نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
27 نومبر،2024
اسرائیل اور لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے درمیان 14 ماہ طول جنگ کا 27 نومبر کو عارضی طور پر اختتام ہوگیا ۔ دونوں فریقوں نے دو ماہ کی ابتدائی جبگ بندی کے معاہدے کو منظوری دے دی اور اس عارضی جنگ بندی کو مستقل جنگ ببدی میںنتبدیک کرنے کا عہد کیا۔ سیاسی تجزیہ کار اس جنگ ببدی کو حزب اللہ کی جیت اور اسرائیل کی ہار پر محمول کررہے ہیں کیونکہ حزب اللہ نے حالیہ دنوں میں اسرائیل کو زیادہ نقصان پہنچایا تھا اور 14 ماہ کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے فوجی اور کمانڈر مزید جنگ لڑنے سے انکار کرنے لگے تھے۔ اسے اسلحے کی کم۔کا بھی سامنا تھا اور شمالی اسرائیل کے شہری ایک سال سے بنکروں اور کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔شمالی اسرائیل۔کے کئی شہر حزب اللہ کے حملوں سے تباہ ہوچکے تھے اور اس کی معیشت تباہ ہوگئی تھی۔
دوسری طرف حزب اللہ نےاسرائیل پر حملوں کا, آغاز 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے دوسرے ہی دن یعنی 8 اکتوبر کو ہی کردیا تھا جب اسرائیل نے غزہ پر جوابی حملے شروع کئے تھے۔ حزب اللہ کی قیادت نے کہا تھا کہ وہ تب تک اسرائیل پر حملہ کرتا رہے گا جب تک اسرائیل غزہ پر حملہ کرتا رہے گا۔ حزب اللہ کے حملوں کا مقصد اسرائیل کو دو محاذوں پر الجھانا تھا تا کہ وہ غزہ کو کم نقصان پہنچاسکے لیکن حز ب اللہ اپنی تمام تر کوششوں اور نقصان اٹھانے کے باوجود اسرائیل کی غزہ میں پیش قدمی اور ہلاکت خیزی کو روک یا کم۔نہیں کرسکا اور اسرائیل نے پورے غزہ پر حملے کئے اور اس کے 44 ہزار شہریوں کو ہلاک اور 90 فی صد آبادی کو بے گھر کردیا اور انہیں شمال سے جنوب کی طرف دھکیل دیا۔اس دوران اسرائیل کے سربراہ حسن نصراللہ اور دیگر اہم۔لیڈران کو بھی ہلاک کردیا۔گزتہ دوماہ سے اسرائیل نے لبنان پر حملے شدید کردئیے تھے اور اس نے بیروت سمیت لبنان کے جنوبی شہروں پر شدید حملے کئے جس کی وجہ سے اس کے تقریباًچار ہزار شہری ہلاک اور 15 ہزار زخمی ہوئے۔ اس نے ایک دن میں 500 لبنانی شہریوں کو ہلاک کیا۔ لبنان کے 12 لاکھ شہریبے گھر ہوگئے جبکہ حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے صرف 60 ہزار اسرائیلی یہودی بے گھر ہوئے اور صرف 130 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
اسرائیل نے حماس کی پوری لیڈرشپ کو ختم کرنے کے بعدحز ب اللہ کی قیادت کو بھی کمزور کردیا۔ دوسری جانب ایران کوبھی اسرائیل کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے صدر اور کئی فوجی کمانڈر بھی اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے۔اس طرح مزاحمتی محور کی کمر اسرائیل نے گزشتہ ایک سال میں توڑ دی جس کا اثر ایران کے عزم و استقلال پر بھی پڑا۔ حزب اللہ کی طرف سے جنگ بندی کے معاہدے کو منظوری کے پیچھے یہی سب اسباب تھے۔ اس معاہدے کی شقوں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ گانا مشکل نہیں ہے کہ حزب اللہ نے یہ جنگ بندی لبنانی حکومت کے دباؤ اور ایران کے اشارے پر قبول کی ہے۔ ایران کو یہ اندیشہ تھا کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی اسرائیل اور امریکہ اس پر حملہ کرسکتے ہیں اس لئے اس نے دفاعی اور حفاظتی اقدامات کرنے شروع کردئے تھے۔ لہذا ، حزب اللہ نے اسرائیل کی شرطوں پر یہ جنگ بندی قبول کی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق حزب اللہ لبنان کی سرحد سے 40 کلومیٹر پیچھے ہٹ جائے گا اور اس کی جگہ سرحدی علاقوں میں پانچ ہزار لبنانی فوجی تعینات ہوں گے۔سرحدی علاقوں میں حزب اللہ کے انفراسٹرکچر کو ڈھا دیا جائے گا تاکہ وہاں حزب اللہ دوبارہ اپنی طاقت نہ بڑھا سکے۔ سرحدی علاقوں میں لبنانی فوج کے ساتھ اقوام متحدہ کی پیس کیپنگ فورس نگرانی کرے گی۔ اس طرح امریکہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ حزب اللہ دوبارہ اسرائیل کے شمالی شہروں کے لئے خطرہ نہ بن سکے اور ا س طرح وہاں پائیدار امن قائم ہوسکے۔
لہذا، حزب اللہ نے ایران کے اشارے پر اور اس کی مدد سے اسرائیل کے خلاف جو جذباتی جنگ شروع کی تھی اس کا لاحاصل اختتام ہوگیااور اسرائیل اور امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔ حزب اللہ اور اسرائیل کی اس جنگ بندی میں غزہ کا ذکر نہیں آیا جبکہ حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ فلسطین کے لئے ہی شروع کی تھی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حزب اللہ نے یہ جنگ بندی بحالت مجبوری قبول کی ہے۔
نتن یاہو نے اس جنگ بندی کو قبول کرنے کے تین اسباب بیان کئے ہیں اول ، وہ ایران سے نپٹنے کے لئے اپنی پوری توجہ اس کے لئے تیاری کرنے پر مرکوز کرنا چاہتا ہے۔دوما، اسرائیلی فوجیوں کو آرام دینے اور اسلحوں کے حصول کے لئے وقت لینا چاہتا ہے اور سوما حز ب اللہ کو غیر فعال کرکے وہ حماس کو الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح ، اس جنگ بندی معاہدے سے اس کے تینوں مقاصد پورے ہوں گے اوراسرائیل تازہ دم ہو کر غزہ میں اپنی غاصبانہ مہم کی تجدید کرے گا۔ دوسری طرف حزب اللہ کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوا ار وہ غزہ اور فلسطینیوں کو بچانےمیں کوئی کردار ادا نہیں کرسکا۔ اس جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے شمالی خطے کے یہودی دوبارہ اپنے شہروں میں واپس آجائیں گےاور امریکہ برطانیہ اور دیگر یوروپی ممالک ان کی بازآبادکاری کے لئے اپنے خزانوں کا منہ کھول دیں گے۔ اسے اربوں ڈالر کی امداد دے کر اس کی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے میں مدد دیں گے امریکہ فوجی امداد کی کھیپ بھی جلد ہی بھیجنے کا اعلان کرچکا ہے اور ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی فوجی امداد کی دوسری کھیپ بھی اسرائیل کو پہنچنے والی ہے۔
کل ملا کر ، ٹھیک جب اسرائیل یہ جنگ ہارنے والا تھا اسی وقت امریکہ اور فرانس نے حزب اللہ اور لبنان کو جنگ بندی پر مجبور کرکے اسرائیل کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ نتن یاہو اپنے ملک میں خود اپنی حکومت کے اندر مخالفتوں کا سامنا کررہا تھا۔ ایک سال سے شمالی شہروں کے شہری کیمپوں میں پناہ گزیں تھے اور حزب اللہ تیل ابیب تک پہنچ چکا تھا اور اندرون اسرائیل نقصان پہنچارہا تھا ۔ اس کے باوجود امریکہ اور فرانس نے جنگ بندی کراکر بازی پلٹ دی اور اسرائیل اور نتن یاہو کو سنبھلنے کا موقع دے دیا۔ اس صورت حال کے لئے اسلامی ممالک ذمہ دار ہیں جنہوں نے اسرائیل پر تھوڑا سا بھی سیاسی اور سفارتی دباؤ نہیں بنایا فوجی اقدام کرنا تو دور کی بات تھی۔ اب فلسطینیوں کا اللہ ہی حامی و ناصر ہے۔
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/israel-hezbollah-ceasefire/d/133837
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism