New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 04:48 PM

Urdu Section ( 22 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam's Global system of Pondering over and Thinking About اسلام کا عالمی نظام تدبر و تفکر

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

22 مئی 2025

آج جو تخلیقی اور تحقیقی کارنامے عالمی سطح پر انجام دیئے جارہے ہیں انہوں نے سماج میں  اپنی الگ گرفت بنائی ہے البتہ یہ سچ ہے کہ آج کی مصنوعی تخلیقات کے سماج پر منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ جب کوئی جدید تحقیق یا کسی تخلیقی عمل سے معاشرہ متعارف ہوتا ہے تو اس سے استفادہ  یا عدم استفادہ کے بارے  متضاد آراء پائی جاتی ہیں اور یہ صحیح بھی ہے کہ کسی چیز کو یوں ہی بغیر اس پر غور و خوض کیے قبول نہ کیا جائے ۔ پوری تحقیق اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے ، سماج میں اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے، اس طرح کی تمام باتوں پر غور کرکے کوئی نتیجہ نکالا جائے اور پھر اس کے جواز یا عدم جواز پر بحث ہو ۔ غور و فکر کے بعد جو نتیجہ بھی برآمد ہو اسے من و عن عوام تک پہنچایا جائے تاکہ کسی بھی طرح کا شک و شبہ پیدا نہ ہو ۔ یہ کردار اور کارکردگی در اصل سنجیدہ اور حساس معاشرے کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں۔ برعکس اس کے جو معاشرے حساس نہیں ہوتے ہیں وہ بغیر غور و خوض کے اور عجلت میں اس پر کوئی حکم عائد کردیتے ہیں جس کے نتیجہ میں سماج میں بے معنی اختلاف پیدا ہوتا ہے اور پھر اس سے معاشرے کا صرف فکری و نظریاتی توازن ہی معدوم نہیں ہوتا ہے بلکہ امن و امان بھی غارت ہوتا ہے۔ اس لیے عجلت میں لیا گیا کوئی بھی فیصلہ خواہ اس کا تعلق امور دنیا سے ہو یا دینی مسائل و احکام سے اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں ۔

آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کے اپنے تقاضے اور ضرورتیں ہیں، جو انکشافات ہمارے سامنے آئے دن آ رہے ہیں ان کے متعلق بھی کوئی حتمی رائے اسی وقت وجود میں آسکتی ہے جب کہ اس معاشرے میں رہنے والے افراد کے  اندر سوچنے اور غور و تدبر کرنے کی صلاحیت موجود ہو ۔ ہمارے ڈھل مل رویہ اور مستحکم فکر یا کوئی ایک رائے نہ ہونے کی وجہ سے آج کتنے مسائل سماج میں پیدا ہورہے ہیں اس کا اندازہ تک نہیں ہے اور یہ اختلافی مسائل جو منفی اثرات سماج پر ڈال رہے ہیں اس کا احساس  تک نہیں ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ،عقیدت  یا نفرت میں کوئی بات کہنے کا اب تو ایک  سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ کیا کہنا ہے، کیا نہیں کہنا ہے جب انسان کو اس کا  شعور  ہو جاتاہے اور کوئی بات کہنے ، لکھنے سے پہلے دہرا لیتا ہے تو وہ ان تمام جرائم ، گناہوں اور خطاؤں سے  محفوظ ہوجاتا ہے جو جلد بازی میں اس سے سرزد ہونے کا اندیشہ تھا یا جن کی وجہ سے سماج میں بد امنی پھیل سکتی تھی ۔

آج ہمارے سامنے ایک کردار ذرائع ابلاغ کا  ہے جو آئے دن خاص کمیونٹی کی خوشنودی کی خاطر اپنی  رسوائی کراتا ہے ۔ جھوٹی خبریں چلا کر یا کسی خاص طبقہ پر الزامات عائد کرکے انہیں بدنام کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بدنامی ان لوگوں کی زیادہ ہوتی ہے جو آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں ۔  جو لوگ بھی میڈیا میں کام کرتے ہیں انہیں یہ اصول لازمی طور پر اختیار کرلینا چاہیے کہ بغیر تحقیق و تفتیش کے کوئی خبر نہیں چلانی ہے اور نہ ہی اخبار میں کوئی اداریہ تحریر کرنا ہے ۔ خبر کے نشر کرنے سے قبل اس کی تحقیق ہو جائے گی تو یقینی طور پر معاشرے میں کسی بھی طرح کی بدامنی اور بے چینی پیدا نہیں ہوگی ۔

گویا ہر فرد کو اس بات کی گانٹھ باندھ لینی چاہیے کہ کسی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کرلی جائے اور اس پر غور بھی کرلیا جائے تاکہ کسی زاویہ سے بھی وہ سماج کے لیے ناسور نہ بنے یا کسی کمیونٹی کی اس سے دل آزاری نہ ہو ۔

اسلام میں اس ضابطہ کے لیے بڑا واضح اصول موجود ہے کہ جب کوئی خبر کسی کے پاس آئے تو اس کی تحقیق کرلینی چاہیے ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بڑھادے ۔

اس معاملہ میں آج کا سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا جو غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے وہ واقعی افسوسناک ہے اس پر تمام افراد کو سنجیدگی سے غور و خوض کرنی کی ضرورت ہے ۔

اب دیکھیے! اسلام کے اس آفاقی اور عالم گیر نظام کو جسے تدبر و تفکر کے نام سے جانا جاتاہے ۔ تدبر و تفکر اسلام کا ایک ایسا جامع اور مکمل اصول ہے جو سماج میں امن و راحت اور اطمینان و سکون عطا کرتا ہے ۔ اسلام نوع انسانی کو کائنات میں غور و فکر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کے بیشتر مقامات پر نوع انسانی کو خطاب کیا گیا ہے کہ " افلا یتدبرون"  اور " افلا یتفکرون"

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم کائنات کے نظام اور اس کے جاری وساری رہنے میں غور کریں اور پھر رب کائنات کی حقیقت کو سمجھیں۔  افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مذہبی طبقہ نے اپنے اپنے مسلک و مشرب کے نظریات  و افکار سماج پر تھوپنے اور سماج میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اسلام کے آفاقی اصول تدبر و تفکر پر بہت کم توجہ دلائی ہے ،وہ مذہبی طبقہ جو اپنا کاروبار مسلک کے نام پر چلا رہا ہے ،وہ تو قطعی طور پر اس بات کا قائل نہیں ہے کہ کوئی فرد سوال کرے یا تدبر و تفکر سے کام لے، وہ جانتا ہے جس دن سوچنا شروع کردیا تو جو دکان مذہب کے نام پر عوام الناس کو بے وقوف بنا کر چلائی جا رہی ہے وہ بند ہو جائے گی ۔

اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارا مذہبی اور دینی تحقیقات کے نام پر جو بھی سرمایہ تیار ہوا ہے اس میں اس بات پر علمی و فکری سرمایہ بہت کم دستیاب ہے کہ جس میں اسلام کے نظام تدبر و تفکر پر توجہ دلائی گئی ہو ۔ اس بابت جب ہم اپنے اسلاف  کےئکارناموں اور ان کی علمی و فکری سرگرمیوں کا مطالعہ کرتے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں مخالف آراء کا احترام اور کسی بھی مسئلہ پر غور و خوض پایا جاتا تھا ۔ اس حوالے سے قدیم اسلامی لٹریچر سے خاصی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے مگر یہاں صرف ایک مثال لیجیے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جو فقہ اکیڈمی بنائی تھی اور اس میں جو فقہاء کام کرتے تھے اس میں ایک ایک مسئلہ پر کتنا تدبر و تفکر کیا جاتا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایک مسئلہ میں فقہاء کی کئی کئی آراء ملتی ہیں ۔ اہم بات یہ کہ یہ اختلاف اس کمیٹی میں واقع ہوتا تھا جس کی سرپرستی امام ابوحنیفہ فرمارہے تھے اور یہ اختلاف کرنے والے کوئی اور نہیں انہیں کے شاگرد ہوا کرتے تھے ۔ کمال کی بات یہ بھی ہے کہ آج فقہ حنفی میں وہ تمام کے تمام اختلافات موجود ہیں ۔ کسی کی رائے کو دبایا نہیں گیا ، کسی کے سوال کرنے کو نقص شان نہیں سمجھا گیا اور کسی مخالف نظریہ کو چھپایا نہیں گیا ۔ گویا فقہ حنفی میں جو جس قدر آراء کا تضاد ہے وہ معیوب نہیں سمجھا جاتاہے بلکہ فقہ حنفی کی خصوصیت میں شمار کیا جاتاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بزرگوں نے اسلام کے اصولوں کو صرف پڑھ اور سمجھ کر یوں ہی نہیں چھوڑدیا تھا بلکہ ان تعلیمات کو پوری طرح اختیار کیا تھا۔

اسلام کے نظام تدبر و تفکر کو آج پھر سے ہمیں اپنی درسگاہوں ، تحقیقی مراکز ، تعلیم گاہوں اور سماجی و معاشرتی سطح پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ پوری طرح اور ہر اعتبار سے علوم و معارف کا سچا پکا علمبردار بن سکے ۔

آخر میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں نے تدبر و تفکر کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہے اور معاشرے میں ایسے خطوط متعین کیے ہیں جن سے سماج میں توازن و اعتدال اورہم آہنگی پیدا ہوسکے وہ ہمیشہ سرخ رو رہی ہیں ۔

زبردستی کسی پر کوئی چیز ڈالنا اور پھر اس سے خیر کی امید کرنا دونوں باتوں میں مکمل تضاد ہے ۔ ہمیشہ انہیں ضابطوں کی قدر ہوتی ہے جن کو خوشی خوشی قبول کیاجاتا ہے اور کسی چیز کو بخوشی اسی وقت قبول کیا جاسکتا ہے جب کہ اس میں سامنے والے کو اس کی آزادی ملے کہ وہ اس پر تدبر و تفکر کرسکے ۔ کھلے دل و دماغ سے سوچ سکے۔ معاشرے میں توازن بھی اسی وقت قائم ہوگا جب اسے آزاد چھوڑ دیا جائے ہاں آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی کے متعلق کچھی بھی کہے بلکہ اسے تدبر و تفکر کا بھر پور موقع ملے ۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam-global-system-pondering-about/d/135625

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..