نصیر احمد، نیو ایج اسلام
10 ستمبر 2024
قرآن میں، وحی الہی اور انسانی علم کے درمیان تعلق پر زور دیا گیا ہے، جس سے یہ ثابت پوتا ہے کہ ہماری بہت سی فکری ترقیاں صرف ہماری ایجاد نہیں ہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک ماورائی طاقت کا عمل دخل ہے۔ یہ تصور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی اولین آیات میں بیان کر دیا گیا ہے:
96|1|پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
|2|آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو
|3|اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم،
|4|جس نے قلم سے لکھنا سکھایا
|5|آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا
|6|ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے،
|7|اس پر کہ اپنے آپ کو غنی سمجھ لیا
ہمارے ارتقاء میں ریکارڈنگ کی اہمیت
عام طور پر یہی مانا جاتا ہے، کہ قلم یا تحریر کا آلہ انسان نے ایجاد کیا ہے۔ تاہم، جب اللہ کا فرمان ہے، کہ اس نے بنی نوع انسان کو لکھنے کے آلے کا استعمال سکھایا، تو اس سے ایک گہری حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ جیسا کہ آیات میں مذکور ہے، قلم صرف ایک آلہ نہیں ہے، بلکہ ایک وحی الہی ہے۔ اس سے خدا کی تعلیمات اور انسانی علم کے ارتقاء کے درمیان، گہرے تعلق کی نشاندہی ہوتی ہے، جس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے، کہ ہماری فکری ترقی صرف ہماری اپنی ایجاد نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے لیے ایک ماورائی طاقت کا تحفہ ہے۔
اگرچہ، دیگر مخلوقات متاثر کن علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہیں، لیکن علم کو ریکارڈ کرنے اور محفوظ کرنے کی منفرد صلاحیت، صرف انسانوں کے پاس ہی ہے، جو ہمیں دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ ہنر، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے، صرف ایک انسانی کارنامہ نہیں ہے، بلکہ ایک وحی الہی ہے، جو ہمیں قابل قدر اور صاحب اہمیت بناتی ہے۔
یہ انوکھی صلاحیت نہ صرف علم کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتی ہے، بلکہ اس میں بتدریج اضافہ کرنے، اور اسے وسیع پیمانے پر پھیلانے میں بھی مدد کرتی ہے۔ لہذا، آج کی نسل انسانی کے پاس، علم و حکمت کا وہ مجموعی خزانہ موجود ہے، جس کا ارتقاء کئی صدیوں میں ہوا ہے۔
لکھنا یا ریکارڈ کرنا صرف اہم ہی نہیں، بلکہ یہ علم کو محفوظ کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ اہمیت اس حقیقت سے واضح ہوتی ہے، کہ لفظ 'ریکارڈ' 36 آیات میں موجود ہے۔ اللہ ہر چیز کو انتہائی باریک بینی کے ساتھ ریکارڈ کرتا ہے، اور وہی مہارت اللہ نے انسانوں کو دی ہے یا سکھائی ہے۔
آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ انسان یہ سمجھتا ہے، کہ اس نے تحریر کا آلہ ایجاد کیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو، اس کے استعمال کا خیال، اور اس کی ایجاد کی وحی فرمائی ہے۔ وہ انسان بے وقوف ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود کفیل ہے، اور اسے اللہ کی مدد کی ضرورت نہیں۔ آیت یہ بھی کہتی ہے، کہ اللہ نے انسان کو وہ کچھ سکھایا، جو وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ وحی ہمیں عاجز کرتی ہے، اور ہمیں یہ احساس دلاتی ہے، کہ تحریر کی ایجاد سمیت ہماری تمام تر ترقیاں، ہمارے لیے اللہ کا تحفہ ہے۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے، کہ قرآن کا نزول شروع میں جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے ہوا، اور بعد میں الہام کے ذریعے۔ قرآن بھی کہتا ہے:
(17:85) اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں، تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا
|86|اور اگر ہم چاہتے تو یہ وحی جو ہم نے تمہاری طرف کی اسے لے جاتے پھر تم کوئی نہ پاتے کہ تمہارے لیے ہمارے حضور اس پر وکالت کرتا
|87|مگر تمہارے رب کی رحمت بیشک تم پر اس کا بڑا فضل ہے
|88|تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو
قرآن بے مثال ہے، کیونکہ یہ صرف اللہ کی وحی سے ہی تیار کیا جا سکتا ہے، اور اس جیسی کتاب بنانا انسان یا جن کے لیے ناممکن ہے، خواہ وہ سب کے سب سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وحی کے ذریعے جو کچھ دیا ہے، اسے وہ چھین بھی سکتا ہے۔
آئیے اب توجہ مرکوز کریں:
(17:85) اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں، تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا۔
’’اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا‘‘ کا کیا مطلب ہے؟
کیا اس میں اللہ تعالیٰ قرآن کے نزول کے وقت تک، انسان کو دیے گئے علم کی طرف اشارہ کر رہا ہے، اور یہ کہہ رہا ہے کہ تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں مزید بہت کچھ الہام کے ذریعے پہنچایا جائے گا، جو اللہ کسی کو بھی دے سکتا ہے؟
کیا اللہ ہمارے علم میں اضافہ کرتا ہے؟
(40:15) بلند درجے دینے والا عرش کامالک ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہے کہ وہ ملنے کے دن سے ڈرائے-
اللہ اپنے الہام کے ذریعے جس شخص کو بھی منتخب کرتا ہے، اس کی رہنمائی کر سکتا ہے۔
اگر قلم، جو کہ ایک ایجاد ہے جسے اکثر انسانی ذہانت سے منسوب کیا جاتا، وحی الہی کا مظہر ہے، تو کیا یہ ہوسکتا ہے، کہ پوری تاریخ انسانی کی تمام اہم پیش رفتوں اور اختراعات کا الہام، انسانوں کو اللہ ہی کرے؟
اگرچہ، بہت ساری کامیابیوں اور انسانی حصولیابیوں کی بنیاد وحی ہو سکتی ہے، اور اکثر ان کی وضاحت کے لیے منطق، ابتدائی بصیرت کے بعد نظر آتی ہے، لیکن انسانی کوشش، فکری تجسس، اور وحی الہی کے درمیان پیچیدہ تعامل کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ الہام، یقیناً، صرف ان لوگوں کو آتا ہے، جو کسی مسئلے پر کام کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کو 40 دن اور 40 راتوں تک مراقبہ کرنے کے بعد، معرفت حاصل ہوئی، اور اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ بھی ہوا، جنہوں نے مراقبہ کے لیے ایک غار کا انتخاب کیا۔ رامانوجن کے ریاضیاتی نظریات بھی، وحی کی بدولت تھے۔ اس کے ثبوت بعد میں آئے، بسا اوقات دوسرے ریاضی دانوں کی مدد سے، یا مکمل طور پر دوسرے ریاضی دانوں کے ہاتھوں۔ رامانوجن خود اپنے کچھ نظریات کو ثابت نہیں کر سکے۔ آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کا ریاضیاتی ثبوت، اور اس کی تجرباتی توثیق، اس کے نظریہ کو مرتب کرنے کے برسوں بعد سامنے آئی۔ علم نفسیات میں، شعور کے مظاہر سے آگاہ ہونے سے قبل، کہ وہ مظاہر کی وضاحت کر سکے، اس مسئلے کو حل کرنے کے تحت الشعور نظریات موجود ہوں گے۔
الہام کے ساتھ میرا حالیہ تجربہ
الہام مختلف طریقوں سے آتا ہے۔ میں سورہ 95 میں "انجیر" کا معنی جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں بچپن سے جانتا تھا، کہ بہت سے لوگ گوتم بدھ کو اللہ کا ایک رسول سمجھتے ہیں، اور اگر تین دیگر استعاروں سے مراد عیسیٰ، موسیٰ اور محمد ہیں، تو "انجیر” کا مطلب بدھا ہو سکتا ہے، کیونکہ انجیر کے درخت کے نیچے ہی، مہاتما بدھ کو معرفت حاصل ہوئی تھی۔ تاہم، میں اس معنی سے بالکل مطمئن نہیں تھا، اور اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے مضمون کو ختم کر دیا۔ اسی مضمون میں، میں نے کہا تھا کہ "صابی" ایک دیگر اصطلاح ہے، جو اللہ کے دین کو ماننے والوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہیں، اور میں نے کہا کہ یہ غیر ابراہیمی مذاہب کے تمام لوگوں کے لیے ایک اصطلاح ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ بھی ایک اللہ کا دین ہے۔
اس کے بعد ہونے والی بحث میں جی ایم صاحب نے طنزیہ انداز میں پوچھا:
کیوں؟ کیا یہ مطلب خدا نے بیان کیا تھا؟ ہرگز نہیں! کیا اس توضیح کے لیے کوئی دلیل پیش کی گئی تھی، کہ کیوں انجیر سے مراد صرف گوتم بدھ ہیں؟
اگر اب چار مذاہب ہیں، جن کو قرآن تسلیم کرتا ہے (یہودیت، عیسائیت، اسلام اور بدھ مت)، تین توحیدی اور ایک لا ادریہ، تو پھر جین مت یا شنٹو مت کا کیا ہوگا؟ انہیں کیوں چھوڑ دیا گیا؟
از غلام محی الدین 25/08/2024 01:53:15
ان کا سوال منطقی تھا، جس کا جواب مجھے درکار۔ میں نے تحقیق کی اور پایا کہ "انجیر" بدھ مت کے علاوہ ہندو مت، جین مت، شنٹو مت، زرتشتی، قدیم مصری، یونانی رومن اور افریقی مذہبی روایات میں بھی مقدس ہے۔ اس سے "انجیر" کے استعارے کا معنی مکمل طور پر واضح ہو گیا۔ یہ ابراہیمی دین کے علاوہ، اللہ کے دین کے تمام بانیوں کے لیے ایک استعارہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے تمام رسولوں کی قسم کھا رہا ہے، جو اس کے دین کے بانی ہیں۔
اللہ اپنا الہام کئی طریقوں سے بھیجتا ہے - یہاں تک کہ آپ کا مذاق اڑانے والے شخص کے طنزیہ جملے کے ذریعے بھی!
اب صابی اور "انجیر" کے درمیان تعلق واضح ہو گیا۔ "انجیر" ابراہیمی دین کے علاوہ، اللہ کے دین کے تمام بانیوں کے لیے ایک استعارہ ہے، اور "صابی" سے ان کے تمام پیروکاروں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
نتیجہ:
قرآن سے یہ معلوم ہوا کہ الہی الہام، اکثر انسانی علم اور اختراع کی رہنمائی کرتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا کے بارے میں سمجھ بوجھ، اور دریافتوں میں اضافہ ہوتا جائے گا، یہ تسلیم کرتے ہوئے، کہ ہماری اکثر ترقیاتی اقدامات، کسی اعلیٰ طاقت کی رہنمائی کی بدولت ہو سکتی ہیں، عاجز اور انکساری اختیار کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ الہٰی الہام کے حوالے سے یہ عاجزی اور کشادہ ذہنی، گہری بصیرت اور ہمارے آس پاس کی دنیا کے حوالے سے، مزید جامع سمجھ بوجھ کا باعث بن سکتی ہے۔
----
English Article: Inspiration and Knowledge: Exploring Divine Guidance in Human Innovation
URL: https://newageislam.com/urdu-section/inspiration-knowledge-divine-guidance-human-innovation/d/133190
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism