نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
31 اکتوبر 2023
مسلمان ماضی
کی اپنی غلطیوں سے کچھ سبق کیوں نہیں حاصل کرتے؟
اہم نکات:
1. دنیا بھر میں فلسطینیوں
کی حمایت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
2. ہندوستان کے صوبے کیرلا
میں بھی فلسطین کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔
3. جماعت اسلامی کی ذیلی
تنظیم SYMO نے ملاپورم میں ایک ریلی کا انعقاد کیا جس میں خالد
مشعل کا پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب چلایا گیا۔
4. انڈین یونین مسلم لیگ
نے کوزی کوڈ میں ایک ریلی نکالی جس میں فلسطینیوں کے حقوق کی صدائیں بلند کی گئیں۔
5. ہندوتوا تنظیموں نے
ملاپورم ریلی میں خالد مشعل کے خطاب پر احتجاج کیا۔
6. فلسطین کی حمایت میں
نکالی گئی ریلیوں میں 'بلڈوزر جسٹس' کے بینر دیکھ کر ہندوتوا تنظیمیں بھڑک اٹھیں
------
Damage
in the Gaza Strip during the Israel-Hamas war. Photo: Palestinian News &
Information Agency (Wafa) in contract with APA images/Wikimedia Commons. CC
BY-SA 3.0.
-----
اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتوبر
سے جنگ کا سلسلہ جاری ہے جس میں دونوں اطراف سے بچوں اور خواتین سمیت 9000 سے زائد
افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگرچہ جنگ کی یہ چنگاری حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو بھڑکائی
تھی، لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ 7 اکتوبر کے حملے بے یونہی نہیں تھے
بلکہ اس کے پیچھے اصل محرک اسرائیل کا 56 سالوں سے مسلسل قبضہ اور ظالمانہ رویہ رہا
ہے۔ اگرچہ حماس نے غزہ کی دوسری جانب بھی سینکڑوں بے گناہ شہریوں کا خون بہایا ہے لیکن
اسرائیل کی جوابی کارروائی زیادہ وحشیانہ رہی۔ وہ عام شہریوں پر بلاوجہ بمباری کیے
جا رہا ہے اور پیشگی اطلاع دے کر ہسپتالوں پر حملے کر رہا ہے۔ اسرائیل کے حوصلے اتنے
بلند ہیں کہ اس نے بیپٹسٹ چرچ کے زیر انتظام بیپٹسٹ ہسپتال پر بمباری کر دی۔ جبکہ اس
ہسپتال کے حکام چلا چلا کر یہ کہتے رہے کہ ہمارا حماس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسرائیل
کی دریدہ ذہنی تو دیکھیں کہ اس نے اسکولوں اور اقوام متحدہ کی پناہ گاہوں سمیت دیگر
کئی اسپتالوں پر بھی حملے کیے اور بے گناہ شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دی جو کہ بین
الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نے غزہ کے لوگوں پر بجلی، پانی، خوراک کی
فراہمی اور انٹرنیٹ بند کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے
ان سنگین جنگی جرائم کی مذمت نہ صرف باہر کی دنیا میں بلکہ خود اسرائیل کے اندر بھی
کی جا رہی ہے۔
بے گناہ فلسطینی بچوں اور نہتھے
شہریوں پر اسرائیل کی بربریت کے خلاف پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور یورپ،
امریکا اور جنوبی ایشیا میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بے شمار اجلاس بھی منعقد
کیے گئے۔ ہمارے ملک ہندوستان کے بھی مختلف شہروں اور قصبوں میں جنگ بندی کے مطالبات
کے ساتھ بے گناہ فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئی ہیں۔
پوری دنیا اسرائیل اور فلسطین کے
مابین جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے اور پوری دنیا کے لوگ فلسطینیوں کی نسل کشی کی
مذمت کر رہے ہیں۔ حماس کے جنگجو بھی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں یا مغوی
ہو رہے ہیں جو کہ ہر جنگ میں ہوتا ہے۔ حماس کے عسکریت پسندوں کے مارے جانے پر اسرائیل
کو کوئی برا نہیں کہہ رہا۔ بلکہ پوری دنیا صرف یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ معصوم شہریوں
پر جان بوجھ کر حملہ نہ کیا جائے۔
تاہم، ہندوستان کے اندر، کہ جہاں
انتہا پسند یا عسکریت پسند اسلامی تنظیموں کی حمایت کی ایک روایت رہی ہے، صوبہ کیرلا
کے ملاپورم میں فلسطین کے حق میں ایک ریلی نکالی گئی جس کی قیادت برصغیر کی ایک اسلامی
تنظیم جماعت اسلامی کی ایک شاخ کر رہی تھی، عملی طور پر ایک حماس حامی ریلی بن گئی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ریلی میں حماس کے بانی خالد مشعل کی پہلے سے ریکارڈ شدہ تقریر
سامعین کو سنائی گئی۔ کچھ دیگر اطلاعات کے مطابق خالد مشعل نے حاضرین سے عملی طور پر
خطاب کیا جس میں فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم
کا ذکر کیا۔ مبینہ طور پر اس تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جسے ہندو مخالف اور
ہندوستان مخالف کہا جاتا۔
اسی دن جمعہ کو انڈین یونین
مسلم لیگ نے بھی کوزی کوڈ کے اندر فلسطین کی حمایت میں اسی طرح کی ایک ریلی نکالی۔
اس ریلی میں کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کا خطاب ہوا جنہوں نے حماس
کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ انڈین یونین مسلم لیگ کے رہنماؤں نے تھرور کو تنقید
کا نشانہ بنایا کیونکہ انہوں نے اسرائیل پر حماس کے حملوں کو دہشت گردانہ عمل قرار
دیا تھا۔ جبکہ تھرور نے عام شہریوں پر اسرائیل کے ظالمانہ حملوں کو بھی دہشت گردی قرار
دیا تھا اور اس کی مذمت بھی کی تھی۔
ہندوتوا تنظیموں نے فلسطین کے حق
میں نکالی گئی ایک ریلی میں خالد مشعل کے خطاب پر احتجاج کیا اور یہ الزام لگایا کہ
جماعت اسلامی ہندوستان میں ایک دہشت گرد تنظیم کی تعریف و توصیف کرنے کی کوشش کر رہی
ہے۔ جبکہ اس ریلی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ حکومت ہند نے حماس کو ابھی تک دہشت گرد
تنظیم قرار نہیں دیا ہے۔
بات یہ ہے کہ حماس ایک عسکریت پسند
تنظیم ہے جو اسرائیل کے ساتھ مسلسل برسر پیکار ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ
مستقبل میں کیا پالیسی اختیار کرے گی۔ سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں اور اس میں بے شمار
نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ 2014 میں جب داعش نے موصل میں اقتدار پر قبضہ کیا تو اس
وقت بہت سے علماء، دانشوروں، صحافیوں اور ہندوستان کی مختلف اسلامی تنظیموں نے اس کی
حمایت کی تھی کیونکہ وہ اسے اسلامی خلافت کی توسیع ماں رہے تھے۔ بہت سے نوجوان اس چکر
میں گمراہی کا شکار ہوئے اور کچھ داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے عراق بھی چلے گئے۔
یورپی ممالک کی بہت سی لڑکیاں داعش میں شامل ہوئیں جنہیں بعد میں یہ احساس ہوا کہ داعش
دراصل ایک دہشت گرد جماعت ہے۔ لیکن ایک دو سال بعد جب داعش کو عراق اور شام سے اکھاڑ
پھینکا گیا تو اس نے سری لنکا، فرانس، بنگلہ دیش، افغانستان، فلپن وغیرہ میں دہشت گردانہ
حملے شروع کر دیئے۔
جب مسلم دانشوران داعش کی قصیدہ
گوئی میں لگے ہوئے تھے، صرف نیو ایج اسلام ہی تھا جس نے 15 ستمبر 2014 کو یہ مطالبہ
کیا تھا کہ حکومت ہند اس پر پابندی عائد کرے کیونکہ اس کی سرگرمیاں اسلام کے اصولوں
سے متصادم ہیں۔ بہت زیادہ نقصان ہونے کے بعد تاخیر سے ہی سہی مگر حکومت ہند نے فروری
2015 میں اس پر پابندی لگا دی۔
چونکہ اب ہندوستان میں داعش کو
ایک دہشت گرد تنظیم نامزد کیا جا چکا تھا، بہت سے نوجوان داعش سے تعلق رکھنے کے الزام
میں گرفتار بھی کیے گئے۔ مسلم نوجوان اب بھی داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار
ہیں۔ اب جا کر علماء، صحافیوں اور دانشوروں کو یہ احساس ہوا ہے کہ داعش مسلم نوجوانوں
کو گمراہ کرنے اور ان کی زندگی اور کیریئر کو برباد کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔
اس سے پہلے جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹ
ونگ سمی کا بھی یہی حال تھا۔ مبینہ طور پر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے کے بعد
جماعت نے اس سے اپنا پلہ ہی جھاڑ لیا تھا۔ مسلمان تقریباً دو دہائیوں تک سمی کا داغ
لیکر ڈھوتے رہے۔ حال ہی میں پیپلز فرنٹ آف انڈیا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا
اور بہت سے نوجوانوں کو پی ایف آئی سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا
تھا۔
گویا کہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں
کو سہانے سپنے دکھانے والی مذہبی تنظیمیں وجود میں آتی رہتی ہیں اور چند سالوں کے بعد،
انتہا پسندانہ نظریات کے حامل ہونے اور عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ان
پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ یہ مذہبی تنظیمیں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے فلاح
و بہبود اور ترقی کے راستے کھولنے کے بجائے پورے مسلم معاشرے کے لیے ایک لعنت بن جاتی
ہیں۔ مسلمانوں کو اسکولوں، کالجوں اور اسپتالوں کے قیام میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے بلکہ
انہیں مسلمانوں کے مابین انتہا پسند اور فرقہ وارانہ نظریات کی اشاعت کرنے والی مذہبی
تنظیموں کے قیام میں خاصی دلچسپی ہے۔ سیمی، آئی ایس آئی ایس اور پی ایف آئی نے ہندوستانی
مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اس سب کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں
نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ انہوں نے اس حقیقت سے بے خبر ہو کر
حماس سے اپنی محبت کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ اسرائیل نے یاسر عرفات کی جماعت الفتح
کا مقابلہ کرنے کے لیے حماس کو کھڑا کیا تھا۔ الفتح اب بھی (ویسٹ بینک) مغربی کنارے
میں مقبول ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حماس اصول و ضوابط کی رو سے ایک دہشت گرد جماعت نہ ہو،
لیکن اسرائیلی حکومت نے ہندوستان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ حماس کو ایک دہشت گرد گروپ
قرار دے۔ ایک آئی اے ایس ٹرینر انکیت اوستھی کا کہنا ہے کہ کسی بھی گروپ کو دہشت گرد
نامزد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس گروپ نے دوسرے ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں
کی ہو۔ چونکہ حماس نے کم از کم بھارت کے خلاف تو کوئی تخریبی کاروائی نہیں کی ہے اس
لیے بھارت نے اس پر پابندی نہیں لگائی۔
لیکن جیسا کہ کیرلا میں آئی ای
ڈی دھماکوں جیسے خطرناک واقعات سامنے آ رہے ہیں، مسلمانوں کو محتاط رویہ اختیار کرنا
ضروری ہو گیا ہے۔ کیرلا دھماکے کے مجرم نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے جرم کا
اعتراف کر لیا ہے لیکن ٹی وی چینل اب بھی دھماکے کو حماس سے جوڑنے کی کوشش میں لگے
ہوئے ہیں۔ اچھا ہوا کہ مجرم کا نام مارٹن نکلا متین نہیں۔ ڈومینک مارٹن 19ویں صدی کی
عیسائی مذہبی تنظیم جیوواہ وٹنیس کے رکن ہیں جو تثلیث پر یقین نہیں رکھتی۔ یعنی، یہ
عیسائیت میں ایک قدامت پرست فرقہ ہے اور اس کے کچھ انتہائی سخت نظریات اور معمولات
ہیں۔ مارٹن نے غالباً یہ دھماکے اپنے سخت معتقدات کی وجہ سے کیے تھے جیسا کہ مسلمانوں
میں انتہا پسند فرقے کرتے ہیں۔ اگر مجرم کا نام متین نکلا ہوتا تو ہندوتوا تنظیمیں
اور بالخصوص میڈیا اب تک بھارت میں حماس پر پابندی لگانے کے لیے ایک باضابطہ مہم شروع
کر چکا ہوتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2014 میں داعش
کے خلاف اتنی شدید میڈیائی مہم نہیں چلائی گئی تھی حالانکہ عملی طور پر داعش ایک دہشت
گرد تنظیم تھی، شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ اسرائیل اس میں ملوث نہیں تھا۔ صرف نیو
ایج اسلام جیسے کچھ مسلم پلیٹ فارموں نے اس کے خلاف مہم جوئی کی اور چند باشعور صحافیوں
نے اس کے خلاف اپنا قلم چلایا جس کی پاداش میں نہاد علماء اور صحافیوں کی اکثریت نے
ان کی خوب تنقید کی۔
چونکہ، آئی ایس آئی ایس نے
صرف مسلمانوں کا قتل کیا اس لیے ہندوستانی میڈیا یا ہندوتوا تنظیموں کو اس کی کوئی
خاص پرواہ نہیں تھی۔ لہذا، یہ کہا جا سکتا ہے اسرائیل حماس کی حالیہ جنگ کے دوران اس
مہم جوئی کی بنیاد اسرائیل سے محبت ہے نہ کہ حماس سے نفرت۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
بہت سے ہندی یوٹیوب چینل حماس اسرائیل جنگ کی روداد مسلسل ملک کے سامنے رکھ رہے ہیں
جس میں ان کی خصوصی توجہ حماس پر ہے۔
اگر جنگ بڑھی اور ایران اور دیگر
ممالک اس جنگ کی آگ میں کودے تو ایران اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ چونکہ
حماس ایران اور حزب اللہ کا اتحادی ہے، اس لیے ایران اور ہندوستان کے درمیان کسی بھی
قسم کی دشمنی سے حماس کے ہندوستان سے تعلق متاثر ہو سکتے ہیں اور اس کے برعکس بھی۔
اس صورت میں بھارت حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے سکتا ہے جس سے ان ہندوستانی مسلمانوں
کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں جو ابھی حماس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو
اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور حماس کے حوالے سے انہیں ایک محتاط رویہ
اپنانا چاہیے۔
------------
English
Article: So Much Hue and Cry Was Not Made Over ISIS Because
Israel Was Not Involved
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism