New Age Islam
Wed May 31 2023, 06:15 AM

Urdu Section ( 23 Sept 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What Islam Has To Say About Family Values? خاندانی اقدار کے بارے میں اسلام کافرمان کیا ہے؟

 

ایمن ریاض ​​ ، نیو ایج اسلام

4 ستمبر، 2013

کسی بھی  نظام کے تصور کو کما حقہ سمجھنے کے لئے اس کے اصل ذرائع سے رجوع کرنا  ضروری ہے۔ صرف لوگوں کو دیکھ کر اور ان کے اعمال کو بنیاد بنا کر کوئی فیصلہ صادر کرنا اس نظام کے  ساتھ بڑی نا انصافی ہوگی ۔ اسی طرح اسلام میں عائلی نظام کے تصور کو سمجھنے کے لئے ہمیں خاندانوں پر نظر نہیں ڈالنا چاہئے بلکہ اس تصور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے حقیقی ذرائع سے رجوع کرنا چاہئے ۔ عائلی نظام کا فیصلہ اس بنیاد پر نہیں  کیا جانا چاہئے کہ مسلمان کیا کرتے ہیں یا مسلم معاشرہ کیا کرتا ہے ۔ اس  کا فیصلہ مستند ذرائع کے مطابق کرنا چاہئے اور وہ قرآن اور احادیث صحیحہ ہیں ۔

مجھے شروعات سے شروع کرنے دیں ۔ اسلام بچوں سے متعلق خاندانی اقدار کے بارے میں کیا کہتا  ہے۔ قرآن کا فرمان ہے:

"۔۔۔ اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں ۔۔۔ " ( 6:151 )

" اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے۔ "( 17:31 )

بچوں کو قتل کرنا خواہ وہ ایک لڑکا ہو یا ایک لڑکی اسلام میں بہت بڑا گناہ ہے ۔ اور بچیوں کے قتل کے تعلق سے  قرآن مجید میں خاص طور پر ذکر  آیا ہے:

"اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا، کہ وہ کس گناہ پرماری گئی (9- 81:8)

بچیوں کے تعلق سے خصوصی حوالہ کی ضرورت تھی اس لئے کہ عرب میں قبل از اسلام قرآن مجید کے نزول  سے پہلے بڑے پیمانے پر یہ عمل رائج تھا کہ جب بھی کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو  اکثر اسے زندہ درگور کر دیا جاتا ۔ اس آیت کے نزول کے بعد عرب ممالک میں یہ برا عمل مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ۔ لیکن یہ برا عمل اب بھی  دنیا کے کئی حصوں میں رائج ہے خاص طور  پر ثقافتی معیار کی وجہ سے ہندوستان میں ۔

قرآن نہ صرف یہ کہ بچیوں کے قتل سے منع کرتا ہے بلکہ وہ  بچیوں کی پیدائش کی خبر سن کر جان بوجھ کر مغموم ہونے  یا افسردہ خاطر ہونے کے بھی خلاف ہے۔

"حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑ جاتا ہے اور (اس کے دل کو دیکھو تو) وہ اندوہناک ہوجاتا ہے، اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے" (59-16:58)۔

نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا  کہ " جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھے طریقے سے احسان اور محبت کے ساتھ تعلیم و تربیت کی اور ان کی پرورش کی  وہ قیامت کے دن مجھ سے بہت قریب ہو جائے گا "؛ اور ایک اور حدیث میں اسی طرح کی بات کہی  گئی ہے لیکن  اس میں اتنا اضافہ  ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل ہو جائے گا ۔

ایک مرتبہ ایک  شخص نے رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے  بیٹے کا بوسہ  لیااور اپنی آغوش میں لے لیا ، نبی صلی اللہ علیہ نے اس پر اعتراض کیا  اور  کہا کہ اسے اپنی  بیٹی کو بھی بوسہ لینا اور اپنی   آغوش میں لینا چاہیے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی پہلی آیت ' اقرأ ' تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ ' مرد ہو یا عورت علم حاصل کرنا سب پر واجب ہے ' ایک اور مثال میں انہوں نے فرمایا کہ  اس بات کو یقینی بنانا والدین کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے بچوں کو، خاص طور پر لڑکیوں کو تعلیم دیں گے ' ۔

اب قرآن اور اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور عائلی اقدار کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ قرآن عورت کا ذکر (محسنہ) کے طور پر کرتا ہے  جس کا مطلب ہے ' شیطان کے خلاف قلعہ ' ( جو برائی سے تحفظ فراہم کرتا ہے) ۔ ایک اچھی بیوی شوہر کو " سیدھی راہ " پر قائم رکھتی ہے اور غلط راستے پر جانے سے روکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

"اے نوجوان لوگوں ! تم میں سے جو  شادی کرنے کے قابل ہو جائے  اسے شادی کر لینی چاہئے ، (ترجمہ صحیح بخاری ، جلد 7 ، کتاب 62، نمبر 3) " یہاں نوجوان لوگوں کے لئے عربی لفظ ( يا معشر الشباب)  کا استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب نوجوان مرد اور عورت دونوں ہے۔

ایک اور حدیث میں حضرت انس  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ‘‘ جو  شخص شادی کر لیتا ہے وہ اپنا  نصف دین مکمل کر لیتا ہے ’’ ۔ شادی زنا، جنسی اختلاط  اور معاشرے میں پھیلی دوسری برائیوں  سے روکتی ہے۔ جب آپ  شادی شدہ ہوتے  ہیں تبھی آپ کو ایک شوہر یا بیوی ہونے کا ایک موقع ملتا ہے ،  اور شادی کے بعد ہی باپ یا ماں بننے کا موقع ملتا ہے جو کہ اسلام میں اہم فرائض ہیں ۔

قرآن کا فرمان ہے: " اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ اُن کی طرف (مائل ہوکر) آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لئے ان باتوں میں (بہت سی) نشانیاں ہیں۔ "( 30:21 )

اللہ شادی کو ایک مقدس عہد فرماتا ہے : "اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے " ( 4:21 )

اور شادی کو منعقد ہونے کے لئے مرد اور عورت دونوں کی اجازت یکساں طور پر  اہم ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے ‘‘ مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ ’’( 4:19 )

ایک مرتبہ ایک عورت کی اس کے باپ نے  ایک ایسے  لڑکے سے شادی کرنے کے لئے مجبور کیا جسے وہ پسند نہیں کرتی تھی، اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، تو فوراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شادی کو کالعدم قرار دیا  ۔

قرآن مجید میں دو ایسی آیات ہیں جن کو بنیاد بنا کر بہت سے مرد غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ صرف اس آیت کے پیچھے پنہاں حقیقی معنی کو  جانتے تو وہ اپنی  اصلاح کر لیتے ۔کچھ مسلمان مردوں سمیت بہت سے مرد، ان آیات کی وجہ سے خود کو  عورتوں سے برتر سمجھتے ہیں  ۔ وہ دو آیات اس طرح  ہیں:

"۔۔۔  اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے۔ "( 2:228 )

" مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ " ( 4:34 )

دوسری آیت میں عربی لفظ ' قوامہ ' کا  استعمال کیا گیا  ہے۔ اس  لفظ کا مادہ (قوامہ ) ہے جس کا مطلب کفالت  کرنا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کو عورتوں کی کفالت کی ذمہ داری کا ایک اضافی مرتبہ حاصل ہے۔ انہیں کوئی اضافی برتری نہیں حاصل ہے ۔ شوہر اور بیوی دونوں کو برابر حقوق حاصل ہیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے "اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو  "(4:19)  ۔

شوہر اور بیوی دونوں کو ایک لباس کی طرح مظاہرہ  کرنا چاہئے : ان کی حیا کی پردہ داری کرتے ہوئے ، ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو خوبصورتی بخشتے ہوئے ۔ "وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو ۔" ​​( 2:187 )

عورتیں اسلام میں مالی طور پر محفوظ ہیں ۔ شادی سے پہلے اس کی دیکھ بھال کرنا اس کے والد اور کے اپنے بھائی کا فرض ہے، اور اس کی شادی کے بعد، یہ ذمہ داری اس کے شوہر اور اس کےبیٹے کی ہے ۔ یہاں تک کہ شادی کے دوران وہ حاصل کرنے والی ہوتی ہے، اس کے بجائے کہ اس کے خاندان والے جہیز دیں وہ اپنے ہونے والے شوہر کے خاندان سے مہر حاصل کرتی ہے ۔

"اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے ذوق شوق سے کھالو۔ "( 4:4 )

اسلام میں والدین کا نظام بہت اہم ہے۔ سب سے بہترین آیات جو  میں سوچ سکتا ہوں وہ یہ  ہیں:

"اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا،اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال) پر رحمت فرما۔ " (24-17:23) ہمیں  اپنے ماں باپ کےساتھ خوش اسلابی کے ساتھ پیش آنا چاہئے (خلاصۂ  آیت) (6:151)۔

قرآن کایہ بھی فرمان ہے : "اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح (وتقویٰ) دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں۔ " ( 46:15 )

"اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے"( 31:14 )۔

اور اگلی آیت یہ بتاتی ہے کہ  اگر تمہارے والدین تمہیں شرک پر مجبور کریں تو بھی  اس مسئلے میں ان کی  اطاعت نہ کرو، بلکہ اس کے باوجود تم ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش  آؤ اور ان کے ساتھ رحم دلی اور مہربانی کا معاملہ کرو ۔

" اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا۔ (31:15)

اکثر ذکر کئے  جانے والی اس حدیث کو ہر کوئی جانتا ہے : " جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے واقع ہے ۔" اور میں اپنی اس تحریر کا اختتام اپنی پسندیدہ حدیث کے ساتھ کر رہا  ہوں : ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت اور صحبت کا مستحق کون  ہے ؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ، ' تمہاری  ماں '؛ اس شخص نےپھر یہی پوچھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی جواب دیا  ' تمہاری ماں ' اس کے بعد بھی اس شخص نے یہی پوچھا اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار پھر یہی جواب دیا ' تمہاری ماں '، اس شخص نے اس کے بعد پھر یہی پوچھا، آخر میں نبی صلی اللہ علیہ نے جواب دیا  ‘تمہارا باپ’ ۔

متعلقہ مضمون :  Islamic Ethos Underlines Character Building With The Best Of Manners

URL:

http://www.newageislam.com/islam-and-spiritualism/arman-neyazi,-new-age-islam/islamic-ethos-underlines-character-building-with-the-best-of-manners/d/9904

URL for English article:

https://newageislam.com/islam-spiritualism/islam-say-family-values/d/13345

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/islam-say-family-values-/d/13642

 

Loading..

Loading..