New Age Islam
Thu Oct 10 2024, 02:09 PM

Urdu Section ( 4 Nov 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam and Feminism اسلام اور نسوانیت

By Asghar Ali Engineer (Translated from English by Samiur Rahman, NewAgeIslam.com)

This is totally contradictory to the Quran, but no one cares. It is patriarchy which influences our laws, not the Quran. In fact, when it comes to patriarchy its jurists make it prevail over Quranic injunctions. Either Quranic formulations were disregarded or interpreted so as to have them conform to patriarchy. The time has come to understand the real spirit of the Quran. But the Islamic world still does not seem to be ready. What is worse, due to poverty and ignorance Muslim women themselves are not aware of their Quranic rights. A campaign has to be launched to make women aware of their rights.

Another important question is: what is the difference between Islamic and western feminism or is there any difference at all? If we go by the definition of feminism as an ideology to empower women, there is no difference. However, historically speaking, Muslim women lost the rights they had due mainly to the tribalisation of Islam, which was dominated by patriarchal values.

In the West, on the other hand, women had no rights but won them through a great deal of struggle known as ‘feminism’. But there are significant differences between Islamic and western feminism. Islamic feminism is based on certain non-negotiable values, i.e. equality with honour and dignity. Freedom has a certain Islamic responsibility whereas in the West freedom tends to degenerate into licentiousness, not in law but certainly in social and cultural practices. In western culture, sexual freedoms have become a matter of human right and sex has become a matter of enjoyment, losing its sanctity as an instrument of procreation.

URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/islam-feminism/d/4802

 

اسلام اور نسوانیت

اصغر علی انجینئر

اکثر لوگ مغربی اصطلاح کی بنیاد پر نسوانیت پر اعتراض کرتے ہیں ۔ایک مولانا کو جب اس موضوع پر منعقد ہو رہی ورکشاپ میں بولنے کے لئے مدعو کیا گیا توانہوں نے نسوانیت کو غیر اسلامی مان کر اس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔کیا اسلامی نقطہ نظر سے اس اصطلاح کا استعمال قابل اعتراض ہے؟بالکل بھی نہیں۔

اصل میں اسلام پہلا مذہب ہے جس نے منظم طریقے سے خواتین کو اس وقت با اختیار بنایا جب انہیں مردوں کا تابع سمجھا جاتا تھا۔ایک عورت کے آزاد وجود اور باوقار انداز میں برابری کے حق کا کوئی تصور نہیں تھا۔نسوانیت کیاہے؟صرف خواتین کو با اختیار کرنے اور انہیں بھی مکمل انسان کا حق دینے کی تحریک ہے۔اس طرح ہم 20ویں صدی کی ابتدا میں دیکھتے ہیں کی مغربی ممالک میں خواتین کی آزادحیثیت نہیں تھی۔1930کی دہائی کے بعد ہی خواتین کو برابری کا حق حاصل ہوا اور متعدد مغربی ممالک نے اس ضمن میں قانون پاس کئے۔ابھی بھی کئی سماج میں پدرانہ نظام رائج ہے۔

اگرچہ قرآن نے خواتین کو بااختیار بنایا اور مردوں کے مساوی اختیار عطا کئے ہیں تاہم مسلمان صنفی مساوات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔عرب کی تہذیب پدرانہ نظام پر مبنی تھی اور اس کے سبب ان کے لئے اس برابری کو قبول کرنا مشکل تھا۔کئی احادیث خواتین کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے تیار کی گئیں اور اس طرح خواتین زیادہ تر مسلم سماجوں میں ایک منحصر فرد بنا دیں گئیں،اکثر قرآنی آیتوں کی تشریح اس طرح کی گئی کہ وہ مردوں کی تابع دار بن جائیں۔ایسی ہی ایک حدیث کہتی ہے کہ اگر کسی انسان کا سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو ایک عورت کو اس کے شوہر کا سجدہ کرنے کا حکم دیا جاتا۔

یہ مکمل طور پر قرآن کے متضاد ہے،لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔قرآن کے بجائے پدرانہ نظام ہمارے قوانین پر اثر ڈالتا ہے۔دراصل جب پدرانہ نظام کی بات آتی ہے تواس کے ماہر قانون قرآنی آیتوں کے مقابلے اسے غالب آنے دیتے ہیں۔یا تو قرآنی آیات کا لحاظ نہیں رکھا گیا یا پھرآیات کی اس طرح تشریح کی گئی کہ وہ پدرانہ نظام کے موافق ہوں۔وقت آ گیا ہے کہ قرآن کی اصل روح کو سمجھا جائے۔لیکن اسلامی دنیا اس کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔غربت اور جہالت کے سبب مسلم خواتین قرآن کے ذریعہ عطا کئے گئے حقوق کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتی ہیں اور اس نے حالات کو بدتر کیا ہے۔خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور اہم سوال: اسلامی اور مغربی ممالک کی نسوانیت کے درمیان کیا فرق ہے یابالکل کوئی فرق نہیں ہے؟اگر ہم نسوانیت کو خواتین کو بااختیار بنانے کے نظریہ کے طور پرلیں تو کوئی فرق نہیں ہے۔تاہم تاریخی حوالے سے بات کریں تو مسلم خواتین نے اپنے حقوق اسلام کے قبائلی مذہب میں تبدیل ہونے کے سبب کھو دئے کیونکہ اس میں پدرانہ اقدار کا غلبہ تھا۔

دوسری جانب مغربی ممالک میں خواتین کو کوئی اختیارات نہیں تھے لیکن اپنی جدو جہدجسے نسوانیت کے طور پر جانا جاتا ہے، کے ذریعہ خواتین نے حق حاصل کئے ۔لیکن اسلامی اور مغربی نسوانیت میں اہم اختلافات ہیں۔اسلامی نسوانیت ایسے اقدار پر مبنی ہیں جو مثبت ہیںیعنی وقار اور عزت کے ساتھ مساوات۔اسلام میں آزادی ایک ذمہ داری ہے جبکہ مغربی تہذیب میںآزادی عیاشی کی ذلالت میں بدل جاتی ہے اور ایسا قانون کے معاملے میں نہیں بلکہ یقینی طور پر سماجی اور ثقافتی رسومات کے معاملے میں ہوتا ہے۔مغربی تہذیب میں جنسی آزادی انسانی حقوق کے معنی بن گیا ہے اور اسی طرح سیکس بھی لطف کے معنی میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس سے تولید کے اعمل کی حرمت کو کم کر دیا ہے۔

اگرچہ قرآن حجاب یا نقاب کے لئے(چہرے سمیت پوری جسم کو ایک ڈھیلے لباس سے ڈھکنا) نہیں کہتا ہے، جیسا کہ عام طور پر سوچا جاتا ہے۔جنسی رویے کے لئے یہ بعض سخت معیار کی بات کرتا ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو تسکین حاصل کرنے کا حق ہے (ایک مرد کے برابر ہی عورت کو حق ہے)لیکن ازدواجی رشتے کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ازدواجی زندگی سے باہر جنسی تعلقات کی کسی بھی شکل میں آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ازدواجی زندگی میں تولید کے عمل سے بڑی حرمت منسلک ہے۔

اس پر زور دینا ضروری ہے کہ پدرانہ نظام والے سماج میں مرد جنسی رویے کے اقدار طے کرتے ہیں۔یہ نظریہ پیش کیا گیا تھا کہ مرد کی جنسی خواہش زیادہ ہوتی ہے لہٰذا کئی بیویوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک عورت اس معاملے میں غیر فعال رہتی ہے لہٰذا ایک وقت میں ایک شوہر سے قناعت کرتی ہے۔قرآن کا نقطہ نظر بہت مختلف ہے۔ اس کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ شادیوں کی ضرورت کی بنیاد خواہش کا کم یا زیادہ ہونا نہیں ہے۔

قرآنی آیات4:3اور4:129میں ایک شادی پر پرزور ڈھنگ سے اہمیت دی گئی ہے۔کئی شادیوں کی اجازت صرف اس لئے دی گئی تھی تاکہ بیواؤں اور یتیموں کا خیال رکھا جا سکے نہ کہ زیادہ خواہش کے مد نظر دی گئی تھی۔آیت4:129 ایک شادی کا معیار بتاتی ہے اور بتاتی ہے کہ پہلی بیوی کو التوء یا بے توجہی میں نہیں رکھنا چاہیے۔اس طرح جہاں تک قرآن کا تعلق ہے رشتہ ازداج میں داخل مرد اور عورت دونوں کے لئے جنسی تسکین مثبت حق ہے۔اسی لئے طلاق شدہ اور بیوا کو دوبارہ شادی کرنے اور خواہش کو تسکین پہچانے کی اجازت دی گئی ہے۔

مغرب کے سرمایا دارانہ نظام والے ملکوں میں خواتین کے وقار سے سمجھوتہ کیا گیا ہے اور اسے استحصال کے لئے ایک اشیاء میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔بے شرمی کے ساتھ اس کی نیم برہنہ تصاویر اور اس کی جنسیت کو تجارتی طور پر استحصال کیا جا رہا ہے۔یہ عورت کے وقار اور حرمت کے تصور کے بر خلاف ہے۔ بد قسمتی سے کئی مغربی حقوق نسواں کی علم بردار اسے قابل اعتراض تصور نہیں کرتی ہیں بلکہ اسے خواتین کی آزادی کے حصے کے طور پر قبول کرتی ہیں۔یہاں تک کہ کچھ لوگ(اگرچہ بہت نہیں) جسم فروشی کا عورت کے کمانے کے حق کے طور پر وکالت کرتے ہیں۔

یہ اسلامی نسوانیت کے تصور کے خلاف ہے۔اسلام جنسی تسکین کو مرد کے برابر ہی خواتین کے بنیادی حق کے طور پر منظور کرتا ہے اور رشتہ ازدواج سے باہر جنسی تعلق سے منع کرتا ہے۔ یہ ایک جانب عورت کے وقار اور حرمت کو بلند کرتا تو دوسری طرف جنسی تعلق کو پاکیزگی کی سطح تک بلند کرتا ہے اور اسے عمل تولید تک محدود کرتا ہے۔اسلامی حقوق نسواں کی علم برداروں کو کچھ معیار پر عمل کی ضرورت ہے جو مغربی ممالک کی حقوق نسواں کی علم برداروں پر واجب نہیں ہے۔

بشکریہ۔دی ڈان، پاکستان

انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam-feminism-/d/5833

Loading..

Loading..