New Age Islam
Tue Mar 25 2025, 11:34 PM

Urdu Section ( 14 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Decoding Islamic Doctrine of Paradisical Houris جنتی حوروں کے اسلامی نظریے کی تفہیم

 نور الاسلام صدیقی، نیو ایج اسلام

 28 اگست 2023

 حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی ووڈ فلم ’72 حوریں‘، اگرچہ بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کی تسکین کے لیے بنائی گئی ہے، لیکن اس نے ایک بار بھر آخرت سے متعلق اسلامی نظریے کی خامیوں کا پردہ فاش کیا ہے، جس کی اسلام کے جدید علماء نے تردید کی ہے، جبکہ کلاسیکی علماء کو انہیں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں تھی۔ لہٰذا، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ آئیے اسلام میں کنواری حوروں کے نظریہ کا جائزہ لیتے ہیں اور اس ماحول کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں یہ نظریہ پروان چڑھا۔

 قرآنی اصطلاح حور یا حور عین اپنے ابہام کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے علماء اور ناقدین کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ تمام کلاسیکی تشریحات میں ہے کہ اس اصطلاح سے مراد نوجوان کنواری خواتین ہیں جو ایمان والوں کو جنت میں بطور انعام پیش کی جائیں گی۔ اس قول کی بنیاد تقریباً 50 نبوی روایات (احادیث) میں ملتی ہے جن میں ان کنواریوں کی مختلف تعداد اور جسمانی صفات کو انتہائی حسیاتی انداز میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

 اگرچہ بہت سی حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ حوریں جنتی انعامات ہیں جو صرف شہیدوں کے لیے ہیں، لیکن چند ایسی احادیث بھی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیک مسلمانوں اور رمضان کے روزے رکھنے والوں یا اللہ کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی دینے والے مردوں کے لیے بھی ہیں۔

 تاہم، بہت سے جدید علماء قرآنی اصطلاح حور کو احادیث میں پیش کیے گئے تصور سے ہٹ کر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کے صحیح معانی مختلف ہیں لیکن ان کے معانی کنواریوں اور جسمانی لذتوں کے مفہوم میں بالکل ہی نہیں ہیں۔

 ایسی تمام احادیث کے تنقیدی مطالعے سے، جو کہ حشر و نشر، موت کے بعد کی زندگی، جزا اور سزا سے متعلق ہیں، ہم اس نتیجے پر پہنچے گے کہ وہ خالصتاً ناصحانہ، من گھڑت اور تضاد کا شکار ہیں، اور ان میں سے اکثر قرآنی تعلیمات کے خلاف ہیں۔

 ایسا لگتا ہے کہ کنواریوں کا نظریہ 9ویں صدی میں فروغ پایا ہو گا کیونکہ ہمیں امام مالک کی موطا میں حور والی احادیث کا کوئی ذکر نہیں ملتا، جو 8ویں صدی عیسوی میں لکھی گئی حدیث کی پہلی کتاب ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان مختلف محاذوں پر برسرپیکار تھے اور بیرونی دنیا سے کثیر جہتی روابط قائم کر چکے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تقریباً 80 فوجی مہمات ہوئیں لیکن جنگیں 20 سے بھی کم ہوئیں۔ ان میں کہیں بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو جنت میں بڑی بڑی آنکھوں والیوں اور ہمیشہ کنواریوں کے لیے لڑنے پر آمادہ کر رہے ہوں۔

 قرآن بھی جنت میں جنسی تسکین کی بات نہیں کرتا۔ یہ نیک لوگوں (متقین) کے لیے ہے قطع نظر جنس کے۔ یہ لازوال خوشی اور سکون کی جگہ ہے جہاں کھانے پینے کی چیزیں اور ہر وہ چیز ہوگی جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ وہاں قرآن کے مطابق باغات، چشمے، پانی کی نہریں، دودھ، شہد اور گوشت، ہر قسم کے پھل، نہ موت، نہ ناراضگی اور نہ تھکاوٹ، اچھے کپڑے، زیور وغیرہ ہوں گے۔

 قرآن میں لفظ حور چار مرتبہ آیا ہے۔ اس کا ترجمہ عام طور پر 'بڑی، خوبصورت آنکھوں والی نیک خواتین کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس بات کی تائید میں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ حور یا حور اور اس کے معنی پر مشتمل آیات کی وضاحت کی ہو۔ کلاسیکی مفسرین کا لفظ حور سے پاک لونڈیاں اور جسمانی لذت مراد لینا ان کا ذاتی اجتہاد ہے اور ہمیں ان کا ماننا ضروری نہیں۔

 طبری (متوفی 923 عیسوی)، اشعری (وفات 936)، غزالی (وفات 1111)، ابن کثیر (وفات 1373) اور سیوطی (وفات 1505) جیسے مشہور کلاسیکی علما اور مفسرین نے جنت میں جنسی لذتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طبری نے اسی روایت کو دہرایا جو 9ویں صدی میں بیرونی درآمدات کے اثر سے پیدا ہونے والی احادیث کی بنیاد پر سامنے آئی اور اس کے بعد آنے والی نسلوں نے بھی اس مانا۔

 جرمن مستشرقین کرسٹوف لکسن برگ نے اپنی کتاب 'دی سائرو-آرامیک ریڈنگ آف دی قرآن: اے کنٹریبیوشن ٹو دی کوڈنگ آف دی لینگویج آف دی قرآن'، جو سب سے پہلے 2001 میں جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی، میں دلیل دی ہے کہ حور عین کی اصطلاح سائرو-آرامیک ہے جو کہ ما قبل اسلام مشرق وسطی کی زبان تھی۔ اور اس سے مراد 'سفید انگور یا کشمش' ہے۔ آرامی زبان کی قدیم مسیحی نظم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ سے مراد ’انگور‘ ہیں جن سے مرنے والے جنت میں لطف اندوز ہوں گے۔ آیت 56:26 میں حور کے لیے یہ صفت استعمال کی گئی ہے، "صدف میں چھپی موتیوں کی طرح" اور "کسی انسان یا جن نے انہیں کبھی چھوا تک نہیں" آیت 55:72، جس سے انگور اور کشمش کا معنی صادق آتا ہے۔

اسی طرح، ولدان مخلدون کی اصطلاح بھی سائرو-آرامیک ہے جس کا مطلب ہے 'ٹھنڈے کشمش والے مشروبات' نہ کہ 'امر جوان لڑکے' جو مشروبات پیش کریں گے۔ اس طرح، دیگر صفتیں "برتن، گھڑے اور پیالے میں (56:18)" اور "جب تم انہیں دیکھو گے تو انہیں بکھرے ہوئے موتی سمجھو گے" (76:19) بھی معنی خیز ہیں۔ لکسنبرگ کے مطابق، سیاق و سباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کھانے پینے کی چیزیں ہیں جو جنت میں پیش کی جائیں گی۔

 مراکش کے اسکالر خالد بنکراش (اور عبدالکریم علوان الخفاجی جیسے دیگر) کے نزدیک حور عین کی اصطلاح عربی ہے جس کا مطلب بہتے ہوئے پانی کا چشمہ ہے۔ وہ عربی اصول و قواعد کے لحاظ سے یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ زوجناھم کا مطلب 'ان سے شادی کرنا' نہیں ہے، یا یہ کہ مفعول کو بغیر کسی صلہ کے آنا چاہیے جیسا کہ ان مختلف جگہوں پر دیکھا جا سکتا ہے جہاں قرآن مجید میں شادی کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں 'و زوجناھم بِحور عین' (آیت 44:54) سے مراد یہ ہے کہ 'جنت میں لوگوں کو بہتی ہوئی ندی ملے گی'۔ یہ تفصیل قرآن مجید میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔

 شامی فلسفی محمد شہرور (متوفی 2019) کا کہنا ہے کہ ایسی تمام آیات جہاں جنت اور زوج (میاں بیوی) کا ذکر آیا ہے، وہ جنس سے قطع نظر ہر ایک کے لیے ہیں، اور وہاں مخصوص جنسی مفہوم اخذ کرنا قرآن کی غلط تشریح ہے۔

-------

 English Article: Decoding Islamic Doctrine of Paradisical Houris

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islamic-doctrine-paradisical-houris/d/130674

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..