حسین امیر فرہاد
کیا یہ سچ ہے کہ سندھ کے شہر کراچی میں رشوت لیتے ہوئے کئی بار پولیس والوں کی تصویر یں ٹی وی پر دکھائی گئیں مگر وہ پھر بھی ڈیوٹی پرموجود ہیں۔ بعض کوبہتر کار کردگی پر ترقیاں بھی مل گئیں ہوں گی ۔ حالانکہ یہ لوگ ڈپارٹمنٹ کی بدنامی کا سبب بنے ہیں جب میں پولیس میں تھا وہاں جرم میں ملوث نہیں ہوتی تھی ۔شاز و نادر اگر کوئی پایا جاتا تو اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا نوکری سے برخواست اور جیل کے علاوہ اس کی گریجویٹی جسے یہاں پنشن سمجھ لیجئے وہ بحق سرکار ضبط ہوجاتی تھی۔ بھرتی ہوتے وقت ہر ایک نے اس شرط کو قبول کیا ہوتا ہے کہ بدنامی سے نکالے جانےپر میرا مکافہ گریجویٹی ضبط کرلی جائے ۔ چونکہ ہر ملازم کے مستقبل کا دارو مدار گریجویٹی پر ہوتا ہے ، اس لئے ہر ایک شرافت کی زندگی گزارنے میں نہایت محتاط رہتا ہے ۔ باہر ملکوں میں شریف اور قانون کا پابند آدمی تلاش کرنا ہوتو کسی بھی پولیس والے پر انگلی رکھ دیجئے ۔
ہمارے ہاں مریض کے لئے خون نہیں ملتا پیسے ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں پھر بھی بلڈبنک والے کہتے ہیں خون اس کو ملے گا جس نے بلڈبنک میں کبھی جمع کرایا ہو ۔ وہاں ہر پولیس والے کا بلڈ گروپ ہسپتال میں ہوتا ہے اگر خون نہ ہو تو پولیس کوطلب کیا جاتا ہے اس سے لیا جاتا ہے یہ عہد ہم نے بھرتی ہوتے وقت کیا ہوتا ہے انکار کی مجال نہیں ہوتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ درست ہے کہ جس ملک کی پوری انتظامیہ چند ہزار نہتے طلبا ء کو امتحانی مراکز میں نقل کرنے سے نہیں روک سکتی، ایسی حکومتی مشینری سےیہ تو قع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ڈرونز حملے روکے گی۔ یا کروڑوں افراد کو پولنگ اسٹیشنز پر جعلی ووٹ ڈالنے سے روک سکے گی ؟ جب کہ ڈیوٹی پر موجود پولیس کے عملے کے کھانے کا انتظام حکومت کے بجائے سیاسی پارٹی کرے۔ انہیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا تھا بریانی ان کے سامنے تھی ۔ میں نے پوچھا ووٹ ڈالنے کی رکھوالی کون کررہا ہے؟ کہا اب تو ہم کھانا کھارہےہیں لیکن پہلے بھی ہم نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ یہ خیال ضرور رکھا کہ لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ قارئین جو سیاسی پارٹی انہیں کھانے کو دے رہی ہے پولیس والے ان کے ساتھ نمک حرامی تو نہیں کر سکتے۔ احسان کابدلہ احسان سے چکایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے شہر لاہور میں قبرستان آباد ہورہے ہیں ہسپتال بھرے پڑے ہیں ان لوگوں سےجن کے گلے پتنگ کی ڈور سے کٹے ہیں ۔ پتنگ بازی کے خلاف آواز اسمبلی سےبھی اٹھی تھی، حکومت نے کچھ ڈھیلی ڈھالی پابندی بھی لگائی تھی مگر آج تک حکومت بند نہ کرسکی اور قتل عام اب تک جاری ہے۔ کیا ایسی ڈھیلی ڈھالی حکومت کو حکومت کہا جاسکتا ہے جو پتنگ بازی جیسے فضول کام کو نہ روک سکے؟ ۔ اور اہل وطن کے گلے کٹوائے ۔ یہ اہل وطن پر ڈرون حملے کیسے روک سکیں گے؟ ۔ یہ پتنگ بازی روک نہیں سکتے کیونکہ وزراء صاحبان بھی یہ شوق فرماتے ہیں ۔ اور ناس یشون علیٰ خطرات الکبار ۔لوگ تو بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ بھی درست نہیں کہ اس ملک کے بڑے شہر کراچی میں جہاں ہر چوراہے پر ہرنا کے پرٹریفک پولیس پہرہ دیتی ہے لیکن ہر روز سال کے بارہ مہینے سواریاں بسوں کی چھتوں پر زیادہ سفر کرتی ہیں، اندر تو محدود لوگ سفر کرتے ہیں، گرتے بھی ہیں مرتے بھی ہیں مگر یہ اوور لوڈنگ جاری ہے کئی غیرملکی سیاح ہماری تصویریں بھی لیتے ہیں سوچتے ہیں یہاں انسان زندگی کی کتنی سستی ہے۔
اسی لئے تو شہر لاہور میں دھاڑے ریمنڈڈیوس بڑے اطمینان سےتین آدمیوں کو قتل کرتاہے۔ بھرے بازار میں لوگ ہوٹلوں میں بیٹھے ہیں گبروجوان بھی بیٹھے چائے لسّی سے شغل فرمارہے ہیں ۔ڈیوس گیا موٹر سے کیمرہ اٹھایا اور تصویریں لینے لگا پھر وہ رخصت ہوگیا ۔ گبرو سمجھے ہوں گے کہ فلم ( انتفام گجروا) کی شوٹنگ ہورہی ہے۔ اور ڈیوس کو معلوم تھا کہ یہ قوم بے حس ہوچکی ہے ۔ اگر برامان گئے تو چند ڈالر ان کے سامنے پھینک دوں گا ۔ وہی ہوا ڈیوس کے بجائے ڈالروں کو سزاملی۔ مقتولین کے وارث ڈالر جیبوں میں ڈال کر قاتل کے وطن امریکہ چلے گئے ۔ یہ تو تھا غیر تمند ملک کا کردار ملاحظہ ہو بےغیرت ملک کا کردار ۔ مثلاً تین چار سال پہلے کی بات ہے ایک پاکستانی نژاد برطانوی پاکستان آیا تھا وہ اسلام آباد ائیر پورٹ سے ٹیکسی لے کر اپنے وطن آزاد کشمیر جارہا تھا کہ راستے میں ٹیکسی ڈرائیور سےجھگڑا ہوا۔ اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو قتل کردیا ، پکڑا گیا کیس چلا پھانسی کی سزا سنادی گئی۔
ٹونی بلیر کو پتہ چلا اس نے پرویز مشرف کو B.B.C کے ذریعے وارننگ دی کہ ہمارے سٹیزن کو چھوڑ دیا جائے ورنہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ پرویز مشرف نے اسے باعزت طریقہ پر جیل سے رہا کیا اسلام آباد میں اس کے لئے دو سوٹ سلوائے گئے ۔ صدر نے اسے شرف باریابی بخشا اور اسے باعزت طریقہ پر رخصت کردیا ۔ حالانکہ وہ آزاد کشمیر میر پور خاص کا رہنے والا تھا ۔ اس پر ٹونی بلیر اتنی غیرت کھاتا ہے کہ سر براہوں کی پتلون بھیگ جائے ۔ اور ہم فلمیں بنالیتے ہیں ۔ غیرت میرے ویر دی ، غیرت پنج دریاواں دی، غیرت ہی غیرت، غیر تاں دارا کھا، غیرت شان جواناں دی۔ جب فلمیں بنی تھیں تو ابن انشاء زندہ تھے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ( ایک تو یہ فلم والے اس چیز کاذکر بہت کرتے ہیں جو ان کے پاس ہوتی نہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی درست ہی ہوگا جو ٹی وی نے دکھایا کہ بڑے کار خانے میں مختلف رنگوں کو گھول کر مختلف بوتلوں میں اور پلاسٹک کے تھیلوں میں بھرا جاتا ہے اور اسے ٹماٹر کیچپ کے نام سے بازاروں میں اور چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں سپلائی کیا جاتا ہے ۔ جسے کھاکر لوگ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
یہ بھی درست ہوگا جو ٹی وی نے کئی بار دکھایا کہ ادرک جو سڑی ، پتلی دبلی ہوا کرتی تھی آج کل موٹی تگڑی بازا ر میں فروخت ہورہی ہے۔ سبزی فروشوں نے کیمرے کے سامنے بیان دیا کہ ادرک کو موٹی اور وزنی بنانے کےلئے ہم اسے تیزاب میں رکھتے ہیں اور جس ہوٹل میں تندور ہو وہاں آٹا پیروں سے گوندا جاتاہے ۔ چونکہ ٹی وی کیمرے والوں کو پکڑنے کے اختیارات نہیں ہوتے، اسی لئے ہر جرم کرنے والا کہتا ہے آئندہ نہیں کریں گے جناب مگر کیمرہ ہٹنے کے بعد مالک کہتا ہے جا پیر دھو کر کام پورا کر آٹا گوندھ گاہک کھڑے ہیں روٹی کے انتظار میں ۔کمال کی بات یہ ہے کہ یہاں آٹا گوندنے کی مشینیں بنتی ہیں مگر وہ بجلی سے چلتی ہیں اور بجلی ہمارے ہاں ہے نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چائلڈ لیبر کے خلاف ملک میں قانون تو ہے مگر ہوٹلوں میں گھروں میں گیراجوں میں بچے کام کررہے ہیں جنہیں کام نہیں ملا وہ کچرا کنڈی میں کاغذ کے ٹکڑے جمع کرتےہیں ۔ زیادہ تعداد میں بچے ابو ظہبی سمگل کردیئے جاتے ہیں جہاں وہ کیمل ریس میں جان دے دیتے ہیں ۔ ایسے قانون کا کیا فائدہ جو اپاہج ہو جو عمل کے قابل نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی نے یہ بھی بتا یا کہ ہسپتال کاکچرا بھی فروخت ہوتاہے استعمال شدہ انجکشن حتیٰ کہ پیشاب کی تھیلیاں بھی فروخت ہوتی ہیں اور اسے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے ۔ ہسپتال کے منتظم سے جب پوچھا گیا تو ا س نے بتایا کہ ان چیزوں کو تلف کرنے کے لئے کروڑوں روپے کی مشین منگوائی گئی ہے مگر اس میں کچھ فنی خرابی ہے ۔.............. اصل حقیقت یہ ہے کہ مشین اگر ا س کو تلف کر دے تو وہ ناقابل فروخت ہوجاتا ہے۔ او ربڑے بڑے مگر مچھ اس آمدن سے محروم ہوجاتے ہیں جو ان استعمال شدہ سر نجز اور پیشاب کے ادھ بھرے تھیلوں سے ہوتی ہے ۔ یہ سب حکومت کے علم میں ہے ۔ کیونکہ یہ سب کچھ ٹی وی چینلز پر کئی بار بتایا گیا ہے ۔ مگر بری چیز ہے ریموٹ کنٹرول ارباب اختیار جو نازک طبیعت کے مالک ہوتے ہیں وہ چینل بدل دیتے ہیں یہ مناظر وہ دیکھ کر نہیں سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنے پر توپتہ چلتا ہے کہ ہماری حکومت بھی دیگر حکومتوں کی طرح ایک حکومت ہے ۔ مگر ۔ قریب آکر دیکھئے تو فرق نظر آتا ہے ۔ اگرچہ شیخ نے رکھ لی داڑھی سن کی سی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ۔ میں گیاپاسپورٹ آفس جہاں میں نے بہن کے لئے درخواست دی تھی ۔ چونکہ بہت چکر لگوا ئے روزانہ ٹالتے رہے یہ 1962 کی بات ہے ۔ وہاں ایک بکس لٹکا تھا جو آج بھی ہے لکھا تھا شکایت بکس ۔ میں نے شکایت تحریر کی مگر بکس میں جگہ نہ ہونے کیوجہ سے وہ اندر جانہیں رہی تھی ۔ میں سٹول پر بیٹھے ہوئے چپراسی سے پوچھا کیا کیا جائے یہ شکایت ڈالنی ہے؟۔
اس نےاندر کی طرف اشارہ کیاکہا ہیڈ کلرک کے پاس جائیے۔ میں اندر گیا اور ہیڈ کلرک کو سارا ماجرا سنایا ۔ ا س نے باہر بیٹھے ہوئے چپراسی کو بلایا کہا دیکھو یہ صاحب کیاکہہ رہے ہیں ؟۔ چپراسی نے جواب دیا کہ میں سن چکا ہوں مگر کیا کروں اس بکس کی ایک ہی چابی ہے جو آپ نے شبراتی کو دی ہے وہ ہر مہینے اسے کھول کر سارے کاغذ سامنے پان والے کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے ۔ میں نے آپ سے کہا بھی ہے کہ ہم بھی بال بچے دار ہیں ایک چابی ہمارے پاس بھی ہونا چاہئے کچھ آمدن ہمیں بھی ہوگی مگر آپ نے دی نہیں ، اچھا ان صاحب کی شکایت دور کرو۔ وہ مجھے بر آمدے میں لے گیا کہا دیجئے شکایت ۔ چونکہ مجھے پتہ چل گیا کہ ہماری شکایات پان والے کے ہاتھ فروخت کی جاتی ہیں ۔ میں نےچپراسی سے کہا آپ زحمت نہ کریں میں خود پان والے کو دے آتا ہوں ۔
جولائی ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/is-true-/d/98471