ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
15دسمبر،2023
میں آج سے 25/ سال قبل جو
فکر تنہا آپ کے سامنے رکھ رہاتھا آج پھر اسی فکر کے کچھ گوشے آپ کے سامنے رکھنا
ضروری سمجھتا ہوں۔اس کے علاوہ کچھ غیر معروف حقائق بھی آپ کے گوش گزار کررہاہوں۔
مسلمانان ہند آبادی کے اعتبار سے اپنی نوعیت کی وہ واحد اقلیت ہے جو 20 /کروڑ کی
کثیر آبادی کے باوجود اقلیت کہلاتی ہے۔ یہ تعداد 100/کروڑ کے ملک میں اپنے آپ میں
کافی نہیں بلکہ اسے آئینی تحفظات اور ضمانتوں کی جہاں ضرورت ہے وہیں اکثریت کے
ساتھ خوشگوار تعلقات بھی مسائل کے حل میں اپنا کلیدی کردار رکھتے ہیں۔ ٹکراؤ او
ربراہ راست تصادم کی سیاست سے مثبت نتائج کم برآمد ہونگے منفی کہیں زیادہ!
آج کا ہندوستان ایک بدلا
ہوا سماج اور معاشرہ رکھتا ہے جس میں وہ نظریات او رفکر (ہندوتو) اتنی سیاسی،سماجی
او رعوامی حمایت حاصل کرچکے ہیں کہ مسلم معاشرے او را س کی قیادت کے سامنے نئے
مسائل اور چیلنج منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔جمہوریت میں ہر نظر یے کو پھلنے پھولنے کا
موقع باآسانی میسر آجاتاہے۔حالات اب وہاں پہنچ گئے کہ سیکولرزم کے دعویدار اس
نظریے کے دفاع کی بجائے نظریہ ہندوتو کے آگے سرجھکاتے نظر آرہے ہیں جس کا ثبوت اب
بیشتر سیکولر سیاسی جماعتوں کا براہ راست اور بالواسطہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ
ملالینا ہے۔
آخریہ نظریہ ہندوتو کیا
ہے؟ اس کی اساس او راسلوب کیا ہے؟ مسلم معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہیں؟ نظریہ
ہندوتو سیاسی اعتبار سے اکثریتی فرقے کی دائیں بازو کی فکر کی ترجمانی وعکاسی
کرتاہے۔ جس کے تحت پانچ ہزار رسالہ قدیم ہندو تہذیب وتمدن کو آج کے ہندوستان پر
لاگو کرناہے۔
یاد رہے کہ اس کی بنیاد
وید،رامائن، گیتا، مہابھارت، اپنشد اور دوسرے سناتن صحائف پرمبنی ہے۔ اس پیرائے
میں رشی منی اور دیگر سناتن طاقتیں اس کی تفسیر کرتی آئی ہیں اس کو کل ہندوستانی
معاشرے پر غالب کرنا ہی مقصود نہیں ہے بلکہ اس کو سرکاری پروگرام بنا کر سرکاری
ایجنسیوں،ذرائع ابلاغ او رتعلیمی نصاب کے ذریعے عملی جامہ پہنانے کا ایک ٹھوس
منصوبہ ہے۔ اس فلسفے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہندوتو کی وہ تعریف اور وضاحت
جو آج سنگھ پریوار کے ذریعے پہنچ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوتو ایک طریقہ زندگی ہے اس
کا مذہب سے کوئی لینا دینانہیں اورنہ ہی ہندوستان کو ایک مذہبی اسٹیٹ بنانے کی طرف
کوئی پیش قدمی ہی ہے بلکہ ایک نظریے میں اتنی وسعت قلبی ہے کہ یہ اپنے اندر اسلام
او رمسیحیت کو بھی سمولیتاہے۔
غور کریں کہ ایک طرف یہ
مذہبی نظریہ نہیں ہے دوسری طرف اس نظریہ کا مقصد ہندو مذہبی راشٹر قائم کرنانہیں
ہے۔تیسرے اس میں پانچ ہزار سالہ ہندو تہذیب کو آج کے معاشرے او رطرز حکومت پر غالب
کرنا ہے اوریہ دیگر مذاہب کو اپنے ساتھ لے کر چلنے یا ان کو اپنے اندر سمو نے کا
بھی اہل ہے پھر بھی اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے!؟
اس طرح اصل کو حاصل کرنے
کا ظاہری منصوبہ طریقہ زندگی کی اصطلاح کو لے کر پوشیدہ منصوبہ ہندو ازم (ویدک
پرمپرا) کی بالادستی کو قائم کرتے ہوئے ایک ہندو راشٹر کی تعمیر کا خواب ہی ہے او
ریہ وہ پوشیدہ ایجنڈا ہے جس کی بات آج چاروں طرف ہورہی ہے۔رام جنم بھومی آندولن،
ٹی وی پر رامائن،مہا بھارت، جے ہنومان،سری کرشنا، شومہا پوران اورایسے ہی دیگر
سناتن صحائف پرمبنی پروگرام نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس نظریہ ہندوتو کی تبلیغ کا
کام کیاہے جس کی پوری ذمہ داری سابقہ سیکولر سرکاروں کی ہے۔
سابقہ 25/ سال کایہ سفر
اپنے نشیب وفراز کے ساتھ آپ کے سامنے ہے۔ فیصلوں سے آپ واقف،ان کی نااہلی سے بھی!
ڈھاک کے تین پات پرنالہ وہیں گرے گا! اس کو میں فکر کیسے مانوں؟ یہ عقلی دیوالیہ
پن نہیں تو پھر کیا؟ وہ قومیں،معاشرے،نظم ونظام دنیا میں پنپتے ہیں جو اپنی فکر کو
وقت سے آگے رکھتے ہیں، جو آنے والے کل کی نوید سے بھی آگاہ ہوتے ہیں اور خطرات
وخدشات سے بھی! وقت سے پہلے پل بنا لیتے ہیں تاکہ جب سیلاب آئے تو سب بہا کر نہ لے
جائے۔
مسلم معاشرہ قوی وبین
الاقوامی دونوں سطح پر ان ہی تاریخی غلطیوں کو پوری مستعدی سے دوہرارہاہے جس کے
نتائج وہ بھگت رہاہے۔لکیر کے فقیر والی سوچ کامزاج کب بدلے گا، زوال کسی دوسرے کی
وجہ یا کسی سازش کے نتیجے میں نہیں آتا بلکہ جب فکریہ جمود چھا جاتاہے تب آتاہے۔
تبدیلی و ترقی کاعمل جدت وجدیدیت کی کوکھ سے جنم لیتاہے او روہیں اس کے
نشوونماکاراز بھی پنہا ں ہوتا ہے ہم نے فکر کے دریچے ہی باقی نہ رکھے۔مقابل اپنا
کام کرتا رہا وہ اس کا فریضہ تھا۔مگر محترم آپ کی کسی حکمت عملی، آپ کا علم، عقل و
ادراک کہاں؟
آج سے 25/سال قبل آپ کو
’آج‘ سے آگاہ کررہا تھا آپ نے نہ سنی۔ اب تو پانی بہت بہہ چکا۔ اس عرصے میں آپ من
حیث القوم ہر سیاسی وسماجی،علمی،عوامی وخواصی حربہ استعمال کرچکے اور شکست فاش کا
منہ بھی دیکھ چکے۔ ہرانے کا ہر فارمولہ فیل، کسی کو جتاکر اپنا الو سیدھا کرنے کی
چال فیل! مسلم جماعت، قیادت، سیاست او راس کے منفی ومہلک اثرات کا تجربہ فیل! جس
کی مخالفت ڈٹ کر کی، جس کے ہرانے کے لئے دین ودنیا دونوں کی قسمیں کھائیں او
رکھلوائیں وہ تو آگئے اور اب جڑیں اتنی پھیل گئی کہ یوٹرن کی خواب میں بھی گنجائش
نہیں!
جو ان او رنوجوان کی ملک
میں اب اتنی اکثریت ہے کہ وہ سنگھ،بھاجپا اور ان کے نظریہ ہندوتو کو چھوڑنے والا
نہیں۔ یہ مزاج اس حد تک سرایت کرگیا ہے کہ اس کے خلاف قولاً کئی مل جائیں گے مگر
عملاً اب شاید ہی کوئی بچا ہے۔مجھ سے کوئی زبانی کہتا ہے کوئی لکھ کر کہ آپ سارے
سبق ہم ہی کو پڑھاتے ہیں۔
یاد رکھئے تاریخ انسانی
گواہ ہے جبر اور طاقتور کے ساتھ بقا، سلامتی وعزت نفس کے ساتھ جینے کاایک ہی راستہ
بچا رہتاہے خیر سگالی کا اور وہاں بھی پہل خود کرنی پڑتی ہے کیونکہ کمزوری کے دور
میں وہ کہہ کہہ کر تھک چکا ہوتاہے،خوشامد او رگڑگڑاہٹ کے دور سے بھی گزر چکا
ہوتاہے جب آپ نہ اس کی سنتے اور نہ اس کی طرف بڑھتے! اب جب ساری طاقت کاسرچشمہ
سنگھ اور بھاجپا بن چکی، اقتدار، حکمرانی، حاکمیت، اقتدار اعلیٰ فیصلے ان پر
اختیار کلی، ذرائع ابلاغ،مالی ومادی مسائل او رہر شعبہ زندگی پر اس کا غلبہ قائم
ہوچکا اور آپ اپنی مخالفت کو اس کی انتہا تک لے جاچکے،اب آپ کو شکوہ ہے کہ وہ اپنے
ایجنڈے پر کام کیوں کررہے ہیں۔ حقیقت کا سامنا کرنا سیکھئے بھلے ہی وہ تلخ ہو۔
فطرت انسانی سب کے ساتھ
ہے جو وقت پر ساتھ ہوتاہے لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں او رجو جڑ کو کھودتا او
راکھاڑنے کے درپے ہوتاہے اس کے ساتھ رواداری افضل ترین عمل واخلاق ہے۔ میرا موقف
بالکل صاف اور شفاف ہے۔ میں اپنی قوم سے اس کے فکری سفر پر سنجیدہ تجزیے کا مطالبہ
کرتا ہوں، حالات یہاں تک کیسے پہنچے؟ ہم سے کہاں کہاں چوک ہوئی؟ آج کے تناظر میں
اس نئے بھارت میں ہم کہا ں کھڑے ہیں او رکل اپنے آپ کو کہاں دیکھ رہے ہیں؟ مستقبل
ہم سے کیامطالبہ کررہا ہے؟
سازش کرنے والے ہر دور
میں ہوتے ہیں،ہوا نہ مستقل مخالف سمت میں چلتی ہے اور نہ ہی ہمیشہ اس کا رخ موافق
ہی رہتاہے۔وطن عزیز اور ا س کی عظمت ووسعت کو پہچانئے صرف دوسرے سے توقع نہ رکھئے
کچھ اپنے بارے میں سوچئے۔ جذبات دونوں طرف ہیں،واجب شکووں سے کوئی خالی نہیں! مذہب
اس کی حساسیت اور دونوں کے تقاضے بھی اپنی جگہ ہیں! ہمارے عقیدے کے مطابق تمام
کرہئ ارض وسماں،بحروبر جہاں انسان کے قدم ہیں وہاں قبلہ بھی ہے، ممبر او رمصلی بھی
مگر اس مشیت ربی کا کیا کہنا کہ دنیا کی اسی فیصد آبادی اسلام کو نہیں مانتی جو
دین حق دیتاہے یہ دنیا او راس کا معاشرہ اس چمن کی طرح ہے جس میں ہر پھول کی
حساسیت کے لئے عزت نفس کے ساتھ جگہ ہے یہ اس جنگل سے بھی متشا بہ ہے جس میں شیر
بھی اپنے ساتھی جانوروں کے زندگی کے حق کو مانتاہے جو اس سے کمزور ہوتے ہیں بس ان
کو اپنی بساط کے مطابق اپنی زمین تلاش کرنی ہوتی ہے۔
15دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism