اطہر فاروقی
13 اپریل،2025
انجمن ترقی اردو (ہند) کا قیام 1882 کے مشہور اردو ہندی تنازعہ کے زمانے میں سرسیّد کے ذریعے کیا گیا تھا جس کا مقصد یقینا ایک ہی زبان کو دو حصوں میں تبدیل ہونے سے روکنا تھا۔ 1882 سے 1903 تک اس ادارے نے کئی شکلیں اور نام تبدیل کیے، اور بالآخر 1903 میں جب علامہ شبلی نعمانی اس کے صدر اور مولانا آزاد اسسٹنٹ سیکریٹری بنے تو انجمن ترقی اردو (ہند) کے نام سے یہ ایک نیشنلسٹ ادارہ بن گئی۔ 1947 سے 1980 تک انجمن ترقی اُردو (ہند) ہندستان میں اردو کا سب سے طاقت ور اور نظریہ ساز ادارہ تھا۔ اردو اکادمیوں سمیت اُردو کے جتنے بھی ادارے ہیں وہ سب انجمن کی کوششوں سے ہی قائم ہوئے ہیں۔ ہندستان کے صوبوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی انجمن کی کوششوں سے مل سکا۔ عہدِ حاضر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ جس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اس میں انجمن کے سفر اور انجمن کے ذریعے ہندستان میں اردو کے سفر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔اس سلسلہ میںریسرچ اسکالرعائشہ نجیب نے انجمن ترقی اُردو (ہند) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی سے خصوصی گفتگو کی ہے۔زیر نظرسطور اسی گفتگو کا خلاصہ ہیں۔
’’انجمن ترقی اردو (ہند) قانونی طور پر ایک غیر منافع بخش ادارے کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ انجمن نہ تو مرکزی حکومت سے اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت سے کوئی گرانٹ لیتی ہے۔ اسے کسی صنعتی ادارے یا کسی دھنا سیٹھ کی سرپرستی بھی حاصل نہیں ہے۔ اور یہ ہمارے بزرگوں کا بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا فیصلہ ہے۔جس زمین پر اردو گھر کی عمارت بنی ہے، وہ انجمن کی اپنی زمین ہے اور اس کا کچھ حصہ کرایے پر ہے۔ انجمن کا خرچ اسی سے چلتا ہے۔اطہر فاروقی بتاتے ہیں کہ 1936 میں جب انجمن کا دفتر اورنگ آباد دکن سے دہلی آیا تو وقتی طور پر وہ دریا گنج کے کرایے کے مکان میں اس لیے تھا کہ دفتر کی عمارت بنانے کے لیے ایک پلاٹ کرزن روڈ— جو اب کستوربا گاندھی مارگ بن گیا ہے— پر خریدا گیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے وقت بلوائیوں نے دریا گنج کے دفتر میں آگ لگا کر وہاں رہنے والے انجمن کے کارندوں کو قتل کردیا تھا۔ کرزن روڈ والی زمین پر لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ بہت بعد میں اس زمین کے بدلے انجمن کو سرکار سے ایک پلاٹ ملا جس پر اب منڈی ہاؤس میں سپرو ہاؤس کی بلڈنگ بنی ہوئی ہے مگر کچھ دن بعد یہ جگہ مل گئی جہاں اب راؤز ایوینیو میں، یعنی آئی ٹی او پر اردو گھر کی عمارت ہے۔ عمارت بننے کی ابتدا تو 1964 یا 1965 کے بعد ہی ہو گئی تھی۔ عمارت مگر صحیح معنوں میں 1975 میں بننی شروع ہوئی اور 1977 میں اس کا افتتاح اُس وقت کے وزیر اعظم مرارجی دیسائی نے کیا۔میں نے 1975 کے بعد یعنی انجمن کے علی گڑھ سے دلّی آنے کے بعد کے کاغذات دیکھے ہیں۔ صرف ایک دفعہ احمد رشید شیروانی نے 2013 میں ایک لاکھ روپے کا چندہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک پیسہ بھی کسی اردو والے نے کم سے کم 1975 کے بعد انجمن کو نہیں دیا ۔ مجھےہرگز امید نہیں کہ 1949 میں انجمن کے علی گڑھ جانے کے بعد اور اس کے وہاں سے 1975 میں دلّی آنے تک کسی نے شخصی طور پر یا کسی ادارے نے ایک پیسہ بھی انجمن کو دیا ہو۔ اردو والوں کو تو انجمن کے ہفت روزہ اخبار ’ہماری زبان‘ اور سہ ماہی ’اردو ادب‘ بھی بڑی تعداد میں اسی لیے مفت بھیجے جاتے ہیں کہ وہ اردو کے رسالے اور اخبارات خرید کر پڑھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ تو انجمن کی اردو کتابیں بھی مفت ہی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ میں بار بار سنتا ہوں، کہ اب انجمن کا تحریکی کردار ختم ہو گیا ہے۔ہم لفظوں کو بغیر سوچے سمجھے بولنے کے عادی ہیں۔ کچھ لوگ مگر ایسے بھی ہیں جو انجمن کے تحریکی کردار کی بات کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں تبلیغی جماعت کی تحریک ہوتی ہے، خلافت تحریک ہوتی ہے جو عوامی مگر مذہبی تحریکیں ہیں۔ ایک اور بھی تحریک ان کے ذہن میں ہوتی ہے، اور یہ مسلم لیگ کی تحریک ہے۔ ظاہر ہے کہ انجمن اس طرح کی کوئی تحریک کبھی نہیں رہی۔اردو ہندی تنازعے کے علاوہ اور کوئی بڑی تحریک اردو زبان کے حوالے سے میرے ذہن میں نہیں ہے۔ اردو میں بہت سی ادبی تحریکیں بھی تھیں مگر وہ عوامی تحریکیں نہ بن سکیں، جیسے اصلاحِ زبان کی تحریک۔آزادی کے بعد اردو کی سب سے بڑی عوامی تحریک انجمن کے پلیٹ فارم سے اردو کو یوپی میں علاقائی زبان کا درجہ دینے کی تھی جس کے لیڈر ڈاکٹر ذاکر حسین تھے اور کم و بیش بائیس لاکھ دستخط جمع کرکے صدر جمہوریۂ ہند کی خدمت میں ایک میمورنڈم اس مطالبے کے ساتھ پیش کیا گیا کہ اترپردیش میں اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دیا جائے۔
اردو رابطہ کمیٹی نے دوسری تحریک 1987 کے آس پاس مسلم پرسنل لا بورڈ کے اشارے پر ملک زادہ منظور احمد نے چلائی تھی۔ اس وقت یوپی میںکانگریس سرکار تھی— اس نے یوپی میں علی میاں سے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا وعدہ کر لیا جو ایک آدھ برس بعد کاغذ پر دے بھی دیا گیا۔اردو کا صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اردو والے اپنے بچوں کو اردو اس لیے پڑھائیں تاکہ وہ بچہ اردو کا عظیم ادب پڑھ کر بہتر انسان بن سکے۔ یہ کام کسی تحریک کے ذریعے نہیں بلکہ ضمیر کی آواز پر ہوگا۔اردو والوں کو اپنے سیاسی رہنماؤں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اردو کے لیے جب بھی کوئی جلسہ کیا جائے تو جن لوگوں کو تقریر کیلئے بلایا جائے، ان کے بارے میں یہ طے ہو کہ انھوں نے اپنے بچوں کو اردو پڑھائی ہے۔اردو سے محبت کرنے والے عام آدمی کو اردو لیڈرشپ کرائے کا ایسا سپاہی سمجھتی ہے جس سے صرف لیڈرشپ کو فائدہ ہو۔ اردو میں اب ایسا کوئی طبقہ نہیں ہے جو خوش حال ہو اور جس کے پاس یہ سہولت موجود ہو کہ وہ اپنے بچہ کو انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھا سکے، پھر بھی وہ خواہ ایک اختیاری مضمون کے طور پر ہی سہی، اپنے بچے کے لیے اردو تعلیم کا انتخاب کرتا ہو۔
انجمن کے پاس ہمیشہ ہی اردو کے دیگر اداروں سے بہتر لیڈرشپ رہی ہے۔ آج بھی جو لوگ انجمن کے عہدے داران ہیں، ان سے بہتر اور دل سےسیکولرزم میں یقین رکھنے والے لوگ آپ کو اردو کے کسی ادارے میں نہیں ملیں گے۔ انجمن کے علاوہ اردو کا کوئی ادارہ معاشی طور پر اپنے قدموں پر نہیں کھڑا ہے۔ سب حکومت سے بھیک مانگتے رہتے ہیں۔اردو گھر کی تعمیر کا کام بھی خلیق انجم کے علاوہ کوئی نہیں کرا سکتا تھا مگر وہ محقق اور ادیب تھے۔ ان کے دفتر کا عملہ یا جن لوگوں پر انھوں نے بھروسہ کیا وہ سب سازشی لوگ تھے۔ اپنی دکان چلانے کے لیے انھوں نے خلیق صاحب کو بری طرح پھنسا دیا تھا۔ ان لوگوں کے مشورے پر انجمن حکومت سے غیر ضروری طور پر بہت سے مقدمات لڑ رہی تھی۔ ان لوگوں نے خلیق انجم سے انجمن میں ایسے ایسے کام کرائے کہ اگر خلیق انجم اور انجمن کی قسمت اچھی نہ ہوتی تو یہ ادارہ نہ صرف بند ہو گیا ہوتا بلکہ وہ خود بھی مصیبت میں پڑ جاتے۔ اس پر کون یقین کرے گا کہ ملازموں کے پراویڈنٹ فنڈ کا اکاؤنٹ پروویڈینٹ کمشنر کے دفتر میں نہ ہو کر اس بینک میں تھا جس کی برانچ اردو گھر کی بلڈنگ میں ہے۔ انجمن سروس ٹیکس لے رہی تھی مگر سروس ٹیکس میں چوںکہ رجسٹرڈ نہیں تھی، اس لیے یہ ٹیکس وہاں جمع نہیں کیا جاتا تھا۔ انجمن پر کروڑوں کی رقم بقایا تھی اور مقدمات پر پیسہ الگ خرچ ہو رہا تھا۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انجمن کو انکم ٹیکس میں اردو کے رضاکار ادارے کے طور پر نہیں بلکہ غیر منقسم ہندو خاندان کے طورپر رجسٹرڈ کرایا تھا۔ اس غلطی کے انجام کا اندازہ عام آدمی لگا ہی نہیں سکتا۔ اب ہمیں ان سب مصیبتوں سے نجات تو مل گئی ہے مگر میں دس برس تک ان ہی مسائل کو سلجھانے میں الجھا رہا۔
جب میں انجمن میں آیا تھا تو یہ ہر طرح سے پرانے ڈھنگ کا اور اردو کے پرانے ذہن کا ادارہ تھا۔ اب تو یہاں سب کچھ بدل گیا ہے۔ نئی تکنیک ہر جگہ ہے۔ سب کے پاس کمپیوٹر ہے۔ کتابیں پہلے سے بہت اچھی مگر مارکیٹ کی ضرورتوں کے مطابق چھپ رہی ہیں اور گھر بیٹھے کتاب منگوانے کے جو جدید وسائل ہیں جیسے Amazon وغیرہ، اُردو کے قاری ان سب کے ذریعے ہم سے کتابیں خریدتے ہیں۔ انجمن کا پرچہ ’اردو ادب‘ اور ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ انٹرنیٹ پر کم سے کم بیس ہزار لوگ پڑھتے ہیں۔ ’اردو ادب‘ اب Amazon کے ذریعے خوب فروخت ہوتاہے۔ حال ہی میں میرنمبر کی پہلی اشاعت جو دو ہزار کاپیوں کی تھی، ختم ہوچکی ہے ۔ اسے پھر شائع کیا جارہا ہے۔
انجمن میں نایاب کتابوں اور مخطوطات کا بڑا ذخیرہ ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ انجمن کی لائبریری کم سے کم ہندستان میں اردو کے کسی بھی ادارے کی لائبریری سے زیادہ ان معنی میں جدید تر ہو کہ انجمن کی لائبریری کی کتابیں اور مخطوطے لوگوں کو گھر بیٹھے آن لائن مل سکیں۔مفت میں اردو رسالے اور کتابیں خاص طور پر یونی ورسٹیوں میں اردو کے اساتذہ اور متوسط طبقے کے وہ لوگ پڑھنا چاہتے ہیں جو سیکڑوں روپے مہینہ انگریزی اور ہندی اخباروں پر خرچ کرتے ہیں مگر اردو کے اخبارات اور کتابیں انھیں صرف مفت میں ہی چاہئیں۔ قصبوں کی چھوٹی لائبریریوں کو تو ہم بہ خوشی اپنی کتابیں، اپنا اخبار ’ہماری زبان‘ اور سہ ماہی رسالہ ’اردو ادب‘ خود ہی اس لیے مفت میں بھیجتے ہیں، کیوںکہ وہاں اردو کا اصل قاری موجود ہے۔
جہاں تک اردو اداروں کا معاملہ ہے تو اب یہ تقریباً مسلمانوں کے ادارے بن چکے ہیں۔ اردو کے سرکاری اداروں کو خود سرکاریں بھی مسلمانوں کے ادارے سمجھتی ہیں۔ مسلم اداروں میں ہر طرح کی بدانتظامی عام ہے۔ مسلمان چھوٹے سے چھوٹے اداروں تک کو اپنی ذاتی حشمت سے جوڑکر دیکھتے ہیں اور ان کے لیے لڑتے ہیں۔ مسجد اور قبرستان تک کی کمیٹیوں میں جوتیوں میں دال بنٹنا عام بات ہے۔ اردو کی ترقی کے سوال پر مسلمانوں کا ذہن قطعی صاف نہیں ہے۔ ہندستان میں اگر 20 کروڑ مسلمان ہیں تو اردو کے بارے میں ہر مسلمان کی رائے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے مختلف ہوگی بلکہ وہ رائے کوئی شاعرانہ خیال جیسی بات ہوگی جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ اردو کے کسی ادارے کو بیس کروڑ لوگوں کی منفرد اور اضافی رائے کے مطابق چلانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اردو والوں نے کم سے کم آزادی کے بعد اردو زبان و ادب کے کسی بھی زاویے پر اس طرح سے غور و فکر نہیں کیا ہے جو ایک زندہ زبان کو تبدیل شدہ حالات میں وقت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری تھا۔ اس لیے ہر ادارے اور اس کے سربراہ پر تنقید ہونا عام بات ہے اور یہ تنقید اکثر غیر مناسب ہوتی ہے۔
میرے خیال میں کسی بھی ہندستانی زبان کے ادارے کا سربراہ کسی علمی اور ادبی شخصیت کو اس لیے نہیں بنانا چاہیے کیوںکہ اسے انتظامی معاملات کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، اور وہ دوسروں کی خاص طور پر سرکاری اداروں میں— یہ سربراہ وہاں کے کلرکوں کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ بہت دیر سے ہی سہی، مگر ہندستانی جامعات کے سلسلے میں حکومت نے یہ طے کردیا ہے کہ وہاں سربراہ تو شیخ الجامعہ ہی ہوگا جس کے لیے سینئر پروفیسر ہونا ضروری ہے مگر انتظامی سربراہ رجسٹرار ہوتا ہے جو عام طور پر سول سروسز سے آتا ہے۔ اردو اکادمیوں میں ایسا نہیں ہے۔ کچھ اکادمیوں کے سکریٹری سرکاری افسر ہوتے ہیں مگر ان میں بھی اکثر کو اردو نہیں آتی۔ اردو اکادمیوں میں اراکین اور صدر کو حکومت نامزد کرتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہ اپنی پارٹی کے مسلم کارکنوں کو اردو اکادمیوں میں نامزد کر دیتی ہےاور ان کی اکثریت کا اردو ادب یا انتظامیہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اصلاحات کا اپنا طریقِ کار ہوتا ہے جو اردو اداروں میں ابھی شروع ہی نہیں ہوا ہے۔
اردو کی ترقی کا اسمِ اعظم یہی ہے کہ اردو والے اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ اگر اسکول میں اردو نہیں ہے تو گھر پر اس کا انتظام کریں۔ اردو والے جتنے بہانے اردو نہ پڑھانے کے تراشنے پر زور لگاتے ہیں، اس سے کم محنت میں وہ ایک استاد کے ذریعے ان بچوں کو گھر پر اردو پڑھوا سکتے ہیں جن کے اسکول میں اردو تعلیم کا انتظام نہیں ہے۔ یہ مگر ہوگا نہیں۔
اردو ادب کی اچھی سے اچھی کتاب کا پہلا ایڈیشن کبھی ایک ہزار سے زیادہ نہیں چھپتا تھا اور اس کی فروخت میں بھی کئی برس گزر جاتے تھے۔ جو لکھنے والے نصاب میں شامل تھے، ان کا معاملہ دوسرا تھا۔ اگر ناشر کوشش کرے تو کتاب اتنی تعدادمیں اب بھی بک ہی جاتی ہے۔ اب مگر اچھی کتابیں ہندستان میں لکھی ہی بہت کم جارہی ہیں۔ دوسرے، اردو ادب کا قاری بھی اب دکان پر جانے کی بجائے آن لائن ہی کتاب خریدنا پسند کرتا ہے۔
ٓزادی کے بعد اردو جن حالات سے دوچار تھی اس میں اردو شعبوں کی ذمے داری گرچہ بہت زیادہ تھی مگر انھوں نے سربراہ کا وہ رول ادا نہیں کیا جو ان کے لیے ضروری تھا۔ اس کے برعکس یونی ورسٹیوں کے اردو شعبے بھی ایسے سرکاری دفتر بن گئے جہاں ایک دفعہ نوکری مل جانے کے بعد آپ کو وہاں سے کوئی نکال ہی نہیں سکتا، اس لیے، یونیورسٹیوں کے استادوں میں ذمے داری کا احساس کلرکوں کی طرح ختم ہوگیا۔
اردو کے تعلق سےدہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی(جے این یو) کا ذکر کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ جے این یو میں اردو تدریس کا اگر یہ معیار ہے کہ وہاں سے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والا کہیں بھی اُردو کا استاد نہ ہوسکا اور اسی یونی ورسٹی میںچائے کی دکان کھول لے تو اس سے زیادہ شرم کی بات وہاں کے اردو شعبے کے استادوں کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے۔ جے این یو دنیا کی بڑی یونی ورسٹی ہے اور وہاں کے فارغین کو دنیا بھر میں نہایت عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہاں اگر اردو والوں نے اردو کا یہ حال کیا تو باقی جگہ کیا کیا ہوگا، سمجھنا آسان ہے۔
زبانیں شاید ہی کبھی ختم ہوتی ہوں مگر وہ اپنی شکل ضرور تبدیل کر لیتی ہیں۔ اردو کی شکل میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ فارسی کا اثر تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ فارسی نے اردو کے سیکولر کردار کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اردو کی جتنی غیرمذہبی شاعری ہے اس کا بڑا حصہ فارسی اور کافی کچھ شمالی ہند اور اس کی علاقائی زبانوں کی شاعری سے آیا ہے۔
ہندی میں اب ایسے بہت کم لوگ ہیں جن کے ذہن میں اردو کے متعلق ان تمام منفی باتوں نے جگہ نہ بنا رکھی ہو جس کا پروپیگنڈا ڈیڑھ سو برسوں سے نہایت منظم پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ ان ڈیڑھ سو برسوں میں ہندی والوں کی تمام کوششیں ایک نئی زبان کے طور پر ’آدھونک ہندی‘ کو اردو کے مقابلے قائم کرنے کی تھیں۔ ایمان دار ہندی والے بھی اب اردو ادب کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ناگری میں موجود ہے۔ ہندی والوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ اردو رسمِ خط میں کچھ نہیں پڑھیں گے اور ہر حال میں اردو کا رسم خط ناگری سے بدلوا کر ہی رہیں گے جو نہایت معصومانہ بات ہے۔اردو والوں نے پوری طرح اردو کی حفاظت کی ذمے داری حکومت پر ڈال دی۔ ہندوؤں نے بھی اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر پڑھنا بند کر دیا۔ حکومتیں ایک حد کے بعد کسی زبان کو نہیں بچا سکتیں۔ اردو والے چوںکہ خود اردو کے لیے کچھ کرنے کی بجائے حکومت پر بھروسہ کر رہے تھے، اس لیے، وہ کسی اور زبان کے ساتھ مل کر اردو کی لڑائی نہ لڑ سکے۔انھوں نے بہت چالاکی کے ساتھ علاقائی زبانوں کی لڑائی کی بات کی اور علاقائی زبانوں کو نئی ہندی مگرمچھ کی طرح کھاتی رہی۔ جہاں جہاں سے انگریزی ہٹی، وہاں صرف ہندی کو کھپا دیا گیا جس کی وجہ سے اب کسی ہندستانی زبان کا ہندی پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے۔ ہندی اور ہندو راشٹرواد کو بھی ہندی والے بڑی چالاکی کے ساتھ ایک ہی سکے کے دو رخ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
ہندستان جیسے بڑے ملک میں کسی ایک گروہ کے لیے اس حیثیت میں آنا ممکن نہیں کہ وہ جو چاہے وہ کر لے۔ ہندی کی سیاست کا تمام زور اردو کے خلاف اور اردو رسمِ خط کی تبدیلی پر تھا مگر کمپیوٹرائزیشن نے ناگری کی لپی کے نام پر کھیلا جانے والا تماشہ ہی ختم کردیا۔چوںکہ اب ادبی پرچوں پر یونی ورسٹیوں میں اردو ادب پڑھنے اور پڑھانے والوں کی اجارہ داری ہو گئی ہے، اس لیے، وہ لوگ اب عام طور پر اسی موضوع کے آس پاس لکھتے ہیں جس پر انھوں نے ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ اور پڑھتے بھی نہیں ہیں۔ اس طرح کی تحریروں میں عام قاری کی دل چسپی کیوں کر ہوگی؟ اردو کے ایسے پرچوں کی تعدادِ اشاعت پچاس سے زیادہ نہیں ہوتی۔
آپ نے وہ مشہور قصہ ضرور سنا ہوگا کہ جب صلاح الدین پرویز کی کتاب ’ژاژ‘ چھپی تو اسے لے کر وہ مشہور شاعر معین احسن جذبی کے پاس گئے جو اس زمانہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر تھے۔ جذبی صاحب نے کتاب ہاتھ میں لے کر پرویز سے پوچھا کہ ’ژاژ‘ کے کیا معنی ہیں؟ پرویز نے کہا کہ یہ ایک گھاس ہے جو گدھے کھاتے ہیں۔ اس پر جذبی نے کہا کہ جو گھاس گدھے کھاتے ہیں، وہ آپ مجھے کیوں کھلانا چاہتے ہیں! یہی معاملہ رسائل میں چھپنے والے ادب کا ہے کہ جس تحریر کو لکھنے والا خود بھی دوبارہ نہیں پڑھتا، اسے اردو قاری کیوں پڑھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ اردو کا عام قاری اردو ادب پڑھنے میں دل چسپی نہیں لیتا۔اردو کے پہلے قابلِ ذکر ای پورٹل کے طور پر ریختہ کا نام اولیت کا حامل ہے مگر اس کا مقابلہ اردو کے پرانے اداروں سے نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں کی سماجیات الگ ہے۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ ریختہ کو سب سے پہلے انجمن نے ہی اپنی لائبریری ڈجٹائز کرنے کی اجازت دی تھی جس سے ان کا کورپس تیار ہوا۔ ریختہ کا اثر انٹرنیٹ کی ایک نئی دنیا کے وجود میں آ جانے کی وجہ سے ہوا۔مگر ریختہ کی کامیابی اردو والوں کی نااہلی اور اپنے بچوں کو اردو نہ پڑھانے کا جواز نہیں بن سکتی۔ ریختہ کی نقل کرنا بھی کسی اردو ادارے کے لیے اس لیے ناممکن ہے کیوںکہ ریختہ کے پیچھے ایک کارپوریٹ ہاؤس ہے مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ کمپنی اپنے CSR فنڈ سے اتنا بڑا کام کر رہی ہے۔ اردو والوں کو چوںکہ کارپوریٹ ہاؤسز کے طریقِ کار اور مقاصد کا سرے سے اندازہ ہی نہیں ہے، اس لیے، وہ ریختہ کو، اس کے کام کرنے کے مقصد اور طریقِ کار کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔‘‘
13 اپریل 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/institution-cannot-opinions-individuals/d/135200
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism