کا احاطہ مختصر تبصرے کے ساتھ اگلی قسط میں کیا جائے
گا جس پر یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا(
15 نومبر ، 2012 بشکریہ : روز
نامہ صحافت ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/j-k-high-court-right/d/9326