عرفان احمد، نیو ایج اسلام
30 مئی، 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
مائیکل ادیبلاجو کے بھیانک اور غیر انسانی عمل کا کئی طرح سے تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ اسے مسلم دہشت گردوں کے تازہ ترین طریقہ کار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بوسٹن میں آخری دہشت گرد حملے بھی دو لوگوں کے ذریعہ کئے گئے تھے ۔ ولوچ میں بھی دو افراد کے ذریعہ کارنامہ انجام دیا گیا تھا ۔ کیا یہ امریکہ اور برطانیہ میں دہشت گرد تنظیموں کی کسی حکمت عملی کی غماز ہے ؟ بوسٹن میں چیچنیا کے دو بھائی قاتل تھے جبکہ وولوچ میں بھی دو افریقیوں نے قتل کیا تھا ۔ ان سب کو کس طرح سے دیکھا جا سکتا ہے؟
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح مغربی ممالک دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے نئے اقدامات کر رہے ہیں اور اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں، دہشت گرد تنظیمیں بھی اچانک ان ممالک کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے طریقہ کار کو تبدیل کر کے عقل مندی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ چونکہ بم دھماکوں کو پہلے ہی امریکہ اور برطانیہ سمیت پوری دنیا میں دہشت گردی کا عمل قرار دیا گیا ہے اسی لئے دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں نے اب دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیبل سے بچنے کے لئے، دہشت گردانہ سر گرمیوں کو مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی کے خلاف افراد کے غصہ کے طور پر پیش کرتےہوئے مطبخ کے آلات اور گھریلو ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا ہے ۔
جزوی طور پر وہ ایسے واقعے کے ساتھ کامیاب رہے ہیں جو دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں ۔ کسی اور کے ذریعہ کسی کے حلقوم پر خنجر چلانا آج دنیا میں ایک عام جرم سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن دن کے اجالے میں برطانوی فوجی کو ہلاک کر کے اور بہت چالاکی کے ساتھ کیمرے کے سامنے یہ اعلان کر کے کہ یہ قتل افغانستان اور عراق جیسے مسلم ممالک میں مسلمانوں کی گردن زدنی کے انتقام میں ہے ، وہ برطانیہ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کی طرف توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہو گئےہیں ۔
ہو سکتا ہے کہ اس سے انہیں مسلمانوں کے درمیان کچھ ہمدردی حاصل ہو جیسا کہ پاکستان کے ممتاز قادری نے ایک عیسائی عورت کا دفاع کرنے اور توہین رسالت کے قوانین کو کالا قانون کہنے کے لئے سلمان تاثیر کا قتل کر کے کیا ۔ لیکن اس طرح کے اقدامات اسلام یا آج کی دنیا کے مسلمانوں کی خدمت نہیں ہے ۔ وہ نوجوان جو طاقت سے متاثر ہیں جو طاقت کے استعمال سے ایک عالمی اسلامی خلافت قائم کرنے کے سراب کا پیچھا کر رہے ہیں وہ معاشرے کا ایک گمراہ اور جاہل حصہ ہیں اور دنیا کے حالات یا ان کے کارناموں کے نتائج کو نہیں سمجھتے ۔ اور نہ ہی وہ اسلام کو سمجھتے ہیں۔ مسلمان کے قتل سے پہلے محض بسم اللہ پڑھ کرجیسا کہ سلمان تاثیر کے معاملے میں ہوا اور کسی غیر مسلم کے حلق پر خنجر چلانے کے بعد اللہ اکبر چلا کر جیسا کہ لی رگبی کے معاملے میں ہوا کوئی مذہبی اور نیک کام انجام دینے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
فیصل شہزاد کا فعل امریکہ کی خارجہ پالیسی کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی تیمرلین اور جوہر کے کرتوت اسے تبدیل کر سکتے ہیں ۔ لہذا، مائیکل ادیبلاجو کا کارنامہ بھی برطانیہ کو اس کی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس ان کے یہ کارنامے یورپ میں رہنے والے پرامن مسلمانوں کے لئے زندگی کو اگر جہنم نہیں تو مشکل ضرور بنا دیں گے ۔ پاکستان سمیت ایشیائی ممالک کے لوگوں میں سے زیادہ تر نے ہجرت کی ہے اور اب بھی وہ زیادہ سے زیادہ، انسانی مذہبی اور جمہوری حقوق اور ترقی کے لئے بہتر مواقع سے لطف اندوز ہونے کے لئے یورپی ممالک کو منتقل ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
پہلے سے ہی برطانیہ میں قدامت پسند تنظیموں کی جانب سے ردعمل اور مساجد پر حملےہورہے تھے ، مسلم افراد اور برقعہ میں ملبوس خواتین پر حملہ کیا گیا۔ ۔ مائیکل ، فیصل تیمرلین اور جوہر جیسے نوجوان جو کسی یورپی کی گردن کاٹنے کے انتظار میں ہیں، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کر سکتے تھے اگر وہ مسلم ممالک میں روزانہ ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ۔ مثال کے طور پر، کراچی ایک قتل گاہ میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں جمعہ اور تہواروں سمیت روزانہ مسلمان مارے جاتے ہیں ۔ عراق میں کل ہی ستر سے زیادہ لوگ فرقہ وارانہ بنیاد پر ہلاک کئے گئے۔ شام میں شیعہ اور سنی انتہائی سفاکانہ طریقے سے ایک دوسرے کو ہلاک کر رہے ہیں اور مخالف فرقے کی عورتوں کی عصمت دری کر رہے ہیں اور انہیں جنگی قیدی بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عراق سعودی عرب، قطر، ترکی، لبنان اور شام جیسے مسلم ممالک کی حکومتیں بھی اس فرقہ وارانہ جنگ میں فعال شرکاء بن گئی ہیں جس میں صرف خود مسلمانوں کے ذریعہ نیٹو فورسز سے زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا ہے جس کی تعداد اس نہ ختم ہونے والی جنگ میں اور بڑھے گی۔
برطانیہ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھانا ضروری ہے اس لئے کہ وہ اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے لئے مسلم دنیا کو تباہ کر رہے ہیں ۔ وہ مسلم دنیا میں اپنےسیاسی و اقتصادی ایجنڈے کوآگے بڑھانے کے لئے دہشت گردی کی چال کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ان کی پالیسی ہی ہے جس نے ان کے خلاف مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر ہیجان پیدا کر دیا ہے اور مائیکل اور جوہر جیسے لوگ مایوسی میں مطبخ کی چھریاں اٹھا رہے ہیں ۔لہٰذا مائیکل جیسے لوگوں کے ساتھ نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے وقت برطانیہ اور یورپی ممالک کو اپنا بھی کچھ محاسبہ کرنا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی ان دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنا مسلم ممالک کی بھی ذمہ داری ہے جو حکومتی افواج کی ظاہری اور خفیہ حمایت کے ساتھ ان ممالک میں اپنی بنیا د قائم کر رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں ۔
شام میں جہاد پر بھیجنے کے لئے موت کی سزا یافتہ مجرمین کو آزاد کرنے کا سعودی عرب کا فیصلہ اپنے شہریوں کے درمیان مسلم حکومتوں کےذریعہ انتہا پسند، بنیاد پرست اور فرقہ وارانہ نظریات کو فروغ دینے کی ایک مثال ہے۔ لہٰذا جب مسلم ممالک کی منتخب حکومتیں نوجوانوں میں اس طرح کی پرتشدد اور علیحدگی پسند ذہنیت کو قانونی جواز فراہم کر رہی ہیں تو ولوچ اور بوسٹن جیسے واقعات کوئی تعجب کی بات نہیں ہیں۔ انہیں تو ہونا ہی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کو برطانیہ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کے خلاف جوابی کارروائی کی آڑ میں جواز فراہم کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ نفرت اور تشدد کی عام ذہنیت ہے جو ابھی متحرک ہے ۔ اگر یہ ایک مسلمان کے خلاف نہیں ہے تو ایک برطانوی کے خلاف ہے اس لئے کہ نفرت اور علیحدگی پسند ذہنیت کا مظاہرہ کہیں نہ کہیں تو ہوگا ہی۔
جہادیوں کی اس جنگ میں انٹرنیٹ ان کے لئے ایک آلہ کار بن چکا ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی نوجوان نسل پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ وہ صرف امریکہ اور برطانیہ کے خلاف نفرت انگیز مواد نہیں پھیلا رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے درمیان دوسرے مکاتب فکر کے خلاف بھی نفرت انگیز مواد پھیلا رہے ہیں ۔
ایسی بہت ساری جہادی میگزین ہیں جو ان کی نظریاتی معلومات کی تخم ریزی کے لئے انٹرنیٹ کو ایک مفید ذریعہ پاتی ہیں ۔ سادہ لوح مسلم نوجوان ان نفرت انگیز مواد کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور جن کے خلاف مواد وہ پڑھتے ہیں انہیں ہدف بناتے ہیں ۔ اگر وہ شیعوں کے خلاف مواد پڑھتے ہیں تو وہ ان کے خلاف ہو جاتے ہیں اور ان کو نیست و نابود کرنا اپنا مشن بنا لیتے ہیں ۔ اگر وہ افغانستان اور عراق میں نیٹو افواج کے ذریعہ کئے گئے مظالم کے خلاف مواد پڑھتے ہیں تو وہ اپنے اسلامی بھائیوں کی موت کا بدلہ لینے کے لئے مغرب کو اسی طرح کا نقصان پہنچانے کے لئے اپنا ذہن تیار کر لیتے ہیں۔ اور اس جنگ میں اس طرح کا ہر مسلم نوجوان اپنے آپ میں ایک مقدس جنگجوبن جاتا ہے ۔ اس کے پاس نہ ہی کوئی مقصد اور نہ ہی کوئی بصیرت ہے ۔ ان کا مشن تشدد کا جواب تشدد سے دینا ہے اور اس راستے میں جو بھی آتا ہے اسے قتل کرنا ہے ۔ الشباب بوکو حرام ، النصرہ ، القائدہ، طالبان اور اس قسم کی دیگر دہشت گردی کی چھوٹی دکانوں کی طرح دہشت گرد تنظیمیں ان بہکے ہوئے اور مایوس نوجوانوں کو ان کی مایوسی سے رہائی اور انہیں کامیابی کا احساس دینے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ زمین پر خون بہانے اور اسلام کی تصویر کو اور زیادہ نقصان پہچانے اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث بننےکے سوا اور کچھ نہیں کرتے ۔
در اصل آج پوری مسلم دنیا میں مقصد اور سمت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ وہ اب بھی اس بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ ایک مسلمان کون ہے ۔ اور اسی وجہ سے ایک امت کے طور پر متحد ہونے کے قابل نہیں ہیں ۔ اس صورتحال میں مسلم نوجوان بھی الجھن میں ہیں اور اس تعلق سے ان کی اپنی محدود سمجھ بوجھ کے مطابق کہ کون مسلم ہیں اور کو ن نہیں ایک نظریہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جب وہ عراق کے مسلمانوں کا بدلہ لیتے ہیں تو انہیں یہ واضح نہیں رہتا کہ وہ کس مسلمان کا بدلہ لے رہے ہیں شیعہ کا یا سنی کا ؟ کیا ان کے لئے جو جمہوریت چاہتے ہیں یا ان کے لئے جو خلافت سے محبت کرنے والے ہیں؟ سلفی مسلمانوں کے لئے یا قبر پر حاضری دینے والوں کے لئے؟
تشدد اور فرقہ وارانہ نفرت کے نظریات جو دہشت گرد تنظیموں، سلفی حکومتوں اور واحد مبلغین نے دنیا بھر میں مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے وہ خود مسلمانوں کو نقصان پہنچنا جاری رکھیں گے اگر تمام یورپی ممالک تمام مسلم ممالک سے دستبردار ہو جائیں تب بھی جیسا کہ عراق میں مشاہدہ کیا گیا ۔ دراصل وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیں گے کہ صرف یورپی ممالک ہی اپنی طاقت سے ان کے باہمی مذہبی سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے قابل ہوں گے جیسا کہ مالی میں ہوا اور جیسا کہ شام میں ہونے جا رہا ہے ۔ شام میں جہادی تنظیمیں اور فیصل، جوہر، تیمرلین ادیبلاجو اور مائیکل کی طرح مسلم نوجوان بھی بیتابی سے انہیں نیٹو ممالک سے اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی کے منتظر ہیں جن سے وہ اپنے مسلم بھائیوں سے لڑنا اتنی شدت کے ساتھ نا پسند کرتے ہیں ۔ یہ امت مسلمہ کا ایک بڑا معمہ ہے ۔
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-dilemma-adebolajo,-tamerlane,-jauhar/d/11804
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-dilemma-adebolajo,-tamerlane,-jauhar/d/12387