گریس مبشر، نیو ایج اسلام
(حصہ 1)
7 فروری 2025
یہ بات کہ مسلمانوں کو سیکولرازم مسترد کرنا چاہیے اور ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہیے، عالمی طور پر کوئی مقبول اسلامی نظریہ نہیں ہے۔ بہت سے علماء کا ماننا ہے کہ اسلام ایک تھیوکریٹک حکومت کو لازمی قرار دینے کے بجائے انصاف، سماجی بہبود اور مذہبی آزادی کو ترجیح دیتا ہے۔
اہم نکات:
1. سیکولرازم، ایک ایسا نظام ہونے کے ناطے جو مذہبی معمولات و نظریات کو سیاسی معاملات اور عوامی زندگی سے الگ کرنے کی بات کرتا ہے، متعدد اسلامی تحریکیں اور دانشور اس کی پر زور مخالفت کرتے ہیں
2. یہ شدید مخالفت ایسے سخت مذہبی عقائد اور مذہبی اصولوں سے پیدا ہوتی ہے، جن میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اسلام نہ صرف ذاتی مذہب اور تقویٰ والی زندگی گزارنے کا نام ہے، بلکہ حکومت، فقہ اور سماجی تنظیم کا ایک جامع نمونہ بھی اسلام پیش کرتا ہے۔
3. سیکولرازم کو مسترد کرنا کوئی مذہبی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، اور اسلام اس وقت تک مختلف طرز حکمرانی کی اجازت دیتا ہے، جب تک کہ ان کے ذریعے انصاف اور انسانی وقار کا تحفظ ہوتا رہے۔
-----
سیکولرازم، ایک ایسا نظام ہونے کے ناطے جو مذہبی معمولات و نظریات کو سیاسی معاملات اور عوامی زندگی سے الگ کرنے کی بات کرتا ہے، متعدد اسلامی تحریکیں اور دانشور اس کی پر زور مخالفت کرتے ہیں۔ یہ شدید مخالفت ایسے سخت مذہبی عقائد اور مذہبی اصولوں سے پیدا ہوتی ہے، جن میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اسلام نہ صرف ذاتی مذہب اور تقویٰ والی زندگی گزارنے کا نام ہے، بلکہ حکومت، فقہ اور سماجی تنظیم کا ایک جامع نمونہ بھی اسلام پیش کرتا ہے۔ اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیوں اسلام پسند سیکولرازم کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں مذہبی وجوہات، قرآنی آیات، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور علمائے اسلامی کی آراء کا حوالہ دیا گیا ہے۔
یہ بات کہ مسلمانوں کو سیکولرازم مسترد کرنا چاہیے اور ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہیے، عالمی طور پر کوئی مقبول اسلامی نظریہ نہیں ہے۔ بہت سے علماء کا ماننا ہے کہ اسلام ایک تھیوکریٹک حکومت کو لازمی قرار دینے کے بجائے انصاف، سماجی بہبود اور مذہبی آزادی کو ترجیح دیتا ہے۔ قرآن کسی مخصوص سیاسی نظام کی بات نہیں کرتا، اور مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت تاریخی حالات سے متاثر تھی نہ کہ وہ ہر زمانے کے لیے نافظ العمل کوئی حکم الہی تھا۔ مزید برآں، سیکولر حکومتیں ضروری نہیں کہ مسلمانوں کو ان کے مذہب پر عمل کرنے سے روکیں۔ بلکہ، وہ اکثر مذہبی آزادی فراہم کرتے ہیں اور انفرادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ اخلاقی طرز حکومت اور معاشرے کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرکے، مسلمان اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے سیکولر ریاستوں میں فعال طور پر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لہذا، سیکولرازم کو مسترد کرنا کوئی مذہبی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، اور اسلام اس وقت تک مختلف طرز حکمرانی کی اجازت دیتا ہے، جب تک کہ ان کے ذریعے انصاف اور انسانی وقار کا تحفظ ہوتا رہے۔
1. اسلام ایک مکمل طرز حیات
اسلام پسندوں کے سیکولرازم کے خلاف ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے، کہ اسلام مغربی معنوں میں صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے - ذاتی، سماجی، قانونی اور سیاسی۔
قرآن فرماتا ہے:
’’ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا‘‘۔ (سورۃ الانعام 6:38)
یہ خاص آیت بتاتی ہے کہ اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے، بشمول حکومت کے اہم شعبے کے۔ سیکولرازم کا تصور، جو مذہب کو سیاست کے دائرے سے الگ کرنا چاہتا ہے، اسلام کے اس جامع نقطہ نظر کے بالکل برعکس ہے۔
مشہور اسلامی نظریہ ساز سید قطب اس خیال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ یہ صرف عقائد اور معمولات کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے جو سیاست اور حکومت سمیت زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے۔" (مائل اسٹون)
سیکولرازم کے خلاف اسلام پسندوں کی مزاحمت کی جڑیں اس فطری یقین سے جڑی ہوئی ہیں، کہ اللہ کی ہدایت، جیسا کہ قرآن اور سنت کے مقدس نصوص میں وارد ہے، انسانوں کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون سے زیادہ مستند اور اعلیٰ ہیں۔
2. حاکمیت کا تصور اللہ سے وابستہ ہے، انسانوں کے ساتھ نہیں
اسلامی تعلیمات کا ایک مرکزی اور کلیدی اصول یہ ہے کہ حاکمیت، یا حتمی اختیار، صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس کے برعکس، ایک سیکولر نظام حکومت میں، انسان کو ہی قوانین بنانے اور وضع کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور یہ کام عقل و استدلال، ذاتی تجربہ، اور سماجی اصولوں کی متحرک نوعیت، جیسے مختلف معیارات کے مطابق کیا جاتا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔ اسلام پسند اسے مکمل طور پر ناقابل قبول اور غلط سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ قانون صرف اللہ کا ہے، جسے شریعت کہا جاتا ہے، انسانی معاملات اور طرز عمل کو کنٹرول اور منظم کرنے کے لیے صرف ایک ہی نظام قائم ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس بنیادی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے، جس میں وہ فرماتا ہے:
’’حکم نہیں مگر اللہ کا‘‘۔ (سورہ یوسف 12:40)
اس کے علاوہ ایک اور آیت واضح کرتی ہے:
"اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے وہی لوگ کافر ہیں۔" (سورۃ المائدۃ 5:44)
یہ اور اسی طرح کی آیات ایک مضبوط اصول کی طرف اشارہ کرتی ہیں، کہ معاشرے کے قوانین اور انسانوں کے طرز عمل کی بنیاد اللہ کی طرف سے بھیجی گئی آسمانی وحی پر ہونی چاہیے۔ تاہم، سیکولرازم چونکہ ان مقدس الہی قوانین کو انسان کے بنائے ہوئے اور انسانی وضع کردہ قوانین سے بدلنا چاہتا ہے، اس لیے بہت سے نامور علمائے اسلام اسے کفر سمجھتے ہیں۔
ایک بہت بڑے عالم ابن تیمیہ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
"اس کے علاوہ جس کا حکم اللہ نے دیا ہے، اس سے حکومت کرنا ظلم اور گمراہی ہے۔ مسلمانوں پر ہر چیز میں اللہ کے قوانین کی پابندی کرنا واجب ہے۔" (مجمع الفتاوی)
چونکہ سیکولرازم خدا کی حاکمیت کی نفی کرتا ہے اور انسان کو اختیار دیتا ہے، اس لیے اسلام پسند اسے اللہ کے اختیار کی صریح توہین سے تعبیر کرتے ہیں۔
3. ایک سیاسی رہنما کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار
اسلام پسند سیکولرازم کے تصور کے سخت مخالف ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک مذہبی رہنما یا مبلغ نہیں تھے، بلکہ ایک سیاسی رہنما اور ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی اور آپ کی خدمات طرز حکمرانی کا ایک مثالی نمونہ ہے، جس سے انتہائی کامل انداز میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسلام کو سیاسی میدان میں بھی نافذ العمل کرنا مقصود ہے۔
مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست قائم کی۔ وہ میدان جنگ کے کمانڈر، حکمران اور قاضی بھی تھے۔ ان کی قیادت سیکولر نہیں تھی بلکہ مذہبی نوعیت کی تھی، آپ نے شرعی قوانین کا نفاذ کیا اور احکام الٰہی کی بنیاد پر معاشرے کو چلایا۔
کلاسیکی اسلامی دور کے اسلامی اسکالر امام الماوردی فرماتے ہیں:
"مسلمانوں کا سیاسی قیادت کے میدان میں قدم آگے بڑھانا ایک مذہبی فریضہ ہے، شریعت کے قیام اور ایمان کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے۔" (الاحکام السلطانیہ)
پیغمبر اسلام کے مثالی نمونے کی تقلید کرتے ہوئے، اسلام پسند جو اس مذہب کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہیں، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معاشرے کی سیاسی قیادت کا رجحان اسلامی ہونا ضروری ہے، اور اسے مذہبی تعلیمات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
4. امت بمقابلہ قومی ریاست
سیکولر نظریہ قوم پرستی کے نظریے کو فروغ دیتا ہے، جس میں افراد مشترکہ عقیدے یا مذہبی عقیدے کے بجائے، جغرافیائی سیاق و سباق سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسلام، اس کے برعکس، امت کی وحدت اور یکجہتی پر بہت زور دیتا ہے- ایک وسیع اور ہمہ گیر عالمی امت مسلمہ جو قومی سرحدوں اور تقسیم سے بالاتر ہو۔
قرآن کہتا ہے:
بیشک تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو میری عبادت کرو۔ (سورۃ الانبیاء 21:92)
اسلام پسندوں کا خیال ہے کہ اس عظیم ترین مسلم دنیا کو، سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم کرنے سے، مسلمانوں کے درمیان اسلامی وحدت کا شیرازہ منتشر ہو کر رہ جائے گا۔ سیکولر حکومتیں عام طور پر قومی مفادات اور ایجنڈوں پر کام کرتی ہیں، جس سے اکثر منفرد اسلامی تشخص اور عالمی امت کی عمومی فلاح کو نقصان پہنچتا ہے۔
ایک معروف اور بااثر اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی، ایک مضبوط دلیل پیش کرتے ہیں:
"سیکولر قوم پرستی، جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتی ہے اور ایک امت کے طور پر ان کی اجتماعی طاقت اور اتحاد کو مؤثر طریقے سے توڑ دیتی ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی ریاست انہیں توحید کے مشترکہ پرچم تلے پرامن طریقے سے اکٹھا کرتی ہے، جو خدا کی وحدانیت اور شریعت پر زور دیتی ہے، جس کے احکام ان کی زندگیوں میں نافظ العمل ہوتے ہیں۔"
اسلام پسندوں کے نزدیک سیکولرازم ایک مصنوعی رجحان ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرتی ہے بلکہ انہیں ان کے بامعنی مذہبی عہدوں اور ذمہ داریوں سے بھی دور کر دیتی ہے۔
5. سیکولرازم اخلاقی اور سماجی دونوں طرح کی بدعنوانی کی طرف لے جاتا ہے
اسلام پسندوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ جدید معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ سیکولرازم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عوامی زندگی کے مختلف شعبوں سے مذہبی اقدار کو خارج کر کے، سیکولر حکومتیں غیر اخلاقی طرز عمل کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں، جیسے کہ شراب نوشی، جوا بازی اور آزادانہ طرز زندگی، یہ سب اسلامی قانون میں واضح طور پر ممنوع ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن سخت تنبیہ کرتا ہے:
"اور ایسے لوگوں کی خواہش پر نہ چلو جو پہلے گمراہ ہوچکے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بہک گئے۔" (سورۃ المائدۃ 5:77)
اسلامی نظام کے تابع جو قانون سازی کی گئی ہے، اس کا نصب العین شعوری طور پر اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کو زندہ رکھنا ہے۔ اس کے برعکس، ایسے قوانین جو سیکولر اصولوں کے تحت بنائے جاتے ہیں، جن پر انسانی خواہشات اور شہوات کا اثر ہوتا ہے، اکثر بدعنوانی اور برائیوں سے بھرے معاشرے کی طرف لے جاتے ہیں۔
ابن قیم، جو عالمِ اسلام میں ایک ممتاز عالم کی حیثیت سے اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، اس تلخ نظریے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"جب انسان کے بنائے ہوئے قوانین اللہ کے قوانین سے متصادم ہوتے ہیں تو معاشرہ ناانصافی اور بے حیائی سے بھر جاتا ہے۔ حقیقی انصاف صرف شریعت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔" (اعلام الموقعین)
اسلام پسند سیکولرازم کو ایک گمراہی سمجھتے ہیں جو لامحالہ معاشرے میں اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ سیکولرازم انسانی رویوں کو کنٹرول کرنے والی متعدد مذہبی پابندیوں کو مؤثر طریقے سے ختم کرتی ہے، اور براہ راست اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے خلاف ایک سماجی نظام قائم کرتی ہے۔
6. اسلام کا قانونی نظام بمقابلہ سیکولر قانون
اسلام پسندوں کا پختہ یقین ہے کہ شریعت صرف ایک قانونی ضابطہ نہیں ہے، بلکہ حقیقتاً یہ ایک آسمانی نظام ہے اور اسے سیکولر قانونی ضابطوں پر برتری حاصل ہے، جو کہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ سیکولر قوانین کے برعکس، جو انسانی منطق اور معاشرتی اصولوں کی بنیاد پر وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، شریعت کو لازوال اور اٹل مانا جاتا ہے، جس میں مستقل مزاجی کا احساس پایا جاتا ہے اور جو فطری طور پر خدائی حکم کے مطابق ہوتا ہے۔
اللہ قرآن میں حکم دیتا ہے:
تو ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے اور اسے سننے والے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر۔" (سورۃ المائدۃ 5:48)
شریعت کا ہمہ جہت نظام زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے، جس میں نہ صرف فوجداری انصاف بلکہ عائلی قانون، معاشی اصول اور نظام حکومت بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس، سیکولر قانونی نظام جس میں آسمانی ہدایات کا خیال نہیں رکھا جاتا، وہ فطری طور پر ناقص اور غیر منصفانہ، اخلاقی سالمیت سے عاری ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
"شریعت محض قوانین کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل اور اسمانی رہنما اصول ہے، جس کا مقصد پوری بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود ہے۔" شریعت کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین سے بدلنے کا عمل اسلام کی اصل روح کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہے۔
اس حقیقت کی روشنی میں کہ سیکولر حکومتیں شریعت کو اپنانے اور نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسلام پسند ایسی حکومتوں کو اپنے اقتدار میں جائز نہیں سمجھتے۔
7. سیکولرازم اور استعماریت کا اثر
زیادہ تر اسلام پسندوں کا یہی ماننا ہے کہ مغربی استعماریت نے اپنی سلطنتوں کو وسعت دیتے ہوئے، مسلم ممالک پر سیکولرازم کے تصور کو زبردستی مسلط کیا ہے۔ نوآبادیات سے پہلے، مسلم علاقوں کی اکثریت اسلامی اقدار اور قوانین کے تحت چلتی تھی، جو معاشروں کی ثقافتوں اور روایات میں مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے۔ سیکولرازم کے تعارف اور نفاذ کو، اسلامی تشخص کو مجروح کرنے اور مسلم ریاستوں پر ان کے مذہبی میراث کی قیمت پر، تسلط قائم کرنے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
امام حسن البنا جن کو اخوان المسلمین کا بانی سمجھا جاتا ہے، لکھتے ہیں:
"سیکولرازم، جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں، بنیادی طور پر ایک غیر ملکی نظریہ ہے جو ہم پر ان لوگوں نے زبردستی مسلط کیا ہے، جو کبھی نوآبادیاتی دور میں ہم پر حکومت کرتے تھے۔ یہ تسلط ایک زہر قاتل ہے جو مسلمانوں کو ان کے مذہب اور بنیادی عقائد سے مؤثر طریقے سے دور کرتا ہے۔
اسلام پسندوں کے لیے، سیکولرازم کی مخالفت کا عمل محض مذہبی فرض سے کہیں بالاتر ہے۔ ان کے لیے سیکولرازم کی مخالفت ایک ایسی پرجوش جدوجہد سے عبارت ہے، جس کا مقصد اپنے اسلامی ورثے کو نوآبادیاتی اثرات کے چنگل سے نکالنا ہے، جس نے ان کی شناخت کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
8. اسلامی اصولوں سے چلنے والی حکومت کے قیام کی لازمی ذمہ داری
اسلام پسندوں کا پختہ نظریہ ہے کہ اسلامی حکومت کا قیام کوئی اختیاری ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا مذہبی فریضہ ہے جسے ادا کرنا لازم و ضروری ہے۔ اس کی بنیاد اسلامی صحیفے پر رکھی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ زمین پر اللہ کے قوانین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کریں، اور آسمانی احکام و ہدایات کو لوگوں اور معاشروں کی زندگیوں میں نافذ کریں۔
قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے، کیونکہ یہ واضح ہدایت دیتا ہے:
’’وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰة اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں۔‘‘ (سورۃ الحج 22:41)
اس آیت کو اسلامی حکومت کے لیے ایک حکم الٰہی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سیکولر حکومتیں اسلامی قوانین کو نافذ نہیں کرتیں، لہذا وہ اسلام پسندوں کی نظر میں ناجائز ہیں۔
ابو الاعلیٰ مودودی بیان کرتے ہیں:
"اسلام محض افراد کی رہنمائی نہیں کرتا بلکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس پر قوانین الٰہیہ کا راج ہو، سیکولر حکومت اس کے خلاف ہے۔"
اس لیے اسلام پسند سیکولرازم کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلامی حکومت کے نفاذ کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔
نتیجہ
اسلام پسندوں اور بنیاد پرستوں کی تھیلوجیکل اور نظریاتی تردید عالمی مسلم سیاست اور تفہیم کو متاثر کرتی ہے۔ اسلام کے جامع نقطہ نظر کو پامال کر کے یہ گروہ معاشرے میں عدم اطمینان کا بیج بو رہے ہیں۔
-----
English Article: The Roots of Islamist Opposition to Secularism and Secular Government: A Theological Perspective - Part 1
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism