New Age Islam
Sun Oct 01 2023, 04:32 AM

Urdu Section ( 29 Jul 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Inter-Religious Marriage another Way of Building Peace بین المذاہب شادی امن قائم کرنے کا ایک اور طریقہ

 

ناصر سعید

 18 جولائی 2013 

(انگریزی سے ترجمہ  ،   نیوایج اسلام )

اپنے متوقع جوڑوں سے کہنا کہ تم اس لڑکے /لڑکی سے اسی وقت شادی  کر سکتے ہو جب وہ اسلام قبول کر لے  جبراً اسلام قبول کروانے کی ایک جدید شکل اور ہم بالفرض جن  سے محبت کرتے ہیں ان کے  یکساں  اور بنیادی حقوق سے انکار ہے ۔

30 سالہ آسٹریلوی شینیرا  تھامسن سے وسیم اکرم کی سگائی نے  میڈیا میں کافی ہلچل  پیدا کر دیا  ہے۔ اکرم کی پہلی بیوی، ہما وسیم، 2009 میں فوت ہو گئں  اور اکرم کا کہنا ہے کہ  انہوں نے  دوبارہ شادی کے بارے میں  کبھی نہیں سوچا لیکن وہ ایک دوسری مرتبہ  گہری محبت کے لئے  "خوش قسمتی اور بہت خوشی" محسوس کر رہے ہیں ۔ انہوں  نے   بظاہر   اس بڑے  سوال کا سامنا کرنے کے لئے مستعدی کا اظہار بھی  کیا ، اور مبینہ طور پر ان کی پہلی شادی سے دو بیٹے اپنے خاندان میں ایک سابق تعلقات عامہ کنسلٹنٹ، شینیرا   کا خیر مقدم کرنے کے لئے پر جوش ہیں ۔

بلاشبہ  موت کے سانحے کے بعد محبت پانا ایک اچھی چیز ہے، لیکن اس سے احساس  مایوسی کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ  شینیرا   کو  اکرم سے شادی کرنے کی ایک شرط کے طور پر اسلام قبول کرنا ہوگا ، اور صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام قبول کر رہی ہیں بلکہ وہ مبینہ طور پر پاکستان منتقل ہونے  اور اسے اپنا وطن بنانے  کے لئے بھی تیار ہیں  ۔ جب وہ یہاں ہوں گی تو  کیا وہ روایتی پاکستانی لباس بھی پہنیں گی ؟ یقیناً کچھ لوگ اکرم کو بڑی عزت سے نوازیں گے  نہ صرف ایک مغربی عورت سے شادی کرنے کے لئے بلکہ اسے اسلام کے دائرے میں لانے  اور اس کے لئے جنت میں ایک مقام  بنانے کے لئے۔ وہ ایک غیر مسلم سے شادی کے ممکنہ درد سر سے  بچنے میں  کامیاب ہیں ۔

اکرم کسی  غیر مسلم سے شادی کرنے والے پہلے شخص نہیں ہیں ۔ کئی قابل ذکر تاجروں، کھلاڑیوں اور اعلی شخصیات نے مغربی اور غیر مسلم عورتوں سے شادی کی ہے۔ لیکن ان تمام لوگوں میں  عام بات یہ ہے کہ انہوں نے  اسلام قبول کرنے کے بعد ہی ان سے شادی کی ہے۔ یقینا یہ قطعی طور پر کسی سے محبت کرنے کے مطلب کے خلاف ہے جو کہ  شادی کا ایک  اہم عنصر ہے  ۔ اگر ایک عورت مرد کے سامنے ایک ایسی ہی شرط رکھ دے  یا اسلام قبول کرنے سے انکار کر دے تو کیا ہوگا؟ کیا وہ  ان کو چھوڑ کر کسی اور کو تلاش کریں گی ؟

اس طرح کی شادیوں میں عام طور پر یہ  ہوتا ہے کہ عورتوں کو ان کا مذہب اور ان کا ملک چھوڑ نا پڑتا ہے ، پاکستانی طرز زندگی اور یہاں تک کہ پاکستانی لباس شلوار قمیض، ڈپٹہ  اور اسی طرح کی چیزوں کو اپنانا پڑتا ہے ۔

اور یہ دوسرے طریقے سے بھی ہوتا ہے۔ میرے ایک دوست نے کئی سال پہلے ایک عیسائی عورت سے شادی کی اور اسے  عیسائیت قبول کرنا پڑا۔ اسے اس  کے خاندان والوں کی طرف سے دھمکی دی گئی اور اسے دست بردار کر دیا گیا  لیکن وہ اس کے کام سمیت سب کچھ کھودینے کے باوجود بھی  کئی پوتے پوتیوں کی خوشی کے ساتھ اسی سے  شادی شدہ رہا ۔

میں ایک ایسے پادری کو جانتا ہوں  جس نے ایک غیر مسلم سے شادی کی اس نے اب تک  مذہب تبدیل نہیں کیا  بلکہ  وہ چرچ کی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے، اور ایک مسلم عورت کو بھی جانتا ہوں جس نے ایک ہندو سے شادی کی اور اس کے ساتھ ایک خوش حال خاندان آباد کیا ۔ میرے دوست کے بیٹے نے ایک عیسائی لڑکی سے شادی کی اور اس کے  دو بچے ہیں اور وہ اپنے  اپنے مذہب پر عمل  کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک خوش حال خاندان ہے ۔

بالی وڈ کی مشہور شخصیت  شاہ رخ خان ان  نایاب مستثنیات میں سے ایک ہے جنہوں نے خوشی کے ساتھ ایک غیر مسلم سے شادی کی اور ان کے تین بچے ہیں ۔ وہ عید اور دیوالی بھی مناتے ہیں۔

پاکستان اس سلسلے میں ہندوستان  سے سیکھ سکتا ہے ۔ پاکستان میں مذہب ایک بالا دست  اور یہاں تک کہ تباہ کن قوت ہے، جبکہ سرحد پار ہندوستان میں ذاتی آزادی اور مذہب کے معاملات میں رازداری کے لئے جگہ ہے۔ پاکستان میں مذہبی منافرت صرف یہی نہیں کہ پھل پھول رہا ہے بلکہ  قابو سے باہر ہو رہا  ہے۔

اپنے متوقع جوڑوان سے کہنا کہ تم اس لڑکے /لڑکی سے اسی وقت شادی  کر سکتے ہو جب وہ اسلام قبول کر لے  جبراً اسلام قبول کروانے کی ایک جدید شکل اور ہم بالفرض جن  سے محبت کرتے ہیں ان  کے  یکساں  اور بنیادی حقوق سے انکار ہے، اگر وہ ایک شوہر/بیوی کے طور پر قبول کئے جانے کی اپنی قابلیت کو  ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں  یہ ایک چھوٹی سی آزمائش میں کامیابی حاصل کرنی ہوگی ۔

مزید  یہ کہ یہ مذہب کو بے قدر کر دیتا ہے  کہ کیا  اس شخص نے  حقیقی معنوں میں مذہب تبدیل کیاہے یا یہ  ایک ظاہری شرط کو  پوری  کرنے کے لئے ایک سطحی تبدیلی  ہے؟ خدا پر ایمان رکھنے  کا انتخاب اور  اس کی پرستش کے لئے   کسی ایک خاص نظام کو منتخب کرنا  ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اور یہ ایک سنجیدہ غور و فکر  اور خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی حقیقی خواہش سے متأثر ہو کر  لیا  جانا  چاہئے ، صرف اسے  شادی کے قابل بنانے کے لئے نہیں جس سے  ہم محبت کرتے ہیں ۔ مزید یہ کہ  اسلام بالکل کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر اپنی مرضی سے قبول  کیا جانا چاہئے ۔

اگر کسی نے دوسرے مذہب کے کسی پیروکار سے  شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے اس کے ذریعہ  منتخب کردہ مذہبی اعتقاد کو برداشت کرنا چاہئے اور اگر وہ اس کا انتخاب کرتے ہیں تو اسے ان کے وقت میں قبول کرنے کی  اجازت دینی چاہیے۔ مغرب میں ایک خوش گوار سطح تک رواداری فروغ پا چکی ہے ، جہاں  دیگر مذاہب  کا احترام کیا جاتا ہے اور نسل، مذہب یا عقیدے سے قطع نظر لوگوں کو برابر سمجھا جاتا  ہے ۔ اگر کوئی کسی مخصوص مذہب کو قبول کرتا ہے  تو اس کی وجہ یہ کہ وہ کسی خاص حد تک اس  کا قائل ہو چکا ہے۔

بین المذاہب شادیاں دنیا میں زیادہ سے زیادہ عام ہوتی جا رہی ہیں اور اگرچہ تمام کے تمام کامیاب نہیں  ہیں، لیکن بہت سے کامیاب ہیں، اور میرا یہ یقین ہے کہ یہ نعمت ہے جوکہ نہ صرف یہ کہ  دوسرے مذاہب کو سمجھنے میں معاون ہے  بلکہ ایک روادار معاشرے کو بھی فروغ دینے میں مددگار ہے ۔

پاکستان تیزی کے ساتھ  ایک انتہا پسند اور عدم روادار  سماج بنتا جا رہا ہے، اور پاکستانی قوانین کسی کو بھی  غیر مسلم سے شادی کرنے سے نہیں روکتے ، جبکہ ثقافت اسے  برداشت نہیں کرتی ۔ ہم امن اور رواداری کی ثقافت شروع کر سکتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ کبھی پہلے سے بھی  زیادہ اس  کی ضرورت ہے ۔ وسیم اکرم جیسی ہائی پروفائل شخصیتیں اور ان  کے انتخاب انتہائی  مؤثر ہیں۔ میں ان کے  ذریعہ ان کے جوڑوں کو اسی صورت میں  قبول کرکے جیسی وہ ہیں ایک  مثال قائم کرتے  ہوئے دیکھنا چاہوں گا اور اس طرح باہمی احترام اور وقار پر مبنی ایک پرامن اور روادار معاشرے کو فروغ دینے میں تعاون کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں ۔

ناصر سعید ایک فری لانس کالم نگار ہیں۔                    

ماخذ:

http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2013\07\18\story_18-7-2013_pg3_4

URL for English article:

https://newageislam.com/current-affairs/inter-religious-marriage-another-way/d/12650

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/inter-religious-marriage-another-way/d/12795

 

Loading..

Loading..