New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:02 PM

Urdu Section ( 11 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What “Ishq” is in Sufism is “Hubb” in the Qur’an! !تصوف کا "عشق" قرآن کا "حب" ہے

 غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

8 اپریل 2024

عشق حقیقی، ہی حب الٰہی کے وسیع تر قرآنی تصور کی صوفیانہ تعبیر ہے۔

-----

برصغیر پاک و ہند کے اندر، پاپ کلچر اور اردو اور پنجابی ادب میں، لفظ عشق کے متعلق شدید غلط  فہمی پائی جاتی ہے۔ عشق کا مفہوم قرون وسطیٰ کی عربی شاعری سے لیا گیا ہے، جس میں اسے بڑے پیمانے پر اداسی، رومانیت اور بعض اوقات انسان کے لیے مکمل جنون اور دیوانگی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر - مستند عربی لغت لسان العرب کے مطابق، "عشق، حب شدید کا نام ہے، یعنی حد سے زیادہ حب کو عشق کہا جاتا ہے۔ اس کتاب میں ہے کہ: ابو العباس احمد بن یحییٰ سے عشق اور حب کے درمیان فرق کے بارے میں پوچھا گیا، کہ ان دونوں میں  کون افضل ہے؟ فرمایا: حب، کیونکہ عشق جنون سے بھرا ہوتا ہے ۔ نامور عربی فلسفی اور لغت نگار ، ابن فارس نے کہا،: "عشق" کسی  شئی، اور خاص طور پر کسی عورت کی بے انتہاء محبت کا نام ہے، اس حد تک کہ،انسان  اس کی محبت میں گم ہو کر اس کی خامیوں کو دیکھنے کے قابل نہ رہے۔

تاہم، تصوف میں اسے "عشق مجازی" کہا گیا ہے، محبت کی وہ کیفیت جو ہمیشہ بے اصل ہوتی ہے، اور اس کا خاتمہ یقینی ہے، کیونکہ یہ مادی محبت ہے، نہ کہ ابدی عشق۔ تصوف میں عشق کی صوفیانہ تعبیر یہ ہے، کہ یہ محبت کی انتہاء کا نام ہے، جو ہر طرح کی لذت اور  مادی منفعت سے خالی، اور جس کا مقصد عشق حقیقی کا حصول ہے۔

عربی لفظ "حب"، جو وابستگی، چاہت اور محبت کے وسیع تر معانی میں استعمال ہوتا ہے، قرآن کےاندراسی معنی میں  استعمال ہوا ہے، جو تصوف میں لفظ عشق سے حاصل ہے۔ درحقیقت عربی زبان کالفظ"عشق" حب کی آخری اور اعلیٰ ترین شکل ہے،جس میں انسان خود کو فنا کر دیتا ہے، اور ذات باری تعالیٰ کے آگے، جو کہ اس کا محبوب حقیقی ہے، مکمل طور پر سر تسلیم خم کر  دیتا ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں دیکھا جائے تو "اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے" کے معنی میں، اسلام، اللہ کے لیے غیر مشروط اور لامحدود  محبت سے عبارت ہے، جس میں کسی کے لیے نفرت یا تعصب کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کو مشہور حدیث جبریل میں احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے جسے "ام الحدیث" (تمام احادیث کی ماں) بھی کہا جاتا ہے، جس میں احسان (روحانیت یا صوفیانہ اسلام) کو ایمان اور اسلام کا اعلیٰ ترین کمال قرار دیا گیا ہے۔

تاہم، قرآن پاک صرف عربی لفظ "حب" استعمال کرتا ہے، لفظ "عشق" کا نہیں، جو اردو شاعری اور فارسی ادب میں، خدا کی محبت کو ظاہر کرنے کے لیے مشہور ہے۔ اس کی بہت سی آیات میں، جن میں اللہ سے محبت کی بات کی گئی ہے، بشمول درج ذیل دو طویل آیات کے ٹکڑوں کے، "حب الٰہی" کی قرآنی اصطلاح کے گہرے معانی و مفاہیم ہیں۔ آئیے ان پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں:

(1) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ

ترجمہ: اے محبوب! تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے، (3:31)

(2) وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ

ترجمہ: "اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں..." (02:165)

مذکورہ بالا دونوں اہم مقامات پر، قرآن میں عربی لفظ "حب" استعمال ہوا ہے، نہ کہ "عشق"۔ چنانچہ وحدت الوجود کے حامی عظیم ترین صوفی اور علمبردار، شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، اور بعد میں ان کے عربی بولنے والے صوفی پیروکاروں نے، ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، لفظ"حب" کا ہی استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ابن العربی نے عشق الٰہی پر اپنی شاعری کا ایک مجموعہ ترتیب دیا،  اور اس کا نام "ترجمان الأشواق"  رکھا۔ اس کتاب میں شیخ اکبر نے قرآن کے لفظ "حب" کو غیر روایتی انداز میں استعمال کیا ہے، جو کہ اسلام کی مین اسٹریم مذہبی روایت کے خلاف ہے۔ وہ "حب" کے معنی کو غیر مشروط محبت تک وسعت دیتے ہیں، اور اس طرح اس میں "عشق" کے عناصر کو بھی شامل کرتے ہیں۔ ان سے منسوب مندرجہ ذیل عربی مصرعے ملاحظہ فرمائیں:

أدين بدين الحب أنَّى توجهتْ ركائبه، فالحب ديني وإيماني

ترجمہ: میں دین محبت کی پیروی کرتا ہوں ۔ اس کا قافلہ جہاں کہیں بھی جائے، وہی میرا قانون ہے اور وہی میرا ایمان ہے۔

تاہم، فارسی بولنے والے صوفی شاعروں اور فلسفیوں، خصوصاً مولائے روم جلال الدین رومی، اور بہت سے دیگر، جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں، ان کے مکتب تصوف کو فارسی اور اردو شاعری میں اپنایا، انہوں نے رومانوی لفظ "عشق" کو، متعدد وجوہات، اور لفظ عشق کی ان کی تشریحات کی بنا پر استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن علیہ الرحمہ اپنی کتاب "شمس الفقراء" میں مندرجہ بالا قرآنی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "حب حقیقی مومن کی پہچان ہے، لیکن عشق ابتدا اور تمام تخلیقات کا منبع ہے۔ جب روحیں نور محمدی  سے پیدا ہوئیں، تو عشق الٰہی انسانی روح کا ایک جز و لاینفک بن گیا۔ اس کے بعد آپ حضور اکرم ﷺکی اس حدیث کا ذکر کرتے ہیں، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:

لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه إلى آخره

یعنی کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ سب سے زیادہ نبی سے محبت نہ کرے۔ سخی سلطان مزید فرماتے ہیں: حب یا محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے، لیکن عشق اللہ کے سوا کسی سے بھی ممکن نہیں۔ جب، حب شدت اختیار کرتا ہے، تو وہ عشق میں بدل جاتا ہے، جو صرف اللہ کے لیے ہی ہے۔ یہی عشق حقیقی ہے، جو آپ کو بے چین کر دیتا ہے، اور آپ خوشی خوشی تمام دکھوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے  رہتے ہیں، اور اس میں آپ کو لطف آنے لگتا ہے، حتی کہ اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ اس فلسفے کو کیا ہی خوب انداز میں بیان کرتے ہیں:

عشق آں شعلہ است کہ جوں بر فروخت

ہر کہ جز معشوق باشد جملہ سوخت

ترجمہ: ’’عشق‘‘وہ شعلہ ہے کہ جب شدت اختیار کر تا ہے، تو محبوب کے سوا ہر چیز کو خاکستر کر دیتاہے۔

یہاں مجھے ایک اردو شعر یاد آرہا ہے، جو (شاید جگر مرادآبادی) نے کہا ہے:

عشق معشوق، عشق عاشق ہے

یعنی خود آپ ہی میں گم ہے عشق

اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ بذات خود عشق، عاشق اور معشوق  بھی ہے۔ گویا کہ ، وہ دراصل اپنے آپ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اب مندرجہ بالا اردو مصرعے کو مندرجہ ذیل عربی مصرعے سے جو ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے، سے موازنہ کر کے دیکھیں:

  هذا حبيب الله مات في حب الله

ترجمہ: وہ ایک حبیب اللہ (اللہ کا محبوب) تھا جو اللہ کی محبت میں مر گیا

اس شعر کا سیاق و سباق یہ ہے، کہ جب برصغیر پاک و ہند کے عظیم ترین صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تھا، تب کسی نے یہ شعر کہا تھا۔ اس سے یہ بات واضح طور پر آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ "حب فی اللہ" ،"فنا فی اللہ" اور "بقاء باللہ" کی طرف لے جاتا ہے، جو کہ  تصوف میں عشق الٰہی کی حتمی حقیقت ہے، جس کی شاندار مثال، عراق میں منصور حلاج اور ہندوستان میں سرمد کاشانی (جوسرمد شہید کے نام سے بھی مشہور ہیں) جیسے اللہ کے عاشقوں نے پیش کی ہے۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں عشق الہٰی کے ذریعہ معرفت الٰہی حاصل کر لیا۔

English Article: What “Ishq” is in Sufism is “Hubb” in the Qur’an!

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ishq-sufism-hubb-quran/d/132301

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..