Radical Islamists using “blasphemy” to manipulate Muslim masses: Sultan Shahin tells UNHRC
Madame President,
... Muslims in Pakistan and elsewhere have to understand that the radical Islamists world over make use of emotive issues that would capture the imagination of Muslim masses and make them react irrationally, unthinkingly. In order to capture the minds of the Muslim masses, fanatical Mullahs are raising sensitive issues like those of members of other religious communities insulting Prophet Mohammad or the Holy Book, the Quran. The issue of blasphemy has been raised to such a high pitch, particularly in Pakistan, but also in other countries that the masses of Muslims are just not allowed to see reason. ... Mullahs are telling them in televised addresses that the Quran asks them not only to kill the blasphemers but also to kill them with relish. They present the picture of an extremely sadistic God and His prophet who relish torturing and killing and ask their followers to do so too. ...
The result is a sort of free for all in the society. Any thinking Muslim can be a target. ...These murders have taken place as these people were campaigning against the notorious blasphemy laws of Pakistan under which religious minorities like Hindus and Christians can be sentenced to death without even being told exactly what crime they have committed. ... A mere allegation of blasphemy is enough to condemn members of religious minorities to death in Pakistan. No judge can dare impart real justice, even if he wants to, as he himself can get killed in the court room itself. -- Sultan Shahin, Editor, New Age Islam, addressing the United Nations Human Rights Council’s 16th session in Geneva on 22 March 2011 in the General Debate on Follow-up and implementation of the Vienna Declaration and Programme of Action.
Full Text in English available at:
The War within Islamic
22March 20011, New Age Islam .com. Islamo-Fascism and Islam –supremacism feeding Islamopgobia Worldwide: Sultan Shahin tells UNHRS (United Nations Human Rights Council, 16th session, Geneva-28, February25 March 2001: Agenda Item 8: General Debate on Follow up and implementation of the Vienna Declaration and Programme of Action. Oral statement by Sultan Shahin, Editor, New Age Islam on behalf of International Club for Peace Research.
اسلامی فوقیت پر ستی دنیا
بھر میں اسلام کے خلاف خوف وہراس پیدا کررہی ہے
سلطان شاہین ،ایڈیٹر، نیو
ایج اسلام
22مارچ 2011، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام ، اسلامی فوقیت پرستی دنیا بھر
میں اسلام ہر اسی (اسلام کے خلاف خوف وہراس) پیدا کررہی ہے۔ سلطان شاہین نےیو این ایچ
آر سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کاؤنسل
،16ویں نشست ،جینوا ، 28فروری ،25مارچ 2011۔ ایجنڈہ آئٹم نمبر 8: وینامعاہدہ (اعلامیہ
معاہدہ) اور ایکشن پروگرام کی پیروی اور تعمیل پر عام بحث ۔مدیر نیو ایج اسلام ،سلطان
شاہین کی تقریر ۔ من جانب بین الاقوامی کلب برائے تحقیقات امن۔
محترمہ صدر صاحبہ!
تقریباً دودہائی قبل انسانی
حقوق کی تمام طرح کی خلاف ورزیوں کے سد باب کے لئے منعقد وینا معاہدہ (اعلامیۂ معاہدہ)
اور ایکشن پروگرام کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ معاملات میں حالات بگڑتے جارہے
ہیں ۔ دفعہ 15ہمیں اجانب بیزاری (Xenophobia )کے خلاف کام کرنے کی
ہدایت دیتی ہے اور دفعہ 19حکومتوں کو اقلیتوں کے تمام حقوق انسانی کے تحفظ کا حکم دیتی
ہے لیکن بدیسی ہڑک (اجانب بیزاری) خصوصاً اسلامی خوف ونفرت کی شکل میں مختلف یورپی
ممالک میں نشو ونما پارہی ہے اور خاص کر مختلف مسلم اکثریتی ممالک میں مذہبی اقلیتوں
کے حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کو شہہ دیتی ہے۔
پٹرو ڈالر اسلام ( پٹرول کےذریعہ
کسب کی ہوئی دولت سے ترویج پانے والا اسلام) نے عالمی سطح پر مسلم معاشرات میں اسلامی
فوقیت پرستی کا زہر گھول دیا ہے ۔ حتیٰ کہ
مثالی (معیاری )اعتدال پسند ممالک جیسے انڈونیشیا ، ملیشیا بھی اب اس زہرسے متاثر ہیں
لیکن بدترین صورت حال مسلم نیو کلیائی قوت پاکستان میں نشو ونما پارہی ہے۔ جہادی نگراں
کمیٹی کے افراد ( Jihadi Vigilantes )بشمول پاکستانی پولس و آرمی کے ممبران ان تمام لوگوں کا تعاقب اور
قتل کررہے ہیں، جوان کے اسلامی نظریات کی مخالفت کرتے ہیں۔ ملک بحر تشدد میں غرق ہورہا
ہے لیکن سول سوسائٹی کے افراد ،ذرائع ابلاغ کی نمایا ں ہستیاں اور ممبران پارلیمنٹ
بھی اسلام کے نام پر وحشیانہ (سفا کارنہ) قتل کی مذمت کرنے کی ہمت یکجا نہیں کرپاتے
ہیں۔ تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ان قاتلوں کو تو بہادر سمجھتے ہیں ۔ بہتیرے لوگ پاکستانی
افواج میں رہ کر بھی طالبان کے پاکستان اور دیگر ممالک پر قبضہ کرنے کےمقصد کی حمایت
کرنے ہیں۔ ان کے مقاصد مہمل ہوسکتے ہیں ، لیکن
ان کا جنون 20ویں صدی کے اوائلی یورپ میں نازی پرستوں اور فاشی پرستوں کے جنون
سے مختلف نہیں ہے۔
مسلمانوں کو پاکستان اور دیگر
مقامات میں بھی یہ سمجھنا ہے کہ متشدد اسلام پرست پوری دنیا میں جذباتی ایشوز (مدعاؤں
) کا استعمال کرتے ہیں جو مسلم جمعیت کی قوت تخیل کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں غیر
معقول اور غیر مفکر انہ طور پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مسلم طبقے کے اذہان پر
قبضہ جمانے کے لئے متصب ملاّ حساس معاملات کو اٹھارہے ہیں، ٹھیک اسی طرح جیسے دیگر
مذہبی فرقوں کے لوگ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یا مقدس کتاب قرآن کی
بے حرمتی کررہے ہیں۔ Blasphemyکا
ایشو(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی بے حرمتی کا معاملہ) ،خصوصاً
پاکستان میں ، لیکن دیگر ممالک میں بھی اتنی اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا ہے کہ مسلم طبقے
کووجہ بھی جاننے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ جیسا کہ آسیہ بیگم کے معاملہ میں جس نے
پاکستان میں حالیہ طوفان برپا کیا ہے، اس کے خلاف کوئی شہادت یا ثبوت کا کوئی شائبہ
بھی نہیں ہے، بجز ایک خاتو ن کے الزام کے ، جس کے ساتھ اس کی پہلے کوئی لڑائی تھی
۔ لیکن پاکستان میں بہتیرے لوگ کوئی ثبوت نہیں مانگ رہے ہیں۔ بہتیرے لوگ تو یہ بھی
جاننا نہیں چاہتے ہیں کہ آسیہ بی بی نے کیا کہا ہے یا کیا کیا ہے۔ ملاّ لوگ ٹیلویزنی
خطاب میں انہیں کہہ رہے ہیں کہ قرآن انہیں اللہ ،اللہ کے رسول ؐ اور قرآن کریم کی
بے حرمتی کرنے والے ( Blasphemers) کو صرف قتل ہی کرنے کا حکم نہیں دیتا ہے،بلکہ انہیں تو لطف لے لے
کر مار ڈالنے کا حکم دیتا ہے ۔ وہ لوگ ایک انتہائی تعذیبی اور لطف پسندانہ اللہ اور
اس کے رسولؐ کی تصویر پیش کرتے ہیں جو اذیت دینے اور قتل کرنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں
اور اپنے مقلدین کوبھی ایسا ہی کرنے کے لئے کہتے ہیں ۔ وہ لوگ ایسا کرتے ہیں اور ساتھ
ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کےمہر بان اور شفیق ہونے کا بھی حوالہ دیتے ہیں اور حضرت محمدؐ
کو بنی نوع انسان کے لئے باعث رحمت بھی بتاتے ہیں ، آپ بنی نوع انسان یعنی پوری انسانت
کے لئے ، صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں باعث رحمت ۔ لیکن جہادی ملا اس تضاد سےناواقف
ہیں کہ وہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو متشدد اور تشدد سے لطف اندوز ہونے
والا بتارہے ہیں اور دوسری طرف انسانیت کےلئے باعث رحمت بھی ۔ نتیجتاً پاکستانی سماج
میں ایک طرح کی افراتفری ہے۔ کوئی بھی مفکر
مسلمان ہدف ہوسکتا ہے ۔ حالیہ معاملہ سے متعلق موضوع کو پاکستان کے طالبان ایسی صورت
میں پیش کرتے ہیں کہ گویا مسلمانوں کے اندر اعتدال پسند عناصر تو خود کافر ہیں یا کفر
اور Blasphemy کی حمایت کرتے ہیں ۔ نتیجہ کے طور پر ان کے لئے سزا
سے مکمل طور پر بریت ہے، جس کی بدولت ہی وہ لوگ حکومت پاکستان کے تن تنہا عیسائی وزیر
اور اس کے قبل پنجاب ریاست کے طاقتور گورنر کو قتل کرسکے ہیں۔
یہ قتل کے واقعات اس لئے رونما
ہوئے ہیں کیو نکہ یہ لوگ پاکستان کے بدنام زمانہ قوانین بے حرمتی (Blasphemy
Laws ) ،جس
کے تحت مذہبی اقلیتوں مثلاً ہندو اور عیسائیوں کو سزائے موت دی جاسکتی ہے حتیٰ کہ یہ
بتائے بغیر بھی کہ حقیقت میں ان لوگوں نے کس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہی وہ معاملہ ہے
جو آسیہ بی بی کے مقدمہ میں حال ہی میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ یہ دونوں حکومتی لیڈر قتل
کردیئے گئے کیو نکہ وہ لوگ اس بے کس وبے یار ومددگار خاتون کے ہمدرد وخیر خواہ تھے
اور اس کے سزائے موت کو تخفیف کر کے عمر قید میں بدلنے کی کوشش کررہے تھے کیو نکہ ان
کی نظر میں آسیہ کی طرف سے کسی غلط کاری کی کوئی شہادت( ثبوت) نہیں تھی۔ پاکستان میں
مذہبی اقلیتوں کے افراد کو سزائے موت دینے کے لئے فقط بے حرمتی (Blasphemy)کاالزام ہی عائد کردیا
جانا کافی ہے۔ کوئی بھی جج حقیقی انصاف نہیں دے سکتا ، گرچہ وہ ایسا کرنا چاہتا ہے
،کیو نکہ وہ خود ہی عدالت کے کمرے میں ہی مارا جاسکتا ہے۔
اس صورت حال کو قدرے بہتر
طریقے سے سمجھنے کے لئے کسی کو ان حالات کا معائنہ کرنا پڑے گا جن کے تحت یہ قوانین
وضع کئے گئے ہیں۔ 1984میں اس وقت کے فوجی حاکم جنرل ضیا الحق نے احمدی فرقہ کے لوگوں
کے لئے مسلم ہونے کا دعویٰ کرنے کو مجرمانہ عمل قرار دیا۔ دو برس بعد انہوں نے موجودہ
قوانین میں پیغمبر محمدؐ کی بے حرمتی (Blasphemy) کے لئے سزائے موت کا
فیصلہ صادر کیا تبھی سے ان قوانین کا استعمال اس وقت کے تقریباً پچاس لاکھ (5ملین)
مضبوط افراد پر مشتمل احمدی فرقہ کے ہمراہ ہندو اور عیسائی مذہبی اقلیتوں کو ظلم وستم
کا شکار بنانے کے لئے وسیع پیمانے پہ کیا گیا ہے۔
کچھ اعداد وشمار مسئلہ کی
سنگینی کو سمجھنے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ 1986سے اس قانون کے تحت مورد الزام قرار
دیے گئے لوگوں میں سے غالباً نصف ہزار لوگ احمدی اور عیسائی فرقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
گرچہ وہ لوگ پاکستانی آبادی کے پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں ۔ اعلیٰ عدالتیں عام طو
ر بے حرمتی کے الزامات کو مسترد کرچکی ہیں۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ وہ غلط ہیں اور زیادہ
تر زمینی تنازعات یا خاندانی اختلافات سے پیدا ہوئے ہیں لیکن قوانین کی جذباتی اہمیت
ایسی ہے کہ جن 32افراد کو کورٹس سے رہائی ملی،
بعد میں اسلامی بنیاد پرستوں نے انہیں قتل کردیا اور اسی طرح دوججوں کو بھی قتل کردیا
جنہوں نے انہیں کسی کے زیادہ احتجاج کئے بغیر آزاد کردیا تھا۔ اسی طرح جب ایک بار
کفر (بے حرمتی) کا الزام عائد ہوجاتا ہے ،تو یہ ناگریز طور پر سزائے موت ثابت ہوجاتا
ہے ۔ کوئی بھی حکومت نہ صرف یہ کہ ان قوانین کو منسوخ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی ہے ،حتیٰ
کہ وہ اپنے قائدین (لیڈران ) کے بھی قتل کی مذمت بر ملا نہیں کرسکتی۔
ہیں کہ وہ لوگ بس مارے جانے
کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ لوگ خوفزدہ ہیں، کیونکہ ملک میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں
ہے، جو یا تو جہادیوں سے ملا ہوا نہ ہو یا جہادیوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا
ہو۔ سزا سے مکمل طور پر بریت کی وجہ سے جہادی طاقتیں سول سوسائٹی کے خلاف اشتعال و
تحریک جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔تمام سیاسی پارٹیاں جہادیوں کی رضا مندی کی پالیسی
کی تقلید کررہی ہیں۔ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر نے انتہا پسندی اور اسلامی ضابطہ
پرستی کے خلاف مہم چلانے والی سول سوسائٹی کے افراد کی سزا ئے موت کا مطالبہ کرنے والے
پرچمو ں کو ہٹوادیا تھا۔ لیکن ان کے قتل کے بعد انہی کے قتل کو حق بجانب قرار دینے
والے اور ان کے قاتل کا استقبال کرنے والے پرچم ریاست بھر میں لہر ائے جارہے ہیں اور
اسے روکنے کے لئے اب کوئی شخص باقی نہیں ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کےکثیر طبقے
سول سوسائٹی کے خلاف اس ترغیب و اشتعال کا حصہ ہیں۔
اسلام کے مختلف فرقے بشمول
بریلوی فرقہ، جو کبھی اعتدال پسند سمجھے جاتے
تھے، اب وہ بھی شانہ بشانہ انتہا پسند پلیٹ فارم پر آگئے ہیں۔ گورنر سلمان تاثیر کا
قاتل اکثریتی بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا، اس کی جماعت اہل سنت پاکستان (جے اےایس
پی) کے فرقہ کے 500ملاؤں نے ایک مشترکہ بیان میں اس کی حمایت کردی۔ یہ بیان بذات خود
غالباً بے حرمتی کی انتہا ہے، کیو نکہ یہ اسلام کوقاتلین کے روایتی مذہب او ر اللہ
کو تعذیبی اور لطف پسندذات کے طور پر پیش کرتا ہے، جو فقط بے حرمتی کے الزام کی بنیاد
پر بے قصور لوگوں کے قتل کی ترغیب و تشجیع کرے گا جبکہ ،مقتول گورنر کی نماز جنازہ
میں شرکت کرنے والے کسی بھی شخص کی موت کی دھمکی دیتے ہوئے اس جماعت کے ملاؤں کے بیان
نے یہ ظاہر کیا:‘‘پیغمبر کی بے حرمتی کی سزا فقط موت ہی ہوسکتی ہے،کیونکہ مقدس کتاب،
سنت، مسلمانوں کے اجماع (اتفاق رائے) اور علما کے ذریعہ دی جانے والی وضاحتوں کے مطابق
....یہ شجاع او ربے باک انسان (قادری ،باڈی گارڈ ۔قاتل) نے مسلم روایت کے 1400برس کو
قائم رکھا ہے اور دنیا کے 1.5بلین مسلمانوں کے سروں کو فخر سے اونچا کردیا ہے۔ یہ مین
اسٹریم کے اعتدال پسند مسلمانوں کے لئے نہایت ہی توہین آمیز ہے، کیونکہ مقدس قرآن
پیغمبر ؐ کی مستند احادیث ، یا حتیٰ کہ اسلامی فقہ میں ایسا کئی بیان نہیں ہے جس میں
بے حرمتی کے ملزم کے لئے سزائے موت مجوز ہو
لیکن اس کی حمایت میں ملاؤں کی مداخلت کے بعد ، اسی آدمی کا وہ بزدل قاتل ، جس کی
حفاظت کے لئے اسے (قاتل کو) تنخواہ دی جاتی تھی ، اب وہ مشہور اور ہر دلعزیز ہیروبن
گیا ہے اور تعلیم یافتہ متوسط طبقہ کے ذریعہ بھی بلند پایہ شخصیت قرار دیا جارہا ہے
۔ پاکستان کے وزیر داخلہ جو اپنے ملک میں قانون کے اصول کو دیکھ ریکھ کا ذمہ دار مانا
جاتا ہے، نے کہا کہ سماعت کا انتظار کئے بغیر ،یقیناً بے حرمتی کے ملزم (Blasphmer) کو خود سے مارو ں گا۔
ایسا اشتعال انگیز بیان دینے کے باوجود وہ مسلسل اپنے عہدہ پر برقرار ہیں۔
گورنر کے قتل کے بعد بھی عام
آواز یں جو مسلسل سنائی دیتی تھیں ،اب وہ بھی خاموش ہورہی ہیں، خصوصاً اقلیتی امور
کے کابینی وزیر شہباز بھٹی ،اعتدال پسندی کے دیگر مجاہد کے قتل کے بعد۔ جیسا کہ حقوق
انسانی کی حامی طاہرہ عبداللہ نے بتایا کہ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد، پاکستان کی راجدھانی
،اسلام آباد میں حقوق انسانی کی نگراں کمیٹیوں کی منعقد میٹنگیں 100یا 200سے زائد
لوگوں کو اپنی طرف مائل (متوجہ) نہیں کرسکتیں ،جہاں اعلیٰ تعلیم یا فتہ دس لاکھ لوگوں
کی آبادی ہے ،اور کراچی میں منعقد میٹنگوں میں صرف 500لوگوں نے ہی شرکت کی ، جو پاکستان
کا سب سے بڑا شہر ہے، جس کی آبادی 18ملین (ایک کروڑ اسی لاکھ) لوگوں پر مشتمل ہے۔
محترمہ صدر صاحبہ!
کچھ علاقوں کو چھوڑ کر ، اعتدال
پسند لوگ ہر جگہ اسلام کے اندر ہی لڑائی ہار
رہے ہیں۔ 1974سے دنیا بھر میں پٹرو ل کے ذریعہ کسب کردہ دولت کو دنیا بھر میں انتہا
پسند وں میں وسیع پیمانہ پر تقسیم کی گئی۔ اس کی وجہ سے مذہب کا مزاج ورجحان کافی حد
تک بدل گیا ہے۔ اسلامی فوقیت پر ستی صرف مسلم اکثریتی ممالک ہی میں نہیں ، بلکہ ایسے
ممالک میں بھی جہاں مسلمان اقلیت میں رہتے ہیں، اب ضابطہ بن گئی ہے۔کروڑوں مسلمان دیگر
مذاہب کے لوگوں کو اب حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں مستقل طور پر جہنمی سمجھتے ہیں۔
مقدس قرآن اور اسلامی روایات
کے مطابق ،ہم مسلمانوں کو تمام 124,000پیغمبروں کو مانناچاہئے ،جنہوں نے اللہ کے پیغام
کو دنیا کے مختلف گوشوں اور حصوں میں پہنچا یا اور ان سب کو درجہ کے اعتبار سے پیغمبر
محمدؐ کے برابر سمجھنا چاہئے ۔ ہمیں ان تمام پیغمبروں کے مقلد ین اور معتقدین کے ساتھ
اہل کتاب کیا طرح سلوک کرنا چاہئے ،جن کے ساتھ نزدیک سماجی بشمول ازدواجی تعلقات اسلام
میں جائز ہیں۔ لیکن اہل کتاب کا نظریہ اب مکمل طورپر بے معنی ہوگیا ہے۔ بلکہ بچوں کو
مدرسے اور دوسرے اسکولوں میں اب دیگر مذاہب کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی
تعلیم و ہدایت دی جاتی رہی ہے۔ یہ عمل پاکستان اور کچھ دوسرے مسلم ممالک میں بھی چل
رہا ہے۔ ہم میں سے بہتیرے لوگ پہلے سے ہی دیگر
مذاہب کے ماننے والوں کے تئیں نفرت کا جذبہ پیدا کرچکے ہیں۔ نام نہاد مذہبی دانشور
ان میں بتاتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے لوگ اہل کتاب ہوسکتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود وہ
لوگ کافر ہیں۔ وہ لوگ ہرگز یہ واضح نہیں کرتے کہ ایک ہی سانس میں وہ لوگ ان دومتضاد
بیانات کو ایک ساتھ ملا کر کیسے پیش کرتے ہیں ۔کوئی بھی طبقہ جو دیگر طبقوں کے لوگوں
کو ذلیل سمجھتا ہے، وہ کسی بھی گلو بلائز ڈ ( آفاقیت زدہ) کثیر تہذیبی دنیا میں پرامن
طور سے رہنے کے قابل نہیں ہے۔(Any Community holding
other in contempt is Apparently not likely to be able to live peacefully in an
increasingly globalised multi-cultural world).
صورت حال یہ ہے کہ اگر ہم
مسلمان کسی ملک میں معمولی اکثریت میں بھی رہتے ہیں، ہم انسان کے ذریعہ وضع کئے گئے
شرعی قوانین کو اللہ کا تخلیق کردہ قوانین بتا کر عوام پرتھو پنا چاہتے ہیں ، جب کہ
وہ اللہ کا تخلیق کردہ ہے ہی نہیں ۔ اب ایسے
ممالک میں بھی ، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ،ہم لوگ شرعی قوانین پر عمل پیرا ہونا چاہتے
ہیں اور انہیں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے سوا کوئی دوسرا ملک اس کی اجازت نہیں
دیتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ ایسا کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ یہ غیر ضروری کشیدگیاں
پیدا کررہا ہے اور کچھ معاشروں میں اسلام بیزاری اور اسلام کے خلاف خوف ونفرت میں اضافہ
کررہا ہے۔ممالک میں مذہبی اقلیتوں کے لئے خطرات پیدا کررہا ہے۔
یہ پوری دنیا کے لئے نہایت
ہی لازمی ہے کہ وہ اسلامی فاشزم اور فوقیت پرستی کے خلاف لڑنے کے لئے فوری طور پر ایک
مؤثر وکار گر حکمت عملی تیار کریں۔ مسلم معاشرہ کے اعتدال پسند افراد کے لئے یہ ضروری
ہے کہ وہ زیادہ سنجیدہ طور پر اسلام کے اندر نظریاتی جنگ کا آغاز کریں۔ ہم بذات خود
پیغمبر محمدؐ کے آخری خطبہ (نصیحت) کو یاد کریں جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا:
‘‘تمام بنی نوع انسان آدمؑ اور حوا سے ہے، نہ توکوئی عربی غیر عربی
(عجمی) پر فوقیت رکھتا ہے اور نہ ہی کوغیر عربی( عجمی ) عربی پر فوقیت رکھتا ہے ، کوئی گورا کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں رکھتا ہے اور
نہ ہی کوئی کالا کسی گورے پر کوئی فوقیت رکھتا ہے، بجز تقویٰ اور اعمال صالحہ کے ۔لہٰذا
تم لوگ اپنے اوپر ظلم (بے انصافی ) مت کرو۔یاد رکھو کہ ایک دن تم اللہ (اپنے رب) سے
ملو گے اور اپنے اعمال کا حساب دوگے ۔ اسی لئے باخبر ہوجاؤ: جب میں اس دنیا کو الوداع
کہہ دوں تو تم راہ حق سے منحرف مت ہوجانا۔’’
صا ف ظاہر ہے کہ پیغمبر ؐ
نے یہ نہیں کہا کہ ایک مسلمان کسی غیر مسلم پر فوقیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک تو فوقیت
کلی طور پر ‘‘تقویٰ اوراعمال صالحہ’’ کا معاملہ تھا۔ بس یہی سب کچھ ہے۔ ہم اسے یادرکھیں
اور اسلامی فوقیت پرستی کےمضر او رمہلک نظریہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف برسرپیکار
ہوجائیں اسلامی فوقیت پرستی اور فاشزم ہمیں موجود ہ دور کے گلوبلائزڈ کثیر تہذیبی دنیا
کے پر امن معاشرہ کے ایک اہل جز کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے قابل نہیں رکھتی ہے، جو
کہ ہم مین اسٹریم کے مسلمان (Stream
Muslims Mainہمیشہ سے رہے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-supremacism-creating-islamophobia-around/d/4503