غلام غوث صدیقی
(قسط دوم)
1 مئی 2024
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال کرنا کسی کے لیے ممکن
نہ تھا۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری طور پر
موجود تھے ۔ ان کی موجودگی ہر لحاظ سے امت مسلمہ کو در پیش مسائل کے حل لیے کافی
تھی ۔ صحابہ کرام کو جب کبھی قرآن عظیم کی کسی آیت کی تفسیر میں دشواری پیش آتی
تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم بذات خود ہر مسئلہ کا حل نظام کونین کو چلانے والے مالک حقیقی خدائے وحدہ لا
شریک کی رہنمائی کے مطابق فرماتے ۔
اگر بنظر غائر، دیانتداری
اور علم و فہم کے مسلمہ اصول و قواعد کو پیش نظر رکھ کر ان رہنمائیوں کو سمجھا
جائے تو دین اسلام کے مقاصد کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ پھر اس میں کوئی شائبہ
نہیں رہتا کہ دین اسلام پوری انسانیت کی دنیاوی و اخروی خیر خواہی اور نجات کی
تعلیم دے کردنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے ۔ اسلام کی پوری تعلیم عدل و
انصاف پر مبنی ہے ۔اگر کسی کو یہ بات سمجھ نہ آئے تو یہ اس کے اپنے شعور کی کمی
ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سیرت عدل و انصاف اور قیام امن کی ضامن ہے ۔ مکہ کے تیرہ سال
صعوبتوں ، اذیتوں اور مظالم کا سامنا کرتے رہے پھر انہوں نے ظلم و ستم اور فتنہ و
فساد کا قلع قمع کرکے عدل و انصاف کا بہترین اسوہ چھوڑا اور امن و شانتی اور
مساوات و برابری کا ایسا نظام قائم کیا جسے حجۃ الوداع کے خطبے سے آسانی سے سمجھا
جا سکتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا :
"فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم هذا
في بلدکم هذا، في شهر کم هذا، وستلقون ربکم فسیألکم عن أعمالکم، ألا فلا ترجعو
بعدي ضلالا، یضرب بعضکم رقاب بعض، ألا لیبلغ الشاهد الغائب فلعل بعض من یبلغه أن
یکون أوعى له من بعض من سمعه" (بخاری:۴۴۰۶،۷۰۷۸)۔
یعنی : اے لوگو! تمھارے
خون تمھارے مال اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن
کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمھیں خدا کے سامنے حاضر
ہونا ہے اور وہ تم سے تمھارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ
نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک
(میری باتیں) پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی،
وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔‘‘
(الرحیق المختوم:۷۳۷،۷۳۸)
یہ خطبہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ ہے ۔ خطبہ حجۃ الوداع بلاشبہ انسانی حقوق کا اوّلین
اور مثالی منشور اعظم ہے۔ اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے
پہلامنشور انسانی حقوق ہونے کا اعزاز ہے۔( سید انسانیت،نعیم صدیقی،ص:208،مرکزی
مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی)۔ اس خطبہ کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔یہ پیغام کسی
خاص گروہ کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے ۔ یہاں صراحت کے ساتھ
بیان ہوا کہ انسان کی جانیں ، یعنی تمام انسانوں کی جانیں ، ان کے اموال اور ان کی
عزتیں محترم ہیں اور تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ انہیں محترم مانیں ۔
کتب احادیث و سیر میں
مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلم اور مومن کی تعریف یوں کی
ہے کہ ان سے کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ وہ تو امن کے ضامن ہوتے ہیں ۔آج
مسلمانوں کی بھاری اکثریت بلا شبہ امن و سلامتی کو ہی ترجیح دیتی ہے اور مظالم سہنے
کے باوجود بھی صبر و تحمل کو امن قائم رہنے کا سبب سمجھتی ہے ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ
علیہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ
عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : المسلم من سلم المسلمون من لسانه
ويده والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم
یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے
جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور
مالوں کو مامون جانیں ۔
دوسری روایت میں ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المؤمن من أمنه الناس على أموالهم
وأنفسهم والمهاجر من هجر الخطايا والذنوب . یعنی مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے اموال
اور اپنی جانوں کو مامون سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جس نے خطاوں اور گناہوں کو چھوڑ
دیا ۔
امام بخاری نے حضرت عبد
اللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( المسلم من سلم
المسلمون من لسانہ ویدہ والمهاجر من هجر ما نھی اللہ عنہ) یعنی مسلمان وہ ہے جس کی
زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں اور مہاجر وہ ہے جس نے اس چیز کو ترک کر دیا جس
سے اللہ نے منع کیا ۔
مذکورہ احادیث میں امن و
سلامتی کو مسلمان اور مومن کی صفات کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ ان احادیث سے یہ
بات بالکل ظاہر ہے کہ جو دین اسلام کا پیغام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
لیکر آئے اس کا اور آپ کی مبارک زندگی کا اصل مقصد پوری انسانی برادری کو بلا
امتیاز امن و سلامتی فراہم کرنا اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کا قیام کرنا ہے ۔
لیکن تعلیمات نبویہ کے
برعکس داعش اور اس جیسی دیگر تنظیموں کے نظریات اور ان کے اعمال پر نظر کریں تو
آپ کو بالکل واضح فرق نظر آئے گا ۔ان انتہا پسند تنظیموں نے مسلم ممالک سمیت
مختلف ممالک میں بد امنی و ہشت گردی کا ماحول پیدا کیا اور اسلامی اصطلاحات کا غلط
استعمال کیا ، جس کی وجہ سے خود مسلمانوں کی بڑی تعداد ہلاکت کا شکار ہوئی ، ان کی
قوت ختم ہو گئی اور اسلاموفوبیا کو اسلام کی تصویر مسخ کرکے پیش کرنے کا مزید موقع
ملا اور نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے کسی خطے میں اگر مظلوم مسلمانوں نے اپنے دینی و
سماجی حقوق کی خاطر امن و سلامتی کے ساتھ آوازیں بلند کرنے کی کوششیں بھی کیں تو
انہیں میڈیا نے انتہاپسند کے زمرے میں ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔
داعش جیسی انتہاپسند
تنظیموں نے اسلامی حلیہ اور تشخص پر ایسا داغ لگایا کہ تعلیمات نبویہ کے صادق و
امین پیروکاروں کو بھی انتہاپسند تصور کیا جانے لگا۔مسلمانوں کی اکثریت یقینا حق
پر قائم ہے اور داعش جیسی انتہاپسند تنظیموں کے نظریات کو اسلام سے متصادم مانتی
ہے ۔
لیکن حالات کی ستم ظریفی پر
نظر کیجیے کہ جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ۹ ستمبر کو حملہ ہوا ، تو
اس کے بعد سے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے رواج نے تقویت پائی ۔ انتہاپسند
القاعدہ کا وجود میڈیا کی سرخیوں میں آیا ، جس کا مبینہ بانی اسامہ بن لادن کبھی
امریکہ کے لیے کام کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد مختلف انتہاپسند تنظیمیں معرض وجود میں
آئیں جن میں داعش کا نام نمایاں ہے ۔ایک طرف ان اتنہاپسند تحریکوں نے خاص طور پر
مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچایا تو دوسری طرف جن کے دلوں میں مسلمانوں سے بغض و حسد
اور نفرت و عناد تھا، ان نفرت کے سوداگروں کو اتنہاپسند اور دہشت گرد تنظیموں کی
مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ ، تمام مسلمانوں کو کوسنے کا اچھا موقع مل گیا ۔ انہوں نے اسلاموفوبیا
کو اپنی تجارت بنالیا پھر اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لینا
شروع کر دیا۔ واضح ہے کہ اسلاموبز کا مقصد اسلامی اصطلاحات کے نام پر کی جانے والی
انتہاپسندی کو ختم کرنا نہیں بلکہ اسلامی تشخص کو مٹانا ہے ۔
جو لوگ خود کو انصاف پسند
اور عقل سلیم کا خوگر سمجھتے تھے ان میں سے بھی کچھ لوگ مسلمانوں کو شک و تردد کے
نگاہ سے دیکھنے لگے ۔آیات قتال و جہاد جن کا تعلق ظلم و ستم کے خاتمے سے تھا
انہیں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا سبب قرار دیا جانے لگا ۔ماحول ایسا بن گیا کہ
غیر مسلموں کی ایک تعداد پس و پیش اور تردد میں مبتلا ہو گئی ۔ایسے ماحول میں دنیا
بھر سے مسلمانوں کی اکثریت کو یہ کہنا ضروری ہوا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی
تعلق نہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ آج
دنیا بھر میں داعش اور اس جیسی انتہاپسند تنظیمیں فتنہ و فساد اور ظلم و ہشت گردی
کی اکیلی ذمہ دار ہیں ۔ دو عالمی جنگیں ، ہٹلر کی بربریت ، انگریزوں کا ہندوستان
پر ناجائز حملہ اور قبضہ ، اسی طرح دنیا کے متعدد ممالک پر ناجائز تسلط قائم کرکے
ان کے املاک غصب کرنا ، اسرائیلی صیہونیت کا فلسطین پر مسلسل ظلم، جس میں عورتوں ،
بچوں ، بوڑھوں سمیت مظلوموں کی کراہتی چیختی تڑپتی صدائیں ہیں ، اور امریکہ کا
اسرائیلی تعاون ، امریکا کا جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانا جس
میں لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں ، اور اسی طرح تاریخ کے صفحات پرایسے متعدد دردناک
واقعات کی داستانیں مرقوم ہیں جنہیں سن پڑھ کر آج تک انسانیت خون کے آنسو رو رو
کر کراہ رہی ہے ۔یہ سب بھی ظلم و ستم کے واقعات ہیں۔بربریت کے ان واقعات کو انجام
دینے والوں میں کوئی بھی مذہبی نہیں ۔ظالم کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو، وہ
حقیقت میں مذہبی نہیں کیونکہ کوئی بھی دین اور مذہب ظلم کی تعلیم نہیں دیتا ۔
ظالم اپنے ظلم کا ارتکاب
مذہب کے نام پر کرے یا مذہب کی مخالفت میں کرے ، اس کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق
نہیں ۔
مقام غور ہے کہ آج کے سائنسی
ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا امن و شانتی کے مسائل سے دوچار ہے ۔آج بھی انسانی خون
کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔انسانوں کی عزتیں تارتار کی جارہی ہیں ۔ان کے مال و
جائداد محفوظ نہیں۔ اقلیت میں رہنے والوں کو مذہبی اور فکری حوالے سے تحفظ نہیں مل
پا رہا۔ رنگ و نسل، ذات پات ، اونچ نیچ اور غریبی امیری کا فرق ختم نہیں ہو پا رہا
۔ دنیا میں نیشنلزم، فاشزم، سوشلزم جیسے نظریات آئے، لیکن انسانوں کے مسائل کا
عملی حل پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا ئے ۔ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کے نام
سے امن پسند ادارے قائم ہو تو گئے مگر پھر بھی آج امن و امان کا مسئلہ عملی
اعتبار سے جوں کاتوں ہے ۔ حالات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اس
کی بھینس‘‘ کا راج آج بھی قائم ہے، غرض یہ کہ عدل و انصاف کے قیام کا فقدان نظر آ
رہا ہے ۔
اسلاموفوبز کو چاہیے کہ
اپنی آنکھیں کھولیں ، عقل سلیم کا استعمال کریں اور مذکورہ درندگی کے واقعات کا
مشاہدہ کرتے ہوئے ان مناظر کو اپنے سامنے لائیں اور بتائیں کتنی انسانوں جانوں کی
بے دردی سے ہلاکت ہوئی ہوگی ؟ ہلاک ہونے والی انسانی سسکییاں کیا انہیں سنائی نہیں
دیتیں ؟ ان واقعات کو بالائے طاق رکھ کر کیا اب بھی وہ مسلمانوں سے اپنی نفرت و
عناد کا اظہار یہ کہتے ہوئے کریں گے کہ اسلام دہشت گردی اور ناحق خونریزی کی ذمہ
دار ہے ؟ کیا انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے اسلاموفوبک رویہ سے داعش جیسی
تنظیموں کے نظریات کے پرچارک ہیں ؟ ان انتہاپسند تنظیموں نے تو اسلامی اصطلاحات و
تعلیمات کو مسخ کرکے اپنے اس مذموم ایجنڈے کو پھیلانے کی کوشش کی کہ اسلام دہشت
گردی کا مذہب ہے اور اسلاموفوبز اس ایجنڈے کو بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کیا
یہ ان کی تجارت ہے ؟ یہ کیسی تجارت ہے جس میں وہ اپنے قلبی اضطراب و بے چینی کا
شکار ہیں ۔ کیا انہیں سمجھ نہیں آتا کہ دین اسلام میں حق پر ہونے کا معیار اکثریت
سے لگایا جاتا ہے ؟
حدیث پاک ہے : وعن ابن عمر
قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”إن اللہ لا یجمع أمتی أو قال: أمة محمد
علی ضلالة وید اللہ علی الجماعة ومن شذ شذ فی النار“․ رواہ الترمذی․
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ
تعالیٰ میری امت کو یا فرمایا امت محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا“․․․
(مشکاة، ص:۳۰باب
الاعتصام بالکتاب والسنة، ط: یاسر ندیم اینڈ کمپنی )
مذکورہ حدیث میں اجماع
امت کو معیار حق قرار دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے امت مسلمہ کا سواد اعظم معصیت
وضلالت پر کبھی اتفاق نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے ہر دور میں فتنہ و فساد
، ظالمانہ و دہشت گردانہ اعمال کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ ظلم و ستم کے خاتمے اور
عدل و انصاف کے قیام میں نمایاں کردار پیش کیا ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے دور کو ملاحظہ کیجیے ، جب مکہ کے ظالموں نے ظلم و ستم اور شرپسندی کی حد
پار کر دی تب جہاد بالقتال کو فرض قرار دیا گیا اور اس میں بھی وہ شرائط متعین
ہوئے کہ ظالم دشمن کے کسی بچے ، عورت ، بوڑھے ، نہتے حتی کے درختوں کو بھی نقصان
نہ پہنچایا جائے ۔
جب فتح مکہ ہوا تو عفو و
در گزر کو تمام دشمنوں کے لیے عام کر دیا گیا ۔اقلیت میں رہنے والوں غیر مسلموں کی
حفاظت کے تئیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمان جاری کیا کہ ’’ من قتل
معاھدًا فی غیر کنھہ حرم اللّٰہ علیہ الجنۃ ۔‘‘(سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۷۶۰) یعنی ’’جس نے کسی غیر
مسلم پُر امن شہری کو ناحق قتل کیا، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے ‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات داعش جیسی تنظیموں ، اسلاموفوبز ، اور متشککین کے
لیے مقام درس ہے ۔ ان کی پاکیزہ سیرت ، تعلیمات اور پاکیزہ کردار سے امن وشانتی کی
چمکتی روشنیاں نظر آتی ہیں ۔
مسلم و غیر مسلم سمیت
تمام انسانی جانوں کی حرمت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک آیت کافی ہے جس میں اللہ
تعالی نے ارشاد فرمایا کہ
’’ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ
الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ أَحْیَاھَا
فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا۔‘
ترجمہ : ’’جس نے کسی
انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا (ناحق)قتل کیا، اس نے گویا
پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا پوری
انسانیت کی جان بچائی۔‘‘ (سورہ مائدہ ۳۲)
خاص طور پر کسی مومن کی
جان کی حرمت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ آیت کریمہ ملاحظہ کیجیے ۔ارشاد باری تعالی
ہے : : وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا
فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا ‘‘ (سورہ نساء ۹۳)
ترجمہ : اور جو کسی
مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا
ہے۔ ‘‘
خاص طور پر کسی غیر مسلم
پر امن شہری کی جان کی حرمت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ حدیث پاک ملاحظہ کیجیے :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ من قتل معاھدًا فی غیر کنھہ حرم اللّٰہ علیہ الجنۃ
۔‘‘ ۔‘‘(سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۷۶۰)
یعنی ’’جس نے کسی غیر
مسلم پُر امن شہری کو ناحق قتل کیا، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے ‘‘
مذہبی آزادی اگر کسی سے
چھین لی جائے تو کسی ملک میں امن و امان کا مسئلہ کا پیدا ہوتا ہے ۔نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے تنگ نظری اور تعصب زدہ دور میں بھی مذہبی وفکری آزادی کا علم
بلند کیا اور جبر واکراہ کو فتنہ وفساد قرار دیا ۔ان پر جو قرآن اتارا گیا اس میں
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
اور اپنی تعلیمات میں
مذہبی و فکری جبر سے سختی کے ساتھ روکا،چنانچہ آپ a کی الہامی کتاب قرآن
مجید میں ارشاد ہے :
’’ لَا اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ‘‘ یعنی دین میں کوئی زبردستی
نہیں۔(سورہ بقرہ ۲۵۶)
ایک آیت میں ’’لَکُمْ
دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ۔‘‘یعنی تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین
۔(سورہ الکافرون: ۶)۔
یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو دین اسلام کو نہیں مانتے ۔
ایک اور آیت میں ارشاد
باری تعالی ہے:’’فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ۔‘‘(سورہ
الکہف ۲۹) یعنی
’’جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے‘‘۔
مذہبی آزادی فراہم کرنے والی
ان آیات سے فورسڈ کنورزن کا تصور بھی غلط اور بے بنیاد ثابت ہوتا ہے ۔
دین اسلام کی مقدس کتاب
قرآن مجید اور تعلیمات نبویہ سے بالکل واضح ہے ذات پات ، رنگ و نسل ، مذہب و مسلک
، مسلم و غیر مسلم میں تفریق کیے بغیر ہر انسان کی جان قابل احترام ہے اور ہر
انسان کو مذہبی آزادی حاصل ہے ۔یہ ہیں وہ تعلیمات نبویہ ، تعلیمات اسلام ، جن کی
خلاف ورزی داعش اوراس جیسی تنظیمیں مسلسل کر رہی ہیں اورلوگوں کو دھوکہ میں رکھنے
کے لیے وہ اسلامی اصطلاحات کا غلط استعمال کر رہی ہیں ۔
(جاری )
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism