علی ریحان، نیو ایج اسلام
سب سے پہلےمیں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہندو مہا سبھا کے ایک لیڈر کملیش تیواری انتہائی ناگوار اور برا تھا۔ اس کا یہ بیان حقائق کے خلاف، سخت کریہہ اور جان بوجھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے مترادف تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ کہ جب کسی بھی قسم کی انتہاء پسند جماعت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے تو سب سے پہلے حقائق متاثر ہوتے ہیں۔
آخر کار اس ہندو مہاسبھا سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے جو اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہر چیز سے نفرت کرتا ہے۔ میں بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی جانب سے بھی اس طرح کے توہین آمیز کلمات کے خلاف احتجاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر کار نظام جمہوریت میں احتجاج کرنا اور اپنی آواز اٹھانا ایک بنیادی حق ہے۔ لہٰذا، جو لوگ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس توہین کے خلاف احتجاج کرنے پر مسلمانوں کی تنقید کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر غلط ہیں: اس لیے کہ ایک جمہوری ملک میں احتجاج کرنا بالکل غلط نہیں ہے۔ در حقیقت مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہے: مسلمانوں کے جانب سے اس سلسلے میں بہت کم احتجاج درج ہوئے ہیں۔
ان احتجاجات کے بارے میں بنیادی طور پر جو غلط ہے وہ یہ ہے کہ مالدا میں کیا ہوا اور کیا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ کسی بھی پرامن احتجاج کا تمام لوگوں کو خیر مقدم کرنا چاہئے اور اس ملک کی جمہوری ساخت کو مضبوط کرنے میں اس کا ایک بہت بڑا دخل ہے۔ لیکن مالدا میں جو ہوا وہ پرامن احتجاج نہیں تھا بلکہ وہ ایک کھلی غنڈہ گردی اور تشدد تھا جسے معاف نہیں کیا جانا چاہئے۔ خواہ وہ منشیات مافیا کا کارنامہ ہو یا ترنمول کانگریس حکومت کے نام نہاد سیکولر اقدامات ہوں سرکاری املاک کو نظر آتش کیے جانے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے اور جو لوگ اس طرح کے تشدد کے ذمہ دار ہیں انہیں قانون کے دائرے میں لایا جانا چاہیے۔ اور عوامی املاک کی اتنی زبردست تباہی پر رنجیدگی کا اظہار کرنے والوں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہئے کے ایسا کرنے والوں میں مسلمان تن تنہا نہیں ہیں۔ خواہ وہ ریزرویشن کے لیے گجروں کی تخریب کاریاں ہوں خواہ پاکستان ایئر لائنز آفس کی توڑ پھوڑ کرنے کے لیے ہندو سینا کی تخریب کاری ہو، تشدد اور تخریب کاری پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے اور اس قسم کے تشدد اور غنڈہ گردی کے لئے صرف مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔ لیکن ہاں، ان کا یہ تشدد نوعی اعتبار سے مختلف مذہبی جماعتوں کے نوجوانوں کی تخریب کاریوں کی ہی طرح ہے۔
جو بات میرے لیے پریشانی کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان ان چھوٹے معاملات میں کیوں احتجاج کرتے ہیں اور ان معاملات میں احتجاج کیوں نہیں کرتے جو مسلمانوں کے لیے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم کب یہ سنتے ہیں کہ امت مسلمہ کی ناگفتہ بہ غربت اور ناخواندگی کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا ہے؟ ہم کب یہ سنتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پڑوس میں اچھے معیار کے اسکولوں کا مطالبہ کرنے کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے؟ کیوں مسلمان اپنی رہائش گاہ کے ارد گرد موجود گندگی کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرتے؟ اور وہ لوگ اپنے مذہبی مقامات میں بدانتظامی کے خلاف بھی احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ ایسا کیوں ہے کہ وہ کسی بدبخت کی بات پر احتجاج کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں اور وہ سماجی حالات کی مادیت کے لحاظ سے درپیش روزانہ کی ہتک آمیز صورتحال پر خاموش پڑے رہتے ہیں؟ ایسے معاملات، مسائل اور خدشات میں مسلمانوں کی خاموشی جن پر مسلمانوں کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے تھا، اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مسلمان اس معنیٰ میں بنیادی طور پر غلط ہیں کہ ان کی ترجیحات غیر متوازن ہو چکی ہیں ۔
اس طرح کی سیاست کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست مسلمانوں کو صرف علامتی مراعات ہی دے گی اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ کیسے حاصل کیا جائے اور انہیں کیسے خوش رکھا جائے۔ ریاست کو اس بات سے بہت خوشی ہوگی کہ مسلمان ریاست سے کسی اہم چیز کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی تشویش کا موضوع صرف مذہبی اور علامتی مسائل ہی ہیں، جیسے پورا کرنے میں ریاست کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہے اس لیے کہ اس میں سیاست اور وسائل کی تقسیم نو کا کوئی دخل نہیں ہے۔
مسلمانوں کے لیے اس طرح کے مقامی اور علاقائی مسائل سے اوپر اٹھ کر حقیقی مسائل کے لئے جد و جہد شروع کرنے کے لئے وقت آ چکا ہے جس میں تعلیم، روزگار اور ایک باوقار اور مساوی زندگی کے مسائل شامل ہیں۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ وہ مالدا یا کہیں اور کی سڑکوں پر اپنی توانائیاں صرف کرنا بند کر دیں۔ اس طرح کی توانائی اگر مزید تعمیری انداز میں صرف کی جائے تو بہتر ہے اس لیے کہ اس میں امت مسلمہ کے لیے طویل المیعاد فوائد مضمر ہیں۔ اس کمیونٹی کے رہنماؤں جیسا کہ وہ ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں، وہ اس طرح کے مشورے پر توجہ نہیں دیں گے اس لیے کہ ان کی سیاست امت مسلمہ میں بڑی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ ان کی سیاست کمیونٹی کے اندر جمود و تعطل کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔ اب ایسے سیاست دانوں کو ان کی سیاست کے ساتھ امت سے باہر نکالنا خود امت مسلمہ کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔
اس قسم کا جہاد یہ تسلیم کیے بغیر نہیں شروع کیا جا سکتا کہ مسلمانوں کے درمیان کسی بات کی بو اٹھ رہی ہے جیسا کہ مسلمانوں کا معمول ہے۔ چند دنوں قبل ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ ایک نوجوان نے اپنا ہاتھ اس وہم میں کاٹ لیا کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو گئی ہے۔ اور سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نوجوان کے باپ نے عوامی طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ اس کے بیٹے نے جو کیا اسے اس پر فخر ہے اور وہ اس جاہل ملا کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کریں گے جس کی ایماء پر اس کے بیٹے اپنا ہاتھ کھو دیا ہے۔
اگر ہمیں کمیونٹی کی پرواہ ہوتی تو اس خبر سے مسلمانوں کے اندر غم و غصہ کی لہر دوڑ جاتی اور وہ صرف اس ملا کے خلاف ہی نہیں بلکہ خاص طور پر اس والد کے خلاف بھی سڑکوں پر نکل آتے۔ اور ابھی تک اس سلسلے میں احتجاج کی ایک ہلکی سی بھی آواز نہیں اٹھی ہے۔ ہمیں ہو کیا گیا ہے؟ اس خاص معاملے کے خلاف غم و غصہ کی کوئی علامت کیوں نہیں ظاہر ہوئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اندر ایک خاص اسلام کو داخل کر لیا ہے، یا یہ چیزیں امت مسلمہ میں اتنی عام ہو چکی ہیں کہ ہم انہیں کسی بھی قسم کی احتجاج کے قابل نہیں سمجھتے؟ بہر حال، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی سماجی نفسیات میں کوئی نہ کوئی فساد ضرور پیدا ہوا ہے۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی خبطی جماعت کا کوئی احمق نمائندہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر وہ اپنی کمیونٹی کے اندر پیش آنے والے مظالم اور نا انصافیوں پر خاموش رہتے ہیں تو وہ یقینی طور پر خود اپنے ہی نبی کی توہین کے سنگین خطرات ان کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/muslims-islamophobia/insulting-prophet/d/106048
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/insulting-prophet-/d/106061