ڈاکٹر امتیاز صدیقی ، نیو ایج اسلام
5 جون 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
حال ہی میں، ایک یہودی راہب نے صیہونیت کے نظریہ کی یہ کہتے ہوئے تنقید کی ہے کہ یہ خدا کے اور تورات کے نظریات کے خلاف بغاوت ہے ۔ سیاسی تحریک کے طور پر صیہونیت کے نتیجے میں 1947 ء میں یہودی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں آیا ۔ لیکن راسخ الاعتقاد یہودیوں کے مطابق، ایسی ریاست تورات کے نظریات کے خلاف تھی اور وہ بھی فلسطینیوں کو ستا کر اور انہیں ان کی زمینوں سے نکال کر ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے یہودیوں نے اسرائیل کےقیام کے بعد اسے چھوڑ دیا تھا اور یورپی اور اسلامی ممالک میں جا کر آباد ہو گئے تھے ۔ صیہونیت نے سیاسی سطح پر اس قدر طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کر لیا کہ حق پسند یہودیوں کی آواز دب کر رہ گئی اور صیہونیوں نے جو چاہا کیا ۔ اب بھی صیہونیت مخالف یہودی فلسطینیوں کی قیمت پر اسرائیل کے قیام اوراس کی توسیع کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔ شاید قرآن انہیں یہودیوں کے لئے لفظ ‘ اچھے یہودیوں ’ کا استعمال کرتا ہے جو صیہونیوں کی تمام غلط پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں ۔
یہی حال اسلام ازم کے اصول کا ہے۔ یہ ایک سیاسی تحریک ہے جس کا مقصد مسلم اکثریتی ممالک میں اور ان ممالک میں بھی جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں کسی بھی قیمت پر اسلامی شریعت کو نافذ کرنا ہے ۔ اگر چہ طالبان اور القاعدہ کی اصل بہت پرانی نہیں ہے، لیکن اسلام ازم کا اصول یا نظریہ کم و بیش ایک صدی پرانا ہے۔ مصری، سعودی اور ایشیائی مذہبی علماء اور شاعروں نے ایک ایسا اصول پیش کیا جو وقت کے ساتھ ساتھ شدید اور پرتشدد ہو تا گیا اور عرب میں القاعدہ ، افریقہ میں بوکو حرام اور ایشیا میں طالبان کو جنم دیا ۔ اسلام ازم نے بھی اپنے مذاہب کے اقدار اور اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صیہونیت کے اسی متشدد اور غیر مذہبی نقطہ نظر کی پیروی کی ۔جس طرح صیہونیوں نے ان تمام قدامت پسند یہودیوں کو خاموش اور ہلاک کر دیا جنہوں اسرائیل، پرامن یا متشدد کسی بھی طرح سے یہودیوں کا ایک وطن، کے نظریہ کی مخالفت کی، اسلام ازم نے بھی بالکل اسی راستے کی پیروی کی ۔ انہوں نے مذہب کی اپنی تشریحات کو نافذ کرنے کے لئے اعتدال پسندی، ہم آہنگی، باہمی مشاورت اور رواداری کی اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی ہے۔ صیہونیت کی طرح اسلام از م بھی اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ اعتدال پسند اور روادار طبقے کی آواز دب کر رہ گئی ہے اور اسلام پسندوں نے مسلم کمیونٹی کو اغوا کر لیا ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمان ان طاقتوں کے سامنے خودکو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ اسلام کے نام پر، وہ مساجد مزارات میں خودکش بم دھماکے، مسلموں اور غیر مسلموں دونوں کے مقدس مقامات کا انہدام ، مسلم خواتین کی عصمت دری اور شیعہ اور احمدیوں کے بچوں کے قتل جیسے تمام غیر اسلامی کارناموں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس کا ارتکاب مسلم نوجوانوں کے بعض جاہل اور ناخواندہ طبقے کے ذریعہ نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے مذہبی علماء، مبلغین اور قرآن کے خود ساختہ مفسرین اور حدیث کے ماہرین کے ذریعہ بھی انہیں نظریاتی بنیادیں فراہم کرائی جا رہی ہیں اور ان کی حمایت کی جا رہی ہے اور ۔
حال ہی میں پوری اسلامی دنیا کے ایک معروف اسلامی سکالر ، یوسف القرضاوی نے شام میں شیعوں کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کے لئے پوری سنی دنیا کو ایک اپیل جاری کی ہی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے کہ ایک اسلامی عالم یا مبلغ نےاپنی ہی مسلم کمیونٹی کے خلاف اس طرح کے فتوی کی اپیل جاری کی ہو بلکہ مسلمانوں کے درمیان ایک خلا پیدا کرنا ایک باقاعدہ معمول بن گیا ہے ۔ یہ تمام اسلام ازم کے ذریعہ پیدا کئے گئے ہیں جن کے بانی ایک بہت بڑے مصری عالم اور مفکر سید قطب کو مانا جاتا ہے ۔ مصر کے مطلق العنان جمال عبد الناصر کے اقتدار میں آجانے پر سید قطب اور اخوان المسلمون نے اس سے یہ امید لگائی تھی کہ وہ ایک اسلامی حکومت قائم کرے گا لیکن جب انہوں نے سیکولر ازم کی طرف اپنی رغبت ظاہر کی تو سید قطب اور اخوان المسلمون اس کے مخالف ہو گئے اور یہاں تک کہ ناصر کے خلاف ایک بغاوت کا منصوبہ بنا یا ۔ لیکن بغاوت ناکام رہی اور ناصر نے انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا اور بعد میں انہیں 1966 ء میں پھانسی دے دی گئی۔
القاعدہ کے رہنما، اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، عظام اور اولقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سید قطب شہید اور ان کے بھائی محمد قطب کی تحریروں سے متاثر تھے۔ ایمن الظواہری محمدقطب کے طالب علم تھے جو کہ ایک پروفیسر اور اسلامی موضوعات پر کتابوں کے مصنف تھے ۔ اسامہ بن لادن کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں محمد قطب کے ہفتہ وار عوامی خطاب میں شرکت کیا کرتا تھا۔
صرف سید قطب اور محمد قطب ہی ایسے مذہبی علماء نہیں ہیں جنہوں نے اسلام کے سیاسی نظریہ کی حوصلہ افزائی کی جو کہ وقت کے ساتھ مسخ ہوتا گیا اور اسلامی دہشت گردی کی پرتشدد شکل اختیار کرتا گیا جو کہ سیکولر ازم سے جمہوریت اور مذہبی رواداری تک ہر چیز کے خلاف ہے ۔ مصنفین ڈینیل بینجمن اور سٹیون سائمن کے مطابق، " وہ سید قطب ہی تھا جس نے جدید اسلام کے بنیادی عناصر کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا : خارجیوں کی تکفیر ، ابن تیمیہ کا فتوی اور پالیسی نسخے، راشد ردا کی سلفیت ، معاصر جاہلیۃ کا مودودی کا تصور اور حسن البنا کی سیاسی سرگرمی۔ اس طرح کے تمام اسلامی مفکرین نے اسلام ازم کے متعصب پر تشدد اور تنگ نظر خیال کو مجسم کیا ۔
ان مفکرین میں ایک اردو شاعر اقبال بھی ہیں جو ان متشدد اسلام پسندوں کی حوصلہ افزائی کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں ۔ بر صغیر ہند میں وہ ایسے پہلے مفکر تھے جنہوں نے ایک ایسی علیحدہ ریاست کا یا ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی متحدہ ریاستوں کا پر زور مطالبہ کیا جہاں اسلامی شریعت کا نفاذ کیا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مغربی جمہوریت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور تصوف کو مسترد کیا۔ اور آج، طالبان جیسے اسلام پسند باقاعدگی سے جمہوریت اور تصوف کے خلاف اقبال کے بیانات اور شاعری کے اقتباس کو نقل کرتے ہیں۔
اقبال نے اپنی شاعری میں تصوف پر تنقید کی:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
تیرے دین و ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری
اقبال نے اپنی نثر اور نظموں میں جمہوریت کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اقبال کا ایک مشہور شعر اکثر طالبان اور جمہوریت کے تصور کے مخالف دیگر اسلام پسندوں کے ذریعہ نقل کیا جاتا ہے:
اس راز کو ایک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
یہ اسلام پسند قوم پرستی کے بھی تصور کے بھی خلاف ہیں اورایک متحدہ اسلام ازم پر یقین رکھتے ہیں جہاں مسلمان تمام حدود اور سرحدوں سے بالاتر ہو اور ایک عالمی اسلامی خلافت کے سائے کے تحت متحد ہوں ۔ وطن پرستی پر اقبال کے شعر نے بھی اسلام پسندوں کی حوصلہ افزائی کی اور وہ اس شعر کو نقل کرتے ہیں:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو اس کا پیرہن ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
اس طرح یہ کہا جا سکتا کہ سیاسی اسلام کا نظریہ مسلمانوں کے درمیان کچھ جاہل نادانوں اور متشدد طبقوں کی تخلیق نہیں ہے بلکہ اسلامی دانشوروں، شاعروں اور علماء کرام کے متشدد اور علیحدگی پسند تشریحات اور خیالات میں اس کی جڑیں ہیں جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور مختلف سیاسی حالات کے تحت اس میں شدت پیدا کی گئی اور القاعدہ اور طالبان جیسی سیاسی طور پر متشدد جماعتوں نے فرقہ وارانہ نفرت، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے ان کے اپنے نظریہ کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے ان نظریات اور تصورات کا اسلامی خلافت قائم کرنے کے لئے استعمال کیا اور ان تمام گروہوں اور فرقوں کو نیست و نابود کر دیا جو اسلام کی ان کی اپنی تعریف پر کھرے نہیں اترے ۔ یہاں اس بات کو بھی نوٹ کرنا مناسب ہو گا کہ اقبال ہی وہ سب سے پہلے مفکر تھے جنہوں قادیانیوں کو نہ صرف پاکستان کا بلکہ اسلام کا بھی غدار وقرار دیا تھا ۔ اور بعد میں اسلام پسندوں نے اس نقطہ نظر کو مزید فروغ دیا اور قادیانیوں کو کافر قرار دیا اور طالبان نے ان کو ختم کرنا اپنا مشن بنا لیا ۔
متشدد اسلام ازم کی یہ لہر پوری مسلم دنیا میں پھیل گئی اور اعتدال پسند اور روادار مرکزی دھارے میں شامل مسلمان اور علماء اس فرقے کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ تقریباً دو سال پہلے، پاکستانی عالم طاہرالقادری نے دہشت گردی کے نظریے کو اسلام مخالف قرار دیتے ہوئے ایک ضخیم فتوی شائع کیا تھا،اور القاعدہ، طالبان اور بوکو حرم جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ انجام دی گئی دہشت گردانہ کارروائیوں کی دیگر علماء کرام اور مبلغین نے متفقہ طور پر مذمت کی تھی۔ لیکن اب جیسا کہ پوری مسلم دنیا میں سیاسی منظر نامے تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ، ہم یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ دہشت گردی اورسخت گیر اسلام کے درمیان یہ فرق آہستہ آہستہ دھندلا ہوتا جارہا ہے اور ہمارے علماء دہشت گردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے دیکھے جا رہے ہیں ۔ شام میں بشار الاسد کے خلاف جہاد کے لئے یوسف قرضاوی کی اپیل ایسی ہی ایک مبین مثال ہے۔ شام کے خلاف جو فورسز لڑ رہی ہیں وہ القاعدہ اور اس کے اتحادی النصرہ ہیں اور وہ تمام جو شیعہ اور بشر الاسد کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہیں دراصل القاعدہ اور نصرہ کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہیں۔
حال ہی میں، تیونس میں مساجد کے آئمہ نے ان عسکریت پسند اسلام پسندوں کے خلاف احتجاج کیا ہے جنہوں نے مساجد پر قبضہ کر لیا ہے اور انہیں اسلحہ خانہ اور بیرکوں میں تبدیل کر دیا ہے جہاں وہ جرائم پیشہ افراد کو چھپاتے ہیں اور جہاں سے وہ اسلام مخالف سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ۔ تیونس میں یہ سلفی تنظیمیں اتنی طاقتور بن گئی ہیں کہ مساجد کے امام ان کے خلاف بے بس ہیں ۔ اماموں کی شکایات کے مطابق، ملک کی 6000 مساجد میں سے کم از کم 100 مساجد دراصل ایسے سلفی باڑے بن گئے ہیں جہاں پولیس کا داخلہ ممنوع ہے ، جہاں وہ مطلوبہ مجرموں کو اور تلواروں، خنجر اور بم جیسے ہتھیار کے ذخیرے چھپاتے ہیں ۔ وہاں سلفی بعض اوقات جان لیوا آتش زنی پر مشتمل فائر بم سے مساجد، ہوٹلوں اور ایسے باروں پر مہلک حملے کر رہے ہیں جہاں شراب فروخت ہوتی ہے اور آرٹ گیلریوں اور یونین کے دفاتر پر بھی حملے کر رہے ہیں ۔
لہٰذا اسلام ازم کی لہر صیہونیت سے مختلف نہیں ہے جو انسانیت کے خلاف تمام ظلم و ستم، قتل اور خون خرابے کو صرف ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرنے کے لئے روا رکھتے ہیں جہاں مذہب کی صرف ان کی تشریح کو نافذ کیا جائے گا ۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/islamism-islam-zionism-judaism/d/11899
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/islamism-islam-zionism-judaism-/d/12569