New Age Islam
Wed May 31 2023, 06:43 AM

Urdu Section ( 29 Dec 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam: A Preacher of Non-Violence and Justice اسلام عدل اور عدم تشدد کا مبلغ ہے

 

سید قیصر رضا

27 دسمبر، 2014

اللہ خالق کائنات ہونے کے ساتھ عالمین کا رب بھی ہے ۔ اس لئے اس کی ربوبیت کا تقاضہ ہے کہ کل مخلوق کی ضروریات کو پورا کرے ۔اس لیے جب وہ پانی برساتا ہے تو یہ  نہیں دیکھتا کہ یہ ہند و کا کھیت ہے یا مسلمان کا۔ سورج کی تمازت غریب اور امیر کی  تفریق نہیں  کرتی۔ نسیم سحر ہو یا گرم ۔ لو کے جھونکے  سبھی کے واسطے یکساں تاثیر رکھتےہیں ۔ اللہ نے دنیا کے ہر علاقے میں فی زمانہ ہادی معین کیے  تاکہ وہ انسان کو ہدایت کے ذریعے نیک کام کرنے اور برائیوں سےدور رہنے کی ہدایت کرتے رہیں اور سب آخر میں پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عالمین کے واسطے رحمت بناکر بھیجا تاکہ  وہ سبھی انسانوں کو فلاح  کا پیغام دیں اور سچ و جھوٹ ،حلال و حرام، نیک و بد، حق و باطل کی پہچان کرانے کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تعلیم دیں تاکہ ایسا معاشرہ وجود میں آسکے جو فتنہ و فساد، ظلم و تشدد سے پاک، امن و سکون کاگہوارہ ہو۔ اس لیے اسلام نے صرف ان ہی چیز وں کو حلال جائز قرار دیا ہے جو معاشرے کے واسطے نہ جائز قرار دیا ہے جو معاشرے کے واسطے نہ صرف فائدہ بخش ہوں بلکہ کسی بھی طرح مضرنہ ہوں ۔اس طرح کا معاشرہ وجود میں لانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان رسالت سےقبل معاشرے کی حالت  یہ  تھی کہ ظلم و تشدد کا بازار گرم تھا ۔ فتنہ فساد ان کی فطرت تھی ۔ لوٹ  مار، قتل و غارتگری ان کا پیشہ تھا۔ جرائم کو سماج میں عزت  کامعیار سمجھا جاتا  تھا۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کردینے کا عام رواج تھا ۔ کنیزوں ، عورتوں  اور غلاموں کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی ۔ ایک انسان اپنی طاقت اور دولت کی بدولت سیکڑوں غلاموں اور کنیزوں کا مالک ہوتا تھا ۔ غرض کوئی عیب ایسا نہ تھا جو اس وقت کے لوگوں میں موجود نہ ہو۔

اس طرح کے معاشرے کی اصلاح کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ کوئی فوج تھی نہ ہتھیار ، نہ دولت نہ حکومت او رنہ عوامی حمایت حاصل تھی، یہا ں تک کہ آپ کے رشتہ دار ہی آپ کی مخالفت میں نمایاں تھے ۔ یعنی آپ کا چچا ابو لہب ہی جان کو دشمن بنا ہوا تھا ۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق و کردار جذبۂ خدمت خلق  ، قوت ارادی اور عدم تشدد کی بدولت سماج میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا کہ نہ صرف بلکہ دیگر ممالک کے لوگ بھی آپ کے عالمگیر پیغام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے جس پیغام سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھاکہ تمام انسان برابر اور بھائی بھائی ہیں اور رنگ  و نسل، ملک و زبان ، طاقت و دولت کی بنیاد پر ایک انسان کو دوسرے  انسان پر کوئی سبقت حاصل نہ ہوگی۔ سب ایک ہی اللہ کی مخلوق ہیں ۔ اسی بات کو قرآن  کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ‘‘ اے لوگو! ہم نے تم سب کو مرد عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور تمہیں مختلف خاندانوں او رقبیلوں میں قرار دیا تاکہ ایک دوسرے کے درمیان پہچانے  جاسکو۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں مکرم ترین وہ ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے ’’۔ ( سورہ حجرات، آیت 13)اسی ضمن میں  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ‘‘ عرب کو عجم پرکوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ سب انسان ایک کنگھی کے دندانوں کی مانند ہیں ۔ تمام انسان ایک عمارت کے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کو بخوبی  محفوظ رکھتے ہیں ۔ اللہ کے بندو! ایک دوسرے کے بھائی  بنے رہو ’’۔ اسلام نے فضیلت کیا  معیار تقویٰ و پرہیز گاری ، علم ، ایمان اور فداکاری  کو قراردیا ہے ۔ یعنی  انسان جتنا متقی و پرہیزگاری  ہوگا اتنا ہی خود کو گناہوں سے پاک و صاف رکھے گا اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایمانداری سے کوشش کرے گا۔نتیجے میں عزت اور اہمیت کا حامل ہوگا ۔

 اسلام نے تمام لوگوں کو مشترک و مساوی حقوق دیے ہیں ۔ ہر انسان کا مد مقابل کوئی امیر، سلطان ، یا خلیفہ ہی کیوں نہ ہو عدالت میں سب کی حیثیت ایک عام شہری کی ہونی چاہئے اور فریقین کے درمیان عدل و انصاف پر مبنی  فیصلہ ہو۔ ایک نیک اور پر امن معاشرے کی تشکیل کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  نے جن اصولوں  کی تبلیغ  کی تھی وہ صرف کتابوں اور خطبوں کی حد تک محدود نہ رہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات  خود ان اصولوں پر عمل  کرکے دکھایا تاکہ کوئی انسان یہ شکوہ کرتا ہوا نظر نہ آئے کہ اسلامی قوانین ناقابل عمل ہیں ۔ مثلاً  حضرت سلمان فارسی  جو عظیم المرتبت صحابی رسول تھے ۔ جن کا تعلق فارس سے تھا اور زبان بھی فارسی تھی ۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مشوروں کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔ جنگ خندق  میں خندق کھودنے کامشورہ  حضرت سلمان  فارسی رضی اللہ عنہ  نے ہی دیا تھا ۔ ان کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک  فرمایا تھا  کہ سلمان میرے اہلبیت جیسے ہیں ۔ اعلان رسالت سے قبل عرب کے مادہ  پرست سماج کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ قبیلوں کے سردار اور دولت مند لوگ سیکڑوں کی تعداد میں غلام پالتے تھے جنہیں  قیدی  بنا کر رکھا جاتاتھا اور ان سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔محلوں اور قلعوں کی تعمیر کے واسطے انہیں غلاموں کی پیٹھ پر لاد کر پتھر لائے جاتے تھے اور اسی غیر فطری اور غیر انسانی مشقت  کے دوران  بہت سے غلام جان بحق ہو جایا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ غلاموں کو کام پر بلانے کاطریقہ یہ تھا کہ ایک مخصوص کی آواز نکالی جاتی تھی جسے سنتے ہی تمام غلام ایک مقام پر اکٹھا ہوجاتے تھے اور انہیں مختلف  مشقتوں میں لگا دیا جاتاتھا لیکن  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج کے اس پس ماندہ طبقہ کو احساس کمتری اور احساس ذلت سے چھٹکارا دلانے کے غرض سےبہت سے عملی اقدام کیے  جیسے حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ جو ایک حبشی غلام تھے جن کے ہونٹ موٹے اور رنگ کالا تھا ، یہاں تک کہ عربی لفظ  بھی درست نہ تھا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کا سب سے پہلا مؤذن معین کیا اور اسے ایک سماجی اور معاشرتی انقلاب ہی کہا جاسکتاہے کہ ایک غلام کی آواز پرقبیلوں کا سردار اور امیر اور دولتمند حضرات مسجد میں دوڑے چلے آتے تھے اور ایک مالک حقیقی  کے حضور میں سر بسجود ہوجایا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عملی اقدام کامقصد یہ مثال پیش کرناتھا کہ اسلام کی نظر میں غلام ہو یا آقا ، امیر ہو یا غریب ، بادشاہ ہو یا رعایا ، سب کا مالک صرف ایک ہے او روہ ہے اللہ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیاکا کوئی معاشرہ ایسا نہیں ہے جس میں وہ  دو طبقے  نہ پائے جاتے ہوں، غریب او رامیر۔ اس وجہ سے دولتمند لوگ ہمیشہ  ہی اپنی دولت اور طاقت کے ذریعے غریبوں کا استحصال کرتے رہے ہیں  اور سماج میں پائی جانے والی اسی تفریق  کا نتیجہ نفرت، حسد، فتنہ و فساد، ظلم و تشدد ہوتاہے۔ اسلام نے اسی تفریق اور خلیج کو پاٹنے کے لئے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کیا ہے کہ اس پر اگر باقاعدہ طور پر عمل کیا جائے تو سماج کے اندر پائی جانے والی بہت سی خرابیاں خود بخود دور ہوجائیں گی۔ اسلام کے اس اقتصادی نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ امیر کی دولت میں غریب  کا بھی حق رکھ دیا گیا ہے اور زکوٰۃ کو عبادت کا ایک رکن قرار دے کر یہ حکم دیا ہےکہ امیر اپنی دولت کا کچھ حصہ غریبوں کو دیں۔ اسلام کے اس اقتصادی نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ زکوٰۃ کے سلسلہ میں اس حد تک تاکید کی گئی کہ قرآن  شریف میں جہاں جہاں  بھی نماز کا حکم دیا ہے اس کےساتھ ساتھ  زکوٰۃ کابھی حکم موجود ہے۔ متعدد مقامات پر ارشاد ہوا ہےکہ نماز پڑھو او رزکوٰۃ دو۔ زکوٰۃ کو واجب قرار دے کر ایک ایسا نظام کیا گیا کہ امیر اپنا فرض سمجھ کر زکوٰۃ دے گا اور غریب اپنا حق سمجھ کر زکوٰۃ لے گا۔ اس طرح اسلام نے یہ بات واضح کردی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی  غریب کی امداد یا اس پر احسا ن نہیں ہے بلکہ فرض کی بجا آوری ہے۔ فطرت انسانی یہ بھی  ہے کہ وہ لوگوں پر اپناغلبہ اور تسلط قائم کرنے کےلیے اپنی دولت ، طاقت ، اور ظلم و تشدد کے ذریعے اپنے سے کمزور انسان کو خوفزدہ کرتا رہتاہے ۔اپنی غلطی اور ناحق  بات منوانے کےلیے ہر طرح کے حربوں کا استعمال کرتاہے اور جن کو وہ جائز سمجھتا ہے اور یہی عمل سماج میں فتنہ و فساد ، ظلم و تشدد کی بنیاد بنتا ہے۔ اس برائی کی بھی اسلام نے نہ صرف مذمت کی بلکہ ظالم کو اس کے انجام سے آگاہ کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

اس سلسلہ میں قرآن شریف کا فرمان ہے ‘‘ ہم نے ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جو ان کو اپنے گھیرے میں لیے رہے گی اور جب وہ پیاس کی شدت سے پانی مانگیں گے تو انہیں  پگھلتے ہوئے تانبے  کی مانند کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ جس سے ان کے چہرے جھلس جائیں گے ۔ وہ پانی پینے میں بہت  بد مزہ ہوگا۔ دوزخ ایک بری منزل ہے۔’’  ظلم اور ظالم کی مذمت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ ظلم سے ڈرو کیونکہ یہ تمہیں بروز قیامت تاریکیوں میں گرفتار کردے گا۔ مظلوم کا ہر حال میں دفاع کرو اور اسے اکیلا مت چھوڑ و۔ ہر وہ اقدام کرو جس سے ظالم ظلم سے باز رہے۔’’ حضرت علی علیہ السلام نے ظلم کی مذمت اس طرح کی ہے کہ ظلم گھروں کو خراب او ربرباد کر دیتا ہے ۔ جو ظلم کرتا ہے وہ اپنے امور خود اپنے ہاتھوں برباد کرتا ہے اور اپنی عمر کو تباہ کرتاہے اور خود کو فنا کی آغوش میں دے دیتا ہے ۔ جو اپنی رعایا او رماتحتوں پر ظلم کرتاہے وہ اپنے دشمنوں کی مدد کرتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےآپس میں خلوص و محبت ، اتحاد و ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنے کی متعدد طریقوں سے ہدایت کی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر انسان پر دوسرے انسان کے کچھ  حقوق ہوتے ہیں ۔ اگر انسان ان حقوق انسانی کو ادا کرتارہے اور انہیں کسی طریقے سے پامال نہ ہونے دے تو  کوئی وجہ نہیں کہ سماج میں عدل  و انصاف کا ماحول پیدا نہ ہوسکے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل اقوال سبھی  انسانوں کے واسطے مشعل راہ ہیں: ایک دوسرے کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو کرو، جو چیز اپنے لیے پسند کرو ، وہی دوسرے کے لیے پسند کرنا اور جو اپنے  واسطے  نا مناسب سمجھو اسے دوسرے کے لیے بھی نا پسند کرنا، جب کوئی کسی کی  غیبت کرے تو اسے روکنا اور جس کی غیبت  کی جارہی ہو اس کا دفاع کرنا ، مریض  ہونے کی صورت اس کی عیادت کرنا، دسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا ، جب وہ دنیا سے جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرنا۔ اس کی نیکیوں  اور خدمت کاشکریہ ادا کرنا۔ اس کے اہل خاندان کی حفاظت کرنا، یہی  وہ اسلامی  تہذیب ہے جس نےعرب کے ریگستان میں لوگوں کو گمراہی  کے اندھیروں سے نکال کر باعزت او ربا وقار زندگی گذار نے کا سلیقہ سکھایا اور عدم تشدد کا مبلغ بن کر سبھی انسانوں کو فلاح کا پیغام  دیا، آج مسلمانوں کی نا قدری ، بے حرمتی  اور بدحالی کی وجہ صرف یہی ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو نظر انداز کرکے دنیا کے سامنے ایک ایسے اسلام کو پیش کیا جارہا ہے جو کسی بھی طرح قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے میل نہیں  کھاتا۔ آج اگر مسلمان اسلام کی اس حقیقت کو سمجھ لیں  جس کافلسفہ حضرت علی علیہ السلام نے اس طرح بیان کیا ہے تو اس کی تقدیر بدل جائے ۔ ‘‘ اسلام سر تسلیم خم کرنا  ہے اور سر تسلیم جھکانا یقین  ہے اور یقین  تصدیق  ہے اور تصدیق اعتراف ہے اور اعتراف فرض کی بجا آوری ہے اور فرض کی بجا آوری عمل ہے’’۔

27 دسمبر، 2014  بشکریہ : روز نامہ صحافت، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/islam-preacher-non-violence-justice/d/100730

 

Loading..

Loading..