پرویز حفیظ
14 جنوری، 2024
1967ء
میں جس اسرائیل نے تین تین عرب ممالک مصر، شام اور اردن کی افواج کو محض چھ دنوں میں
شکست فاش دے دی تھی وہ غزہ میں تین ماہ بعد بھی حماس کو ہرانے میں ناکام رہاہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جنگ کئی ماہ تک جاری
رہ سکتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس اسرائیل دنیا کی چوتھی بڑی فوجی طاقت ہے جسے
امریکہ مسلسل جدیداسلحے،لڑاکا طیارے اور جنگی بحری بیڑے فراہم کررہاہے۔ یہ بھی ذہن
نشیں رہے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل اسرائیل ڈیفنس فورسیز (IDF) کا مقابلہ کسی ملک
کی روائتی ملٹری سے نہیں بلکہ ایک ایسی حریت پسند تنظیم کے تیس پینتیس ہزار شہری
سپاہیوں سے ہورہا ہے جن کے پاس جنگی طیارے اور ٹینک تو چھوڑیں ڈھنگ کے بندوق تک
نہیں ہیں ۔ نہ ہی امریکہ جیسا کوئی گاڈ فادر ہے۔
اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں
غزہ میں 23؍ ہزار افراد جن میں 10؍
ہزار بچے شامل ہیں جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ ان تین مہینوں میں غزہ پر تیس ہزار بم
گرائے گئے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ کا 70؍فیصد علاقہ ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
لیکن بربریت کی تمام حدیں پار کرنے کے باوجود اسرائیل حماس کو سرنگوں نہیں کراسکا
ہے اور نہ ہی اس کا ایک بھی جنگی ہدف ابھی تک پورا ہوسکا ہے۔سات اکتوبر کے حماس کے
حملوں کے بعداسرائیل کی جنگی کابینہ میں تین اہداف مقرر کئے گئے تھے۔ قیدیوں کی
رہائی، حماس کا مکمل صفایا اور غزہ سے اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرے کے امکان کا
دائمی خاتمہ۔ تین ماہ بعدبھی اسرائیل اپنے 135؍ جنگی قیدیوں کو رہا نہیں کراسکا اور
نہ ہی حماس کا نام و نشان مٹاسکا۔ دسمبر میں دو دنوں کے اندر 14؍
اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کے بعد نیتن یاہو کو یہ تکلیف دہ اعتراف کرنا پڑا کہ
’’جنگ بہت بھاری قیمت وصول رہی ہے۔‘‘ سرکاری طور پر اسرائیل نے اپنے 510؍فوجیوں
کے مارے جانے کی بات قبول کی ہے جن میں پانچ کرنل بھی شامل ہیں لیکن ہلاکتوں کی
تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ حماس نے ان درجنوں Merkava ٹینکوں کو بھی تباہ
کردیا جن پر اسرائیل کو ناز تھا۔ زمینی جنگ میں صہیونی فوج کو بھاری مزاحمت کا
سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سابق امریکی فوجی اسکارٹ رٹر کا دعویٰ ہے کہ حماس اسرائیلی
فوج کا مار مار کر بھرکس نکال رہی ہے۔ رٹر نے سات اکتوبر کے حماس کے حملے کو جس
میں اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم چور چور ہوگیا ’’تاریخ جدید کا عظیم
ترین حملہ‘‘قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کی دلیری اور حکمت عملی کی تعریف کی ہے۔ نیتن
یاہو کو اعتماد تھا کہ غزہ کے باشندے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی پر برہم
ہوکر حماس کے خلاف بغاوت کردینگے لیکن ایک حالیہ سروے کے مطابق تین ماہ میں حماس
کی مقبولیت میں خاصااضافہ ہوا ہے۔
ویت نام کی جنگ کے دوران
شمالی ویت نام کے کمیونسٹ انقلابیوں نے 1968ء
میں ایک ہی دن میں ایک سو سے زیادہ مقامات پر گوریلا حملے کرکے امریکہ کو بھونچکا
کردیا۔ اس حملے میں گرچہ گوریلاؤں کی بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں لیکن اس نے
جنگ کا نقشہ بدل دیا اور امریکہ کے سپر پاورہونے کا بھرم توڑ دیا۔ امریکی عوام کو
جب پتہ چل گیا کہ یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی ہے تو ان کے سینوں میں جنگ کے خلاف دبا
آتش فشاں پھٹ پڑا اور بالاخر حکومت کو ویت نام سے فوج واپس بلانے پر مجبور ہونا
پڑا۔ امریکہ کی پسپائی پرسابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے یہ پتے کی بات کہی تھی: ’’
ہم گوریلا جنگ کا یہ بنیادی اصول سمجھ نہ پائے کہ گوریلا اگر ہارتے نہیں ہیں تو
یہی ان کی جیت ہوتی ہے اور روایتی فوج اگر جیتتی نہیں ہے تو یہ اس کی شکست ہے۔ ‘‘
کسنجر کے اس پیمانے پر
حماس فاتح نظر آتی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے امریکی، یورپی اور اسرائیلی تجزیہ کار،
سیاسی پنڈت اور عسکری ماہرین یہ کہنے لگے ہیں کہ اسرائیل غزہ کی جنگ نہیں جیت سکے
گا۔ اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ Dan Halutzنے
دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل جنگ ہار چکا
ہے۔انہوں نے اسرائیل کی سیاسی اور فوجی دونوں حکمت عملی کو ناقص قرار دیتے ہوئے
کہا کہ اسرائیل کے مستقبل سے وہ مایوس ہو چکے ہیں ۔ اسرائیل اس وقت تک یہ جنگ نہیں
جیت سکتا ہے جب تک وہ حماس کا مکمل طور پر خاتمہ نہ کردے۔ مزاحمتی تنظیموں کو یوں ختم
نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے میجر جنرل Yitzhak
Brick نے
چند ماہ قبل ہی یہ پیشن گوئی کردی تھی کہ اسرائیلی فوج حماس کو شکست دینے کی صلا
حیت نہیں رکھتی ہے کیونکہ حماس کے کارکن باصلاحیت، تربیت یافتہ اور دھن کے پکے ہیں
جبکہ اسرائیلی فوج صرف فضائی فوج بن کر رہ گئی ہے اور زمینی جنگ لڑنے کے قابل نہیں
رہی ۔
حماس جیسی حریت پسند تنظیم کے
چند یا چند سو لیڈروں کو ختم کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ ان کی جگہ لینے
کیلئے دوسرے لیڈر تیار رہتے ہیں ۔ 2004ء
میں ایک ماہ میں حماس کے دو سرکردہ لیڈروں شیخ احمد یاسین اورعبد العزیز رنتیسی کو
اسرائیل نے شہید کردیا تاہم وہ مزاحمتی تنظیم کا خاتمہ نہیں کرسکا۔حماس ان یتیم
فلسطینی بچوں کی تنظیم ہے جن کے والدین اور اہل خانہ ماضی میں وحشیانہ صہیونی
مظالم کا شکار ہوچکے تھے۔ یہ بچے سچ مچ ہر وقت سر سے کفن باندھے رہتے ہیں ۔ جن کے
دلوں سے موت کا خوف ہی ختم ہوگیا ہے انہیں بھلا کیسے شکست ہوسکتی ہے؟حماس کو کیوں نہیں
ہرایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بریڈفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پال راجرس نے ان
الفاظ میں دیا ہے: ’’حماس صرف ایک تنظیم یا تحریک ہی نہیں بلکہ ایک فکر، ایک نظریہ
ہے اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کسی نظریے کو ہلاک نہیں کرسکتے ہیں ۔‘‘ پروفیسر
راجرس کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں وقت کی بہت اہمیت ہے۔
اسرائیل کے پاس حماس کو شکست دینے کیلئے وقت بہت کم ہے جبکہ حماس کی نظر میں فتح
طویل مدتی سیاسی نتائج کی حصولیابی کا نام ہے۔
واشنگٹن میں واقع سینٹر
فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں مڈل ایسٹ پروگرام کے ڈائرکٹر جان بی
آلٹرمین نے ایک عالمانہ مضمونIsrael Could Lose میں لکھا ہے کہ
حالانکہ اسرائیل نے 1948ء، 1967ء
اور ۱1973ء
کی تینوں جنگیں جیت لی تھیں لیکن اسرائیلی آرمی کی جنگی فتوحات کا یہ ریکارڈ اب
ٹوٹنے والا ہے۔ اسرائیل کی تاریخ میں غزہ کی جنگ وہ پہلی جنگ ہے جو اسرائیلی آرمی
ہار چکی ہے۔آلٹر مین نے انتباہ کیا ہے کہ یہ شکست اسرائیل کے لئے قیامت خیز تو
ثابت ہوگی ہی ساتھ ہی امریکہ کوبھی اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
14 جنوری، 2024، بشکریہ:
انقلاب، نئی دہلی
-------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism