New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 04:14 PM

Urdu Section ( 16 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Israel's Obstinacy to Alter the Map of the Middle East نقشہ بدلنے‘ کی ضد’

ودود ساجد

14جولائی،2024

9 مہینوں کی انتہائی غیر متوازن اور تباہ کن جنگ کے بعد اسرائیل پھر جنگ بندی کیلئے مذاکرات پر آمادہ ہوگیاہے۔ حماس نے بھی سنا ہے کہ فی الحال مستقل جنگ بندی کی ضد چھوڑ دی ہے او راس کی جگہ اب یہ کہا ہے کہ اسے ثالثوں سے مستقل امن کی یقین دہانی درکار ہے۔ لیکن اس نئی صورتحال سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد اور دعووں میں بری طرح ناکا م ہوگیا ہے۔7اکتوبر 2023 کو حماس کے غیر معمولی فضائی بری او ربحری حملوں کے بعد 8 اکتوبر کو اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے حماس کے خلاف جنگ شروع کرتے ہوئے یہی تو کہا تھا کہ جنگ کا اصل مقصد حماس کا مکمل صفایا ہے او ریہ کہ ہم محض تین چار ہفتوں میں ہی مشرق وسطی کانقشہ بدل دیں گے۔لیکن اب اسرائیل اسی حماس سے سمجھوتہ کے لئے ثالثوں سے مذاکرات کررہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حماس کو بھی ختم نہیں کرسکاہے اور اپنی خواہش کے مطابق مشرق وسطی کا نقشہ بھی نہیں بدل سکاہے۔ اسرائیلی فورسز کے خلاف گھات لگا کر حماس کے مسلسل حملوں او راب حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی سرگرمیوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ اسرائیلی ’فی الواقع حماس کے بہانے پورے مشرق وسطی او رخاص طور پرایران‘ شام اور لبنان کو بھی جنگ کی آگ میں جھونکنے کا منصوبہ بنارہا تھا۔ اس ضمن میں اس نے شام میں واقع ایران کے قونصل خانہ ڈرون حملہ کرکے اس کے کئی اعلیٰ سفارتکاروں اور فوجی عہدیداروں کو ہلاک کردیا تھا۔ لبنان میں بھی اس نے حملہ کرکے حزب اللہ او رحماس کے کئی سینئر لیڈروں کوشہید کردیا تھا۔لیکن ایران کے انتہائی غیر معمولی جوابی حملوں سے وہ سہم بھی گیا تھا۔

اس بار اسرائیل کے منصوبہ میں اس کے دو پڑوسی اتحادی ممالک اردن او رمصر نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ ہر چند کہ اس کا بہت بڑا نقصان اہل غزہ کو اٹھانا پڑا لیکن مصر نے اپنی سرحد نہ کھول کر اسرائیل کے اس منصوبہ کو ناکام کردیا جس کے تحت وہ غزہ کے مکینوں کو مصر میں دھکیل کر خود غزہ پر فوجی اور انتظامی کنٹرول حاصل کرنا چاہتاتھا۔ واضح رہے کہ مصر اور اردن دونوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کررکھا ہے۔ غزہ کو مصر کے راستے باقی دنیا سے جوڑنے والا صرف ایک راستہ ’رافح‘ سے ہوکر جاتاہے۔ رفح فی الواقع فلسطین او رمصر کی سرحدی چوکی ہے۔ رفح ایک بڑی آبادی بھی ہے۔ اسرائیل کی ضد ہے کہ وہ غزہ کی طرح رفح پر بھی بھر پور حملے کرے گا۔ اس کا دعوی ہے کہ حماس کے ’دہشت گردوں‘ کا اصل ٹھکانہ رفح ہی ہے اور وہ یہاں کی آبادی میں گھل مل کر اسرائیل کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ دنیا بھر نے یہاں تک کہ خود اسرائیل کے حلیف ممالک نے بھی اسے رفح پر حملوں سے باز رہنے کو کہاہے لیکن  اسرائیل کسی کی نہیں سن رہا ہے۔ ماہرین جنگ کا خیال ہے کہ رفح پر حملوں سے غزہ سے بھی زیادہ تباہی آئے گی۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ غزہ سے نقل مکانی کرنے والے کئی لاکھ فلسطینی رفح اور اس کے قریب وجوار میں ہی ٹھہرے ہوئے ہیں۔چونکہ مصر ایک حکمت عملی کے تحت ان خانماں برباد فلسطینیوں پر اپنی سرحد نہیں کھول رہاہے اس لئے ان کے پاس اپنی جان بچا کر کہیں او رنکل جانے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

مشرق وسطی میں ایک نئی صورتحال بھی پیدا ہوئی ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی او رزیر خارجہ عبداللہیان کی ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں موت کے بعد وہاں نئے صدارتی انتخابات ہوئے ہیں۔ یہ دونوں عالمی سطح پر اسرائیل مخالف مہم کی نمایاں چہرہ بن گئے تھے۔ اسرائیلی میڈیا کو توقع تھی کہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کے انتخاب کے بعد ممکن ہے کہ ایران میں اب اس پر غور شروع ہوجائے کہ کیا حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیموں نے کشیدگی کو عروج پر پہنچایا۔لیکن ایران کے نومنتخب صدر کا بیان آگیاہے کہ ایران فلسطین کے تئیں اپنی پرانی پالیسی پر قائم رہے گا۔ ماضی کے تجربے کی روشنی میں امریکہ نہیں چاہتا کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع ہو۔ اس سلسلہ میں اس کے اعلیٰ عہدیدارلبنان کا دورہ بھی کرچکے ہیں لیکن تین ہفتوں میں حسن نصراللہ کی دومفصل تقریروں نے صورتحال کی سنگینی کاکچھ اشارہ دے دیا ہے۔

حز ب اللہ نے تین ہفتو ں میں دوسری بار اسرائیل کے متعدد شہروں کے اندر کے درجنوں حساس مقامات کی ڈرون فوٹیج جاری کی ہیں اور دعویٰ کیاہے کہ اس کے پاس گھنٹوں کے حساب سے ایسی مزید فوٹیج موجود ہیں۔ اس کے دواہم نکتے سامنے آتے ہیں: ایک تویہ کہ حزب اللہ کے پاس نشانہ بنانے کے لئے اسرائیل کے ا ندر کے حساس عسکری مقامات کے نقشے او راہداف موجود ہیں او ردوسرے یہ کہ حزب اللہ کے جن ڈرونز نے اسرائیل کی فضا میں جاکر گھنٹوں وہاں کی تصویر یں اورفوٹیج لی ہیں انہیں اسرائیل کا دفاعی نظام پکڑنے میں ناکام رہا۔ حسن نصراللہ نے پچھلی تقریر میں کہا تھا کہ حزب اللہ کے پاس اسرائیل سے لڑنے اور جنگ کو جیتنے کے لئے مطلوب تعداد سے بھی زیادہ ایک لاکھ جاں باز اور خطرناک قسم کے دور مار آتشی ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق حزب اللہ نے 8اکتوبر 2023 کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک اسرائیل کے خلاف کوئی چھ ہزار حملے کئے ہیں۔ حز ب اللہ کے حملوں کے سبب اسرائیل نے شمال کے اپنے علاقے شہریوں سے خالی کرالئے ہیں۔حال ہی میں گولان کے مقبوضہ علاقوں میں متعین اسرائیلی فوجیوں پر لبنان کے تین ڈرونز نے حملہ کیا لیکن اسرائیل کا دفاعی نظام ان ڈرونز کو پکڑ نہیں سکا۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اس کا جائزہ لے رہا ہے کہ آخر کیوں دفاعی نظام ناکام ہوا۔اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 8اکتوبر2023 سے اب تک حزب اللہ کے حملوں میں 12 شہری اور 16 فوجی مارے گئے ہیں۔ جب کہ حز ب اللہ کے مطابق اس کے 364 ارکان مارے گئے ہیں۔

ایسی صورت میں حز ب اللہ کے اندر اسرائیل سے انتقام لینے کا جذبہ فروغ پا رہا ہو گا۔ حسن نصراللہ نے کہا بھی ہے کہ ہمیں جنگ سے ڈر نہیں لگتا۔ لیکن یہ بھی کہا ہے کہ ہم حماس سے یہ نہیں کہتے کہ وہ ہم سے ’کورڈنیٹ‘ کرے کیونکہ یہ ان کی اپنی جنگ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہی وہ نکتہ ہے جو اسرائیل کے منصوبوں کو ناکام کررہا ہے۔ اس کی وہ خواہش پوری نہیں ہورہی ہے جس کے تحت وہ پڑوس کے تمام ممالک کو جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس بار حماس کو اسرائیل کے خلاف جس نے بھی مسلح کیا ہو اور جس نے بھی اسکے 30 ہزار سے زیادہ جانبازوں کو ٹریننگ دی ہو اس نے اس امرکا خیال رکھا ہے کہ یہ جنگ حماس تک محدود رہے اور اس جنگ کو حماس ہی انجام تک پہنچائے۔ اسی وجہ سے حماس کو یااہل غزہ کو عالمی تائید بھی ملی ہے۔ واضح رہے کہ 2006 میں اسرائیل کی جارحیت کے سبب حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی تھی۔ یہ جنگ 36 دنوں تک چلی اور آخر کار اسرائیل کو ہی پسپا ہونا پڑا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ جانی نقصان تو لبنان کا ہی زیادہ ہوا لیکن مادی تکنیکی اور عسکری نقصان اسرائیل کا ہوا تھا۔ اس جنگ کا سبب یہ ہوا تھا کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے اس جدید ترین مسلح ٹینک پر حملہ کردیا تھا جو اسرائیل سے متصل لبنان کی سرحد کے اندر گشت کررہا تھا۔بہر حال اب جنگ بندی مذاکرات کی خبروں کے پیش نظر حسن نصراللہ نے کہاہے کہ اگر حماس جنگ بندی کو قبول کرلے گی تو ہم بھی اسرائیل کے وزیر دفاع یو آف گالانت نے کہا ہے کہ ہم حزب اللہ کے خلاف اس صورت میں بھی حملے نہیں روکیں گے۔

گزشتہ 10جولائی کو حسن نصراللہ نے جو تقریر کی ہے اس نے ایک بار پھر اسرائیل میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ اسرائیل کے اخبارات اس تقریر کے نکات کا خاص طور پر ذکر کررہے ہیں۔ نصر اللہ نے ایک گھنٹہ کی تقریر میں جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’جنگ کا دسواں مہینہ اسرائیل کی ناکامی کامنہ بولتا ثبوت ہے‘ مقابلہ پر وہ فوج ہے جسے ساری دنیا سب سے زیادہ طاقتور فوج قرار دیتی ہے جب کہ اسرائیل کا جنگی ہدف حماس ہے جس کے ساتھ ساری دنیا بات کررہی ہے۔نتن یاہو کو معلوم نہیں ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے رفح پر حملوں پر اس کا اصرار اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اس جنگ میں ناکام ہوگیاہے۔ ہم نے بھی عہد کر رکھا ہے کہ ہم اسرائیل کو غزہ میں کامران نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ہم نے اسے یہاں کامیاب ہونے دیا تو اس کے بعد وہ لبنان کا رخ کرے گا او رپھر خطہ کے سارے ممالک پرچڑھائی کرے گا۔ ایسے میں ہم ایک نئے خطرناک دور میں داخل ہوجائیں گے جو ماضی کے تمام ادوارے مختلف ہوگا۔ حسن نصراللہ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا: ہم نے اپنے دشمن کو شمال میں الجھا کر رکھا ہے اس کے ایک ہزار افسر اور فوجی اس علاقہ میں مستقل ڈیرا ڈالے رہنے پر مجبور ہیں حماس کو ہماری تائید کا مقصد دشمن کو تھکادینا اورغزہ میں جنگ کے نتیجہ سے محروم رکھنا ہے ہم نے دشمن کے سامنے سماجی بحران بھی کھڑا کردیا ہے اور اب اسے مزید فوجیوں کی ضرورت ہے عالمی فریقوں کو آگاہی ہوگئی ہے کہ اسرائیل کے شمال میں جنگ بندی غزہ میں جارحیت کے موقوف ہونے پر منحصر ہے غزہ میں جنگ کا روکا جانا شمال میں جنگ روکنے کا واحد راستہ ہے اسرائیل کو شمال میں مسلسل نقصان اٹھانا پڑرہا ہے لیکن وہ ہونے والے زبردست نقصان کو چھپا رہا ہے۔

حماس کے خلاف اس جنگ نے اسرائیل کے اندر ایک او رنئی صورتحال کو جنم دیاہے۔ وہاں اس نکتہ پر اب کھل کر بحث ہورہی ہے کہ یہودیت او رصہیونیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسرائیل میں ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ کم سے کم دوسال فوج میں خدمات انجام دے۔لیکن اب تل ابیب کی سڑکوں پر نوجوان یہ نعرے لگارہے ہیں کہ ”ہم یہودی ہیں لیکن ہم صیہونی فوج میں بھرتی ہونے کو مسترد کرتے ہیں“۔ ان نعروں سے دراصل اسرائیل کے معاشرہ میں یہودیت اور صہیونیت کا  فرق نمایاں ہوتا جارہاہے۔حماس نے بھی اسرائیل کے شہریوں کو یہ باور کرانا شروع کردیاہے کہ وہ ہر اسرائیلی یا ہر یہودی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان شرپسند جارحیت پسند اور سخت گیر صہیونیوں کے خلاف ہے جو اہل فلسطین کا حق مارکر اب انہیں چین سے جینے بھی نہیں دینا چاہتے۔ اسرائیل کے اندر بہت سے طبقات ایسے شرپسندوں کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کررہے ہیں۔مشہور یہودی صحافی ’گیڈیون لیوی‘ تو اس جنگ کے پہلے دن سے نتن یاہو کو ’سنکی‘ پاگل اور خونی تک لکھ رہے ہیں۔ مشہور اخبار ’ہارٹز‘ کے مضامین اور ادارے مسلسل نتن یاہو کے خلاف اور غزہ کے مکینوں کے حق میں آواز اٹھارہے ہیں۔ یہ تمام صورت احوال اسرائیل کے سرپھروں شرپسندوں اور فلسطینیوں کے قاتلوں کے لئے کوئی نیک فال تو بالکل نہیں ہے۔جنگ آج بند ہو یا کل نتن یاہو کی ’مشرق وسطی‘ کانقشہ بدلنے کی ضد تو کبھی پوری نہیں ہوگی۔

14 جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/israel-obstinacy-map-middle-east/d/132718

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..