New Age Islam
Mon Mar 24 2025, 02:40 PM

Urdu Section ( 11 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Islamic World and Modern Challenges اسلامی دنیا اور جدید چیلنجز

 امن سنگھ، نیو ایج اسلام

 5 جنوری 2024

 اسلام صرف پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جمہوری سوچ کی وجہ سے پھیلا۔ اسے وسیع مقبولیت ملی کیونکہ اسلام کا پیغام نسل پرستی کو ختم کرنا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کر رہے تھے تو انہوں نے ایک بوند بھی خون بہائے بغیر حج مکمل کیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صورت حال کو عملی اور اخلاقی ذرائع سے حل کیا۔

 ------

 عالم اسلام کو آج کل کئی قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اور یہ چیلنجز کوئی آج کی پیدا نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہم عالمی تاریخ کی اہمیت کو نکار نہیں سکتے۔ نجم الدین بمت کے 1959 کے ایک مضمون کے مطابق، "آج اسلام کو بیک وقت کئی انقلابات کا سامنا ہے: ایک مذہبی انقلاب جیسے اصلاح؛ اٹھارویں صدی کی روشن خیالی جیسے فکری اور اخلاقی انقلاب؛ انیسویں صدی کے یورپ کا صنعتی انقلاب جیسے معاشی اور سماجی انقلاب؛ اور، دو عظیم مشرقی اور مغربی بلاکوں یا نظاموں کا تصادم، نیز اس کے اپنے متعدد چھوٹے چھوٹے قومی انقلابات۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر معاہدوں کی جعلسازی کی جا رہی ہے، مسلم ممالک اب بھی اپنے مسیحا کے منتظر ہیں"۔

 عالم اسلام متعدد شعبوں میں پیچھے کیوں ہے؟ یہ ایک آدھی حقیقت ہے۔ اسلام کا آغاز 1000 سال پہلے کے دور سے ہوا جب صنعتی انقلاب وجود میں آ رہا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کا سائنسی ایجاد میں کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ اسلام کے دور میں کچھ انتہائی قابل ذکر دریافتیں ہوئیں۔ مثلثیات میں، مسلمانوں نے سائن اور ٹینجنٹ دریافت کیا ہے۔ مسلم جغرافیہ دانوں نے بطلیموس کے بنائے ہوئے عرض البلد اور طول البلد کی نامکمل پیمائشوں کو درست کیا۔

 آپٹکس اور کیمسٹری میں بھی مسلمانوں کی خدمات غیر معمولی رہی ہیں، یعنی الکحل کی کشید کی دریافت، ایلیکسرز اور سلفر ایسڈ کا فارمولہ بھی مسلمانوں کی ہی دین ہے۔ اسلام صرف پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جمہوری سوچ کی وجہ سے پھیلا۔ اسے وسیع مقبولیت ملی کیونکہ اسلام کا پیغام نسل پرستی کو ختم کرنا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کر رہے تھے تو انہوں نے ایک بوند بھی خون بہائے بغیر حج مکمل کیا۔ محمد نے صورت حال کو عملی اور اخلاقی ذرائع سے حل کیا۔

 فرنینڈ براؤڈیل نے بھی ایک جگہ اسی بات کا اعادہ کیا ہے جو ایس ڈی گوئٹن کہہ چکے ہیں:

 کیا یہ 'وحشیوں' کا قصور تھا؟ ایک حالیہ مورخ، ایس ڈی گوئٹن نے یہی کہا ہے۔ وہ ایشیا اور مغرب کے خطرات کے خلاف اسلام کے فوجی نجات دہندہ تھے۔ کیا انہوں نے ہی اسے اندر سے کمزور کیا تھا؟

یہ اقتباس مجھے یاد دلاتا ہے کہ ہندوستان جیسا ملک کیسے وجود میں آیا۔ ہندوستان جیسا ملک بھی صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ داخلی اصلاح تھی اور اس طرح بعد میں یہ ملک اپنی حفاظت کے لیے فوج کھڑی کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہندوستان کے پاس اپنے ہیرو سماجی مصلح اور کمیونسٹوں کی شکل میں موجود تھے۔ مہاتما گاندھی، جیوتیبا اور ساوتری بائی پھولے، پیریار سبھی سماجی مصلح تھے۔ یہ ملک کمیونسٹوں اور انقلابیوں کی قیادت میں جاگیردارانہ جبری نظام کے خلاف عسکری مہمات بھی دیکھ چکا ہے۔ ان سب کو موجودہ ہندوتوا حکومت کمزور کر رہی ہے۔

 سوویت یونین اور چین خود وہ بن گئے جو آج ہیں کیونکہ وہاں بھی داخلی اصلاح تھی۔ ان دونوں نے اپنے اپنے ملکوں کے بورژوازیوں کا مقابلہ کیا۔ آج حالات مختلف ہیں اور طریقہ کار بھی مختلف۔ آج حالات ایسے ہیں کہ جہاں کہیں بھی ممالک آپس میں لڑتے ہیں یا ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو مغربی ممالک رجعت پسند فریق کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ جیسے افغانستان میں طالبان اور عراق میں داعش۔ مغرب کی مداخلت سے پہلے افغانستان میں جمہوریت تھی اور عراق میں بھی امن و امان تھا۔ ان ممالک کے خلاف ان کے قدرتی وسائل مثلا تیل، افیون اور دیگر قدرتی وسائل کے لیے جنگ کا ان کے شہریوں پر بہت ہی برا اثر ہوا۔

 ایک ریاست کے قیام کے لیے درکار داخلی اصلاح نہ صرف بھوک بلکہ آنے والی نسلوں کی بھوک کے لیے بھی درکار ہے۔ داخلی اصلاح تب ہی ممکن ہے جب انسانیت اور انسانیت پرستی پر ایمان ہو۔ صرف اللہ، رام یا کوئی اور خدا پر نہیں۔ قرآن یا سنت پڑھنا ضروری ہے۔ لیکن وہ 1300 سال پہلے مدون کیے گئے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے اس کے اخلاقی رہنما اصول ضروری ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ دور جدید میں وہ اتنے ہی غیر افادیت بخش بھی ہو گئے ہیں۔ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اجتہاد‘ کی اصطلاح ان مسائل کے لیے استعمال کی جہاں قرآن یا سنت خاموش نظری آئے اور ایسے حالات کو حل کرنے کے لیے معقول دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

 لیکن وہ مسلمان جو تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور وہ جو نیم تعلیم یافتہ ہیں صرف قرآن یا سنت پر انحصار کرتے ہیں۔ جتنی کم چیزوں کو عقل و استدلال کی روشنی میں پرکھا جائے، اتنا ہی آسانی سے فیصلہ کرنا ممکن ہے، جدید خلافت یہی کہتی ہے۔

 فرنینڈ براڈل نے عالم اسلام کو درپیش مسائل کا حل بھی بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں،

 "ترقی کی جدوجہد میں، ہر معیشت کے کچھ فوائد ہوتے ہیں۔ عراق، ایران، سعودی عرب اور الجزائر کے پاس تیل ہے۔ مصر کی زرخیز وادی نیل، نہر سویز، اور مراکش میں صنعتی ترقی ہے، جس کے لیے اکثر ذہانت درکار ہوتی ہے۔ انڈونیشیا میں ربڑ، تیل اور ٹن کی کانیں ہیں؛ پاکستان کے پاس گندم اور جوٹ کے زبردست وسائل موجود ہیں۔

 یہ اثاثے انمول ہیں: لیکن یہ کام مشکل اور پرخطر ہے۔ ان

مسائل کے حل ہونے میں کافی پیچیدگیاں ہیں۔ ایک ہی وقت میں معاشی اور سماجی مسائل اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ایک ایک کرکے ان سے نمٹنا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ ایک ساتھ مل کر ان مسائل کے حل کے لیے ایک مضبوط منصوبہ بندی درکار ہے۔ اس سلسلے میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

• سب سے اہم، بہتر کاشتکاری۔ اس کا مطلب قدیم جائیداد کے قوانین کو کمزور کرنا، آبپاشی کے متعدد مسائل پر توجہ کرنا، اور قابل کاشت زمین کی چھنٹائی کو روکنا اور اسے تباہ ہونے سے بچانا ہے۔ مختصر یہ کہ زرعی پالیسی اور ٹیکنالوجی۔

 • صنعتی اداروں کا قیام (سرکاری یا نجی، بھاری صنعت یا ہلکی)، اور اگر ممکن ہو تو انہیں مجموعی طور پر ملک کی معیشت میں ضم کرنا۔ ان کا معیشت کے عالمی ڈھانچے پر مبنی ہونا اور اس کی عمومی ترقی میں معاون ہونا ضروری ہے۔

 • سرمایہ کاری کے مسئلے کو حل کرنا - ایک سلگتا ہوا مسئلہ کیونکہ اس میں غیر ملکی امداد شامل ہے (جو نجی بین الاقوامی سرمایہ ہو سکتا ہے جو سوئس بینکوں کے ذریعے لایا گیا ہو، یا سوویت یونین، ریاستہائے متحدہ، فرانس، یا یورپین ممالک کی حکومتی امداد ہو)۔

 • ایک بازار بنانا۔ یہاں، دو طرح کے مسائل ہیں۔ اول، ایک بازار زندگی کے ایک مخصوص معیار کا مطالبہ کرتا ہے (جسے حاصل کرنا ان تمام اقدامات کا مقصد ہے)؛ اور دوسری بات یہ کہ کسی بھی موثر بازار کو محض قومی پیمانے سے کہیں زیادہ بڑا ہونا چاہیے۔ اس لیے پین عرب مارکیٹ، مغرب مارکیٹ یا افریقی مارکیٹ کے لیے مختلف منصوبے، کامیابی سے کہیں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ شروع کیے گئے۔ خواب سوچ سمجھ کر دیکھنا چاہیے: کیونکہ انہیں پورا کرنا مشکل ہے۔

 • افرادی قوت کو تعلیم اور تربیت سے آراستہ کرنا، جو اس مشینی دور میں سب سے زیادہ ضروری ہے، بصورت دیگر صفر سے شروع ہونے والی صنعتوں میں ممکن ہے، وہ بے روزگاری اور اضافی مزدوری جیسے اہم مسئلہ کو حل کرنے قابل نہ ہوں۔

 • مینیجروں اور دیگر: انجینئروں، اساتذہ اور منتظمین کو ٹریننگ دینا۔ تدریسی اور تکنیکی تربیت ایجنڈے میں شامل ہوں، اور یہ طویل مدتی کام ہیں۔ لوگ سیکھنے میں بے مثال دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے تبھی ان ان گنت اور بے پناہ مشکلات پر قابو پانا ممکن ہو گا۔

 عورت کا سوال بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ اوپر دیے گئے نکات۔ میں یہاں خواتین کے سوال کو عام نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ممالک جو مذکورہ بالا نکات میں پیچھے رہ جائیں گے وہ یقیناً اپنے شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کر پائیں گے۔

 یہاں افغانستان اور عراق جیسے جنگ زدہ ممالک، جنہیں پسماندہ خطوں کا نام دیا جاتا ہے، میں سے بھی ہر ایک کے لیے روزگار اور تعلیم کے چند مواقع موجود ہیں۔ یہ خاص طور پر خواتین کے حق میں سچ ہے۔ سی آئی اے کی قیادت میں مغرب نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ خانہ جنگی کا شکار ہونے کے باوجود شام ایک ایسے ملک کی مثال ہے جہاں خواتین جمہوری حقوق کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ بہر حال، ایران میں خواتین نہ صرف برقعہ پہننے پر مجبور ہیں بلکہ انہیں روزگار اور تعلیمی مواقع تک رسائی بھی محدود سطح پر ہے۔ جو لوگ اس کے قابل ہیں وہ بہت امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مغرب اور یورپ کے ممالک کا رخ کر لیتے ہیں۔

 ایران میں پردے کے نظام کے خلاف بولنے والی خواتین کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں کوڑے مارے جاتے ہین اور یہاں تک کہ بعض صورتوں میں مار کھا کھا کر وہ موت کی آغوش میں بھی چلی جاتی ہیں۔ اس کی سب سے تازہ ترین مثال مہسا امینی کی موت ہے۔ متعدد دیگر ایرانی خواتین کو پردے کے نظام کے خلاف بولنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک کے کنٹرول میں آنے کے بعد لیبیا میں غلاموں کی تجارت کو ایک بار پھر پھلنے پھولنے دیا جا رہا ہے۔ اس سے مستثنٰی صرف ازبکستان اور وہ اسلامی ممالک ہیں جہاں سوویت کا اثر باقی ہے۔ بعض علاقوں میں عالم مغرب نے اختلاف کے بیج بونے اور اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اسے جہاں کامیابی ملی وہاں تباہی مچادی۔ عراق، لیبیا اور افغانستان اس کی بین دلیل ہیں۔

 کم ترقی یافتہ عرب ممالک میں بنیادی طور پر ایک جیسا ہی سیاسی، سماجی اور اقتصادی فریم ورک پایا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ ایسے شعبے ہیں جہاں پوری عرب دنیا مل کر کام کر سکتی ہے۔ اول، ایک قسم کا جمہوری انقلاب کہ جس میں مفت تعلیم کے حقوق، عالمی حق رائے دہی اور اختلاف رائے کے اظہار کا حق سب کو حاصل ہو۔ مستقبل کی جستجو انقلابات کے شانہ بہ شانہ چلتی ہے، جس میں رجحانات کی پاسداری نہیں ہوتی۔ میں مغرب کے زیر قیادت رنگین انقلابات کا ذکر نہیں کر رہا ہوں، بلکہ ان انقلابات کی بات کر رہا ہوں جن سے لوگوں کی تقدیر بدل گئی۔

--------------

English Article: The Islamic World and Modern Challenges

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-world-modern-challenges/d/131497

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..