New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 01:49 PM

Urdu Section ( 4 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Israel, Palestine And The Future Of Peace Process اسرائیل، فلسطین اور قیام امن کا مستقبل

 مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 24 جولائی 2023

 نام کتاب: From Camp David to Cast Lead: Essays on Israel, Palestine and the future of Peace Process

 ایڈیٹر: دانش فاروقی

 مطبوعہ: لیکسنگٹن بوکس، میری لینڈ

 ص: 173 .آئی ایس بی این: 9870739144565

 -------

 فلسطین کا مسئلہ 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی غیر منصفانہ تخلیق کے بعد سے ایک حل طلب اور دائمی تنازعہ کے طور پر اقوام متحدہ کی ترجیحی فہرست میں ہے، اس دن کو فلسطینی آج بھی نکبہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کے بعد سے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں اور ہمسایہ ممالک پر کئی جنگیں مسلط کی جا چکی ہیں، جن میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں، سینکڑوں معذور ہو چکے ہیں اور اربوں کی املاک تباہ ہو چکی ہیں۔ اسرائیل غیر قانونی طور پر ان جنگوں کو دشمن عرب ممالک کے درمیان اپنی بقا کی جنگ قرار دیتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد اسرائیل کو سپر طاقتوں سے جو غیر مشروط اور بے لگام حمایت ملتی رہی ہے اس سے اسے مزید جارحیت کرنے کا حوصلہ ملا ہے اور اس پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی چیخ و پکار، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور ہر دوسرے دن ہونے والی عجیب و غریب مذمت کے باوجود، اسرائیل پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ڈالا جا سکا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اپنے مظالم میں تھوڑی سی بھی نرمی پیدا کرے۔

 زیر نظر کتاب اسرائیل فلسطین تنازعہ پر مختلف مضامین کا مجموعہ ہے،ںاور اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ امن کو اب بھی کیوں خطرہ ہے، اور مفاہمت کی کوششیں تشدد میں کوئی کمی نہیں لا رہی ہیں، خاص طور پر گزشتہ ایک دہائی کے دوران، جیسا کہ کتاب کے نام سے پتہ چلتا ہے، the failed negotiations of Camp David(2000) to the Operation Cast Lead(2008-09) جس کی ایک نوجوان اسکالر دانش فاروقی نے ایڈٹنگ کی ہے، جنہوں نے اس مجموعے کے اندر اپنے مضبوط تعارف میں لکھا ہے کہ "اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے اشتراک سے ایک دو قومی ریاست کا تصور، پہلے عوامی بیانیے میں توہین آمیز سمجھا جاتا ہے، اب اس میں لوگوں کی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ کتاب کے مقصد کو مزید بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس کا مقصد اس تنازعہ کے حوالے سے روایتی بیانیے کی ان حدود کو پر روشنی ڈالنا ہے جسے پچھلی دہائی کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات نے بے دھڑلے سے ظاہر کیا ہے‘‘۔ کتاب کے اندر اس مقصد کی عکاسی بخوبی ہوتی ہے کیونکہ ہر مضمون اسی کی گواہی دیتا ہے۔

 یہ کتاب چار جلدوں میں تقسیم کی گئی ہے اور پہلے حصے کا آغاز تین ابواب پر مشتمل ہے۔ ہنری پیکٹر نے اپنے مقالے "Who are the Palestinians? فلسطینی کون ہیں؟" فلسطینیوں کی تاریخ، اسرائیل کے قیام کے بعد سے ان کی اذیت اور کیسے وہ اپنی ہی سرزمین میں پناہ گزین بن گئے اور ساتھ ہی ساتھ ایک انوکھے حل کی طرف اشارہ کیا ہے، "یروشلم کا حل بڑی طاقتوں کو مسلط کرنا پڑے گا۔ اس پر متعلقہ فریقوں کے درمیان بات چیت نہیں ہو سکتی۔ جب تک وہ اس کے بارے میں گفت و شنید کا ڈرامہ کرتے رہیں گے، وہ یہ اشارہ کرتے رہیں گے کہ ہمارا مقصد امن قائم کرنا نہیں ہے۔" (ص-17)، لیکن سب سے بڑا سوال یک کہ کیا مسلط کردہ حل کا اسرائیل اور فلسطین دونوں احترام کریں گے اور کون اس بات کی گارنٹی دے سکتا ہے کہ مسلط کردہ حل کا اگر احترام کر بھی لیا جائے تو تشدد کی نئی لہر شروع نہیں ہوگی؟

مائیکل جے تھامسن کے مقالے کا عنوان "Deconstructing Israeli Democracy: On the cultural pre requisites of Political Modernity" ہے جس میں اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ جان لاک کی طرف سے بیان کردہ ایک لبرل جمہوریت اسرائیلی سیاست میں مکمل طور پر غائب ہے، بلکہ نسل پرستی کے ذریعے یہودی تسلط جو کہ ما قبل جدیدیت کا تصور ہے اور تھامسن یہ ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر مختلف ممالک کا یہ مفروضہ کہ اسرائیل عرب دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو ایک ایسی جمہوریت ہے اور اس لیے اس سے متاثر ہونے اور اس کی تقلید کرنے کی ضرورت ہے، ایک بے تکا بیان ہے کیوں کہ، "مذہبی اور نسلی شناخت پر مبنی ریاست کا تصور لبرل مخالف اور جمہوریت مخالف ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی سیاست کے تصور کو تقویت دیتا ہے جو علیحدگی پسندی کی بنیاد پر زندہ رہتی ہے"

 میناچم کلین تیسرے باب میں "سیکیورٹی-سیٹلمنٹ کمپلیکس" پر بحث کرتے ہیں اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی آباد کاری اور توسیع کی نقاب کشائی کرتے ہیں، حالانکہ انہوں نے غزہ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ کلین نے بہت اچھے طریقے سے بیان کیا ہے کہ کس طرح فلسطینیوں کی زمین ضبط کی گئی ہے اور اس کے لیے انہیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا، اور کس طرح ملٹری سیٹلمنٹ-بیوروکریسی کمپلیکس کا گٹھ جوڑ مغربی کنارے کے فلسطینی باشندوں کو ہر پہلو سے دبانے اور ان کا گلا گھونٹنے کے لیے ہر حربہ آزماتا ہے۔ بہت سے معاملات میں فوج غیر قانونی تعمیرات اور غیر قانونی بستیوں کی توسیع کی حمایت بھی کرتی ہے۔

 کتاب کے دوسرے حصے کا عنوان 2000 to 2006: Sharon, the Intifada, and the Roadmap ہے جس میں چار مضامین شامل ہیں جو ان سالوں کے دوران اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہیں۔ ایوی شلائم اپنے مضمون، "فلسطینیوں کے خلاف ایریل شیرون کی جنگ" میں، فوج سے لے کر سیاست تک ایریل شیرون کے مختلف کرداروں کا سراغ لگاتے ہیں اور اس پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح شیرون فلسطینیوں سے نمٹنے میں جبوتنسکی کے راستے پر چل رہا تھا اور جبوتنسکی یہودیوں کے حق کا بانی ہے۔ شیرون کا پختہ یقین تھا کہ فلسطینی کبھی بھی امن کے شراکت دار نہیں ہو سکتے۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ جہاں کہیں بھی آپ ان کو پائیں ان کا قلع قمع کر دیں، اور اس لیے اس نے اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ اوسلو معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہودی بستیوں کو وسعت دی۔ شیرون ایک حقیقت پسند تھا، اس لیے طاقت ان کی سیاست اور مذاکرات کا بھی فیصلہ کن عنصر تھی، "عربوں نے- پہلے مصری، پھر فلسطینی، پھر اردن کے باشندوں نے بڑی قربانیاں دیکر یہ سیکھا کہ اسرائیل کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی اور بالکل۔ ے بسی جے عالم میں وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے" (ص-4)۔ اس نے فلسطینیوں کو شکست دینے اور انہیں اپنی شرائط پر مذاکرات کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ شیرون آئرن وال زیونسٹ اسٹریٹجی کا بانی بھی تھا اور اسی لیے 'سیکیورٹی بیریئر' دیوار مغربی کنارے کے ساتھ کھڑی کر دی گئی۔

 "دی بلڈنگ آف اے وال" موشے زکرمین کے اگلے مضمون کا عنوان ہے، وہ قارئین کو دیوار کے نشیب و فراز میں لے جاتے ہیں اور اس پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کیا یہ اسرائیل کے مطابق 'دہشت گردی' کو روکنے کا مقصد پورا کرے گی، لیکن انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ "دہشت گردی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے" کی یہ پالیسی ایک پر فریب نظریہ کے سوا کچھ نہیں ہے، جب تک کہ دہشت گردی کے اصل اسباب اور فلسطینی عوام پر دہائیوں سے جاری اسرائیلی قبضے اور منظم جبر و ظلم کو ختم نہیں کیا جاتا‘‘ (ص-56)۔

 "ویسٹ بینک اسیٹلمنٹس آبسٹرکٹ پیس: اسرائیلز ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ" مروان بشارا کے مقالے کا عنوان ہے جن کا ماننا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیلی بستیوں کی توسیع ہے اور "آباد کاری کی مہم اور اس کا نظریہ جدید اسرائیلی قومی شناخت کی بنیاد بن گیا ہے" (ص-59)۔ اس آباد کاری کے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختلف نتائج مرتب ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ انتخابی سیاست میں بھی آباد کاروں کی طاقت بڑھ رہی ہے اور امریکہ جیسے آباد کار دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں نسل کشی اور بے گناہوں کو نشانہ بنانے پر یقین رکھتے ہیں، نیز آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان مروجہ امتیازی قوانین امن اور امن کو ایک خواب بناتے ہیں۔

مصطفیٰ برغوطی اپنے مضمون "A Place for our Dream" میں آباد کاری کی بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ، "اپنی آباد کاری سرگرمیوں کے ذریعے، اسرائیل نے مغربی کنارے کو نسلی طور پر اسرائیلی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں فلسطینی دیہات اور قصبے الگ تھلگ چوکیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں‘‘ (P-65) اور وہ فلسطین میں امن کی بحالی کے لیے اٹھائے جانے والے متعدد اقدامات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔

 کتاب کا تیسرا حصہ، 2006 سے 2008: حماس کی الیکشن جیت، غزہ پر حملے، اور اناپولس پیس کانفرنس جیسے تین مضامین پر مشتمل ہے، جس کا آغاز ایلنا سونڈرگارڈ کے طویل مضمون "Trails in the Israeli-Palestinian Conflict" سے ہوتا ہے جس میں واضح مگر علمی انداز میں عدلیہ کی بے بسی اور مقننہ کے انجام پر گفتگو کی گئی ۔ بستیوں کے معاملے میں عدالتیں فیصلہ نہیں کر سکتیں یا عدالتی تحفظ فراہم نہیں کر سکتیں اور انہیں عام طور پر سرکاری موقف اختیار کرنا پڑتا ہے، اس طرح عدالتیں آزادانہ موقف اختیار کرنے یا اسرائیلی ریاست کے غضب کا سامنا کرنے والے مظلوموں کو بچانے میں ناکام رہتی ہیں۔

لارنس ڈیوڈسن کے مقالے کا عنوان "Blitzkrieg in Gaza" ہے جن کے مطابق 1967 سے اب تک غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں تین سو سے زیادہ اسرائیلی دراندازی ہو چکی ہے اور یہ مضمون 2006 کے آپریشن سمر رینز کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جسے اسرائیل نے ایک مغوی فوجی کی بازیابی کے لیے غزہ میں شروع کیا تھا اور اس جنگ کا مقصد حماس کی منتخب حکومت کا قلع قمع کرنا تھا۔ مزاحمت کے پرامن ذرائع کو اختیار کرنے کے باوجود، متعصب میڈیا ہمیشہ فلسطینیوں کی دقیانوسی تصویر پیش کرتا ہے اور ان کی طرف سے خودکش دھماکوں کی رپورٹنگ کرتا ہے اور ان کے پرامن طریقوں کو نظر انداز کر کے انہیں مرنے لے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

 اسٹیفن ایرک برونر یہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں "آج کے فلسطینی کون ہیں؟" اپنے مضمون میں وہ تاریخ کا حوالہ پیش کرتے ہیں جب سرد جنگ کے دوران اسرائیل کے مظالم اور اس کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی کو امریکہ نے نظر انداز کیا تھا کیونکہ اسے عرب دنیا میں کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنا تھا لیکن اب جب حماس کی منتخب حکومت قائم ہے تو معاہدوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل کی مذمت بھی کی جا رہی ہے۔ اس کتاب میں اناپولس جیسی مختلف کانفرنسوں پر بھی بات کی گئی ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، حماس اور فتح کے درمیان اتحاد کی کوششوں پر بھی بات کی گئی ہے، اسرائیل کا موقف تھا کہ حماس سے صرف اس وقت بات کی جائے گی جب وہ اسرائیل کو تسلیم کرے گا، لیکن آج تک ایسی کوئی مصالحتی کوشش نہیں کی گئی۔

 چوتھا اور آخری حصہ غزہ ان 2009-2010 : آپریشن کاسٹ لیڈ اینڈ فیوچر آف پیس پروسیس دو مضامین پر مشتمل ہے، اسٹیفن آر شالوم کا پہلا مضمون "Unjust and Illegal: The Israeli attack on Gaza" کے عنوان سے ہے، جو آپریشن کاسٹ لیڈ سے متعلق ہے جب اسرائیل نے اسرائیل ہر راکٹ داغنے کے بہانے غزہ پر حملہ کیا تھا۔ شالوم کی رائے ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی دفاعی نظریہ جائز نہیں ہے کیونکہ فلسطینی صرف قبضے کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں میں بستیاں غیر قانونی ہیں اور ہمیشہ اسرائیل ہی ہر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتا ہے اور آپریشن کاسٹ لیڈ کے بہانے اسرائیل نے ایسا ہی کیا، حالانکہ حماس دوبارہ جنگ بندی میں توسیع کے لیے تیار تھا۔ ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسرائیل آپریشن کاسٹ لیڈ کا جواز پیش کر سکے جبکہ فلسطینیوں کے خلاف ڈھائے جانے والے اسرائیل کے مظالم پر لوگوں نے کان ہی نہیں دھرا، مثلاً فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا، اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کو اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ملانا، عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے الزام میں ہسپتالوں اور ایمبولینسوں کو نشانہ بنانا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد کسی بھی IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) فوجی پر قتل عام، جان بوجھ کر قتل اور غزہ کے باشندوں پر مظالم کے لیے مقدمہ نہیں چلایا گیا اور غزہ کے عوام پر معاشی ناکہ بندی کر کے ان کی تذلیل اور ان کی اذیت میں مزید اضافہ کیا گی۔

 سارہ رائے کا مضمون "Gaza’s Diminishing Landscape" اس اذیت اور تباہی کی روداد پیش کرتا ہے جس سے غزہ پٹی کے لوگوں کو آپریشن کاسٹ لیڈ اور اس سے قبل اسرائیل کی مختلف دراندازیوں کے نتیجے میں گزرنا پڑا، اور اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح ان کی زندگی جنگ اور اب معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے تباہ ہوئی ہے جس کے نتیجے میں غزہ میں ہر قسم کا بحران پیدا ہوا ہے۔ رائے کا ماننا ہے کہ چاہے آباد کاری پھیل رہی ہو یا اسرائیل غزہ کے پانی، نقل و حمل کے ذرائع، اشیائے خوردونوش، تجارت، ٹیکس، سیاحت سب کچھ اسرائیل کے زیر کنٹرول ہے، اور رائے مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان اختلافات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن غزہ کے لوگوں کے جذبے کو سلام کہ جنہوں نے ایک بار پھر اپنی زندگیوں کی تعمیر نو شروع کر دی ہے۔

 یہ کتاب اسرائیل فلسطین تنازعہ کی آخری دہائی میں دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے لازمی ہے اور ایک عام قاری کو بھی اس کتاب سے غافل نہیں رہنا چاہیے، جس میں مختلف اقسام کے آراء، تجزیہ اور حل موجود ہیں۔ کتاب اپنے اس وعدے پر قائم ہے جو اس کے ایڈیٹر دانش فاروقی نے اس کے تعارف میں کیا ہے، "دو ریاستی نظریہ اس کا حل ہے یا نہیں، یہ مدعی نہیں ہے، اس کے برعکس؛ اس کتاب کا مقصد پچھلے دس سالوں کے دوران ان کی حدود کو بے نقاب کرکے امن کے بنیادی مفروضوں کو چیلنج کرنا ہے۔" کتاب چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب ہے اور ہمیں اس کتاب کو مرتب کرنے پر نوجوان ایڈیٹر کو مبارکباد دینی چاہیے جو کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ میں ایک اہم کتاب ہے۔

 English Article: Israel, Palestine And The Future Of Peace Process

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/israel-palestine-peace-process/d/130378

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..