معین قاضی،
نیو ایج اسلام
29 ستمبر 2023
ایک مستند حدیث میں جو حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے، فرمایا گیا:
"دین بہت آسان ہے، اور
جو کوئی اپنے دین میں اپنے آپ پر بوجھ ڈالے گا وہ اس طور پر جاری نہیں رہ سکے گا۔ لہذا
تمہیں انتہا میں نہیں جانا چاہیے، بلکہ دین میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے
اور تمہارے لیے خوشخبری ہے تمہیں اجر دیا جائے گا۔" (بخاری فتح الباری، صفحہ
102، جلد 1)
مندرجہ بالا حدیث یا پیشن گوئی
میں، مذہب سے مراد اسلام کا وسیع تر تصور ہے، یعنی دین، جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات
ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔ دین ایمان، اسلام (عمل صالح) اور احسان
(مذہبی عقائد سے پیدا ہونے والی سماجی ذمہ داری کے احساس) پر مشتمل ہے۔
دین اسلام ایمان، مذہبی رسومات
اور سماجی ذمہ داریوں سے متعلق تمام معاملات میں اعتدال اور توازن پر زور دیتا ہے۔
یہی عالمگیر اصول قرآن پاک میں بھی ہے: "اور خدا نے تم پر دین کے معاملے میں کوئی
تنگی نہیں رکھی" (ق 22:78)
خدا آپ کے لیے آسانی چاہتا ہے۔
قرآن کہتا ہے: "اللہ تمہارے
لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے سختی نہیں چاہتا۔" (2:185) قرآن اس پیغام کو
دوبارہ مزید اس انداز میں پیش کرتا ہے: "خدا کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ
نہیں ڈالتا۔" (2:286)
قرآن کی ایک انوکھی خصوصیت یہ ہے
کہ جہاں یہ ایک اخلاقی ضابطہ، ایک اخلاقی نظام، ایک سیاسی نظام، ایک سماجی اصول، ایک
معاشی نظام اور ایک قانونی فلسفہ بیان کرتا ہے، وہیں یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کی زندگی میں اپنے ان تمام نظریاتی اصولوں کا عملی نمونہ بھی پیش کرتا ہے۔
زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو
ہو جس پر قرآن نے روشنی نہ ڈالی ہو۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں
عوامی اور نجی زندگی کے ہر شعبے کے نمایاں نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
قرآن کے پیغام اور حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے درمیان یہ حیرت انگیز ہم آہنگی اس بات کی طرف اشارہ
کرتی ہے کہ اس کا مقصد قرآن کے ہر پیروکار کو یہ باور کرانا ہے کہ قرآن مقدس میں بیان
کردہ طرزِ زندگی ہر فرد بشر کے لیے قابل عمل ہے۔ نبی کی زندگی درحقیقت قرآن کی جیتی
جاگتی عملی تفسیر ہے۔ اس لیے کہ جہاں ایک طرف قرآن کے جامد الفاظ میں ہمیں ایک شاندار
فلسفہ زندگی ملتا ہے، تو دوسری طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں
اس کا ایک شاندار عملی نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
بار اپنے چہیتے صحابی عبداللہ بن عمرو سے فرمایا: کیا میں نے صحیح سنا ہے کہ تم ہر
روز روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نماز میں کھڑے رہتے ہو؟ عبداللہ نے جواب دیا: ہاں یا
رسول اللہ!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایسا نہ کرو، کبھی روزہ رکھو، کبھی کھاؤ پیو، قیام اللیل بھی کرو اور آرام بھی کر لیا
کرو، کیونکہ تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمہاری بیوی
کا بھی تم پر حق ہے۔ اور تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے۔" (البخاری، 127)
اپنے پیروکاروں کو آخرت کی زندگی
کے لیے خود کو تیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے، پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے
انہیں ان تمام ضروری کاموں کے کرنے کی تلقین بھی کی جو ایک فرد کو اچھی زندگی گزارنے
کے لیے ضروری ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم
کا ماننا تھا کہ ایک مثالی زندگی وہ ہے جس میں زندگی کے ضروری عناصر کا صحیح امتزاج
پایا جائے: ایک وہ جو اسے دنیا میں ایک باوقار زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے، دوسرا
جو اس کی نجات کا ضامن ہوتا ہے۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے اس
پیغام کا نچوڑ آپ کے اس مشہور فرمان میں موجود ہے: ’’اس دنیا میں ایسی زندگی گزارو
جیسے تم ہزار سال جینے والے ہو اور آخرت کی تیاری ایسی کرو جیسے تم کل ہی مرنے والے
ہو۔‘‘
نبیﷺ نے فرمایا:
"ایک عقلمند شخص کے لئے،
اس کے پاس کچھ لمحات کا ہونا ضروری ہے؛
وہ لمحات جب وہ خدا کے ساتھ ہم
کلام ہو،
وہ لمحات جب وہ خدا کی تخلیق کے
اسرار و رموز پر غور کرے،
اور اس کے ساتھ ضروریات زندگی کے
حصول کے لیے بھی اس کے پاس وقت ہونا چاہیے۔"
یعنی خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو
اپنے وقت کو اس طور پر تقسیم کرے کہ اپنے وقت کا ایک حصہ عبادات اور خدا کی بارگاہ
میں عرض و مناجات کے لیے مختص کر رکھے۔ اپنے وقت کا کچھ حصہ احتساب نفس میں گزارے،
کچھ فطرت کے مختلف رازوں کا علم حاصل کر کے اللہ کی تخلیق کے اسرار پر غور کرنے میں
گزارے اور اپنی زندگی کا ایک خاص حصہ رزق کے حصول اور ضروریات زندگی کی تکمیل میں گزارے۔
قرآن ہمارے لیے ایک ایسی زندگی
کا خاکہ پیش کرتا ہے جو دینی اور دنیاوی پہلوؤں کا ایک بہترین امتزاج ہو۔ قرآن زندگی
کو ایک خاص انداز میں منظم کرنے کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں پہلو اس قدر ایک
دوسرے سے منسلک ہیں کہ دونوں میں سے ایک دوسرے کو معنویت فراہم کرتے ہیں۔
قرآن ایک فرد بشر کی دو بنیادی
ذمہ داریوں کو تسلیم کرتا ہے: ایک جو خدا کے حوالے سے اس کے سپرد ہے اور دوسرا جو معاشرے
کے حوالے سے اس کے سپرد ہے۔ اسلام رہبانیت کی زندگی کو ناپسند کرتا ہے۔
قرآن لذت و راحت اور عیش و عشرت
سے بھری زندگی کو بھی ناپسند کرتا ہے۔ قرآن ایک مکمل اور آسودہ زندگی کے حصول کے لیے
تمام کاموں میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی
تعلیم و تربیت میں آسانی کو پسند فرماتے تھے۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک گندے اور میلے کچیلے شخص کو دیکھا جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللّٰہ
علیہ وسلّم نے اس شخص سے اس کی قابل رحم حالت کی وجہ پوچھی۔ اس آدمی نے جواب دیا:
"یا رسول اللہ، میری یہ حالت اس وجہ سے ہے کہ میں سب کچھ اللہ کی راہ می لٹا دیتا
ہوں جس کی وجہ سے میرے جسم پر یہ پھٹے پرانے اور میلے کچیلے لباس نظر آ رہے ہیں۔"
اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور کہا: "ایسا نہیں
ہے، خدا اپنے بندے پر اپنی نعمتوں کی علامات دیکھنا پسند کرتا ہے!"
قرآن ایسا کرنے سے منع کرتا ہے:
" اے آدم کی اولاد! اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیو اور حد سے
نہ بڑھو، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔ تم فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی وہ
زینت جو اس نے اپنے بندو ں کے لیے نکالی اور پاک رزق تم فرماؤ کہ وہ ایمان والوں کے
لیے ہے دنیا میں اور قیامت میں تو خاص انہی کی ہے، ہم یونہی مفصل آیتیں بیان کرتے ہیں
علم والوں کے لیے۔" (32-7:31)
انسان کے اندر دولت کے حرص سے قرآن
متنبہ کرتا ہے اور ہمیں اسراف اور بخالت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی تاکید کرتا
ہے۔ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے، کہ وہ ہمدردی کے دوہرے جذبے اور دولت کی فطری محبت
سے سرشار ہے۔
لہٰذا، اسلام کی مذہبی تعلیمات
تحمل اور تقوی کی تلقین کرتی ہیں، جب کہ اسلام کی روحانی تعلیمات بے لوثی اور سخاوت
کی تلقین کرتی ہیں۔
جسم اور روح، ذاتی اور سماجی ذمہ
داریوں اور روحانیت اور دنیاوی زندگی کے معاملات کے درمیان توازن کا قیام ہی پوری انسانیت
کے لیے اسلام کا ایک خوبصورت اور آفاقی پیغام ہے۔
قرآن واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ
محض رسومات کی انجام ادائیگی ہی مذہبی زندگی کا کامل نمونہ نہیں ہے۔ بلکہ انسان کو
اس معاشرے کے حوالے سے بطورِ فرد کے اپنی ذمہ داریوں پر بھی غور کرنا ہوگا جہاں وہ
رہتا ہے۔
آج کی کشمکش سے بھری دنیا میں جو
کہ طرح طرح کے جانسوز چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے، اس سے بہتر کوئی رہنماء اصول نہیں ہو
سکتے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو دیے تھے:
"تم ایسے زمانے میں رہتے
ہو کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اس کا دسواں حصہ بھی چھوڑ دے جس کا تمہیں حکم دیا گیا
ہے تو تم تباہ ہو جاؤ گے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب کوئی شخص حکم کے دسویں
حصے پر بھی عمل کر لیگا کامیاب ہو جائے گا۔" (ترمذی، کتاب الفتن 34، باب 79، نمبر
2267)
English
Article: Islam Is Flexible; Muslims Have Made It Hard
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism