ڈاکٹر محمد احمد نعیمی
(آخری قسط )
5 جنوری، 2024
معاشرتی زندگی میں ایک
دوسرے کے لئے محبت و اخوت کے فروغ کا بہترین ذریعہ دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا
بھی ہے۔خود رسول اللہ ﷺ نےنہ صرف یہ کہ غیر مسلم یہودی کی
دعوت قبول فرمائی ہے بلکہ غیر مسلموں کو دعوت دیا کرتے تھےاور ان کی مہمان نوازی
کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے جب اظہارِنبوت یا اعلانِ رسالت
فرمایا تو بنی ہاشم کو طعام کے لئے مدعو کیااور تقریباً تیس لوگوں کو جمع فرمایا
۔اور کھانا کھلانے کے بعد ان کے سامنے اسلام کا تعارف پیش فرمایا۔
اسی طرح آپ ﷺ نے مہمان
نوازی کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ مہمانوں کا اعزازواکرام کرنے کی بہت فضیلت بیان
کی ہے۔اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔آپ ﷺ کے پاس
مختلف علاقوں اور قبیلوں کے سردار اور وفد آیا کرتے تھے اور آپ ان کی مہمان
نوازی فرمایاکرتے تھے۔جنگ بدر میں جو لوگ قیدی بنائے گئے ،ان کے بارے میں آپ ﷺ نے
اپنے صحابہ کو ہدایت و نصیحت فرمائی کہ ان کے کھانے پینے کا بہتر انتظام کریں ۔اسی
لئے بہت سے صحابۂ کرام خود معمولی کھانا کھاکر ان کو بہتر کھانا کھلایا کرتے
تھے۔حالانکہ وہ حملہ آور جانی و مالی اور ایمانی دشمن تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب
المغازی)
ابتدائے اسلام میں بعض
مومنوں کو شبہ ہوتا تھا کہ کافر و مشرک اعزا و اقرباکے ساتھ کیسے محبت و ہمدردی
اور صلہ رحمی کا برتائو کیا جائے۔ چنانچہ قرآنِ پاک اور حدیث پاک نے اسی دور میں
اس مسئلہ کو بالکل واضح فرمادیا اور ارشاد فرمایا کہ :
’’اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف سے منع
نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں
سے نہ نکالا ہو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تمہیں ان
لوگوں کو دوستی سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ مین جنگ کی ہو اور
تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ، جو ان سے
دوستی کرے وہی ظالم ہیں ۔‘‘
(سور?ۃ الممتحنہ:۸
:۹)
اورحدیث شریف میں ہے :
’’حضرت اسماء بنت ابو بکر
فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺکے زمانے میں میری والدہ (جو مشرکہ تھیں ) عمدہ سلوک کی
طلب میں میں میرے پاس (مدینہ) تشریف لائیں ۔ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ، کیامیں
اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ آپؐ نے فرمایا:ہاں ان کیساتھ نیک سلوک
کرو۔‘‘(صحیح بخاری ، کتاب الادب)
قرآن و حدیث کی عبارات
سے واضح ہوتا ہے کہ جو قوم مسلمانوں سے جنگ و جدال نہ کرے اور ان کو ان کے گھروں
سے نہ نکالے تو ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کو اسلام منع نہیں کرتا۔ بعض لوگ
لاعلمی یا تعصب کی بنا پر کہتے ہیں کہ اسلام میں اقلیتوں یعنی غیر مسلموں کے حقوق
محفوظ نہیں ہیں ، ان کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے مظلوم و مجبور ہونے کی صورت میں ان
کے ساتھ انصاف کا برتائو نہیں کیا جاتا ۔ یہ سراسر بہتان و الزام ہے کیونکہ اسلام
ہی وہ مذہب ہے کہ جس میں غیر مسلموں کے حقوق مالی و جانی اعتبار سے مسلمانوں کے
حقوق کے مساوی ہیں ۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلم اسلامی دستور کے مطابق اپنے جملہ
تمدنی حقوق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اپنے پرسنل لاء پر عمل کر سکتے ہیں ، اپنی
عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں ، ان کے مال و جائیداد پر کوئی جبراًقبضہ نہیں
کرسکتا، ان کی جان و عزت نفس پر کوئی دست درازی نہیں کرسکتا۔
خیال رہے کہ اسلام
نےانسانی زندگی کے ہر شعبے میں غیر مسلموں کے ساتھ عمدہ برتائو کرنے کا درس دیا ہے
اور انسانی حقوق کے نفاذ میں ان کے ساتھ مکمل عدل و انصاف سے کام لیا ہے۔ بلکہ اس
سلسلے میں جس فراخ دلی اور عظیم رواداری کا نمونہ پیش کیا ہے وہ پوری دنیا کے لئے
قابل عمل ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح حیرہ
کے موقع پر جو معاہدہ ہو ا تھا اس میں تحریر تھا کہ : ’’کوئی بوڑھا جو کام سے
معذور ہو جائے یا کوئی سخت مرض میں مبتلا ہوکر مجبور ہوجائے یا جو مالدار ہو پھر
ایسا غریب ہوجائے کہ خیرات کھانے لگے ایسے لو گوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جب
تک وہ زندہ رہیں ان کے اہل و عیال کے اخراجات مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کئے
جائیں ۔‘‘(انسانی حقوق اور اسلامی نقطۂ نظر )
کسی مسلمان کے معذور یا
مجبور ہوجانے پر شریعت اسلامی بیت المال سے اس کی کفالت و تربیت کا حکم دیتا ہے
اور یہی حکم ذمی غیر مسلم کے لئے ہے۔ چنانچہ حضرت سعد بن المسیب سے مروی ہے ’’رسول
اللہ ﷺ نے یہودیوں کے ایک گھرانے کو صدقہ دیا اور حضوراکرم ﷺ کے وصال کے بعد بھی
وہ انہیں دیا جاتا رہا۔ (الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ )اسی طرح ایک دوسری
روایت میں ہے : ’’تمام اہل مذاہب پر صدقۂ
و خیرات کرو۔‘‘
( نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ)
اس طرح اسلام نے محتاجوں
و معذوروں کی خدمت کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں حسن سلوک کا درس دیا ہے اور
مسلم یا غیر مسلم ، قومی یا غیر قومی ، نسلی یا غیر نسلی اور ملکی یا غیر ملکی کا
فرق کئے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کئے جانے کا حکم دیا ہے۔
ذریعۂ معاش و روزگار بھی
انسانی زندگی کا اہم جزو لا ینفک ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو مسلمانوں سے کاروبار
کرنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور ان کے خوردو نوش کے خیال رکھنے کی بھی خاص
تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور ﷺ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ
آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس ۳۰؍صاع
جو کے عوض رھن تھی۔(صحیح بخاری ،کتاب الجہادوالسیر)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
ایک مقام سے گزر ہوا تو آپ نے ایک بوڑھے نابینا یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔
آپ نے اس سے پوچھاتمہیں اس پر کس بات نے مجبور کیا اس نے کہا کہ بوڑھا ضرورت مند
ہوں اور جزیہ بھی دینا ہے،حضرت عمر نے اس کا ہاتھ پکڑااور گھر لائے اور اس کو اپنے
گھر سے کچھ دیا پھر اس کو بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ اس کااور
اس جیسے لوگوں کا خیال رکھو اور ان سے جزیہ لینا موقوف کرو کیونکہ یہ کوئی انصاف
کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے جزیہ وصول کیا اور اب بڑھاپے میں
ان کو اس طرح ر سوا کریں ۔
(کتاب الخراج )
عام طور سے دیکھا جاتا ہے
کہ مسلمان بچوں کے ساتھ تو ہم کسی قدر محبت وشفقت کا برتائو کرتے ہیں لیکن کفار کے
بچوں کے ساتھ ہمار جو طرز عمل ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ان کی جانب تو کوئی
نظرمحبت و التفات ہوتی ہی نہیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
اسوہ?ٔحسنہ اور حسنِ سلوک سے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی محبت ونرمی کی تلقین فرمائی
ہے۔ ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ کی خدمت میں تھا وہ ایک بار بیمار ہوگیا۔ آپ نے از
خود تشریف لاکر اس کی عیادت فرمائی ، اس بچے کے سرہانے بیٹھے ، پھرا س بچے سے
فرمایا اسلام قبول کرو اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی ، والد نے بھی کہا
ابوالقاسم کی اطاعت کر لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا۔ آپ یہ کہتے ہوئے نکلے ’’تما م
تعریفیں اللہ کے لئے جس نے اس کو آگ سے بچالیا۔ ‘‘(صحیح بخاری)
اس حدیث سے ظاہر ہوتاہے
کہ بچے پر شفقت و محبت کی جائے چاہے وہ بچہ کافر کا ہی کیوں نہ ہو۔ نیز اس حدیث سے
جہاں غیر مسلم بچوں کے ساتھ محبت وشفقت کا برتائو کرنے کا سبق ملتا ہے وہاں غیر
مسلم کی عیادت کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے
:
’’یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ یہ ان
کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
اسی طرح اگر کسی غیرمسلم
کا انتقال ہو جائے تو انسانیت کے ناطے اس کی تعزیت کے لئے جانے سے بھی اسلام منع
نہیں کرتا۔ چنانچہ رد المختار علی الدر المختار میں ہے کہ ’’ کسی یہودی یا مجوسی
کے بچے کا انتقال ہوجائے تو اس کے مسلمان پڑوسی کو اس کی تعزیت کرنی چاہئے اور
کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہت اچھاجانشین عطا فرمائے اور آپ کے
حالات کو بہتر بنائے۔‘‘
انسانی زندگی اور انسانی
معاشرہ میں پڑوس کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ ہر انسان اور ہر شئی کا کوئی نہ کوئی یا
کچھ نہ کچھ پڑوس ضرور ہوتا ہے مثلاً ایک انسان دوسرے انسان کا پڑوسی ، ایک گھر
دوسرے گھر کا پڑوسی ، ایک خاندان دوسرے خاندان کا پڑوسی ، ایک محلہ دوسرے محلہ کا
پڑوسی، ایک شہر دوسرے شہر کا پڑوسی، اور ایک ملک دوسرے ملک کا پڑوسی ہوتا ہے۔
اسلام نے پڑوسیوں کو جو انسانی حقوق عطا فرمائے ہیں اور ان کے ساتھ جس حسنِ سلوک
سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے وہ سب کے لئے عام ہے اس میں مسلم یا غیر مسلم کی کوئی
تخصیص نہیں ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے :
’’اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور شتہ داروں سے اور یتیموں اور
محتاجوں اور پاس کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی سے۔‘‘(النساء:۶۳)
اسی طرح حدیث شریف میں ہے
:
’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے پڑوسی کو اذیت نہیں
پہنچانا چاہئے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
’’اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون؟
فرمایا جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے بے خوف نہیں ۔‘‘ (صحیح بخاری)
’’جوشخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے
پڑوسی کی عزت کرے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
’’حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ بے شک میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم
نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم سالن پکائو تو اس میں شوربہ زیادہ کرو اور پھر
اپنے پڑوسیوں کے گھر والوں کو دیکھو اور اچھی چیز ان کو بھی بھیجو۔‘‘(صحیح مسلم)
مذکورہ بالا فرمان خداوندی
اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پڑوسی کے تعلق سے جو حسن اخلاق اور عمدہ
برتائو کی ہدایت و نصیحت کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم مسلم اور غیر مسلم
دونوں کیلئے یکساں ہے۔
5 جنوری، 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism