New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:13 PM

Urdu Section ( 20 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Another ISIS Terrorist to Be Head of Gaza Government? سیریا کے بعد غزہ میں بھی داعش کے دہشت گرد کی تاجپوشی کی تیاری؟

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

20 اکتوبر،2025

غزہ میں 10 اکتوبر سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد سے وہاں پوری طرح سے امن نہیں قائم ہوا ہے بلکہ اس خطے کی صورت حال پیچیدہ ہورہی ہے اور ہر روز کسی نہ کسی وجہ سے جنگ بندی ٹوٹنے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ اسرائیلی افواج نے گزشتہ ہفتے چھ فلسطینوں کو یہ کہہ کر ہلاک کردیا کہ وہ لوگ ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ واضح ہو کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج غزہ کے اندر ہی ایک خاص حد کے اندر موجود رییگی۔ لہذا ، وہ کبھی بھی اہل غزہ کو گولیوں سے یہ کہکر ہلاک کرسکتی ہیں کہ وہ ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دوسری طرف حماس نے جنگ بندی کے بعد فوراً غزہ پر اپنا کنٹرول پھر سے قائم کرلیا اور اسرائیل کے حمایت یافتہ جنگجو گروپ پاپولر فورسز کے جنگجوؤں کو پکڑ کر سزائے موت دینی شروع کی۔ پاپولر فورسز کا سربراہ ایک عادی مجرم اور ڈرگ اسمگلر یاسر ابو شباب ہے جسے 7 اکتوبر سے  پہلے حماس کی انتظامیہ نے پکڑ کر جیل۔میں ڈال دیا تھا اور وہ سزا کاٹ رہاتھا۔ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والے اسرائیل حماس جنگ سے پیدا ہونے والی افراتفری اور لاقانونیت کا فائدہ اٹھا کر ابوشباب رفح کی جیل سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ لیکن 2025ء میں وہ اپنے 300 جنگجوؤں کے ساتھ منظر عام پر آیا اور  جون میں غزہ کے جنوبی سرحدی علاقے رفح میں اپنا غلبہ قائم کرلیا۔ اس نے حماس کے اختیار کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ رفح میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان  کرم شالوم کراسنگ  ہے جہاں سے زیادہ تر انسانی امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوتے ہیں۔۔ابو شباب نے اپنے گروپ کا نام پاپولر فورسز رکھا ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیچھے اسرائیل کی حمایت ہے۔ ابو شباب کے پاپولر فورسز کو داعش کا اتحادی کہا جاتا ہے اور اس بات کی تصدیق خود اسرائیلی فوجی افسران اور سیاست دانوں نے کی ہے۔ ابو شباب کے غزہ میں ایک طاقتور گروپ کی حیثیت سے ابھرنے کے پیچھے اسرائیل اور امریکا کی منافقانہ پالیسی ہے۔ خود  اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے اعتراف کیا کہ اسرائیلی خفیہ تنظیم شن بیت نے پاپولر فورس  کو غزہ۔میں حماس کے متبادل کے طور پر تیار کیا ہے اور اسے کلاشنکوف اور دیگر تکنیکی آلات مہیا کئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے حماس سے چھینے گئے ہتھیار بھی ابو شباب گروپ کو دئیے ہیں۔ ابو شباب نے اسرائیل کی مدد سے رفح کراسنگ پر کئی چیک پوسٹ بنائے ہیں جہاں وہ اسرائیل کی ایما پر امدادی ٹرکوں کو روکتا ہے اور کئی بار اس گروپ نے امدادی ٹرکوں کا سامان لوٹ بھی لیا ہے۔ لیکن اس لوٹ کا الزام اسرائیل حماس پر ڈال کر غزہ میں انسانی امداد کو روکتا رہا ہے۔ اسی سال مئی سے تقریباً تین مہینے اسرائیل نے یہ کہکر غزہ میں انسانی امداد کو داخل ہونے سے روک دیا تھا کی حماس امدادی ٹرکوں کو لوٹ لیتا ہے جس کے بعد سے غزہ۔میں فاقے سے اموات کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ابو شباب کو غزہ۔کے لوگ اسرائیلی ایجنٹ اور غدار کہتے ہیں۔ابوشباب غزہ کے قبیلے ترابین سے تعلق رکھتا ہے اس لئے بنجامن نتن یاہو نے اس قبیلے کو امداد دے کر حماس کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے اگرچہ ابو شباب کی فیملی نے اس سے اپنی برات کا اظہار کیا ہے۔ چونکہ اسرائیل ابوشباب کو غزہ کا نیا لیڈر بنانے کی کوشش کررہا ہے اس لئے جب حماس نے جنگ بندی کے بعد غزہ میں ابو شباب کے جنگجوؤں کو پکڑ کر انہیں قتل کرنا شروع کیا تو نتن یاہو کو اپنا پلان ناکام ہوتا نظر آیا۔ لہذا ، جب اتوار کو بھی  رفح میں حماس کے جنگجوؤں اور ابو شباب کے جنگجوؤں میں لڑائی ہوگئی تو اسرائیل ابو شباب کی مدد کو آیا جس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کا ایک میجر اور ایک سرجنٹ ہلاک۔ہوگئے ۔ چونکہ رفح کی کراسنگ اسرائیل کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے اس لئے یہاں ابو شباب کا حماس کے ہاتھوں خاتمہ اسرائیل کا بڑا نقصان ہوگا۔ لہذا ، دو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے انتقام میں حسب عادت اسرائیل نے مرکزی اور جنوبی غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں کے خیموں پر حملہ کرکے 44 افراد کو ہلاک کردیا۔ اس حملے میں حماس کا ایک کمانڈر یحی اور پانچ جنگجو بھی مارے گئے۔ اس حملے اور جوابی حملے کی وجہ سے جنگ بندی کے ٹوٹنے اور جنگ پھر سے شروع ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا ۔ چونکہ نتن یاہو غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور صرف ڈونالڈ ٹرمپ کے دباؤ میں جنگ بندی پر راضی ہوا ہے اس لئے وہ غزہ۔میں پھر سے حملے شروع کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرتا رہتا ہے۔ اتوار کے حملے اور جوابی حملے کے بعد ایک بار پھر اسرائیل نے جنگ شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا  اور رفح کراسگ سے امدادی ٹرکوں کا داخلہ ابو شباب کی مدد سے روک دیا تھا لیکن ٹرمپ کی دمکی  کے بعداسرائیل نے جنگ بندی کو پھرسے نافذ کیا۔ ٹرمپ نے عالمی براردری کو یقین  دلایا ہے کہ جنگ بندی قائم رہے گی۔ مشرق وسطی کے معاملوں کے امریکی سفیر جارڈ کشنر جو ٹرمپ کے داماد بھی ہیں اور وٹکاف سوموار 20 اکتوبر کو اسرائیل جائینگے اور امریکا کے نائب صدر جے ڈی وانس منگل یعنی 21 اکتوبر کو اسرائیل جائینگے اور غالبا ً نتن یاہو کو جنگ بندی قائم رکھنے کے فائدے سمجھائیں گے۔ ان سفارت کاروں نے بھی عالمی برادری کو یقین دلایا ہے کہ جنگ بندی قائم رہے گی۔انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کی راہ میں پہاڑیاں اور کھائیاں آتی رہیں گی۔ ٹرمپ اور ان کے سفارت کاروں کے ان بیانات سے یہ تو ضرور واضح ہوتا ہے کہ امریکا اس جنگ بندی کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور جب امریکا ایسا چاہے تو پھر جنگ بندی کے قائم رہنے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ۔ یہ جنگ دوسال صرف اس لئے جاری رہی کہ امریکا برطانیہ اور دیگر یوروپی ممالک اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امداد  اور اسلحے دے کر اسرائیل کی فوج کو کمک پہنچاتے رہے۔

بہر حال ، صرف جنگ بندی ہی اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تصادم کا مستقل حل نہیں ہے اور اس حل کے لئے امریکا اور یوروپی ممالک مخلص نہیں ہیں۔ امریکا یوروپی اور عرب ممالک کے ساتھ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے اور اگلے مرحلے میں غزہ میں  عرب فورس کی تعیناتی اور وہاں ایک نیوٹرل حکومت کا قیام  زیر بحث ہے۔  یہ حکومت سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیرکی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی بورڈ آف پیس کے ماتحت ہوگی جس کے زیر انتظام غزہ میں تعمیراتی اور ترقیاتی کام ہونگے ۔ غزہ۔کی اپنی فوج نہیں ہوگی اور اسرائیلی فوج غزہ میں موجود رہے گی۔ عرب ممالک کی فوج برائے نام ہوگی اور غزہ کا قانون کانظام اسرائیل کے ہاتھوں میں ہوگا جیسا کہ ویسٹ بینک میں ہے۔ جو لوگ غزہ میں غیر ملکی افواج اور کٹھ پتلی حکومت کی مخالفت کرینگے انہیں اسرائیلی فوج گرفتار کرکے طویل مدت کے لئے جیلوں میں ڈال دے گی۔ غزہ میں نام نہاد ترقیاتی پروجیکٹ کا ٹھیکہ ٹونی بلئیر کے ادارے ٹونی بلئیر انسٹی ٹیوٹ اور  امریکی ادارے بوسٹن کنسلٹنگ کمپنی کو دیا جائگا جن سے اسرائیلی کارپورئٹ ہاؤس اور بزنس مین وابستہ ہیں۔غزہ میں دبئی کی طرز پر تفریح گاہیں ، کلب اور صنعتیں قائم کی جائینگیی خاص طور پر ٹرمپ ریویئرا اور ایلون۔مسک مینو فیکچرنگ ہب تعمیر کئے جائینگے۔ان پروجیکٹس کے لئے سرمایہ کاری کے لئے دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو دعوت دی جائے گی ۔چونکہ ان سب تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں کے لئے ایک بڑی جگہ درکار ہوگی اس لئے شمالی غزہ کو خالی کرایا جائے گا اور وہاں کے مکینوں کو لاکھوں ڈالر معاوضے کے طور پر دئیے جائینگے۔ ان سب منصوبوں کا ذکر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن پلان میں بھی موجود ہے اور میڈیا رپورٹ میں بھی۔ ابھی تک کسی اسلامی ملک نے ان نکات اور منصوبوں کی مخالفت  یا تنقید نہیں کی ہے  ۔۔دراصل امریکا اور اسرائیل کا مقصد غزہ کو مغربی ممالک کا دبئی بنا کر دبئی کی اہمیت کو ختم کرنا ہے اور یہاں کی قدرتی گیس پر قبضہ کرکے عرب اسلامی ممالک پر اپنا انحصار کم کرنا ہے۔

 اگر حماس ان سب باتوں کی مخالفت کرے گا اور غزہ میں مقامی افراد کی حکومت کا مطالبہ کرے گا تو ابو شباب کو غزہ کی کٹھ پتلی حکومت کا سربراہ بنادیا جائے گا ٹھیک جس طرح سیریا میں امریکا اور اسرائیل نے بشارالاسد کا تختہ الٹ کر داعش کے ایک گمنام جنگجوکو سیریا کا حکمراں بنادیا۔ امریکا اور اسرائیل  ابو شباب کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں اس بات کا اندازہ بربانوی اخبار دی گارجین اور امریکی اخبار دی نیو یارک ٹائمس میں شائع ہونے والے اس کے انٹریو سے لگایا جاکتا ہے۔دنیا کے دو بڑے اخبار غزہ کے ایک چور اورڈرگ اسمگلر کا انٹریو چھاپتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ نومبر 2024ء میں نیویارک۔ٹائمس میں ابو شباب کا ایک  انٹریو چھپا ۔اس انٹرویو میں اس نے اس بات  کا اعتراف کیا کہ اس نے چھ امدادی ٹرک لوٹے۔ اس کے اس بیان سے اسرائیل کو پشیمانی ہوئی تھی کیونکہ اسرائیل نے حماس پر امدادی ٹرکوں کو لوٹنے کا الزام  لگا کر امداد روک دئیے تھے۔ اس سے قبل ایک اسرائیلی سفارت کار نے بھی کہا تھا کہ ابو شباب امریکی  امدادی تنظیم جی ایچ ایف کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ لہذا ، جون میں دی گارجین میں ابو شباب کا ایک انٹریو چھپا جو تحریری تھا یعنی ابو شباب نے سوالوں کے جواب لکھ کر دئیے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابو شباب انگوٹھا چھاپ ہے۔ اس انٹرویو میں اس نے اس بات کی تردید کی کہ اس نے امدادی ٹرکوں کو لوٹا ہے۔ ظاہر ہے یہ فرضی انٹرویو تھا جو اسرائیلی حکومت کے ذریعے چھپوایا گیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ امریکا کسی بھی اسلامی جنگجو تنظیم کو کبھی پوری طرح ختم۔نہیں کرتا اس لئے ٹرمپ چاہے لاکھ حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکی دیں وہ کبھی اسے پوری طرح ختم نہیں کرینگے کیونکہ وہ حماس کو اسرائیل پر نکیل ڈالنے کے لئے استعمال کرینگے۔ جب بھی اسرائیل امریکا کے مفادات کو نقصان ہہنچانے کی کوشش کرے گا   یا غزہ میں امریکا کو درکنار کر اہنا مکمل غلبہ قائم کرنے کی کوشش کرے گا  تو امریکا حماس کو دوبارہ اسرائیل کے مقابلے میں غزہ میں کھڑا کردے گا۔یہی وجہ ہے کہ جب حماس نے 10 اکتوبر کے بعد ابو شباب کے گروپ کے جنگجوؤں کو سزائے موت دی تو ٹرمپ نے  نتن یاہو کے برعکس موقف اختیار کیا اور کہا کہ حماس نے جن لوگوں کو قتل کیا ہے وہ بہت برے لوگ تھے ۔اس لئے ان کی ہلاکت پرانہیں  کوئی اعتراض نہیں ہے حالانکہ بعد میں اسرائیلی لابی کے دباؤ میں  انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حماس فلسطینیوں کو ہلاک کرے گا توہم مناسب اقدام کرینگے۔لیکن اس کے ساتھ ٹرمپ کے داماد کشنر  نے نتن یاہو کوبھی آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل خطے میں الگ تھلگ نہیں پڑنا چاہتا تو اسے فلسطینیوں کی زندگی میں بہتری لانے کے لئے اقدامات کرنے ہونگے۔

لہذا، اگرچہ ٹرمپ کے دباؤ میں غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے اور امید ہے کہ جنگ بندی قائم بھی رہے گی لیکن ان کا بیس نکاتی منصوبہ فلسطینیوں کے تئیں  خلوص پر مبنی نہیں ہے کیونکہ اس منصوبے میں اہل غزہ کے لئے کچھ نہیں ہے اور  اس میں  امریکا، اسرائیل اور  یوروپی ممالک کے مفاات  کو ہی مقدم رکھا گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت نہ تو  اہل فلسطین کو  اپنی حکومت تشکیل دینے کا اختیار ہوگا نہ ہی انہیں اپنی فوج رکھنے اختیار ہوگا اور نہ ہی انہیں اسرائیل کے ظلم وجبر سے مکمل طور پر نجات ملے گی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے ایک مکمل اور باآختیار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور نہیں دیا ہے۔ ٹرمپ نے بھی صرف غزہ۔میں تعمیراتی اور ترقیاتی کام کو ترجیح دی ہے اور غزہ۔کے عوام کے حق خود اختیاری کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ لہذا ، غزہ۔میں جنگ بندی اہل غزہ کے لئے بہت بڑی راحت کا باعث تو ہے لیکن ٹرمپ کا بیس نکاتی پلان فلسطینیوں کے  روشن اور محفوظ مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دیتا۔

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/isis-terrorist-gaza-government/d/137321

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..