New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:59 PM

Urdu Section ( 1 Nov 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Peaceful Coexistence: An Islamic and Human Principle of Indian Society پرامن بقائے باہمی ہندوستانی معاشرت کا اسلامی و انسانی اصول

 

کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام 

1 نومبر 2025

زندگی ایک ایسا سفر ہے جو تنہائی میں مکمل نہیں ہوتا۔ انسان اپنی فطرت میں اجتماعی وجود رکھتا ہے۔ وہ دوسروں کے بغیر جی نہیں سکتا ، نہ محبت کے بغیر، نہ گفتگو کے بغیر، نہ تعاون کے بغیر۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنوع معاشرتی رنگوں میں پیدا کیا، تاکہ وہ ایک دوسرے کو جانے، سمجھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت دنیا تعمیر کرے۔

اسلامی تعلیمات میں اگرچہ "التعايش" یا "العيش المشترك" جیسے الفاظ کم ملتے ہیں، لیکن ان کے مفہوم کی روح قرآن و سنت کے ہر باب میں بہتی دکھائی دیتی ہے۔ پرانے مسلمان اختلافات کے اسیر نہیں تھے۔ ان کے ہاں عقیدے کے فرق کو دشمنی کا نہیں بلکہ امتحانِ انسانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

قرآن کا یہ اعلان کہ “دین میں کوئی جبر نہیں” (البقرہ: 256) اور “جو چاہے ایمان لائے، اور جو چاہے کفر کرے” (الکہف: 29) اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام کا تصورِ ایمان، آزادی، شعور اور اختیار پر قائم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا، اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف۔ بے شک اس میں علم رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔” (الروم: 22)

یہ آیت دراصل کائناتی تنوع کا اعلان ہے ،ایک ایسا تنوع جو اختلاف کو حسن بناتا ہے، ٹکراؤ نہیں۔

عالمِ تفسیر طاہر بن عاشور نے بجا فرمایا کہ انسانوں کی زبانوں اور افکار کا اختلاف دراصل اللہ کی تخلیقی حکمت کا مظہر ہے۔ انسان ایک ہی نوع سے ہیں، لیکن ان کے لہجے، طرزِ فکر اور اظہار کے انداز مختلف ہیں۔ یہی فرق تمدن کا حسن پیدا کرتا ہے۔

اسلام کا تصورِ تعايش :نرمی، عدل اور احترام کا رشتہ

اسلام میں تعايش یا پرامن بقائے باہمی کا مطلب صرف برداشت نہیں بلکہ فعال خیرخواہی اور مثبت تعلق ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جو رحمت، نرمی، انصاف اور احترام پر قائم ہو  فرد سے فرد تک، اور معاشرے سے معاشرے تک۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ نے انسان کو “تنگی” نہیں بلکہ وسعت والا دین عطا کیا ہے:

اللہ نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔” (الحج: 78)

اسلام عقیدے کو ایک باطنی معاملہ مانتا ہے، مگر معاشرتی زندگی کو عدل اور احترام پر قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اس کا حق کم کیا، یا اس سے کوئی چیز زبردستی لی ، تو قیامت کے دن میں خود اس کا مخالف ہوں گا۔” (سنن ابی داؤد)

یہ اعلان صرف ایک مذہبی اصول نہیں، بلکہ انسانی مساوات کا منشور ہے۔

عدل: تعايش کی بنیاد

پرامن بقائے باہمی کا سب سے پہلا ستون عدل و انصاف ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

اور جب بات کرو تو انصاف سے کرو، خواہ معاملہ اپنے قریبی کا ہی کیوں نہ ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔” (الانعام: 152)

اسلام کا یہ عدل صرف مسلمانوں کے لئے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے۔ کسی کے عقیدے، رنگ یا قومیت کی بنیاد پر نفرت یا استہزا عدل کے خلاف ہے۔ ایک سچا مسلمان وہ ہے جو انسانیت کی عزت کو مذہب کے امتیاز سے بلند سمجھتا ہے۔

اسی لئے قرآن اعلان کرتا ہے: “اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے اور انصاف سے پیش آنے سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی۔” (الممتحنہ: 8)

یہ وہ اخلاقی بنیاد ہے جس پر ایک کثرت پسند معاشرہ قائم رہ سکتا ہے — جیسے ہندوستان۔

ہندوستان: تنوع میں وحدت کی مثال

ہندوستان ایک ایسی سرزمین ہے جہاںمختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں ۔یہاں ایک طرف  مسجد کی اذان  سنائی دیتی ہے تو دوسری طرف  مندر کی گھنٹی اور گرجا گھر کی گھنٹی کی آوازیں  سنائی دیتی ہیں۔یہاں محرم کے جلوس اور دیوالی کے دیے، ہولی کے رنگ اور عید کے چاند، سب مختلف تہذیبی مثالوں کا  منظر پیش کرتے ہیں۔ یہی وہ معاشرہ ہے جہاں اسلامی تصورِ تعايش اپنی مکمل معنویت میں جھلکتا ہے۔ اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ دوسروں سے الگ تھلگ ہو جاؤ، بلکہ یہ کہ اختلاف کے باوجود احترام کے ساتھ رہو۔

یہی تعلیم ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے اس قول میں ملتی ہے:

انسان دو طرح کے ہیں ،یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانی بھائی۔

آج کے ہندوستان میں، جہاں مذہبی اور سیاسی اختلافات کی آندھیاں چلتی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بہترین  ورثے کو زندہ کریں جس کی بنیاد عدل، شفقت اور رواداری پر ہے۔

اسلامی تاریخ میں مدینہ کی ریاست اس کا عملی نمونہ تھی ۔ جہاں یہودی، عیسائی، اور مسلمان ایک ہی شہر میں اپنے اپنے عقائد پر رہتے تھے، مگر شہری وفاداری اور عدل کے رشتے سے بندھے تھے۔

عصرِ حاضر میں ضرورت

آج جب دنیا شدت پسندی، مذہبی منافرت اور سیاسی انتہاپسندی کے بحران سے گزر رہی ہے، تو پرامن بقائے باہمی کا تصور پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا دین دلوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، توڑنے کے لیے نہیں۔ فقہی اجتہاد نے ہمیشہ اختلاف کو رحمت کہا، اور علمائے امت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تنوع تباہی ہے۔

آج کے ہندوستانی معاشرے میں، جہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ اور جین سب ایک وطن کے سانچے میں ڈھلے ہیں، ہمیں قرآن کے اُس آفاقی اصول کو یاد رکھنا چاہیے:

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔” (الحجرات: 13)

یہ آیت ہندوستان کی سڑکوں، گلیوں، میلوں، بازاروں اور گاؤں کی فضا میں زندہ ہے۔ یہی وہ روح ہے جو تاج محل کی سفید سنگِ مرمر میں، راجستھان کے قلعوں میں، بنارس کے گھاٹوں میں، اور دہلی کی جامع مسجد کے میناروں میں جھلکتی ہے۔

پرامن معاشرہ : انسانیت کی مشترکہ ضرورت

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کی اصل قدر اس کے ایمان سے پہلے اس کی انسانیت ہے۔ اللہ نے زندگی اور موت کو اس لئے پیدا کیا کہ دیکھے کون خدا کی حقیقی معرفت حاصل کرکے  بہترین  عمل کرتا ہے (الملک: 2)  ۔

اسی بنیاد پر مشترکہ زندگی ایک عملی تجربہ ہے جس میں ہر فرد اپنی بھلائی اور دوسروں کی بھلائی سے جڑا ہے۔ پرامن بقائے باہمی صرف ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک روزمرہ کی مشق ہے ،مسکراہٹ، رواداری، احترام اور انصاف کی شکل میں۔ یہ وہ چراغ ہے جو نفرت کے اندھیرے میں امید کی روشنی بن سکتا ہے۔

اسلام کا تصورِ تعايش ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی سب کے لئے ہے، اختلاف حسن ہے، انصاف ایمان کا تقاضا ہے، اور محبت ہی اصل انسانیت ہے۔ اگر ہندوستانی معاشرہ اس تعلیم کو اپنے دل میں جگہ دے دے تو یہ ملک دنیا کے لیے امن، تہذیب، اور انسانیت کا استعارہ بن جائے گا۔ یہی وہ راستہ ہے جو قرآن کے اس پیغام میں سمٹتا ہے: “یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلو، اور دوسری راہوں پر نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گی۔” (الانعام: 153)

پرامن بقائے باہمی محض ایک فلسفہ نہیں، بلکہ ایک زندہ طرزِ حیات ہے ۔جو دلوں کو جوڑتا ہے، فرقوں کو قریب لاتا ہے، اور معاشرے کو محبت و عدل کا گہوارہ بنا دیتا ہے۔

----------

کنیز فاطمہ عالمہ فاضلہ ، اسلامک اسکالر اور نیو ایج اسلام کی مستقل کالم نگار ہیں

--------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-human-principle-indian-society/d/137472

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

 

Loading..

Loading..