مفتی محمد اطہر شمسی
1 جون،2025
گزشتہ دنوں پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ کے جواب میں ہندوستان نے پاکستان میں واقع متعدد مسلح تنظیموں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ ہندوستان میں اس حملہ کانام آپریشن سندور رکھا۔ یہ لفظ ہندوستانی تہذیب سے مستعار ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہندوستانی افواج اور شہریوں کے خلاف کارروائی کا نام ’بنیان مرصوص‘ رکھا جو کہ خالص قرآنی اصطلاح ہے۔ (الصف 04:61)بنیان مرصوص کے معنی ہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ قرآن میں بنیان مرصوص انسانیت کے دشمنوں سے لڑنے پر مجبور ان اہل ایمان کوکہا گیا ہے جن کی طاقت واتحاد ناقابل شکست ہو۔
سیاسی مقاصد کے لئے اسلامی اصطلاحات کا استعمال درست نہیں ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے روز سے ہی اسلامی اصطلاحات کا استعمال کرتا رہا ہے۔ 1947 ء میں پاکستان کاقیام اسلام اورمسلمانوں کے نام پر عمل میں آیا۔ تحریک پاکستان کے دوران نعرے لگائے گئے ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہٰ اللہ۔7 مارچ 1949 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں ایک قرار داد پاس کی گئی جس میں کہا گیا کہ اقتدار اعلیٰ محض اللہ کے لیے ہے۔ 1956 کے آئین میں پاکستان کواسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ 1971 میں اپنے ہی بنگالی بھائیوں کا قتل عام کیا گیا۔ حیرت ہے کہ الشمس جیسے گروپ اس لڑائی کو جہاد بتاتے اور افواج پاکستان کے شانہ بہ شانہ لڑتے رہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں جہاد، مجاہد، شہید جیسے قرآنی الفاظ کا سیاسی استعمال عام ہوگیا۔اسلامی اصطلاحات کی سیاسی تشریح پاکستان کے نصاب میں شامل کی گئی۔ اُمت او رملت کو پاکستانی نیشنل ازم کے ہم معنی قرار دیا گیا۔ جب کہ قرآن کے مطابق امت وہ بین الاقوامی ادارہ ہے جو بلاتفریق مذہب تمام انسانیت کا خیر خواہ ہو۔(آل عمران 110:3)اسی طرح ملت صراط مستقیم پرچلنے کا نام ہے جو ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ (الانعام 161:6)۔ ان اصطلاحات کا کوئی تعلق موجودہ سیاسی مقاصد سے نہیں ہے۔
قرآن کے مطابق مسلح جہاد ایک خالص دفاعی لڑائی کانام ہے جس کی اجازت انہی لوگوں کو دی گئی ہے جن کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی ہو۔(الحج 39:22)جہاد کا کوئی تعلق سرحدوں کی توسیع یا سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے لڑی جانے والی جنگ سے نہیں ہے۔قرآن میں شہید ان اہل ایمان کو کہا گیاہے کہ جو اپنے کردار کے ذریعہ ہمیشہ حق اور انصاف کی گواہی دیں (البقرۃ 143:2)قرآن میں خود اللہ کو بھی شہید کہا گیاہے کیونکہ وہ گواہ ہے (الانعام 19:6)کوئی ملک جب اپنے فوجیوں کو شہیدکہتا ہے تو اس کامطلب ہوتاہے اس ریاست کا شہید۔ سوال یہ بھی ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص اگر قرآن کے الفاظ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھی تو وہ ہندوستانی افواج کے سامنے اتنی جلدی منہدم کیوں ہو گئی؟ فوجی کارروائی روکنے کیلئے پاکستان کو ہندوستان سے اپیل کیوں کرنی پڑی؟ ان کا ائیر ڈیفنس سسٹم ہندوستانی فضائیہ کے مقابلہ میں کیوں ناکام ہوگیا؟ یہ کیسی ”بنیان مرصوص“ تھی جسے خود اپنے بچاؤ کے لئے عام شہری پروازوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا پڑا؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور اسلامی اصطلاحات پاکستان کے لیے محض اپنے سیاسی مفادات کے حصول کاذریعہ ہیں۔ حیرت اور افسوس کامقام تو یہ ہے کہ بعض استثناء کو چھوڑ کر علماء پاکستان عام طور پر ریاست پاکستان کے اس جرم پرخاموش رہتے ہیں۔پاکستان کے ذریعہ اسلامی اصطلاحات کے غلط استعمال کا نتیجہ براہ راست طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو بھگتنا پڑتاہے۔ پاکستان اسلامی اصطلاحات کا استعمال اپنے سیاسی اور فوجی مقاصد کے لیے کرتاہے۔ اصطلاحات ایک ہونے کی وجہ سے ہندوستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یہاں کے مسلمانوں کو بھی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے لگتا ہے۔ بسا اوقات ہندوستانی مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ ان میں ایک قسم کا احساس کمتری جڑ پکڑ رہا ہے۔ خود کو غلط سمجھ لیے جانے کا ڈر ہندوستانی مسلمانوں کے ذہن کا حصہ بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ملک کی ترقی میں بھرپور او رمطلوب کنٹر ی بیوشن نہیں دے پارہے ہیں۔ Stuart Hall کے الفاظ میں ہندستانی مسلمانوں کو ان آئیڈیالوجی او راعمال کیلئے جواب دہ ہونا پڑتا ہے جن کی انہوں نے کبھی حمایت نہیں کی۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام وہ ہے جو قرآن میں ہے۔ ریاست پاکستان کوبھی یہ بات بخوبی طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ اگر اسے ہندوستان سے لڑائی جاری رکھنی ہے تو وہ اپنے دم پرایسا کرے۔ اپنی جنگ کو اسلام کے کاندھوں پر ڈالنا ایک اخلاقی بزدلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam-political-agendas-hijack-terminology/d/135773
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism