New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 12:20 PM

Urdu Section ( 25 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What after Israel-Hamas 4-day Truce اسرائیل-حماس عارضی جنگ بندی کے بعد کیا

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

25نومبر،2023

اسرائیل اور حماس کے درمیان 46 روزہ جنگ کے بعد چار دنوں کی عارضی جنگ بند 24 نومبر سے عمل میں آئی جنگ بندی کے پہلے دن حماس نے 13 اسرائیلی یرغمالءوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیل نے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا۔ دونوں جانب سے رہا ہونے والوں میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ فریقین کے ذریعے یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لئے یہ عارضی جنگ بندی کی گئی ہے۔ اس دوران حماس کی جانب سے 50 اسرائیلی اور امریکی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا جبکہ اسرائیل کی جیلوں میں قید 7000 سے زیادہ فلسطینیوں میں سے صرف 150 افراد کو رہا کیا جائے گا۔ حماس جن پچاس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا ان میں عورتیں اور 14 سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔ان قیدیوں کی ریائی مرحلہ وار ہوگی۔ حماس جن قیدیوں کو رہا کرے گا ان میں تین امریکی شہری بھی ہیں۔اسرائیل بھی ان قیدیوں کو رہا کرے گا جن پر قتل جیسے سنگین الزامات نہیں ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔

حماس کے قبضے میں اسرائیلی فوجیوں کے علاوہ فوجی بھی ہیں جن کی رہائی کے لئے اس نے بڑی شرط رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔ الجزیرہ کے دئے گئے انٹرویو میں حماس کے پولٹ بیورو ممبر غازی حامد نے کہاکہ فوجیوں کی رہائی  کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے لئے دوسری سطح پر بات ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اسرائیل حماس کی شرطوں کو ماننے پر مجبورہوا۔

بنجامن نتن یاہو پر یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اندرون ملک بہت دباؤ تھا۔ اس لئے یہ جنگ بندی کی گئی۔

جنگ بندی کے بعدبھی پہلےدن حالات پوری طرح پرامن نہیں  رہے۔ حماس نے جنوبی غزہ میں پناہ گزیں شہریوں کو شمالی غزہ واپس جانے کو کہا جس کے بعد لوگ شمالی غزہ لوٹنے لگے جبکہ اسرائیلی فوج نے انہیں شمالی غزہ لوٹنے سے روکنے کے لئے پمفلٹ گرائے لیکن شہریوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اوروہ شمالی غزہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی فوج نے ان پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 2 ہلاک اور متعد زخمی ہوگئے۔ ویسٹ بینک سے بھی اسرائیلی فوج نے درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔

سیاسی تجزیہ کار یہ امید ظاہر کررہے ہیں کہ جنگ بندی میں توسیع ہو سکتی ہے لیکن بنجامن نتن یاہو اور ان کی حکومت کے چند وزراء کہہ رہے ہیں کہ جنگ پھر شروع ہوگی۔ بہرحال، فی الحال غزہ کے لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ اس دوران جنگ بندی کی شرائط کے مطابق 800 ٹرک امدادی سامان جن میں ایندھن بھی شامل ہے غزہ پہنچے گا ۔

گزشتہ 46 دنوں سے جاری اس جبگ میں غزہ کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ غزہ کے 77 فی صد لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ 13500 افرا شہید ہو چکے ہیں جن میں 5500 بچے اور 3500 عورتیں ہیں 30 ہزار افراد زخمی ہیں جن میں 75 فی صد عورتیں ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم ہو چکے ہیں اور ہزاروں زندگی بھر کے لئے مفلوج ہو چکے ہیں۔اگر جنگ مستقل طور پر بھی بند ہو جائے تو بھی غزہ کے لوگوں کو اس جنگ کے سماجی ، معاشی اور نفسیاتی اثرات سے نکلنے میں صدیاں لگ جائیں گی۔

جذباتی تجزیہ کار اس سمجھوتے کو اسرائیل کی ہار اور حماس کی جیت قرار دے رہے ہیں کیونکہ اسرائیل کو 150 فلسطینیوں کے بدلے صرف 50 اسرائیلیوں کی رہائی پر راضی ہونا پڑا ہے۔ لیکن اس جبگ بندی سے حماس اور غزہ کے عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ اسرائیل کی قید میں 7000 فلسطینی ییں جو ویسٹ بینک کے شہری ہیں۔ ویسٹ بینک میں اسرائیل کی حکومت ہے اور وہاں اسرائیلی فوج آئے دن کسی نہ کسی فلسطینی کو اٹھا لیتی ہے اور اسے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ ان میں بچے اور نوجوان بھی ہوتے ہیں۔ جیلوں میں انہیں اذیت دی جاتی ہے ۔ اکثر بچوں کو پتھر پھینکنے کے الزام میں گھروں سے گرفتار کیا جاتا ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد ویسٹ بینک میں فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجیوں اور یہودی آبادکاروں کے حملے بڑھ گئے اور انہیں اندھا دھند گرفتار کیا گیا۔ جبکہ ویسٹ بینک کا 7 اکتوبر کے حملوں میں کوئی رول نہیں تھا۔فلسطینیوں کی اندھا دھند گرفتاریاں حماس کے ذریعے اسرائیلیوں کے اغوا کے ردعمل میں کی گئی تھیں تاکہ قیدیوں کی رہائی کے لئے حماس پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ عالمی برادری ، اقوام متحدہ ، عرب لیگ اور او آئی سی کے مطالبے کے باوجود بنجامن تن یاہو جنگ بندی کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے رہے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اسرائیل اپنے دم پر قیدیوں کو رہا کرائے گا اور حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھے گا۔ لیکن ان کا ایک خفیہ ایجنڈا بھی تھا اور وہ تھا غزہ کو فلسطینیوں سے پوری طرح خالی کرانا اور اس علاقے پر مستقل قبضہ کرنا۔

امریکہ نے اسرائیل کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے لیکن اسرائیل نے اس کی بات ماننے سے بھی انکار کردیا ہے۔۔اس مقصد کے تحت اسرائیلی فوج نے نے غزہ کی رہائشی عمارتوں ، اسپتالوں ، اسکولوں ، پناہ گزیں کیمپوں اورعبادت گاہوں کو تباہ کیا۔ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ سے جنوبی غزہ جانے والے قافلوں پر بھی حملہ کیا اور رفح بارڈر پر جمع عورتوں اور بچوں پر بھی بم  برسائے۔اسرائیلی فوج نے الاہلی اسپتال ، الشفا اسپتال اور انڈونیشیائی اسپتال پر بھی حملہ کی اور انہیں تباہ کردیا۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور اردن کے تعاون سے نئے فیلڈ ہسپتال کی تعمیر کو بھی روکنے کی کوشش کی۔

لہذا، اس دوران اسرائیل کے ذریعے چار روزہ عارضی جنگ بندی پر رضامندی کو حماس کی جیت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ لیکن اسرائیل نے اس جنگ بندی پر اپنے طے شدہ پلان کے تحت ہی رضامندی دی ہے۔ اسرائیل کے اندر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لئے بہت دباؤ تھا اور پورے ملک میں لوگ یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے ۔وہ بنجامن نتن یاہو کے استعفے کا بھی مطالبہ کررہے تھے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس جنگ کو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی قرار دے رہی تھیں اور انہیں 1200 یہودیوں کے قتل کا ذمہ دار مان رہی تھیں۔لہذا، نتن یاہو پر یرغمالیوں کی ریائی کرانے کے لئے بہت دباؤ تھا۔ اسی دباؤ میں وہ حماس کے ساتھ جنگ بندی پر راضی ہوئے لیکن یہ جنگ بندی صرف اسرائیلی قیدءوں کی رہائی تک ہی رہے گی۔ اس دوران جنگ ببدی کی شرطوں کے مطابق غزہ میں غذا ، ایندھن اور دواؤں کی فراہمی پر بھی اتفاق ہواہے۔ اس طرح چار دنوں کی اس عارضی جنگ بندی سے غزہ کے شہریوں کو بمباری اور ہلاکت سے عارضی راحت مل جائے گی۔ لیکن اگر اس دوران مستقل جنگ بندی کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں تو اسرائیل پھر غزہ پر وحشیانی بمباری کا سلسلہ شروع کردے گا۔ اسرائیل کی جیلوں میں7000 سے زیادہ قیدی ہیں جنہیں وہ بقیہ 190 قیدیوں کے بدلے میں نہیں چھوڑے گا۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کی جنگ بندی تک سارا غزہ میدان بن چکا ہوگا اور غزہ کے لوگ کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذار رہے ہوں گے۔ اس وقت چند سو افراد کی رہائی کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ اپنے 240 یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل پر کوئی گھریلو دباؤ نہیں رہ جائے گا اس کے فوجی ویسٹ بینک سے پھر سینکڑوں افراد کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیں گے ۔

غزہ کے عوام کے لئے عارضی نہیں بلکہ مستقل جنگ بندی بہت ضروری ہے۔ اس کے لئے مصر اور وطر کو اور زیادہ وسیع کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر یہ جنگ طویل ہوئی تو گرمیوں میں غزہ کے لوگ دھوپ اور لو کا سامنا نہیں کر پائیں گے ۔ گرمی سے اموات میں اضافہ ہوگا اور غزہ میں قیامت کا منظر ہوگا۔ اس لئے عالمی برادری اس عارضی جبگ بندی پر خوش ہونے کے بجائے اسے مستقل جنگ بندی میں تبدیل کرنے کے لئے کوششیں تیز کرے ۔ اسلامی ممالک نے جنگ بندی کے لئے چین سے مداجلت کی اپیل کی ہے لیکن چین سے اس معاملے میں زیادہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ چین عالمی معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ اس نے روس یوکرین جنگ کے معاملے میں بھی اپنی اسی خارجہ پالیسی پر عمل کیا ۔ حالانکہ سعودی عرب نے ایغور مسلمانوں کے معاملے میں چین کے موقف کی حمایت کی لیکن فلسطینیوں کے معاملے میں چین عربوں کے دباؤ میں نہیں آئے  گا۔روس بھی اپنے ذاتی معاشی اور فوجی مفادات پر حملہ ہونے پر فورا جنگ میں کود پڑتا ہے ۔ شام پر حملے ہونے پر اس نے فوراً امریکی فوجی اڈوں پر حملے کردئے لیکن اسرائیل کے خلاف کھل کر کارروائی نہیں کررہا ہے۔ایسی صورت حال۔میں عرب اور اسلامی ممالک کو ہی اسرائیل کے خلاف کوئی مؤثر سفارتی ، معاشی یا فوجی قدم اٹھانے میں پہل کرنی ہوگی۔

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/israel-hamas-4-day-truce/d/131179

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..