New Age Islam
Wed May 31 2023, 12:22 AM

Urdu Section ( 3 Feb 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Interfaith Dialogue— Only Way to Fight Extremism بین المذاہب مکالمہ – انتہاءپسندی سے مقابلہ کرنے کا ایک واحد راستہ

  

نِور فخری ایزی

16 جنوری 2014

ایک دوسرے کی مذمت کرنے اور انہیں حقیر گردانتے ہوئے تمام مذہب کے انتہاء پسندوں کے درمیان جو بات قدرے مشترک ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ ایک سچے ‘‘راستے’’ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کے با وجود کہ ‘‘وہ گناہ سے نفرت کرتے ہیں گنہگاروں سے نہیں’’، ان کا یہ رویہ ان سے مختلف معتقدات اور اقدار کے حامل لوگوں کا سامنا کرنے اور ان سے گفتگو کرنے کے انداز کو متأثر کرے گا اور ان کا یہ رویہ کسی بھی معاشرے میں انتہاء پسندی کا بیج بونے میں معاون ہو سکتا ہے جو کہ ممکنہ طور پر آگے چل کر دہشت گردی کو جنم دے سکتا ہے۔

جب سعودی عرب میں اور دوسرے ممالک میں دہشت گردانہ حملے وقوع پذیر ہونے لگے جو کہ 9/11 کے بعد پورے طور پر منظر عام پر آ گیا، تو وہاں مذہبی انتہاء پسندی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں سعودی حکومت نے اسلام کی افہام و تفہیم میں اعتدال پسندی کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں 2004 میں نیشنل سکیورٹی فار ہیومن رائٹس کا قیام بھی شامل ہے، جو کہ معتدل اسلامی اقدار کو فروغ دینے اور مذہبی تعلیمات میں اصلاح کرنے کے لیے بیداری پیدا کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اساتذہ اور ائمہ کو تربیت دینے کی ایک مہم ہے۔ اس کے علاوہ خادم الحرمین شریفین کنگ عبد اللہ نے بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمہ کو فروغ دینے کے لیے 2008 میں ایک اور اقدام کیا، جس کے بعد 2011 میں ویانا میں دی کنگ عبد اللہ بن عبدالعزیز انٹر نیشنل سینٹر فار انٹر رلیجیس اینڈ انٹر کلچرل ڈائلاگ (KAICIID)’’ کا قیام عمل میں آیا۔

تاہم اس بات کے امکانات ہیں کہ ان اقدامات سے سعودیوں میں کو ئی تبدیلی واقع ہو، لیکن پھر بھی ہمارے معاشرے میں پائے جانے والی انتہاء پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اور بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کا اب بھی یہی عقیدہ ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے تہواروں اور چھٹی کے دنوں میں مبارک بادیاں نہیں پیش کی جانی چاہیے اور جب وہ محتاجی کے عالم میں ہوں تو ان کو صدقات و عطیات بھی نہیں دیا جانا چاہیے، اس لیے کہ انہوں نے ایک دوسرا مذہب اختیار کر کے ان کی نظروں میں اپنی زندگی کی قیمت کھو دی ہے۔ مزید برآں یہ کہ بہت سارے لوگوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کس طرح مؤدبانہ انداز میں باہم گفتگو اور مکالمہ کیا جائے اور وہ ایک معلوماتی انداز میں ان کے مذاہب کے متعلق علم و آگہی حاصل کرنے کے نظریہ کو مسترد کرتے ہیں، اس لیے کہ ان کا یہ ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے ان کا اپنا ایمان خراب ہو جائے گا اور ایسا کرنا اپنے مذہب کی ‘‘سچائی’’ پر ایمان کے خلاف ہے۔

دوسروں کے تئیں رواداری کو فروغ دینے میں سب سے بڑا مسئلہ جو کہ مانع ثابت ہو رہا ہے یہ ہے کہ ان تمام اقدامات کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہےجو ان اقدامات پر غور و فکر کر کے ان کا نفاذ کرے، مثلاً آزادی مذہب کے تحفظ اور امتیاز و تفریق مخالف قوانین جیسا کوئی قانون اس کے لیے درکار ہے۔ اس کے علاوہ ‘‘مشترکہ اقدار’’ کا تصور نسبتاً ایک نیا تصور ہے جسے شاید ابھی تک نہیں سمجھا جا سکا ہے اور جس میں گوناگوں تنوعات پائے جاتے ہیں اور جو حقوق انسانی اور مذہبی آزادی کے تصور پر مبنی ہے۔

 سعودی عرب میں جو ‘‘مشترکہ اقدار’’ کا تصور پایا جاتا ہے وہ مطابقت اور تعین سے عبارت ہے اس میں اختلاف، رنگارنگی اور تنوعات کا کوئی تصور نہیں ہے اس لیے کہ ان کی نظر میں کچھ خاص اسلامی اقدار کو ہی ‘‘مشترکہ اقدار’’ مانا جاتا ہے جس پر ہر انسان کو عمل پیرا ہونا چاہیئے۔ رواداری، انسانی وقار کوتسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے جیسے عالمگیر ‘‘مشترکہ اقدار’’ کے تئیں اگر بیداری پیدا کی جائے تب جا کر انتہاء پسندی کے خاتمے اور ایک حقیقی بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کا انعقاد کرنے کے لیے ہم ایک مضبوط بنیاد کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ ‘‘مشترکہ اقدار’’ کے اس عالمگیر تصور کو آنے والی سعودی نسلوں کے ذہن و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لیے اس کا آغاز اسکول کے بچوں کے ساتھ کرنا خاص طور پر ضروری ہے، جس سے ہو سکتا ہے کہ سعودی معاشرے میں آہستہ آہستہ مگر متأثر کن تبدیلی پیدا ہوگی۔

جب یہ پہلے اقدامات کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیے جائیں تو اس کے بعد پھر عوامی سطح پر بین المذاہب مکالمہ کو بھی فروغ دیا جانا چاہیے۔ ایسے سماجی فارم کا قیام عمل میں لانے سے جہاں سعودی اور غیر مسلم باشندے ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں تبادلہ خیال کر سکیں اور رسوم و رواج اور مختلف قسم کی تقریبات جیسی مذہبی روایات اور ان کے پیچھے مخفی وجوہات کو جان سکیں، نہ صرف سعودیوں بلکہ ان جلاوطنوں میں بھی جو سعودی عرب میں بود و باش اختیار کیے ہوئے ہیں باہمی مفاہمت اور رواداری کو فروغ دے سکتا ہے، جن میں سے کچھ جلاوطنی کے بدلے میں اسلام اور سعودی تہذیب و ثقافت کے تعلق سے اپنی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ یہ اقدامات جلاوطنوں کے ساتھ اور باقی پوری دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات اور اتحاد و اتفاق قائم کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے علاوہ سعودی معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہم کے قیام میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔

یہ کسی کے مذہب کی ‘‘سچائی’’ پر ایمان رکھنے سے متصادم نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دوسروں کے اصول و معتقدات اور مختلف نظام حیات کا اعتراف کرنا اور انہیں سراہنا ہے۔

مذہب کا مقصد لوگوں کی روحانی صحت کو مثبت تعاون فراہم کرنااور اس دنیا میں امن، انصاف اور اخلاقی اقدار قائم کرنا ہے۔ تاہم کوئی بھی انسان مذہب کی اس طاقت کو حقیر نہیں سمجھ سکتا کہ جس میں اگر خلط ملط کر دی جائے تو اس کا استعمال تباہی مچانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ صلیبی جنگیں سات صدیوں تک جاری رہیں جن میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پاپ اربن II نے کہا تھا کہ یہ ‘‘خدا کی مرضی ہے’’۔

اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی ‘‘مؤمنوں’’ نے اس جنگ کو ایک ‘‘مقدس جنگ’’ ثابت کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا تھا۔ اور آج کل بھی نام نہاد ‘‘مقدس جنگ’’ میں ہزارو لوگ مارے جا رہے ہیں۔

اگر ہم اپنے بچوں کو دوسرے انبیاء کے ماننے والوں سے محبت کرنے پر اس وجہ سے تنبیہ کرتے ہیں کہ کہیں ان کے ایمان میں فساد نہ پیدا ہو جائے تو ہم انہیں یہ تعلیم نہیں دے سکتے کہ اللہ پر ایمان رکھنے کے لیے گزشتہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے۔

تمام مذاہب کے درمیان چند مشترکہ خصوصیات ہوتی ہیں جنہیں تسلیم کیا جانا چاہیے اور کچھ اختلافات بھی ہیں جنہیں سراہا جانا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانیت ہمیں ایک ہی دائرے میں لاکر کھڑی کرتی ہے اور مذہب ہماری زندگی کے صرف ایک شعبے کا تعین کرتا ہے جو کہ رکاوٹ بننے کے بجائے پرامن زندی گزارنے میں معاون ہونا چاہیے۔

(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)

ماخذ: http://www.arabnews.com/news/509606

URL:

https://newageislam.com/interfaith-dialogue/interfaith-dialogue-—-only-way/d/35296

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/interfaith-dialogue—-only-way-fight/d/35560

 

Loading..

Loading..