نصیر احمد، نیو ایج اسلام
18 جون 2025
آپریشن رائزنگ لائین کے پیچھے سامراجی بیانیہ
-----
مغربی میڈیا اور سیاسی اشرافیہ ایک گمراہ کن بیانیہ کو مسلسل فروغ دے رہے ہیں: کہ ایران کا رویہ جارحانہ ہے، اسرائیل صرف اپنا دفاع کر رہا ہے، اور سفارت کاری ہی سب سے مضبوط راستہ ہے۔ لیکن 12 جون 2025 کو شروع ہونے والی جھڑپ ایک الگ ہی داستان بیان کرتی ہے۔ یہ سامراجی پروپیگنڈے کی ایک مہم کا پردہ فاش کرتی ہے، جس کا مقصد جنگی جرائم کو جواز فراہم کرنا، سفارت کاری کو ناکام بنانا اور امریکی اسرائیلی جارحیت کو جوابدہی سے بچانا ہے۔
جنگ جو اسرائیل نے شروع کی
12 جون کو اسرائیل نے ایران کی فوجی اور جوہری تنصیبات پر ایک بڑا فضائی حملہ کیا، جس میں تہران، نطنز اور اہم میزائل ڈپو جیسے مقامات شامل ہیں۔ اس میں درجنوں سینئر ایرانی کمانڈر اور چھ ایٹمی سائنسدان مارے گئے۔ یہ مہم، جسے آپریشن رائزنگ لائن کا نام دیا گیا تھا، نہ تو دفاعی تھا اور نہ ہی پیشگی منصوبہ بند- یہ جان بوجھ کر جنگ کے شعلے بھڑکانے والا ایک عمل تھا۔
اس وقت، ایران جوہری سفارت کاری میں ایک بڑی پیش رفت کی تیاری کر رہا تھا۔ امریکی ایلچی سٹیو وٹ کوف 14 جون کو عمان میں ایرانی مذاکرات کاروں سے ملاقات کرنے والے تھے، اور بیک چینل بات چیت سے نئے مذاکرات کی امید جگی تھی۔
تبھی اسرائیلی حملوں نے ان تمام اقدامات پر پانی پھیر دیا — اور اس سے بھی بدتر یہ کہ ایک ایرانی مذاکرات کار کو اسرائیلی کارندوں نے قتل کر دیا۔ اس حملے کا مقصد جنگ روکنا نہیں تھا۔ بلکہ اس کا مقصد قیام امن کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی راہیں مسدود کرنا تھا۔
"رائزنگ لائن": فوجی مہم یا شاہی بغاوت؟
اسرائیل نے اس حملے کو ایک ضروری پیشگی اقدام قرار دیا ہے۔ لیکن اس نے اپنے اس آپریشن کو جو نام دیا یے اس سے ایک الگ ہی کہانی معلوم ہوتی ہے۔
فقرہ رائزنگ لائین شاہی علامت پر مبنی ہے۔ شیر اور سورج کا نشان پہلوی خاندان کے تحت 1925 سے 1979 تک ایران کے قومی پرچم کی زینت بنا رہا۔ آج یہ معزول شاہ کے بیٹے رضا پہلوی کی علامت بنا ہوا ہے، جو موجودہ ایرانی سلطنت کے خلاف سب سے بڑے لیڈر ہیں۔
یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ اس نام سے آپریشن کے پیچھے ایک وسیع تر ایجنڈے کا پتہ چلتا ہے: نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا، بلکہ اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا اور مغرب کی حامی بادشاہت کی راہ ہموار کرنا۔
ایک الگ نام سے بغاوت
اسرائیلی حکام اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ان کا مقصد حکومت کی تبدیلی ہے۔ پھر بھی حقائق کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں۔ IRGC کے سینئر افسران، جوہری سائنسدانوں، اور ایران کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن کا قتل کیا جانا—اور ساتھ ہی ساتھ ایرانی بغاوتوں کی حوصلہ افزائی کرنا—ان سب باتوں سے ایک وسیع تر حکمت عملی کی طرف اشارہ ملتا ہے، جس کا مقصد عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔
یہ انفراسٹرکچر پر سرجیکل اسٹرائیک نہیں تھا۔ یہ ایک پراکسی پر مبنی بغاوت تھی، جسے فوجی انداز میں انجام دیا گیا اور جسے مغربی پریس نے صاف کیا۔
جنگ کے لیے ایک ڈھال کے طور پر سفارت کاری
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ سفارت کاری کو بطور حیلہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ بمباری شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل، امریکی سفارت کاروں نے پیش رفت کا اشارہ دیا تھا۔ لیکن جس لمحے سفارت کاری کا پھل حاصل ہونے ہی والا تھا، اسرائیل نے حملہ کر دیا۔
یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے - بلکہ اس سے ایک سنگین نمونے کی نشاندہی ہوتی ہے:
1. جب امن مذاکرات شروع ہوتے ہیں یا ان کا وقوع قریب نظر آتا ہے۔
2. اسرائیل حملہ کرتا ہے، جسے اکثر امریکہ کی خاموش یا اعلانیہ حمایت حمایت حاصل ہوتی ہے۔
3. مغربی میڈیا بیانیہ کو الٹ دیتا ہے: ایران نے پہلے حملہ کیا۔
4. امریکہ اسرائیل کو سفارتی ڈھال پیش کرتا ہے، ایران پر پابندیاں لگاتا ہے، اور پھر صورت حال بدل دی جاتی ہے۔
اب تو مذاکرات کار کے قتل کو بھی معمولی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مضمرات جھنجھوڑنے والے ہیں: یعنی امن بذات خود ایک خطرہ ہے، اور جو لوگ اس کی کوشش کرتے ہیں، موت ان کا انتظار کر رہی ہے۔
مسخ شدہ قانونی بیانیے
اپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لیے، اسرائیل "پری ایمپٹیو سیلف ڈیفنس" کا سہارا لیتا ہے - جو کہ ایک ایسا جملہ ہے، جو اس وقت قانونی معنویت سے خالی ہو جاتا ہے، جب کوئی خطرہ موجود نہ ہو۔
ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کا دستخط کنندہ ہے، اور اس نے IAEA کے ساتھ تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔ اس بات کا بھی کوئی مستند ثبوت نہیں ہے، کہ ایران حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس صورت میں اسرائیل کے حملوں کا کوئی قانونی جواز بنتا ہی نہیں ہے۔
اس کے باوجود عالمِ مغرب میں بہت سے لوگوں نے، بشمول امریکی کانگریس کے، اسرائیل کے اقدامات کو "ضروری" قرار دیا، اور ساتھ ہی اس میں امریکہ کے عمل دخل سے انکار بھی کیا - جبکہ انٹیلی جنس شیئرنگ میں پینٹاگون ٹیکنالوجی اور موساد-سی آئی اے کے درمیان تعاون کے تار واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔
ایران کا صبر و تحمل
ایران کا ردعمل بڑا نپا تُلا تھا: اسرائیلی فوجی اہداف پر ایک محدود میزائل حملہ، جس میں شہری علاقوں سے بچنے کی پوری کوشش کی گئی۔ شاید ہی کوئی مغربی ملک، اس طرح کے اچانک حملے اور سفارت کاروں کے قتل کے بعد، اس طرح کے تحمل کا مظاہرہ کرے گا۔
پھر بھی حسب توقع، مغربی ممالک نے ایک بار پھر ایران کو جارح قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔
امپیریل پیٹرن کا اعادہ
12 جون کو جو ہوا وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ سامراجی تخریب کاری کی ایک طویل حکمت عملی کا حصہ ہے:
• اس سے پہلے کہ امن کی بنیاد مضبوط ہو اسے کمزور کر دیا جائے۔
• ساکھ کو ختم کرنا — لفظی اور سیاسی طور پر۔
• جوابی کارروائی کو جارحیت کے طور پر پیش کرنا۔
• قانون کو ایک منتخب انداز میں استعمال کرنا — اسے دوستوں کے لیے ہتھیار بنانا، اور دشمنوں کے معاملے میں اسے نظر انداز کرنا۔
جوابدہی، پروپیگنڈہ نہیں
اسرائیل-ایران کی تازہ ترین کشیدگی نہ تو پیشگی منصوبہ بند تھی، اور نہ ہی اس کا کوئی جواز بنتا ہے۔ یہ ایک جنونی اقدام تھا، جس کی زبان تو تحفظ اور سیکورٹی کی تھی، لیکن اس کا مقصد سفارت کاری کو تباہ کرنا اور حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ان جھوٹے بیانیوں کو مسترد کیا جائے، جن میں مطلق العنانیت کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، اور امن کی بنیاد کمزور کی جاتی ہے۔ یعنی:
• ثبوت کے بغیر "اپنے دفاع" کے دعووں کو مسترد کر دیا جائے۔
• ٹارگٹ کلنگ اور غیر قانونی حملوں کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
• امریکی مداخلت کا خاتمہ—فوجی، مالی، اور سفارتی سطح پر۔
• ایران کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، نپا تلا ردعمل، اور سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔
جب تک مغربی میڈیا اور حکومتیں جنگ کی آگ بھڑکانے میں اپنے کردار کو نہیں تسلیم کرتیں، یہ دنیا جارحیت کو تحفظ اور پروپیگنڈے کو سچائی سمجھتی رہے گی۔
----
English Article: Israel’s War, Western Deception, and Iran’s Restraint
URL: https://newageislam.com/urdu-section/israel-war-western-deception-iran-restraint/d/135925
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism