امام سید شمشاد احمدناصر ، نیو ایج اسلام
رمضان المبارک کے مہینہ کی جہاں اور بہت سی خصوصیات ہیں وہاں ایک اور بہت بڑی خصوصیت یہ ہے ،کہ یہ مبارک ’’مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے۔‘‘ اس مبارک مہینہ میں بہت ہی دعائیں کرنی چاہئیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ اس مہینہ میں دعائیں کرنا ہی ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہو جانا چاہئے کیونکہ مہینہ آتا ہی اس لئے ہے کہ انسان کا خداتعالیٰ سے زندہ تعلق قائم ہو جائے۔ اور پھر وہ اس سے جو چاہے مانگے، تنہائی میں مانگے، ہاتھ اٹھا کر مانگے، سوتے اور جاگتے میں مانگے، اٹھتے اور بیٹھتے مانگے۔الغرض اس کا کوئی ایسا لمحہ نہ گزرنا چاہئے کہ اس کا دھیان خدا کی طرف نہ ہو۔ بس مانگیں اور صرف اور صرف خدا ہی سے مانگیں۔ ہاتھ پھیلائیں تو اسی کے آگے۔
ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
‘‘ہمارا خدا بڑا حیا والا، بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔’’ (ترمذی کتاب الدعوات)
پس خد اسے مانگنے میں انسان کو کوئی عار اور شرم نہیں ہونی چاہئے ہاں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں ضرور شرم محسوس کرنی چاہئے۔
حضرت عمرؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
’’رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔‘‘(جامع الصغیر)
دعا کو ایک پانی کی طرح سمجھنا چاہئے کہ ہمارے روحانی جسم کی آبیاری اور اسے سرسبز و شاداب رکھتا ہے۔ دعا کے بغیر انسان کچھ بھی تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی اعلان فرما دیا ہے کہ
قُلْ مَا یَعْبَؤُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآءُ کُمْ۔ (سورۃ الفرقان)
اے رسول کہہ دے! کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرے اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں۔
کنز العمال کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت و ترغیب فرمائی
یَا بَاغِی الْخَیْرِ ہَلُمَّ ھَلْ مِنْ دَاعٍ یُسْتَجَابُ لَہ، ھَلْ مِنْ مُّسْتَغْفِرٍ یُّغْفَرُ لَہ، ھَلْ مِنْ تَاءِبٍ یُّتَابُ عَلَیْہِ۔
اے خیر کے طالب ! آگے بڑھ آگے بڑھ کیا کوئی ہے جو دعا کرے تاکہ اس کی دعا قبول کی جائے۔ کیا کوئی ہے جو استغفار کرے کہ اسے بخش دیا جائے کیا کوئی ہے جو توبہ کرے تاکہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔
پس رمضان میں اس سے زیادہ کون سا بہتر موقع ہو گا کہ ہم اپنا رمضان دعاؤں میں ہی گزاریں۔
آج کل عالم اسلام جس کرب کی حالت سے گزر رہا ہے خصوصاً وطن عزیز۔ اس کے لئے تو بہت دعاؤں کی ضرورت ہے کہ خداتعالیٰ رحم فرمائے اور سارے عالم اسلام میں امن اور چین پیدا فرمادے اور مسلمانوں کی حالتِ زار پر خاص فضل اور رحم نازل فرمائے۔ مسلمانان عالم کی کشتی جو ہچکولے کھا رہی ہے، کو خدا تعالیٰ کسی طرح پار لگائے۔ اور یہ اس طوفان سے بچ جائیں۔ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائیں، قوم ابھی بھی محسوس نہیں کر رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ خداتعالیٰ کا غضب اور اس کی ناراضگی کی وجہ سے ان پر آفات نازل ہو رہی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں معاف فرما دیا ہے۔
وَمَا اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔ (سورۃ ق: آیت 30)
میں اپنے بندوں پر ہاں ان بندوں پر جن کے دل میں خشیت الٰہی ہوتی ہے جو عجز و انکسار اختیار کرتے ہیں جو خداتعالیٰ سے دوستی رکھتے ہیں جو خدا تعالیٰ کو ہر شئے پر مقدم رکھتے ہیں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ حال ہی کراچی میں گرمی سے ایک ہزار کے لگ بھگ اموات ہو گئی ہیں، کراچی میں گرمی کی اس شدت کی لہر کا آنا جو کہ ساحل سمندر پر واقع ہے تھوڑا سا حیران کن بھی ہے۔ پھر یہ ظلم جو مسلمانوں نے ایک دوسرے پر کئے کہ ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے ان کے بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیا بسوں سے نکال کر بھون ڈالا، کئی لوگوں کو مار مار کر اَدھ موا کر دیا تو پھر ان کو آگ میں جلا کر مار ڈالا، مردوں کی قبرستان میں بے حرمتی کر دی گئی، مساجد سے کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہیں پولیس نے تو کہیں عیسائیوں کو پیسے دے کر مٹا ڈالا۔ کہیں ہتھوڑوں سے خدا کے نام پر ضربیں لگائی گئیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں کے کرنے سے اور ان ظلموں کے باوجود بھی خداتعالیٰ قوم پر انعامات کی بارش نازل فرمائے گا؟؟؟
ایسی امت کی اصلاح کیسے ہو گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیا مکہ معظمہ کا مفتی یا امام، یا جامعہ ازھر کے علماء یا کسی اور اسلامی ملک کا بڑ اعالم اس امت کی اصلاح کر سکتا ہے؟
میں آپ کی خدمت میں اس کا جواب مولانا رشید احمد گنگوہی کا ایک حوالہ سے دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی جب کسی کو اصلاح خلق کے بہت درپے دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے۔ ہاں بھائی کرو تم کو ثواب ملے گا مگر اب اصلاح کی امید نہ رکھو۔ اب اصلاح نہ ہو گی بلکہ فساد ہی بڑھے گا۔ بس اب تو حضرت مہدیؓ ہی تشریف لا کر امت کی اصلاح فرمائیں گے۔‘‘
(ماہنامہ ’’النور‘‘ ذی الحجہ 1347ھ تھانہ بھون۔ یوپی۔ بھارت‘‘ (امام مہدی از ضیاء الرحمن فاروقی۔ صفحہ1)
‘‘حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند (یوپی۔ بھارت ) دہلی تشریف لائے۔ مدرسہ عبدالرب میں قیام تھا۔ کچھ بخار تھا۔ حضرت مولانا محمود حسن (شیخ الہند) مولانا احمد حسن امروہی اور امیر شاہ خان صاحب پیر دبا رہے تھے۔ خان صاحب نے حضرت نانوتویؒ سے عرض کیا کہ مسلمانوں کے لئے دعا فرمایئے۔ یہ ذلیل ہو چکے ہیں۔ ان کی حکومت جا چکی ہے۔ ان کی جاگیروں اور جائیدادوں پر ساہوکاروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ حکومت کے لوگ غالب آچکے ہیں۔ مسلمان بہت پسماندہ ہو گئے ہیں۔ دعا فرمائیں اللہ ذلت رفع فرما دے تو حضرت جوش میں بخار کی حالت میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا امیر شاہ مسلمان ذلیل ہو گئے۔ ابھی کچھ ذلیل نہیں ہوئے۔ ابھی اور ذلیل ہوں گے۔ ذلت کی انتہا ہو جائے گی جس کا تم ابھی تصور نہیں کرسکتے۔ اس وقت غیرت الٰہی جوش میں آئے گی اور ادھر سے مدد ہو گی۔ خراسان کی طرف اشارہ فرمایا (مطلب ظہورِ مہدیؓ تھا اور یہ قول حضرت شیخ الہند کا ہے)۔ غرض قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے مطابق اب حضرت مہدیؓ ہی تشریف لا کر دنیا کی اصلاح فرمائیں گے۔ ایسی قوت کا مجدد جس کی روحانی قوت اتنی بڑھی ہو کہ وہ پورے عالم کے حالات بدل سکے اس قوت کے مجدد سوائے حضرت مہدیؓ کے کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔
‘‘حکیم الاسلام قاری محمد طیب کی مجالس صفحہ136تا137 سے ماخوذ۔ ادارہ تالیفات اولیاء، دیوبند۔’’
(امام مہدی۔ از ضیاء الرحمن فاروقی۔ صفحہ1،2)
’’بات یہ ہے کہ وہ زمانہ حضور کے زمانہ سے قریب تھا اس وقت نور تھا اب وہ نور نہیں رہا ہم ظلمت کے زمانہ میں ہیں اب چاہے ہم کتنا ہی علم حاصل کر لیں مگر وہ نور نہیں یہ تو خیر القرون میں تھا اور ہم تاریکی کے زمانہ میں ہیں سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی ہزاروں بجلیاں اور گیس روشن ہو جاتے ہیں مگر ویسی روشنی نہیں ہوتی جیسی دن میں ہوتی ہے۔ بس اب تو امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں خیر ہو گی یا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں۔ اس سے پہلے تو ظلمت ہی ظلمت ہو گی۔‘‘
(ملفوظات حکیم الامت جلد 6 مولانا اشرف علی تھانوی۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ)
ان بزرگان کی آراء کو تعصب کی پٹی اتار کر دیکھنا چاہئے کہ یہ کون سا وقت ہے۔ ایسے وقت امت پر کیوں آیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ کیا واقعۃً کوئی آگیا ہے یا نہیں یا کب آنا ہے؟ ان سوالوں کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
لیکن آپ کو یاد کرا رہا ہوں کہ اس بابرکت مہینہ میں یہ دعا بھی کریں کہ خداتعالیٰ ہمیں ظالموں سے بچائے اور ظلم سے بھی بچائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یہ بھی ہے۔
اللھم لا تسلط علینا من لا یرحمنا اے اللہ ہم پر کوئی ایسا جابر حکمران نہ مسلط کرنا جو ہم سے انصاف نہ کرے اور ظلم ہی کرتا چلا جائے۔ وطن عزیز میں بہت ظلم ہو رہا ہے بہت ظلم ہو رہا ہے۔ اس لئے ان بابرکت دنوں میں خاص دعاؤں کی ضرورت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے:
’’میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر لیا ہے تو تم بھی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کو حرام سمجھو، اے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں پس تم مجھی سے ہدایت طلب کرو کہ میں تمہیں ہدایت دوں۔ اے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس شخص کے جس کو میں کھلاؤں پس تم مجھی سے روزی مانگو تو میں تمہیں روزی دوں، اے بندو! تم میں سے ہر ایک ننگا ہے سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھی سے لباس مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے بندو! تم رات میں بھی گناہ کرتے ہو اور دن میں بھی اور میں سارے گناہ معاف کر دوں گا۔‘‘
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظلم حدیث2577)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی خدا سے ہی مانگو۔ مگر ہمارے ملک میں اتنا شرک پھیل گیاہے کہ لوگ قبروں پر جا جا کر منتیں مانگتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں جہالت کی انتہاء ہے کہ بعض لوگ تو اپنے چاہنے والوں کی تصاویر کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ پس یہ جان لینا چاہئے کہ خدا کے سوا نہ کوئی دعائیں سننے والا ہے اور نہ ہی خدا کے سوا کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلانا چاہئے۔ ہاتھ پھیلائیں تو خدا کے سامنے اور مانگیں تو خدا سے! وہی دے گا، وہی قبول کرے گا۔ پس اس مبارک مہینہ کو دعاؤں سے سجا دو۔
ہمارے امام نے کیا ہی سچ فرمایا ہے کہ‘‘ دعائیں کرو۔ دعائیں کرو۔ دعائیں کرو۔ ’’
URL: https://newageislam.com/urdu-section/invoke-divine-favour-invoke-divine/d/103682