سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
18 جنوری 2025
اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتو بر 2023ء کو شروع ہونے والی جنگ کا اختتام اتوار 19 جنوری 2025ء کو متوقع ہے۔15 جنوری کو قطر میں فریقین کے درمیان ایک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور پھر 17 جنوری کو معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔ اسرائیل وار کیبینیٹ نے کل اس معاہدے کومنظوری دی۔ بہرحال نتن یاہو سرکار کے دو صیہونی اتحادی لیڈران ایتامار بن گوئیر اور بیزلول اسموترچ نے اس معاہدے کی مخالفت کی۔
اس معاہدے کے مطابق اتوار سے پہلے مرحلے میں 16 ہفتوں کے دوران 33 اسرائیلی یرغمال رہا کئے جائینگے۔ ہر اسرائیلی قیدی کے بلے 30 فلسطینی رہا کئے جائینگے۔ ہر ہفتے تین اسرائیلی قیدی رہا کئے جائینگے۔ اسرائیل فوج غزہ سے واپس غزہ سرحد پر چلی جائیگی۔ ہر روز 600 امدادی ٹرک اشیائے خوردنی اور دائیں شمالی اورجنوبی غزہ میں داخل ہونگے۔ غزہ کے شہری اپنے گھروں کو واپس جاسکیں گے۔ 16 ہفتوں تک معاہدے پر عمل درآمد شرائط کے مطابق ہوتا رہا تو دوسرے مرحلے میں مزید قیدی دونوں طرف سے رہا کئے جائیں گے۔پہلے مرحلے میں اسرائیل میں عمر قید اور طویل مدتی سزا کاٹ رہے فلسطینی بھی رہا کئے جائیں گے۔ ان کے علاوہ نچے اور عوفتیں بھی رہا کئے جائیں گے۔
اس معاہدے اور جنگ بندی کا اسلامی ممالک کے ساتھ یوروپی ممالک نے خیر مقدم کیا ہے لیکن الجولانی اور اس کی تنظیم ایچ ٹی ایس نے اد پر کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ شام کے عوام نے جنگ بندی پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس جنگبندی کی خبر پر پورے غزہ میں جشن کا ماحول ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگ بندی کا کریڈت امریکی صدر جو بائیڈن نے لیتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم۔کی کوششوں سے جنگ بندی ہوئی ہے اور آنے والی ٹرمپ حکومت پر معاہدے پر عمل درآمد کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کا کریڈت اپنی جیت کو دیا۔ خود حماس نے جنگ بندی معاہدے کے لئے ٹرمپ کو کریڈٹ دیا ہے۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ جنگ بندی ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے ٹھیک ایک دن پہلے پراثر ہوگا۔ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے دونوں فریقوں سے کہ دیا تھا کہ وہ 20 جنوری سے پہلے جنگ بندی کرلیں ورنہ وہ سخت قدم اٹھائیں گے۔ یہ دھمکی دراصل نتن یاہو کے لئے تھی کیونکہ معاہدے کی راہ میں نتن یاہو اور اس کے دو صیہونی وزرا بین گویر اور اسموترچ روڑے اٹکارہے تھے۔ بن گویر نے خود اعتراف کیا کہ اس نے کئی بار معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ اخباری رپورٹوں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ٹرمپ نے نتن یاہو کو سخت الفاظ میں کہا تھا کہ وہ جنگ بندی کریں ورنہ وہ اسرائیل کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔ لہذا ، ٹرمپ کے دباؤ میں نتن یاہو نے سمجھوتہ کیا اور یہ سمجھوتہ گری ہوئی شرطوں پر کیا اور ایک طرح سے غزہ میں شکست تسلیم کرلی۔ جو بائیڈن نے پندرہ مہینے نتن یاہو لو ہتھیار دے کر اور بلین ڈالر کی مالی امداد دے کر فلسطینیوں کے قتل عام کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی اور اپنی میعاد کے اختتام سے دو دن قبل جنگ بندی ہونے پر جنگ بندی کا کریڈت لینے کی کوشش کررہے ہیں۔
غزہ جنگ بندی معاہدہ ٹرمپ کی وجہ سے اس لئےہوا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی امریکہ پہلے ہے۔ وہ امریکہ کی توسیع پسندی کی دیرینہ پالیسی کے مخالف ہیں۔ 2017ء سے 2021ء کے اپنی پہلی مدت کار کے دوران انہو ں نے اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مشرق وسطی سے امریکی فوج کی موجودگی میں کٹوتی کی اور امریکی فوجوں کو واپس بلالیا۔ اوباما اور ہیلری کلنٹنٹن نے جس داعش کو کھڑا کرکے مشرق وسطی میں خانہ جنگی کو بھڑکایا تھا ٹرمپ کی مدت کار میں اس کا قلع قمع کیا گیا اور 2019ء میں داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو ہلاک کیا گیا۔ اوباما اور بائیڈن کے دور میں امریکی کی جنگ جوئی کی وجہ سے امریکہ اربوں ڈالر کا قرض دار ہوگیا۔ اسرائیلی فوجکی غزہ میں پندرہ ماہ کی جنگ میں بھی امریکہ نے اربوں ڈالر کی مدد دی اور اربوں ڈالر کے ہتھیار دئیے۔ اس جنگ میں امریکہ کو ایران ، روس ، حزب اللہ اور حوثیوں کے ہاتھوں بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے امریکہ کی معیشت لڑکھڑا گئی۔ آنء والے صدر ٹرمپ کو اوباما اور بائیڈن کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اسی لئے ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے لئے نتن یاہو پر سخت دباؤ ڈالا۔ نتیجہ جنگ بندی کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔
ا جنگ بندی نے نتن یاہو کے عظیم تر اسرائیل کے خواب پر پانی پھیر دیا۔ اس کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوا۔ اس کا حماس کو پوری طرح ختم کرنے کا مقصد پورا ہوا اور نہ فوجی مہم۔کے ذریعے یرغمالیوں کو رہا کرنے کا مقصد پورا ہوا۔ وہ غزہ کے عوام کو المواصی نام کے چار مربع کلو میٹر کے ریگستانی علاقے میں محصور کرکے پورے غزہ پر یہودیوں کو بسانا چاہتا تھا۔ اس کا یہ مقصد بھی پورا نہیں ہوا۔اس نتن یاہو کے لئے اس سے بڑی روسیاہی کیا ہوگی کہ اس کو ایک "دہشت گرد تنظیم " سے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔ اور اس کی تمام۔شرطیں تسلیم۔کرنی پڑیں۔ اس نے جنگ کے نام۔پر نہتھے عوام کو قتل کیا۔ اس کے حملوں میں 47 ہزار فلسطینی مارے گئے اور ایک لاکھ گیارہ ہزار زخمی ہوئے۔ مہلوکین میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اس نے حزہ کے تمام۔ہسپتالوں کو ، مساجد ، اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو تباہ کردیا۔ اس نے سو سے زیادہ صحافیوں کو نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ اس نے ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں حتی کہ ایمبولینس تک کو نہیں بخشا۔کل ملا کر نتن یاہو نے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردیا۔ اس کے سوا وہ غزہ میں کچھ حاصل نہیں کرسکا۔ کچھ سیاسی مبصرین اس اندیشے کا اظہار کررہے ہیں کہ نتن یاہو بعد میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا۔ لیکن اس کے امکانات کم۔ہیں۔ اس کی فوج کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں۔ اور اسے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ نیز اسرائیلی عوام اس جنگ سے بہت پریشانی کا سامنا کررہے ہیں۔ لاکھوں افراد پندرہ ماہ سے بنکروں اور کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ وہ نتن یاہو کو کسی دوسری جنگ جوئیکی اجازت نہیں دیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جیسے ہی جنگ بندی ہوگی ویسے ہی نتن یاہو کے خلاف ملک میں قانونی چارہ جوئی شروع ہوگی ۔اور اسے گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔ مجموعی طور پر جنگ بمدی فلسطینیوں کے لئے رحمت اور نتن یاہو کے لئے ذلت کا باعث ہے۔ خدا کرے یہ جنگ نندی فلسطینیوں کے لئے ایک نئی صبح کا مژدہ سنائے۔ کیا صبجح قریب نہیں ہے ؟ الیس الصبح بقریب۔
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/israel-hamas-ceasefire/d/134366
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism