New Age Islam
Sun Jan 19 2025, 02:44 PM

Urdu Section ( 29 Oct 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Interfaith Dialogues: Its Importance, Priorities and Requirements بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت، ترجیحات اورتقاضے

 

پروفیسر محمد اکرم وِرکجولائی، 2009

الحمد اللہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی جمیع الا نبیاء و المرسلین خصر صا علی سید الرسل و خاتم النبین  وعلی الہ و اصحا بہ و اتباعہ اجمعین  ، اما بعد!

مرکزِ تحقیق، فیصل آباد کے زیر اہتمام دوسرے قومی سیرت سیمینار  میں میری  گفتگو کا عنوان ہے ‘‘ باہمی تعلقا ت کے لیے بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت  و ضرورت ، ترجیحات اور تقاضے’’ ۔ سب سے پہلے تو میں مرکزِ تحقیق کے منتظمین  اور ذمہ داران کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے آج  کے معروضی حالات اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اس اہم موضوع پر اس پر وقار تقریب کا انعقاد کیا ہے، اور ان تمام احباب کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو اس اہم اور فکر انگیز موضوع پر اظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔

معزز حاضرین!

اربابِ دانش سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ گلو بلائز یشن (Globalization) کے اس دورمیں بین  المذاہب مکالمہ (Dialogue Inter-Faith) کی ضرورت و اہمیت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، باہمی  مکالمہ ہی وہ واحد  آپشن ہے جس سے کسی بھی مذہب کا داعی مخاطب کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کر سکتا ہے، باہمی مکالمہ  دعوت کا ایک ایسا سلوب ہے جس کے ذریعے مخاطب کو زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ، گفتگو کا یہ ایسا سلوک ہے جس میں متکلم  اور سامع کے درمیان براہ راست گفتگو ہوتی ہے اور حقائق پوری طرح نکھر کر سامنے آتے ہیں، اب یا تو مخاطب مدِّ مقابل کےموقف کو قبول کر لیتا ہے یا پھر دلائل کی بنیاد پر رد کردیتا ہے ، یہ مکالمہ افراد کے درمیان بھی ہوسکتا ہے ، تہذیبو ں اور مختلف مذاہب کے درمیان بھی ۔

سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بین المذاہب مکالمہ کی اہمیت

بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے اس لئے امت اجانت ہونے کی حیثیت  سے دنیا کے تمام انسانوں تک پیغام الٰہی  کا پہنچانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے واضح  طور پر امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انفرادی اور اجتماعی  سطح پر یہ ذمہ داری  عائد کی گئی ہے۔ شاہانِ عالم کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دعوتی و تبلیغی  خطوط جہاں معاصر مذاہب اور تہذیبوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مکالمہ  کی ایک خوبصورت مثال ہیں وہی خطوط اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اسلام اصلاً دینِ دعوت ہے اور اس کی دعوت کا دائرہ  کار تمام عالم کو محیط ہے، اس لئے اس کے عالمی پیغام کو دوسروں تک منتقل کرنا مسلمانوں کا دینی فریضہ  ہے۔ مذاہب عالم میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف عالمگیری سطح پر دعوت تبلیغ کا حکم دیا ہے بلکہ دوسری تہذیوں ، قوموں اور افراد کے ساتھ گفتگو او رمکالمے کے باقاعدہ اصول بھی بیان کیے ہیں ۔ قرآن مجید نے ایک داعی کے لئے مکالمے کے جو بنیادی اصول بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں:

(ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ) ( النحل 125۔16)

‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت  سے بلایئے اور ان کے ساتھ پسندیدہ طریقہ سے بحث کیجئے’’۔

اسلام کی  یہ ایک ایسی انفرادیت  ہے جو اسے تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب سےممتاز کرتی ہے۔ علامہ سید سلمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ ( م 1953ھ) لکھتے ہیں:

‘‘ یہ نکتہ کہ کس طرح لو گوں کو سچائی قبول کرنے کی دعوت دینی چاہیے دنیا میں پہلی دفعہ محمد رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وحی ترجمان سے ادا ہوا، وہ مذہب بھی جو الہامی اور تبلیغی  ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے صحیفوں نے ان کے لیے تبلیغ کےاہم اصول کی تشریح کی ہے، لیکن صحیفہ  محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اختصار لیکن پوری تشریح کے ساتھ اپنے پیرووں کو یہ بتایا کہ پیغام ِ الٰہی  کو کس طرح لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کو قبول کی دعوت کس طرح دی جائے ۔’’ (1)

مذاہب ِ عالم  میں عملی  طور پر صرف عیسائیت  اور اسلام ہی تبلیغی مذاہب ہیں ، دیگر  تمام مذاہب  کا دائرہ  کار کسی خاص علاقے یا نسل تک محدود ہے ، جب کہ عیسائیت  کی عالم گیر دعوت  اور  اشاعت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی تعلیمات  کے منافی  ہے کیونکہ  ان کی بعثت خاص بنی اسرائیل  کی طرف ہوئی تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کا بیان ہے:

‘‘ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا’’۔( انجیل  متّی ،24:15)

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب بارہ نقیب  مقرر فرمائے اور ان کی مختلف علاقوں کی طرف دعوت و تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا تو بطور خاص ان کی تلقین  فرمائی :

‘‘ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں  داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل  کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔’’ ( انجیل متی، 6:10)

الغرض یہ صرف یااسلام ہی ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو نہ صرف دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا حکم دیا ہے بلکہ دیگر مذاہب او ر تہذیبوں  کے ساتھ مکالمے کے بنیادی اصولوں کی تعلیم بھی دی ہے۔ داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نےمختلف اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ  جو مکا لمہ فرمایا، سیرتِ طیبہ  سے اس کے کئی مثالیں پیش  کی جاسکتی ہیں۔ ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی مشرکانہ تہذیب کے نمائندہ افراد، سردار انِ قریش اور ان کے وفود سے انفرادی  اور اجتماعی  سطح پرمکالمہ کیا،  اور دوسری طرف ورقہ بن نوفل سے لے کر نجران کے عیسائی علماء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکالمہ  گویا عیسائیت  سے انفرادی اور اجتماعی  سطح پر مکالمہ تھا، اسی طرح مدنی دور میں میثاق مدینہ، جس کے بڑے فریق  یہودی  قبائل تھے، یہود سے مکالمہ  ہی ایک صورت تھی۔

ہم زبانی ، بین المذاہب مکالمے کا بنیادی اصول

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ  کو دوسری قوموں کی زبانیں  سیکھنے کا حکم دیا،  کیونکہ دعوت  و تبلیغ  اور باہمی مکالمہ  میں تاثیر  اور قوت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب پیغام کی زبان آسان، نرم اور قابل فہم  ہو، ہم زبانی سے اُنسیت  میں اضافہ ہوتا ہے، اجنبیت  دور ہو جاتی ہے اور گفتگو کامقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (م 44 ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ، تاکہ یہود  سے انہی  کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور انہی کی زبان میں ان کے خطوط کا جواب دیا جاسکے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :

‘‘ فتعلّمت کتا بھم مامرّت بی خمس عشرۃ الیلۃ حتی حذ قتۃ و کنت  اقراء کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ ادا کتب ’’(2)

‘‘ پس میں نے ان کی زبان میں لکھنا سیکھ لیا۔ ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کے میں اس میں ماہر ہوگیا۔ جب یہودی کوئی خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لکھتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ  کر سنا دیتا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب لکھنا ہوتا تو میں وہ لکھ دیتا’’۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (م 58 ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھینا چاہتا ہے اس عورت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(3)

ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھتی تھی تاکہ ان سے براہِ راست تبادلہ خیال کر کے اس کے مسائل کو حل کیا جاسکے ۔ بعض روایات سے تو یہاں  تک معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے بعض گااجزا کا دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا تھا تاکہ عربی زبان سے  ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی  روح اور تعلیمات  سےمحروم نہ رہ جائیں ۔ چنانچہ  علامہ  سرخسی رحمۃ اللہ علیہ ( م 490 ھ) لکھتے ہیں :

‘‘ روی ان الفرس کتبو االی سلمان رضی اللہ عنہ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفار سیۃ فکانو ا یقرء ون ذالک فی الصلوۃ حتیٰ لانت السنتھم للعربیۃ ’’ (4)

‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض نو مسلم ایرانیوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورۃ الفاتحہ کو فارسی میں نقل کردیا جائے ، چنانچہ وہ لوگ ( اسی ترجمہ) کو نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے ۔’’

اسی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک بڑے فقیہ نے اپنی کتاب ‘‘ النھا یۃ حاشیۃ الھدایۃ ’’ میں مزید تفصیل درج کی ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ( م 33 ھ) نے رسول اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے یہ کام انجام دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیا ہے، ‘‘ بنام خداوند بخشا یندہ مہربان’’ یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے۔(5)

شاہان عالم کی طرف بھیجے جانے والے سفراء کا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانابھی دعوت و تبلیغ او رمکالمے میں زبان کی یکسانیت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ (6)

اس کے علاوہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قوموں کی طرف داعی او رمبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ  اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں بصورتِ دیگر وہ اس قوم کی زبان، رسم و رواج اور کلچر سے آگاہ ہوں۔ بہر حال  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے واضح  ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بین المذاہب مکالمے  کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی باقائدہ تربیت فرمائی ۔

اسلام کی ترجیح : امن او رمکالمہ

سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ او رامن میں سے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کا موقع ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ امن کی ترجیح دی، یہی  وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ  6 ھ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  جنگ پر امن کو ترجیح دی  اور ایسی شرائط  پر بھی صلح  کو قبول کرلیا جن سے بظاہر مسلمانوں کو پسپائی کا واضح تاثر ملتاتھا ، اگر چہ ان شرائط  کے قبول کرنے سے مسلمانوں  کی دل شکنی ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس پر احتجاج بھی کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ پر امن کو ترجیح دی کیونکہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نور بصیرت  سے دیکھ رہے تھے کہ امن کی صورت میں جب اسلامی اور مشرکانہ تہذیب کے درمیان آزادانہ ماحول میں مکالمہ ہوگا تو قریش  اور دیگر قبائل کو مسلمانوں  کو بہتر طو رپر سمجھنے میں مدد ملے گی اور یہ ایک تاریخی  حقیقت ہے کہ جب مسلمان اور قریش  باہم ایک دوسرے سے آزادنہ طور پر ملنے لگے اور انہیں دوسرے کے موقف  کو سننے اور سمجھنے کاموقع ملا تو صرف دوسال کے عرصہ یعنی فتح مکہ 8 ھ تک اتنے کثیر لوگ مسلمان ہوئے جتنے پہلے تمام عرصے میں نہیں ہوئے تھے ۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ ( م 125 ھ) کا بیان ہے:

‘‘ فما فتح فی الا سلام فتح قبلہ کان اعظم منہ، انما کان القتا ل حیث التقی الناس ، فلما  کانت الھدنۃ ، ووضعت  الحرب و آمن الناس بعضھم بعضا ، التقوا فتفاو ضوا فی الحدیث المناز عۃ ، فلم یکلم احد  بالا سلام یعقل  شیئا الادخل فیہ ، ولقد دخل فی تینک السنتین  مثل  من کان فی الا سلام قبل ذلک او اکثر ’’ (7)

‘‘ صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام میں اتنی بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی۔لوگ جہاں بھی  ملتے جنگ ہوکر رہتی تھی، لیکن جب صلح ہوگئی ، جنگ موقوف ہوگئی اور لوگ ایک دوسرے سے بے خوف ہوگئے باہم  ملے جلے باتیں  ہوئیں تو کوئی عقل  مند ایسا  نہیں تھا جس نے اسلام کےمتعلق  گفتگو ہوئی اور اس نے قبول نہ کر لیا ۔ چنانچہ  جتنے  لوگ ابتداء  سے اب تک مسلمان ہوئے تھے صرف ان دو برسوں میں ان کے برابر  بلکہ ان سے  زیادہ تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے ’’۔

یہاں ضمناً ایک اور بات کا ذہن نشین رہنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے  ہاں اسلام کی امن پسندی پر استدلال کے لئے صلح حدیبیہ  کا حوالہ جس انداز سے دیا جاتاہے اس سے اس عظیم تاریخی  واقعے کی حیثیت  محض ایک منفی  سمجھوتے کی سی ہو کر رہ جاتی ہے حالانکہ کوئی بھی تاریخی واقعہ یک دم وقوع پذیر نہیں ہوجاتا بلکہ  اس کا ایک پورا پس منظر ہوتا ہے۔ صلح حدیبیہ کو بھی اگر اس کے تاریخی پس منظر  میں دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتاہے کہ سن 6 ھ سے قبل کے واقعات اسلام کے متعلق ہر قسم کے مفعولی تاثر کو ختم کرچکے تھے، اس پس منظر صلح کا معاہدہ  مسلمانوں  سے زیادہ خود قریش کی ضرورت تھا، یہی وجہ ہے کہ جب  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں سےمشہوربیعت ‘‘ بیعت رضوان’’ لی اور مسلمان جنگ کے لئے تیار ہوگئے تو قریش  نے عافیت اسی میں جانی کہ صلح کے موقع کو ضائع نہ کیا جائے ، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن شرائط پر صلح کی اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسندی  کا واضح ثبوت ملتا ہے۔

معزز حاضرین!

اسلام میں دعوت اصل ہے اور جہاد ضرورتاً ، جہاد کی اگر اجازت ہے تو وہ صرف اسلامی تہذیب و تمدن  کے دفاع اور استحکام کے لئے ہے، اس لئے لا محالہ اسلام کی ترویج و اشاعت کا تمام تر انحصار صرف دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ پر ہے اس لئے ایک سچے داعی کی حیثیت  سے ہمارے لئے بین المذاہب مکالمہ کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم کرنا دینِ اسلام کا بنیادی تقاضہ بن جاتاہے۔ جب اسلام کی ترویج  و اشاعت کا تمام تر انحصار دعوت و  تبلیغ اور باہمی  مکالمہ پر ہی ہے تو اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ باہمی  مکالمہ  اور امن و امان کا ماحول اسلام کی ضرورت ہے، یہ اللہ تعالیٰ  کا وعدہ ہے کہ جب بھی دلائل کی بنیاد پر گفتگو ہوگی تو میدان ہمیشہ  اسلام اور اہل اسلام کے ہاتھ  ہی رہے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ) ( التوبۃ، 9:33)

‘‘ وہ اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ وہ اسے تمام ادیان  پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو کیسا ہی نا گوار ہو۔’’

اس آیت کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے ہی لکھا ہے کہ اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر عقل  و استدلال کی رو سے تو مطلق  ہے اور وہ کسی زمانہ اور وقت کےساتھ  مخصوص نہیں البتہ مادی غلبہ اہلِ اسلام کی اہلیت اور صلاحیت  کے ساتھ مشروط  ہے، کیونکہ آزادانہ مباحثے  اور مکالمے میں آخر  کار جو چیز  باقی رہے گی وہ سچائی ہے جب کہ کامل او ربے داغ  سچائی اسلام کے علاوہ  کسی اور کے پاس نہیں ہے، اسلام کے پاس طاغوت کو شکست  دینے کے لیے دلائل  وبراہین  کی ہر گز کمی نہیں ہے اور مکالمے کی میز پر یہی  ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

معزز حاضرین!

حقیقت یہ ہے کہ جب دلیل ہار جائے تو انسان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے توہین آمیز  خاکوں سمیت اہل مغرب  کی اسلام کے خلاف موجودہ آویزش دراصل دلیل کی شکست کا اعتراف ہی تو ہے اس وقت جب کہ مغرب دلیل  کی زبان میں اسلام کا مقابلہ کرنے سے پہلے تہی  کررہا ہے اور اپنی برتر ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقابلہ جنگ کے میدان میں کرنا چاہتا ہے ، مسلمان اہل دانش کا کام یہ ہے کہ وہ اہل مغرب کا مکالمے کی اس کی میز پر کھینچ لائیں جہاں  انہیں مدِّ مقابل پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے، کیونکہ یہی وہ میدان ہے جس میں اسلام کی کامیابی کے امکانات سو فیصد ہیں بشرطیکہ  ہم اسلام کو صحیح  طور پر اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کرسکیں ۔

اس موقف کی ایک دلیل وہ  مکالمہ بھی ہے جو  نجران کے عیسائی علماء اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا ،  جب عیسائی علماء حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے دلائل کے سامنے بالکل عاجز آگئے تو انہوں نے جزیہ دینے کی شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلح کر لی۔ عیسائی علما ء کا دلیل اور استدلال کو چھوڑ کر جزیہ پر صلح کرنا اس  بات کی دلیل ہے کہ وہ اس حقیقت کو جان چکے تھے کہ اسلام کا مقابلہ مکالمے اور استدلال کی زبان میں ممکن نہیں ۔

اہل علم واقف ہیں کہ ولیم میور نے جب  Life of Muhammad  لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور مرتبہ کو کم کرنے کی کوشش کی تو علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ ( م 1914ء) نے قلم کو جنبش دی، اپنے  شعور کو مجتمع کیا اور اپنے فہم و ادارک کو کام میں لاتے ہوئے ‘‘ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ جیسی  معرکۃ الآراء کتاب  سے مستشرق موصو ف کا منہ بند کر دیا۔ دورِ حاضر میں ‘‘ ضیا ء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ کی صورت میں پیر محمد  کرم شاہ الازھری رحمۃ اللہ علیہ ( م 1998ء ) نے بھی یہی خدمت انجام دی ہے۔

عصر حاضر میں اسلام کا مکالمہ کس مذہب سے ہے؟

اس وقت مختلف سطحوں پر بین المذاہب مکالمے کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا جارہا ہے جون ؍ 2004 میں اوسلو (ناروے) میں پہلی بین المذاہب  کانفرنس  منعقد ہوئی جس میں گورنمنٹ آف ناروے اور نارویجن  چرچ کی دعوت پر مولانا محمد حنیف جالندھری ، مفتی منیب الرحمٰن ، ریاض حسین نجفی اور بشپ سموئیل  عزرا یاہ وغیرہ نے شرکت کی ۔ عالمی سطح کی اس بین المذاہب کانفرنس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے بین المذاہب  ہم آہنگی  اور محبت کی فضا کو فروغ دینے پر زور دیا  ‘‘ اعلان ِ اوسلو’’ کے تحت پاکستان میں بھی ‘‘ ورلڈ کونسل آف ریلچنز برائے عالمی امن و عدل  اجتماعی ’’ کے زیر اہتمام 16 ستمبر، 2004 کو نیشنل لائبریری ہال، اسلام آباد، میں پہلی بین المذاہب کانفرنس کاانعقاد عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری و ساری ہے۔ یقیناً یہ ساری کوششیں لائق صد تحسین  اور قابل قدر ہیں ، لیکن ا س ساری تگ و دو کےمثبت اور دور رس نتائج اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب ہم بعض باتیں طے کرلیں سب سے پہلی بات تو ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ آج کی عالمی صورت ِ حال میں اس مکالمے کے اصل فریق  کون ہیں؟  اور دوسرا، یہ کہ اس مکالمے کاایجنڈا کیا ہے ؟ اس طرح ہمارے لئے یہ ممکن ہوگا کہ ہم علمی  حلقوں میں اپنا موقف طور پر پیش کرسکیں۔

معزز حاضرین!

 فی الوقت دنیا میں اسلام کے علاوہ عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، جین مت وغیرہ ہی کو دنیا کےبڑے اور  زندہ مذاہب کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ وحی، الہام اور خدا پر یقین رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق انہی مذاہب سے ہے، اپنی غیر فطری اور غیر عقلی تعلیمات کی وجہ سے ان مذاہب کا ماضی میں بھی انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے کوئی   زیادہ تعلق نہیں رہا ہے، لیکن عقل پرستی (Rationalism ) کے موجودہ دور میں مذہب کا لوگوں کی ذاتی  زندگی سے عمل دخل بھی بڑی تیزی کے ساتھ  ختم ہو رہا ہے۔اور اس وقت عملی  طور پر مسلمانوں کے علاوہ  انسانوں کی غالب  اکثریت لادین اور سیکولر ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کے بعد اس وقت  بلاامتیاز رنگ  ونسل پوری دنیا میں مغربی سیکولر ازم  مقبول ترین  مذہب کی حیثیت  اختیار کرچکا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت جب کہ دنیا کے تمام مذاہب ایک تاریخی یادگار کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں ، یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ دورِ حاضر میں مغربی فکری و فلسفہ کی بنیاد پر پروان چڑھنے والا سیکولر ازم ہی اسلام کا اصل  مدِّ مقابل ہے۔

حالات کے سرسری جائزے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت مغرب او ر مسلمانوں کے درمیان جو علمی ، فکری  اور تہذیبی کشمکش  جاری ہے اس کے اصل فریس مغرب کے مذہب سے منحرف سیکولر حلقے اور مذہب پر پختہ  یقین رکھنے والے مسلمان ہیں، جب کہ عیسائی علما اس مکالمے کےاصل فریق نہیں ہیں کیونکہ مغرب کے عیسائی رہنما  جس مذہب کی نمائندگی  کرتے ہیں اس کا مغرب کی اجتماعی  زندگی کے ساتھ  کوئی تعلق  نہیں ہے، اس لئے موجودہ کشمکش  میں عیسائی علماء سے مکالمہ  کی افادیت محدود ہے۔

اس واضح حقیقت کے باوجود ہمیں عیسائیت او ر دیگر مذاہب سے گفتگو او رمکالمے سے انکار نہیں ہے تا ہم روایتی عیسائی حلقے سے ہماری گفتگو اس موضوع پر ہونی چاہیے کہ عیسائی مذہبی رہنما اپنے معاشرے کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟  جب کہ  وہ اصولی طور پر یہ تسلیم کرچکے  ہیں کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور انسان کی اجتماعی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس وقت  جب کہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی بنی نوع انسان کو وحی الہٰی  او رمذہب کی طرف واپسی کی کوشش کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ مغرب کے مذہبی حلقے اس حوالے سے مسلمانوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟

مسلمانوں کو اپنے عیسائی مخاطبین  پر یہ حقیقت  واضح کرنی چاہیے کہ وہ دونوں  ایک ہی کشتی  کے سوار ہیں جو الحاد اور لادینیت  کے خوفناک طوفان کے اندر گھر ی  ہوئی ہے اور الحاد  و لادینیت  کے اس عالم گیر طوفان کے خلاف، مسیحی اور دیگر مذہبی علماء ایک دوسرے کے فطری  اتحادی  ہیں، عیسائی علماء کو یہ احساس  دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی  وحی اور آسمانی تعلیمات  کی صداقت پر پختہ  یقین رکھتے ہیں اور انسانی معاشرے پر اس کی علمبردار ی  کے خواہش مند ہیں  تو انہیں سیکولر حلقے کی تائید  کی بجائے وحی  اور آسمانی تعلیمات  کے معاشرتی کردار کی کوشش کرنی چاہیے ۔

روایتی مذہبی حلقے سے  مکالمے کے بنیادی اصول

بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ کونسل  انسانی کی فلاح او ربہتری  کے لیے  مسیحیت  کے ساتھ  مکالمہ میں مشترک صفات پر زور دیں ، دینِ  ابراہیمی  کی مشترک روایت  حضرت عیسیٰ علیہ اسلام او رمریم علیہا السلام کااحترام اور ہمارے مشترک سماجی بندھن  وغیرہ عیسائیت کے ساتھ مکالمے کی بنیا د بن سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے شاہانِ  عالم کے نام خطوط ہمارے لئے بنیادی ماخذ  کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہر قل اور دیگر عیسائی حکمرانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابذریعہ  خطوط جو مکالمہ ہوا اس میں درج ذیل آیت  مقدسہ کامکر ر استعمال  ہمارے لئے قابل توجہ ہے:

(قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا ) ( آل عمران ،3:64)

‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب ایسے قول کی طرف آجاؤ ج وہم میں اور تم میں مشترک ہے وہ یہ  کہ ہم اللہ  کے سواکسی کی عبادت نہ کریں او رکسی کو اس کاشریک نہ ٹھہرائیں۔’’

اسی طرح  شاہانِ عالم  کے نام خطوط لے جانے نبوی  سفراء جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص  اسی مقصد  کے لئے تربیت فرمائی تھی ، نے جس طرح اپنے مخاطبین  سے مکالمہ کیا وہ اسلوب بھی ہمارے لیے بین المذاہب مکالمے  کے بنیا د بن سکتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب  بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ (م 30 ھ) کو مقوقس ، شاہِ مصر کی طرف دعوتی خط دے کر روانہ فرمایا، ابن اثیر (م 630 ھ) نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ  اور شاہِ مصر کے درمیان  ہونے والے مکالمے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب شاہِ مصر نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ  سے  یہ کہا کہ اگر تمہارے صاحب اللہ کے رسول  ہیں تو پھر تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنی قوم کے خلاف بددعا کیوں نہ کی جب ان کی قوم نے ان کو ان کے اپنے شہر  سے نکالا ؟  تو حضرت  حاطب رضی اللہ عنہ  نے فرمایا : عیسیٰ علیہ اسلام بن مریم کی نسبت تو آپ خود کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول تھے پھر جب ان کو ان کی قوم نےسو لی  دینے کا ارادہ  کیا تو انہوں نے ان کو بد دعا  کیو ں نہ دی؟ یہاں تک کہ اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا ۔ مقوقس اس برجستہ  جواب سے بڑا متاثر  ہوا او رکہنے لگا :

‘‘ احسنت ! انت حکیم جاء من عند حکیم ’’ (8)

‘‘ تم نے اچھا جواب دیا تم حکیم ہو او رحکیم کے پاس  سے آئے ہو۔’’

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (م 751ھ) نے مقوقس اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ  کے باہمی مکالمے  کی جو روایت نقل کی ہے وہ حسب ذیل ہے:

حاطب رضی اللہ عنہ :‘‘ ( اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص ( فرعون)گزرا ہے جو اپنے آپ کو ربِ اعلیٰ سمجھتا تھا ۔ اللہ نے اسے آخر و اوّل کے لیے  عبرت بنادیا ۔ پہلے تو اس کے ذریعے  لوگوں سے انتقام لیا پھر خود اس کو انتقام کانشانہ بنایا لہٰذا  دوسروں سے عبرت پکڑو ، ایسانہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں ۔’’

مقوقس : ‘‘ ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتردین نہ مل جائے۔’’

حاطب رضی اللہ عنہ : ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا ( ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے ۔ دیکھو ! اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ( اسلام کی ) دعوت دی تو اس کے خلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے ، یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی  کی اورنصاریٰ سب سے زیادہ  قریب رہے ۔ میری عمر کی قسم !جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بشارت دی تھی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام  نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بشارت  دی ہے، اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہل تورات کو انجیل  کی دعوت دیتے ہو۔ جو نبی جس  قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت  ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ و ہ اس نبی  کی اطاعت  کرے اور تم نے اس نبی  کا عہد پالیا ہے ، اور پھر ہم تمہیں دینِ مسیح سے روکتے ہیں بلکہ ہم تو اسی  کا حکم دیتے ہیں۔’’

مقوقس : میں نے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے معاملہ پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ کسی نا پسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے وہ نہ گمراہ جادو گر ہیں نہ جھوٹے کاہن، بلکہ  میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت  کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے ہیں  اور سر گوشی کی خبر  دیتے ہیں،  میں مزید  غور کروں گا۔’’(9)

حضرت حاطب رضی اللہ عنہ (م 30ھ ) او رمقوقس کے باہمی مکالمہ  سے  یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اصحاب رضی اللہ عنہ  کو دوسری قوموں  کی طرف دعوت و تبلیغ  کے لیے روانہ فرمایا،  ان کی تربیت پر خصوصی  توجہ دی  اور خاص طور پر اس بات کا اہتمام فرمایا کہ جو صحابی رضی اللہ عنہ  جس قوم کی طرف جائے ایک  تو وہ اس قوم کی زبان سے اچھی  طرح واقف  ہو، تیسرا، وہ ان کے دین سے جس کو وہ اختیار  کیے ہوئے ہیں آگاہ  ہو اور چوتھا یہ کہ وہ اس سرزمین  کے پورے  جغرافیہ  سے بھی مکمل  واقفیت  رکھتا ہو،  تاکہ باہمی مکالمہ  میں اسے ان معلومات کی بنا پر اپنے مخاطب  پر علمی  برتری  حاصل رہے ۔ ہم نے اختصار  کے پیشِ نظر محض  ایک مثال ذکر کی ہے اگر تمام نبوی سفراء  کے احوال کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو بین المذاہب مکالمے  کے لئے کئی  راہنما اصول اخذ کئے جاسکتے ہیں ۔(10)

مغرب کے تحفظات پر مکالمے کا اسلوب

جو لوگ خدا، رسول اور آخرت پر اعتقاد رکھتے ہوں ان کے ساتھ مکالمہ نسبتاً آسان ہے، اگر چہ اہل مغرب کااب بھی چرچ کےساتھ کمزور سا تعلق  باقی ہے لیکن مغرب کی اکثریت بالخصوص اہل یورپ  عیسائیت کی بنیادی  تعلیمات سے دست بردار ہوچکے ہیں اس لئے مسلمان مبلغین  کو مغرب  میں تمام خرابیوں  کی ذمہ داری عیسائیت کے سر نہیں ڈال دینی چاہیے ، بلکہ  ان کے ساتھ  مکالمے میں ان کے موجودہ نظریات ہی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ، جیسا کہ میں نے عرض کیا موجودہ علمی اور فکری کشمکش  میں اسلام  کے ساتھ  مکالمے کا اصل فریق  اور مدِّ مقابل مغرب کاموجودہ دانشور اور سیکولر طبقہ  ہے، لیکن  اس کے ساتھ ہمارا مکالمہ اسی وقت مفید ہوسکتا جب ہم مغربی فکر و فلسفہ کے تاریخی ارتقا، پس منظر اور اس کے اصل  فکری سر چشموں  سے آگاہی رکھتے ہوں اور مغربی افکار کا تنقیدی  جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ اس حوالے سے جن پہلو وں پر خصوصی غور و فکر کی ضرورت ہے وہ درج ذیل ہیں۔

ایک تو اس پہلو کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ مغرب مسیحیت  کو چھوڑ کر موجودہ سیکولرازم تک کیوں  اور کیسے پہنچا ؟ اس لئے ہمارے لئے اس تاریخی حقیقت  کا ادراک  ضروری ہے کہ سو لہویں  صدی تک مغرب میں قدیم عیسائیت ہی غالب تھی، طاقت  اور اختیار پوپ  کے ہاتھ میں تھا۔مارٹن لوتھر (Martin Luther) (م 1546ء ) وہ پہلا شخص تھا جس نے پوپ  کے اختیار  کو چیلنج  کیا اور ساتھ ہی عقل انسانی کو وحی کی تعبیر کا واحد ذریعہ قرار دیا ، یہی وہ دور ہے جس کے بعد مغربی معاشرے  پر عیسائیت کی گرفت آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگی، لیکن  جس فکر نے بالآخر عیسائیت کو مکمل پسپائی اور شکست  پر مجبور کیا وہ اٹھارویں صدی عیسوی میں پروان چڑھنے والی تحریک تنویر (  Enlightenment Movement)اور تحریک رو مانیت ( Romanticism) ہے ۔ مغرب کی موجودہ روشن  خیالی کی تحریک کا یہ وہ مختصر پس منظر ہے جس کا پوری تفصیل کے ساتھ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسرا پہلو جس کا جائزہ لینا ضروری ہے وہ تحریک استشر اق ( Orientalism) ہے۔ اہل مغرب میں اسلام کے بارےمیں پائی جانے والی ان بے شمار غلط فہمیوں  کو ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تحریک استشراق  کے مقاصد ، محرکات او رعالم مغرب پرا س کا اثرات کابھرپور تجزیہ نہ کرلیں، کیونکہ بد قسمتی سے مستشرقین کی مرتب  کردہ تاریخ نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر سمجھی  جاتی ہے۔ اس وقت بھی پوری دنیا میں الیکٹرونک او رپرنٹ میڈیا کے ذریعہ  اسلام کی جو تصویر کشی کی جارہی ہے اس کا بڑا ماخذ مستشرقین کی وہی تحقیقات  ہیں جن کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ۔

مغرب کے ساتھ با ہمی مکالمہ کی صورت میں تیسری بات جس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث  سے راہنمائی تو ضرور لینی چاہیے تاہم مغرب کی نفسیات  کے مطابق ہمیں سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کےعقلی جواز پر بات کرنا ہوگی اور مغرب کے موجودہ سماجی علوم  کے ساتھ  تقابلی مطالعہ  کے بعد اسلامی احکام کی افادیت پر دلائل پیش کرنا ہوں گے اور اسلامی تعلیمات کی سماجی اور معاشرتی اہمیت واضح کرنا ہو گی ۔ بد قسمتی سے اسلامی احکام کے اسرار و حکم پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م 1176 ھ) کی کتاب ‘‘ حجۃ اللہ البالغہ’’ کے بعد کوئی بھی قابلِ قدر کتاب سامنے نہیں آئی ۔

مغرب ، اسلام او رمسلمانوں کے بارےمیں  جو تحفظات  رکھتا ہے وہ دو طرح کے ہیں ۔ مغرب کے پہلی قسم کے تحفظات تو وہ ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ  اورنظامِ  معاشرت سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کا یہ وہ حصہ ہے جس کابراہِ راست ٹکراو مغرب کےموجودہ طرزِ معاشرت سے ہے۔ دوسری قسم کے تحفظات وہ ہیں جن کا تعلق دین کی اساس او ربنیاد ہے۔ مغرب کےساتھ ہمارا مکالمہ  اس وقت  تک مفید نہیں ہوسکتا جب تک ہم کھلے ذہن او رمکمل تیاری  کے ساتھ  ان کے تمام تحفظات پر بات کرنے کے لیے تیارنہ ہوں ۔ سب سے پہلے تو ہمیں مغرب سے اس موضوع پر مکالمہ کرنا ہوگا کہ وہ دین اسلام  پر ایک نظامِ  حیات اور طرز معاشرت کے طور غورکرے۔

انسانی حقوق اور اسلام

اس وقت مغرب میں مساوات ، آزادی اور بنیادی  انسانی حقوق کے حوالے سے بڑی حساسیت  پائی جاتی ہے بد قسمتی سے اسلام کے بارے میں یہ غلط تاثر پھیل گیا ہے کہ اسلام  میں بنیادی انسانی حقوق اور خاص  طور پر عورتوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا،  ہمیں اہل مغرب پر واضح کرنا ہوگا کہ اسلام تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور اس کے عطا کردہ حقوق ہی فطری بنیادوں پر مبنی ہیں ۔ مثلاً جب اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف  قرار دیتا ہے تو  کیا یہ حرمتِ  انسان کا بہترین قانون قرار نہیں پائے گا؟  اسی طرح اسلام کی بیان کردہ دوسری تمام سزائیں  بھی ‘‘ انسانی حق ’’ کے اثبات ہی کے لیے ہیں ۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق میں بھی ان کے فطری دائرہ کا ر اور نفسیات  کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔

ایک داعی کی حیثیت جو بات ہماری خصوصی توجہ کے مستحق  ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ انسانی حقوق کے عالمی منشور، (Declaration of Human Rights Universal) جو بجا طور پر آج کا عالمی قانون ہے، کی تمام شقوں کو قبول کرنا ہمارے لیے ممکن  نہیں ہے تا ہم  ہمیں  اس بحث میں زیادہ مثبت  اور تعمیری انداز میں حصہ لینا چاہیے  اور اگر باہمی مکالمہ  میں کسی جگہ  لچک  کی گنجائش موجود ہو تواس کالحاظ کیا جانا چاہیے ۔ اس حوالے سے سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں  جن سے واضح ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی بین الاقوامی قانون، عرف اور قبائلی رسم و رواج کا احترام کیا ۔ مثلاً:

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامسیلمہ کذّاب کے سفیروں سے مکالمہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تم مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہو؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ کیا تم مسیلمہ کو بھی مانتے ہو تو انہو ںنے کہا : ہاں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر سفیروں کا قتل جائز ہوتا تو میں تمہیں قتل  کروادیتا ۔ دیکھئے  اسلام میں مرتد  کی سزا قتل  ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری  نہیں کی بلکہ فرمایا کہ چونکہ  عالمی قانون یہ ہے کہ سفیر وں کو قتل نہیں  کیا جاتا اس لیے  میں تمہیں  چھوڑ  رہا ہوں ورنہ میں تمہیں قتل کروا دیتا۔

سن 9 ہجری میں اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ  کی زیر قیادت بنو تمیم  کا وفد اسلام قبول  کرنے کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا ، لیکن  ان لوگوں نے قبول ِ اسلام  کے لیے بڑی عجیب  شرط لگائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہمارے ساتھ مفاخرت کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطیب  ہمارے خطیب  کا اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر کامقابلہ کرے تب ہم اسلام قبول کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس مطالبہ کو قبول کیا ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم پر حضرت حسان  بن ثابت رضی اللہ عنہ  نے ان کے شاعر زبر قان بن  بدر کا مقابلہ  کیا اور ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ  نے ان کے خطیب عطا ر دا بن حاجب کامقابلہ کیا ،بنو  تمیم  نےبالآخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر اور خطیب  کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے  اسلام قبول کر لیا۔

دیکھا جائے تو و فدِ نبی تمیم کا مطالبہ بالکل لا یعنی تھا، بالفرض اگر مسلمانوں کاشاعر اور خطیب مقابلے میں شکست بھی کھا جاتے  تو پھر بھی اسلام کی حقانیت میں کوئی شک  نہ تھا،  لیکن اس کےباجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے رسم و رواج کا احترام کیا ۔ اس سےیہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدوسری قومو ں کے ساتھ  مکالمے  کی اتنی زبردست تیاری کر رکھی تھی کہ بنو تمیم نے جب قبول اسلام کی یہ عجیب  و غریب شرط  رکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلا جھجھک  اپنے ان ساتھیوں  کو طلب کیا جن کی خاص اسی مقصد کے لیے تربیت کی گئی تھی۔

اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہانِ عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ کرنے کا پروگرام بنایا تو واقفانِ حال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! حکمرانوں میں یہ اصول  ہے کہ وہ ان خطوط  پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے  جن پر کوئی مہر اور سیل ( Seal) وغیرہ نہ ہو، چنانچہ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط کو مہر بند کرنے کےلیے مُہر  بنانے کا حکم دیا۔

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے کردار سے کون واقف نہیں ؟ اس کی شر انگیز یوں کی وجہ سے اسلام کو کئی دفعہ نقصان اٹھانا پڑا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ  نے بارہا اس کے قتل کاارادہ کیا  حتیٰ کہ ایک دفعہ تو خود ان کے اپنے صاحب زادے  ، جو مخلص مومن تھے، نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ  کے قتل کی اجازت طلب کی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ  کو ایسے  کسی بھی عمل سے سختی کے ساتھ منع کردیا اور فرمایا کہ میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ لوگ یہ کہیں کہ  محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے قتل کا دیتے ہیں ۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو عبداللہ بن ابی سخت  ترین سزا کا مستحق  تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پھر بھی درگزر فرمایا صرف اس وجہ سے کہ کہیں  عام لوگوں کےذہن میں اسلام کے بارےمیں کوئی منفی  تاثر پیدا نہ ہوجائے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اصولی حکم کے نفاذ  کے علاوہ اس کے نتائج  اور عملی اثرات پر بھی تھی ۔

ان مثالوں  سے واضح ہوتا ہے کہ ایک داعی  کے لیے نہ صرف عالمی قانون  ، رسم و رواج اور عرف سے واقفیت  ضروری ہے بلکہ اگر دعوت او رمکالمہ کے مثبت  نتائج کی توقع  ہو تو دیگر  اقوام کے قوانین اور رسم و رواج کاممکن حد تک لحاج اور احترام بھی کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اگر کسی اسلامی  حکم کا نفاذ وقتی مصلحت  کے خلاف ہوتو اس کے نفاذ میں توقف بھی کیا جاسکتا ہے۔ عصرِ حاضر میں مسلمان قانون دانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بین الاقوامی قا نون  کا سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی روشنی میں مطالعہ  کریں اور ان  پہلوؤں کا جائزہ لیں جہاں باہمی گفتگو او رمکالمہ میں لچک  کے پہلو  کو  مد نظر  رکھا جاسکتا ہے۔

اسلام کا تصور جہاد

اسلام کے بارے میں اہل مغرب کو جو غلط فہمیاں ہیں ان میں سے ایک اسلام کا تصورِ جہاد ہے، مدنی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی بڑی تقریباً ستاسی (87) مہمات ترتیب  دیں ان تمام مہمات کے مقاصد ، محرکات  اور اہداف مختلف تھے ، ان میں سے بعض مہمات انسدادی  نوعیت کی  تھیں  تو بعض دفاعی نوعیت کی تھیں  جب کہ  بعض خالص دعوتی اور تبلیغی نوعیت کی تھیں، لیکن محدثین او رمسلمان سیرت نگاروں  نے ان تمام مہمات کو جن میں  ترتیب  اور تنظیم کامعمولی سابھی خیال رکھا گیا تھا کتاب المغازی  اور غزوات و سرایا کے عنوان سے ذکر کر دیا جس سےاس غلط پروپیگنڈا نے جڑ پکڑی کہ اسلام جنگ و جدال کا دین ہے۔ مغرب میں یہ تاثر عام ہے کہ اسلام تلوار کے زرو پر پھیلا ہے اور اگر اب بھی مسلمانوں  کو موقع ملا تو وہ بز ورِ شمشیر   اسلام کو تمام دنیا پر غالب کر کے دم لیں گے۔

اسلام کے تصور ِ جہاد کے حوالے سے اہل مغرب کے ساتھ ہمارا مکالمہ  دو پہلو وں پر ہوناچاہیے  ، پہلی بات تو ہمیں یہ واضح کرنا ہوگی  کہ ابتدائی  ایک دو صدیوں  میں اسلام کے اسپین ، وسطی ایشیا ء اور بر صغیر تک پھیلنے کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات  کی کرشمہ سازی اور مسلمان مبلغین کی انتھک کوششیں  ہیں، دنیا کے کتنے ہی علاقے  ایسے ہیں  جہاں اسلامی فوجوں  کا کبھی بھی  داخلہ نہیں ہو ا لیکن اسلام وہا ں بھی موجود ہے، انڈونیشیا او رملائیشیا  پر بھلا کون سی اسلامی  فوجیں حملہ آور ہوئی تھیں ؟ لیکن کیا وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں؟ ۔ اس لئے تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں  کہ اسلامی تاریخ کے کسی بھی  دور میں اسلام کو دوسری اقوام پر ٹھونسنے کے لیے تلوار سے کبھی مدد نہیں لی گئی ۔

اس موضوع پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ  کے استاذ پروفیسر ٹی ۔ ڈبلیو آرنلڈ کی کتاب (  The Preaching of Islam) ہمارے لئے بنیادی  حوالے کی حیثیت  رکھتی ہے، بد قسمتی  سے جہاد کے بارے میں ہم اسلامی نقطہ نذر کو اہل مغرب پر پوری طرح واضح نہیں کرسکے،  عام لوگ اب بھی  اسی پرانی غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ہمیں اہل مغرب کو قائل کرنا ہوگا کہ اسلام کے پھیلاؤ کی وجوہات دیگر بھی ہیں ۔ مثلاً ہمیں  دلائل  کے ساتھ بتانا ہوگا کہ بہت  سے عیسائی  جن سے ابتدائی  دور میں اسلام کامکالمہ  ہوا وہ بھی مسلمانوں  کی طرح  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کے قائل نہیں تھے ۔ اس لئے عقائد کی یکسانیت ابتدائی دور کے مسیحوں  کے قبول ِ اسلام کا بڑا سبب نبی ہے، ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م 2001 ء ) لکھتے ہیں:

‘‘ نجاشی  فرقہ طبعیت  واحد کا ( یعنی  مانو فرائٹ) عیسائی تھا ۔ اور ان دنوں اس فرقے اوریونان کے عیسائیوں میں بڑے سخت اختلافات تھے، آخر الذکر اس بات کے قائل تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں بوقت واحد دو طبیعتیں  تھیں، انسانی اور خدائی بھی، ابرہہ جو ( یمن میں)  نجاشی کا نائب تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلیام کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا بلکہ صرف مسیح اللہ ۔ غالباً نجاشی  کے بھی یہی  عقائد ہوں گے۔  اور یہ مسلمانوں کے عقائد  کے بہت مماثل  ہیں ’’ (11)

اسی طرح روم اور ایران کے لوگوں نے قیصر کسریٰ  کی نسبت مسلمانوں  کے کم جار حانہ اندازِ  حکمرانی اور مناسب اور قانونی ٹیکسوں کے نفاذ کو خوش آمدید  کہا اور یہی چیز ان کے قبول  اسلام کابنیادی سبب بنی ۔

دوسرا، ہمیں اہل مغرب کو یہ احساس  دلانا ہوگا کہ جنگ  ،انسانی نفسیات  کالازمی جزو ہے۔ اس لیے دنیا کی ہر تہذیب میں جنگ بہر طور موجود رہی ہے۔ اہل مغرب جو اس امن کے سب سے بڑے داعی  ہیں ان کا موجودہ رویہ اس حقیقت  کا زندہ ثبوت ہے۔ اسلام نے انسانی نفسیات کے اس پہلو  سے آنکھیں بند نہیں کیں  بلکہ انسان کے جنگی جنون کی تہذیب و تطہیر  کر کے اس کو جہاد کے روپ میں پیش کیا ہے،  اس سلسلے میں جہاد و قتال کے اسلامی قواعد  و ضوابط ،جنگی جنون کی منفیت عیاں کرنے کو کافی ہیں۔

خلافت او رجمہوریت

اسلام کے حوالے سے مغرب میں ایک اور غلط فہمی یہ پائی  جاتی ہے کہ اگر مسلمان طاقت  میں آگئے تو وہ پوری دنیا میں خلافت کانظام نافذ کریں گے اور طالبان طرز کاکوئی نظامِ حکومت نافد کر کےلوگوں کی شخصی آزادیاں اور حقوق سلب کرلیں گے۔ برطانیہ کےموجودہ وزیر اعظم ٹونی بلئیر  کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ مسلمان خلافت  کا نظام  واپس لانا چاہتے ہیں  لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

اسلامی نظام ِ خلافت کے خلاف اہل مغرب  کے اس شدید ردِ عمل کی اصل وجہ اور پس منظر سمجھنے  کی ضرورت ہے۔ مغرب کی اس غلط فہمی کی بڑی وجہ مغرب  کا وہ دور ہے جسے قرونِ مظلمہ (Dark Ages) کہا جاتا ہے ، جس میں پوپ  ہی طاقت کااصل سر چشمہ اوروہی فائنل اتھارٹی ( Final Authority) تھا ۔ پوپ نے ہمیشہ اربابِ حل و عقد کاساتھ دیا اور حکمرانوں کو مذہبی تحفظ   فراہم کیا، دوسری طرف عوام کو کسی قسم  کے سیاسی حقوق حاصل نہ تھے ۔ اصل میں مغرب  نے اسلام کے نظام خلافت  کوبھی یورپ کے دورِ تاریک میں اپنے ہاں پائی جانے والی مذہبی  حکومتوں پر قیاس کر رکھا ہے۔ مغرب نے صدیوں کی کشمکش  کے بعد جو سیاسی اور شخصی آزادیاں حاصل کیں ہیں وہ اب انہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ۔

اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مغرب پر یہ بات واضح کریں کہ اسلام کے تصورِ خلافت کو پا پا ئیت کے ساتھ  کوئی نسبت نہیں کیونکہ  مسلمانوں  کا خلیفہ عیسائیوں  کے پوپ  کی طرح خدا کا نمائندہ نہیں ہے، جس  کی کسی بات کو نہ تو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی دلیل کا پابند ہے ایک دفعہ  جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ( م 13 ھ) کو ایک شخص نے خلیفۃ اللہ کہا تو آپ  رضی اللہ عنہ نے فوراً اس کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اللہ کا خلیفہ نہیں بلکہ اس کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا خلیفہ ہوں ۔ پوپ کے برعکس مسلمانوں  کا خلفیہ خدا کی بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانمائندہ  ہے، جو مطلق  العنان نہیں بلکہ دلیل کا پابند ہوتا ہے،  جس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، اور جو ایک خاص دائرے  میں رہ کر ہی اپنے فرائض منصبی  ادا کرسکتا ہے ، چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ خلفاء راشدین سے دیگر مسلمانوں  نے نہ صرف اختلاف کیا بلکہ بسا اوقات ان کو اپنی رائےتبدیل کرنے پر مجبور بھی کیا ۔ یہ ایک  تاریخی  واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (م 23 ھ) جب مسلمان عورتوں کے لیے مہر کی ایک خاص  مقدار مقرر  کرنا چاہی  تو ایک خاتون نے ان کو بر سرِ ممبرٹوک دیا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔

تاریخ  شاہد ہے کہ مسلمان علما ء  نے ہمیشہ دلیل اور حق  کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ عوام کے شانہ بشانہ مذہبی اور سیاسی حقوق  کی جنگ لڑی ہے پوری اسلامی تاریخ  اس طرح مثالو ں سے بھری پڑی ہے۔ امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ ( 150 ھ ) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (241 ھ) اور کتنے ہی جلیل القدر آئمہ نے وقت کے حکمرانوں  کو چیلنج کیا اور اپنی جانوں تک کی پرواہ نہ کی ۔ ہمیں مغرب کو قائل کرنا ہوگا، ہمارا ماضی ان کے ماضی سے بالکل مختلف ہے، اس لئے مغرب کو یہ حق نہیں پہنچتا  کہ وہ اپنا تاریک ماضی دکھا کر ہمیں  ہمارے  روشن ماضی سے محروم کردے۔

اگر ہم اہل مغرب کو اس بات پر قائل کرلیں کہ اسلام کامعاشرتی ، معاشی اور سیاسی نظام انسانی سوسائٹی کے لئے زیادہ مفید اور بہتر ہے تو پھر شاید ہمارے لئے  ان کے ان تحفظات کو دور کرنا مشکل  نہیں ہوگاجن کا تعلق دین او رمذہب کی اساس سے ہے۔  اہل مغرب کے وہ تحفظات جن کا تعلق اسلام  کے بنیادی  اور اساسی تصورات  سے ہے وہ درج ذیل ہیں:

خدا کے وجود کا اثبات

یہاں بھی ہمیں اہل مغرب سے مکالمہ کرتے وقت  اس ماحول  کو پیش نظر رکھنا ہوگا جس میں مغربی ذہن پروان چڑھتا ہے اور شعور کیف منازل  طے کرتا ہے ۔ اہل مغرب ، جو ہر چیز کو عقل  ( Reason) کی بنیاد پر پرکھنے کے عادی ہیں ان کے سامنے خدائی کتاب کی بنیاد پراپنے دلائل شروع  کرنے سے پہلے خود خدا  کے وجود  کو زیربحث  لاناہوگا ورنہ مغرب کی خطرنا ک حد تک آزاد سوچ ہمیں غیر سنجیدہ  قرار دے گی ۔ سائنسی امکان اور عقل کی بنیاد پر اگر خدا کے وجود کےلیے فطرف کے مشاہدے  پر زور دیاجائے تو شاید ہمیں  کامیابی حاصل  ہو۔ جیسا کہ مکی عہد  نبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو عقل اورمشاہدہ  فطرت کی بنیاد پر اسلام کی طرف متوجہ کیا تھا ۔

اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی نئی صورت گری ہے؟

مغرب میں اسلام کےبارےمیں صرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص کےذہن میں بھی یہ تصور راسخ ہے کہ اسلام کوئی مستقل دین نہیں بلکہ یہ عیسائیت اور یہودیت ہی کا نیا روپ ہے اس خیال کی ترویج میں بنیادی کردار تحریک استشراق کا ہے۔ دوسری ہجری کےمشہور عیسائی عالم یوحنا دمشقی  ( John of Damascus) کو تحریکِ استشراق کا بانی قرار دیا جاتاہے ، اس نے ‘‘ محاورۃ مع المسلم ’’ اور ‘‘ ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمین ’’ نامی کتب  سے اسلام کے خلاف جس منفی پروپیگنڈے اور فلمی مناظرے  کا آغاز کیا تھا، مغرب میں اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ پیر محمد کرم صاہ الازھری رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی قابل قدر تصنیف  ‘‘ ضیا ء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ کی چھٹی اور ساتویں جلد تحریک  استشراق  کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔

اہل مغرب جو سماجی،  معاشرتی اور سائنسی علوم کی معراج کو پہنچے  ہوئے، میں آج بھی اسلام کے بارے میں نہ جاننا کم علمی کی دلیل نہیں ہے،  مغرب میں یہ تاثرات بھی عام ہے کہ اسلام ، عیسائیت اور یہودیت ہی کی مسخ شدہ تعلیمات پر مبنی ہے اور اسلامی قوانین یہودیو ں  کی فقہ ‘‘ تالمود’’  سے اخذ شدہ ہیں جن کا زیادہ زور ان کے ظاہری الفاظ پر ہے نہ کہ مقاصد پر ۔ مشہور مستشرق ول ڈیو رانٹ ( Will Durant) ( م 1981 ء)  نے اپنی کتاب  The Age of Faith میں، فلپ کے ہٹی ( Philips K Hitti) نے اپنی کتاب  Islam and the West میں اور مستشرق موریس  سیل (Morris S Seale) نے اپنی کتاب ( Muslim Theology) میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن  و حدیث  کابڑا حصہ یہودی اور عیسائی روایات ہی سے ماخوذ  ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے تقابلی مطالعہ  اہل  مغرب کی اس غلط فہمی  کو دور کیا جائے ۔ (12)

قرآن وحی الہٰی ہے

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کے انکار کی وجہ سے مغرب میں قرآن کو آسمانی صحیفے  کے بجائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی تصنیف سمجھا جاتا ہے ۔ اس غلط فہمی کی بڑی وجہ بھی ماضی کاپروپیگنڈ ا ہی ہے جس کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر چہ گذشتہ کئی صدیوں  سے کئی یورپی زبانوں  میں قرآن کاترجمہ کیا جارہا ہے لیکن ان تراجم کے اسلوب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان مترجمین کے پیش نظر اسلام کا تعارف کروانے کی نسبت مسیحی  جنگوؤں کو مقدس جنگ ( Sacred) کے لیے مسلمانوں کے خلاف تیار کرنا تھا ، بعد کے دور میں قرآن مجید  کے تراجم میں  یہی اسلوب کسی نہ کسی انداز میں غالب رہا ہے ، اسی پروپیگنڈے کے زیر اثر مسلمانوں کو محمڈن (Muammadan) پکارا گیا اور اسی سے محمڈن لا (Muhammadan Law) کی اصطلاح وجود میں آئی ۔

قرآن مجید ہر دور کے لیے نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ  جاوید معجزہ  ہے عہد رسالت میں بھی لوگوں نے قرآن مجید کو جب  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اختراع قرار دیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت ، اس کےاسلوب ، بیان اور ہر قسم کے تناقض  سے مبرّ ا ہونے  کو اس کے کلام الہٰی ہونے پر دلیل کے طور پر پیش کیا ۔ عقل پرستی  کے موجودہ دور میں قرآن مجید کامعجزا نہ پہلو  اس کی تعلیمات کے علاوہ وہ سائنسی اور تاریخی  حقائق  ہیں جن کو قرآن نےبیان  کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن مجید کےاس پہلو پر توجہ دیں اور اہل مغرب  کو یہ بتائیں کہ کتنے ہی ایسے سائنسی حقائق  ہیں جن  تک مغربی صدیوں  کی محنت او ر تجربات  کے بعد پہنچاہے لیکن قرآن مجید نے صدیوں  پہلے ان حقائق  کو بیان کردیا جو اس بات کی واضح  دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کانہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے ڈاکٹر موریس بوکائے کی کتاب   The Bible, The Quran and Science اور اس کے بعد اس موضوع پر شائع ہونے والی دیگر کتب اس حوالے سے ہماری توجہ کی خصوصی مستحق ہیں۔

اسلامی دنیا میں مذہبی  تکثیریت  کا وجود

 اہل مغرب میں اسلام کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی  ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں اقلیتوں  کے حقوق کاکوئی تصور نہیں ہے۔ اس لئے مغرب سے مکالمہ  میں اس نکتہ کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بعد اسلامی دنیا بالخصوص  مصر، لبنان ، انڈیا اورعثما نی ترکوں  کے دور میں ہمیشہ قرآنی اصول کے مطابق لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہی ہے۔ اسلامی دنیا میں مذہبی تکثیریت کو وجود ہمارے موقف کی واضح  شہادت مہیا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کی اصولی تعلیم :

(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) ( البقرۃ ، 2:256)

‘‘ دین میں کوئی زبردستی  نہیں، ہدایت تو گمراہی  سے  صاف صاف کھل چکی ہے’’

کی نظری  اور عملی تبلیغ  اور اشاعت  کی جائے ۔ اس کے علاوہ عہد رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم ،عہد خلافت ِ راشد ہ اور مسلم عروج کے ان تاریخی معاہدات  سے بھی استشہاد کیا جاسکتا ہے ، جن میں مذہبی  آزادی کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے۔

اسلام ایک حقیقی متبادل

اہل مغرب  میں اعلیٰ  ترین سطح پر اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ مذہب  سے مکمل  دستبردار ی ان  کے معاشرتی اور تہذیبی زوال کاباعث بن رہی ہے اور موجودہ مغربی فلسفہ  ان کے تمام مسائل کاحل نہیں ہے اس وقت اہل مغرب جو روحانی خلا محسوس  کررہے ہیں اس کی بنا پر یہ کہنا بے جانہ ہوگا  فی الوقت  مغربی سیکولر  ازم  کو ایک خاص مفہوم  میں بحران کاسامنا ہے اس  حوالے سے مامنامہ ‘‘ الشریعہ ’’  گوجرا نوالہ ( بابت ماہ اگست 2005ء ) میں پروفیسر میاں انعام الرحمٰن  کاتجزیاتی مضمون ‘‘ مغرب کی ابھرتی ہوئی مذہبی شناخت ’’  قابل مطالعہ  ہے۔ پروفیسر موصوف کاتجزیہ یہ ہے کہ آج کی عالمی صورت ِ حال میں مذہب ایک بار پھر اہل مغرب کی زندگی میں دبے پاؤں  داخل ہورہا ہے، اس لئے مسلمان اہل علم کے لیے یہ مناسب وقت ہے  کہ وہ اہل مغرب کے سامنے اسلام کو بہتر انداز میں پیش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مغرب کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اسلام کو آج کے جدید اسلوب  ، تکنیک اور زبان میں پیش کیا جائے کوئی وجہ نہیں کہ اسلام اپنی فطری تعلیمات کی وجہ سے مغرب کے اعلیٰ  ذہن کو متاثر نہ کرے۔

ضروری گزارش

کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے رجالِ  کارکی  تیاری بڑی اہمیت رکھتی ہے،  چونکہ اسلام کی اشاعت کاتمام انحصار دعوت وتبلیغ  اور دوسری قوموں سےمکالمے  پر ہے اس لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف بین المذاہب مکالمے کی عملی مثال قائم کی بلکہ ایسے افراد بھی تیار کیے جو دوسری قوموں سے مکالمے کی صلاحتیوں  سے مالا مال تھے ۔ لیکن ہمارا المیہ  یہ ہے اب جب کہ حالات  کے جبر نے ہمیں بین المذاہب  مکالمے  کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے، ہمارے پاس ایسے  افراد کی شدید کمی ہے جن کی مغربی فکر و فلسفہ  پر تنقیدی  نظر ہو اور جو اہل مغرب کی ذہنی  ساخت ان کی نفسیات  ، پس  منظر اور تکنیک  سے واقف ہوں، اس وقت ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں  جو لوگ علمی رسوخ  رکھتےہیں وہ مغربی زبان و ادب اور مغرب کی نفسیات  سے واقف نہیں  اور  جو لوگ مغربی زبان  اور محاورے کو جانتے ہیں وہ علمی طور پر کمزور ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس اور جامعات  کےنصابِ تعلیم میں مغربی فکر و فلسفہ  کو بطور لازمی مضمون کے شاملِ نصاب کیا جائے، تاکہ ایسے رجال  کار کی تیاری ممکن ہو جو مغرب کے دانشور طبقے سے پورے اعتماد کے ساتھ  بات کر سکیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یونانی فکر و فلسفہ  کے عروج  کے دور میں  مسلمان اہل علم نے یونانی علم کلام اور فلسفہ  پرمکمل عبور حاصل کیا اور پھر یونانی فکر و فلسفہ کے علمی اور تحلیلی  جائزے کے بعد اسلامی فکر کی برتری کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ۔ دورِ حاضر میں مسلمان اہل علم پر لازم  ہے کہ وہ  اپنے اسلاف کی تاریخ کو دہراتے ہوئے جدید علم کلام اور مغربی فکر و فلسفہ  پر عبور حاصل کریں، تاکہ مغربی فکر کا بھر پور تنقیدی جائزہ لے کر ارباب دانش پر اس کی کمزوریوں او رکھوکھلے پن کو واضح کیا جاسکے۔

پاکستان میں ماہنامہ  ‘‘ ساحل ’’ کراچی،  ماہنامہ ‘‘ الشریعہ’’ گوجر ا نوالہ اور سہ ماہی ‘‘ مغرب اوراسلام ’’ اسلام آباد ، کے علاوہ کئی دیگر رسائل میں مغربی فکر پر تنقیدات  شائع ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان کوششوں کو زیادہ  مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔ میری معلومات کے مطابق علامہ اقبال  اوپن یونیورسٹی  ، اسلام آباد اور مولانا زاہد الراشدی کے زیر نگرانی قائم ‘ الشریعہ اکادمی’  گوجر نوالہ کےعلاوہ  شاید چند ہی ایسے ادارے  ہوں گے جہاں پر مغربی فکر و فلسفہ  کاتعارفی اور تنقیدی  جائزہ مستقل مضمون کے طور پر داخل نصاب ہو۔

ایک اور چیز جس کاہمیں خاص طور سے لحاظ رکھنا چاہیے  وہ یہ ہے کہ مغرب کے ساتھ مکالمہ میں ہمارا  رویہ معذرت خواہانہ اور دفاعی کی بجائے اقدامی ہوناچاہیے ، ہمیں اسلام کے  بنیاد  ی عقائد  اور نظریات کی ایسی تاویل سے اجتناب  کرنا چاہیے  جس کا اسلام کےساتھ  کوئی تعلق  نہ ہو ۔ معروف روایت  کے مطابق جب قریش وفد حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مختلف آپشنز ( Options) رکھے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم جو پیش کش بھی چاہیں قبول کرلیں اور دعوت وتبلیغ   سے باز آجائیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ ذہنی  مرعوبیت  کے شکار  لوگوں کے لئے  خاص طور پر قابلِ توجہ ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں  اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے والانہیں ۔

اسی طرح جب شاہِ حبشہ  نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا تاکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور عیسائی مذہب کے بارے میں اپنا موقف بیان کریں ، تو مسلمانوں سخت پریشان ہوئے کیونکہ سچ  کہنے کی صورت میں نجاشی اور درباریوں کے ناراض  کا خطرہ تھا، لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے باہمی مشاورت کے بعد یہ متفقہ  فیصلہ کیا:

‘‘ نقول و اللہ ماقال اللہ و ماجا ء نابہ نبینا ’’ ( 13)

‘‘ اللہ کی قسم  ہم وہی  کہیں گے جو اللہ کاحکم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے’’

اس لئے ہمیں کسی قسم کی ذہنی مرعوبیت کے بغیر  پورے  اعتماد کے ساتھ  مغرب  کو قائل کرنا ہوگا کہ اسلام  ہی ایک ایسا تریاق ہے جو مغرب  کی تہذیب کو ہر قسم کے نقائص سے پاک کر کے زندہ جاوید  کرسکتا ہے ۔ مغرب کے تمام مسائل، خاندانی نظام کی شیرازہ بندی ،بچوں  میں بڑوں  کا احترام پیدا کرنا، باہمی اخوت  ، نسلی تفاخر کا خاتمہ  ، نفسیاتی استحکام  ،  احترامِ  آدمیت ، تحمل ، ایڈز جیسی بیماریوں کے خلاف سماجی مدافعت  وغیرہ کا حل صرف اسلام کے پاس ہے ۔

حوالہ جات

(1)   صلی اللہ علیہ وسلم ’’، 4؍ 91 ( الفیصل ناشران و تاجران کتب  اردو بازار ،لاہور)

  ‘‘ لمبسوط ’’ کتاب الصلوٰۃ ، 1؍37، ( دارامعرفۃ ،بیروت ، 1978 ء)

  ہمام بن  منبہ ’’ ص 193 ، ( ناشر رشید اللہ یعقوب ، کلفٹن  ،کراچی ، 1998)

  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم الرسل بکتبۃ الی الملوک ، 1؍258، ( دار صادر ، بیروت ، 1985 ء)

(7) ابن ہشام ، ابو محمد  عبدالمالک  ( م 218 ھ) ‘‘السیرۃ النبویۃ’’ امر الھند نۃ ، 3؍ 351 ( دارا حیاء التراث العربی ، بیروت  ، 1995 ء)

(8) ابنِ اثیر ، ابو الحسن علی بن ابی البکر  محمد ابن اثیر الجزری ( م 630 ھ)  ‘‘ اسد الغابۃ ’’ تذکرۃ حاطب بن ای بلتعہ رضی اللہ عنہ ، 1؍ 262( داراحیا ء التراث  العربی ،بیروت)

(9) ابن قیم الجوزیہ  ، ابو عبداللہ محمد بن  ابی بکر ( م 751 ھ) ‘‘ زادا لمعاد ’’ 3؍292،69( موسۃ الرسالۃ ، بیروت  1979 ء)

(10) مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ  ہو: راقم الحروف کی کتاب ‘‘ صحابہ کرام کا اسلوب  ِ دعوت و تبلیغ’’ صفحہ 177۔187، ( ناشر ، مکتبہ جمال کرم ، لاہور 2004ء)

(11) حمید اللہ ، ڈاکٹر ، (م 2001 ء) ‘‘ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی ’’ ، ص :127 ( دارالاشاعت ، کراچی ، 1987ء)

(12) راقم الحروف نے اپنے  پی ایچ ۔ ڈی کے زیر  تکمیل مقالے ‘‘ صحاح  ستہ  کی احادیث   پر منکر ین حدیث  اور مستشرقین  کے اعتراضات  کا علمی جائزہ ’’  میں مستشرقین  کے ان اعتراضات  کا اختصار  کے ساتھ جائزہ لیا ہے ۔

(13) ابن ہشام ، 1؍ 373

بشکریہ : ماہنامہ  الشریعۃ    (http://www.alsharia.org/mujalla/2006/jul/bainulmazahib-mukalmah-prof-akram)

URL: https://newageislam.com/urdu-section/interfaith-dialogues-its-importance,-priorities/d/14202


Loading..

Loading..