New Age Islam
Wed Mar 26 2025, 12:29 AM

Urdu Section ( 8 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Istanbul: The Bastion of Spiritual Mystics استنبول: تصوف اور صوفیاء کا مرکز

مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 3 جون 2023

 نام کتاب: لستم پوخ: روحانیوں کے عالمی پایہ تخت استنبول میں گیارہ دن

 مصنف: راشد شاز

 ناشر: ملی پبلیکیشنز، نئی دہلی، انڈیا

 صفحات: 232، قیمت: 250 روپے

 ------

 تصوف کو بحثیت اسلام کی ایک شاخ کے 9/11 کے شدید حملوں کے بعد زیادہ اہمیت حاصل ہوئی۔ جیسے جیسے اسلام مسلسل محاصرے میں رہا اور مسلمانوں کے خلاف حملے زیادہ شدید اور پرتشدد ہوتے گئے، اسلام کو دوبارہ دریافت کرنے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ چنانچہ مغرب نے تصوف کی اسلام کے متوازی نظام کے طور پر حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔ تصوف کے بارے میں اس پورے بیانیے کی بنیاد، اس کے غیر متشدد، تکثیریت پسند اور امن پسندی جیسی خصوصیات پر رکھی گئی تھی۔ کوئی بھی شخص تصوف کو اپنا سکتا ہے اور مذہب کو تبدیل کیے بغیر خود کو صوفی قرار دے سکتا ہے۔ تصوف میں دلچسپی بڑھ رہی تھی، اور اس کے حامیوں مثلاً مولانا جلال الدین رومی کی تخلیقات کا مختلف زبانوں خصوصاً انگریزی میں ترجمہ ہونے لگا ہے۔ ان کی تخلیقات کو اسلام سے الگ کر کے اس طرح پیش کیا گیا جیسے وہ مذہبی طور پر سیکولر ہوں۔ تصوف کے ان نئے نظریہ کاروں کو تصوف کے فلسفے، اس کے اسلامی نظریات اور تصوف کے مختلف مکاتب فکر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے لیے، تصوف ایک یکجہتی نظریہ ہے اور اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو متشدد اسلام کے خلاف ہے۔ تاہم، حقیقت میں تصوف اسلام ہے، اس کے خلاف کوئی چیز نہیں۔ اسے اسلام سے الگ نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ اس سے جڑے بہت سے معمولات دوسرے مذہبی اور مقامی سیاق و سباق سے مستعار لیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ تصوف مکمل طور پر امن پسند نہیں ہے، ایسے بے شمار صوفی ہیں جو کافی متشدد تھے اور مختلف مقاصد کے لیے تشدد کا استعمال کرتے تھے۔ بہت سے معاملات میں، تصوف نے فرقوں کی شکل اختیار کر لی ہے، جہاں بہت سے رسومات اور معمولات اسلام کے برعکس ہیں۔

 تصوف کی پیچیدگیوں اور باریکیوں کو سمجھنے کے لیے متعدد علمی تحقیقات کیے گئے ہیں اور بہت سے علماء نے اپنی زندگی تصوف کے مطالعہ کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ اس علمی تحقیقات کا دائرہ کافی وسیع ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو تصوف کے علمی دلائل تک رسائی یا دلچسپی ہے۔ بڑے پیمانے پر استعمال کے لیے تصوف پر لکھی گئی کتابیں ان صوفی بزرگوں کی ناقص تحریر کردہ خاکے تذکرے ہیں جن میں انہیں روحانی انسانوں کے طور پر پیش کرنے کے بجائے ان کے معجزات، غیر معمولی خصوصیات اور عظیم غیر فطری کارناموں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس قسم کی تحریریں ان شخصیات کے تئیں عقیدت ان کی جعلی عظمت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں، جبکہ یہ لوگوں کو اچھی زندگی گزارنے کی ترغیب دینے میں ناکام رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کے اذہان پر یہ اثر مرتب ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جیسے انسان نہیں تھے، بلکہ انہیں خاص روحانی طاقتیں حاصل تھیں، لہٰذا، ان کے معمولات کی تقلید نہیں کی جا سکتی، اس لیے ہمارے لیے صرف ان کی تعظیم اور تکریم کرنا ہے۔

 راشد شاز نے، ایک اسلامی اسکالر اور مصلح کی حیثیت سے، جو قارئین کو اسلام کے بارے میں ماضی کی ہر روایت کو چیلنج کرنے کی دعوت دیتے ہیں، ایک سفر نامہ کے طور پر لکھی گئی اپنی اس تصنیف میں ادارہ جاتی تصوف کے خلاف سخت حملے کیے ہیں، جو کہ مسلمانوں میں رائج ہے۔ وہ تصوف کو اسلام کے ایک متوازی نظام کے طور پر بیان کرتے ہیں جسے زیادہ تر اسماعیلی شیعوں کے ایک گروہ نے قائم رکھا ہے۔ وہ صدیوں سے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ راشد شاز کی تصوف سے متعلق اس علمی اور فکری سرمایہ سے یہی کچھ اخذ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ سفر نامہ، استنبول کا ایک سفر ہے، جس میں شاز کے مطابق، ایک خفیہ عالمی صوفی کانفرنس منعقد ہوتی ہے اور پوری دنیا کے صوفی اپنے مستقبل کے ایجنڈے کو تیار کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

 تصوف کا ایک اہم نظریہ امام مہدی کے خوابوں اور آمد پر منحصر ہے، جو غالب بیانیہ کے مطابق اسلام کو ایک بار پھر فتح دلائیں گے۔ مہدی کی یہ کہانی مسلمانوں میں خاص طور پر شیعوں میں اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ وہ آج بھی ان کے منتظر ہیں۔ اگر امام خمینی کا اجتہاد نہ ہوتا تو شیعہ آج بھی اسلام کے نام پر کسی بھی ریاست کے قیام کے منتظر رہتے۔ امام خمینی نے یہ اعلان کیا کہ میں نے امام مہدی کے مددگار کا عہدہ سنبھال لیا ہے، اس لیے ان کی آمد تک ہم اور ہمارے بعد کے دیگر تمام لوگ اسلام کو تمام مذاہب اور اہل سنت پر فتح دلانے کے لیے مؤثر طریقے سے کام کتے رہیں گے۔ امام مہدی کے بارے میں اس نظریہ کو اگرچہ علامہ شبیر اظہر میرٹھی اور جاوید احمد غامدی جیسے بہت سے علماء نے مسترد کیا ہے، لیکن سنی مسلم دنیا میں اس کے بہت سے ماننے والے اب بھی ہیں۔ بہت سے شیعہ فرقوں کے لیے بھی سوائے اثناء عشریہ کے، امام مہدی یا پوشیدہ امام (امام غائب) جیسی کوئی بات نہیں ہے۔

ایک نامور مصنف اور معروف عالم دین ہارون یحییٰ کو علوم معادیات اور مہدی میں کافی دلچسپی تھی۔ ترکی میں مقیم، انہوں نے مہدی کی ایک دہائی کے اندر ظہور کی پیشین گوئی بھی کی۔ لیکن ایک عشرہ گزرنے کے بعد بھی مہدی نہیں ظاہر ہوئے بلکہ اب وہ مختلف الزامات کے تحت جیل میں بند ہے۔ سعید نورسی کے لیے بھی مہدی کی شخصیت اتنی پرکشش ہے کہ انہوں نے بیان دیا کہ وہ اپنے ظہور کے بعد تین کام انجام دیں گے (ص-53)۔ راشد شاز کے مطابق عربی شاونزم کو حقیقی اسلام کی راہ ہموار کرنی چاہیے کیونکہ صرف ایک تہذیب اسلام کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ ترک قوم پرستی کا بھی یہی حال ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی قیادت نہیں کر سکتی۔ نیز، راشد شاز سیّدیت پر یقین نہیں رکھتے، اور یہ کہہ کر اس کی تردید کرتے ہیں کہ کوئی سید نہیں ہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا نہیں تھا (ص-57)۔ تصوف میں سید ہونے پر بہت زور دیا گیا ہے، اس لیے زیادہ تر صوفی سلسلوں کی بنیاد سیدوں نے رکھی ہے۔ نقشبندی صوفیوں کے کے نزدیک یہ ہے کہ مہدی ان کے سلسلے میں آئیں گے۔ اس کے بعد شاہ ولی اللہ دہلوی، شیخ عبدالقادر جیلانی اور دیگر صوفی علماء کی طرف بہت بڑا انتساب کیا گیا ہے (ص-141)۔

 تصوف کے مختلف مراحل ہیں، لیکن اس کی اصل اصطلاح کو صوفیوں نے فراموشی کر دیا ہے (ص-171)۔ تصوف سے وابستہ اہم درسی کتابیں ان من گھڑت کہانیوں سے بچ نہیں سکیں جو ہمیں تبلیغی جماعت کی اہم کتابوں مثلاً فضائل اعمال میں بھی مل سکتی ہیں۔ لہذا، ان میں ہمیں اولیاء سے منسوب مختلف کرامات کے تذکرے ملتے ہیں (ص-195)۔ اس سلسلے میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح مختلف رنگوں کو مختلف فرقوں سے منسوب کر دیا گیا ہے، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اب مختلف فرقوں اور صوفی سلسلوں کے مختلف رنگ ہیں (P-180)۔ رنگوں کی یہ تقسیم کافی مزاحیہ ہے، لیکن فرقہ واریت یوں ہی اپنا کام کرتی ہے۔

 لستم پوخ بظاہر بہت منفرد معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ وہ علاقہ ہے جہاں چالیس سال بعد صوفی ملتے ہیں۔ اب انہوں نے این جی او، رضاکارانہ شعبے اور فلاحی منصوبوں کے ذریعے گھسنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اب خفیہ طور پر مسلمانوں اور اسلام کے درمیان سیدیت (سادات) کو تقویت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ اب عوام زیادہ باشعور ہیں اور انہیں دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ مسلمانوں میں ذات پات کی جڑیں گہری ہیں اور اس کو مفاد پرست سیاست میں استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں میں مزید اختلافات پیدا کی جا سکیں۔

 یہ سفر نامہ صوفیوں اور ان کے خفیہ مذموم عزائم کے بارے میں ایک چشم کشا ہے جسے وہ اسلام کے نام پر فروغ دیتے رہے ہیں۔ اسے ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جو سمجھنا چاہتا ہے کہ حقیقی اسلام میں کیا غلط ہوا ہے۔ لیکن راشد شاز، صوفیاء کی خدمات کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر چیز کو استدلال اور وحی کی روشنی میں ڈھونڈنا اور سمجھنا چاہتے ہیں، جس سے قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آیا ان پر معتزلہ کا رنگ غالب ہے۔ سفر نامہ کے طور پر لکھی گئی یہ کتاب اسلام اور تصوف کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے جسے ہم میں سے اکثر نظر انداز کرتے ہیں یا اس کے ماخذ کے بارے میں کبھی غور نہیں کرتے۔ یہ کتاب انگریزی اور دنیا کی دوسری بڑی زبانوں میں ترجمہ کیے جانے کے لائق ہے، تاکہ ایک نیا بیانیہ اور گفتگو سامنے آئے جس کی تنقیدی زاویے سے جانچ اور پرکھ کی جا سکے۔

 English Article: Istanbul: The Bastion of Spiritual Mystics

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/istanbul-bastion-spiritual-mystics/d/129945

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..