ادے پور میں کنہیا لال کا
قتل ہندوستان میں فساد برپا کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہو سکتا ہے۔ دونوں ملزمان
توہین رسالت کے جرم میں سر قلم کرنے کے پاکستانی نظریہ سے متاثر نظر آتے ہیں۔
اہم نکات:
1. ریاض عطاری دعوت اسلامی
پاکستان کے سربراہِ مجلس شوریٰ اطہر علی عطاری سے متاثر نظر آتے ہیں۔
2. قاتلوں نے قتل کی فلم
بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔
3. قاتلوں نے وزیر اعظم
مودی کو بھی دھمکی بھرا بیان جاری کیا ہے۔
4. ریاض کا اپنے چھ
بھائیوں سے کافی عرصے سے رابطہ نہیں تھا۔
5. ریاض کے بھائی اس سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔
----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
30 جون 2022
نوپور شرما کی حمایت میں
سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر ادے پور میں ایک ہندو دکاندار (بائیں) کو دو افراد
(داہنے) نے قتل کر دیا۔
-----
دو انتہاپسند مسلم نوجوان
محمد غوث اور محمد ریاض عطاری کے ہاتھوں دن دہاڑے کنہیا لال کا بہیمانہ قتل ہونا اور
پھر سوشل میڈیا پر اسے نشر کیا جانا اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان کے وزیر اعظم
نریندر مودی کو دھمکی دیا جانا، ان تمام باتوں سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ قتل
کی وجہ بننے والے حالات اور ملزم کے پس منظر کے بارے میں جو کچھ بھی معلومات میڈیا
کے ذریعے سامنے آئی ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل کوئی خود ساختہ فعل نہیں تھا۔
اسے ایک منصوبہ بندی کے مطابق عمل میں لایا گیا تھا۔ نوجوانوں کا ذہن مذہبی تھا
اور ان کی مذہبی وضع قطع سے ایسا لگتا ہے کہ وہ واقعی کسی نہ کسی مذہبی تنظیم کے
ساتھ ایک مضبوط وابستگی رکھتے تھے۔
ویڈیو کو ایک ملزم نے
فلمایا تھا اور دونوں نے ہاتھ میں چاقو لے کر پی ایم مودی کو دھمکی دینے والی
ویڈیو پوسٹ کی تھی جو واقعی ایک گیم پلان کا حصہ تھی۔
مقتول کے بیٹے نے میڈیا سے
بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قتل کا سبب بننے والی فیس بک پوسٹ غلطی سے نشر ہو گئی تھی
اور اس نے اپنے بیٹے کو اسے ہٹانے کے لیے کہا تھا جو کہ کر دیا گیا تھا۔ کنہیا کے
خلاف ان کے ایک مسلمان پڑوسی ناظم نے شکایت درج کرائی تھی جس پر پولیس نے اسے
گرفتار کر لیا تھا اور وہ ضمانت پر رہا تھا۔ اس کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں پر
مشتمل پنچایت منعقد ہوئی جہاں اس نے اور اس کے بیٹے نے معافی مانگی اور تنازعہ رفع
دفع ہو گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ معاملہ قانونی چارہ جوئی میں چلا گیا تھا اور ملزم
نے اہل علاقہ سے معافی مانگ لی تھی۔ لیکن اطلاعات کے مطابق اس کے پڑوسی ناظم اور
اس کے ساتھیوں نے اسے دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ کچھ لوگوں نے اس کی دکان پر نظر
رکھنا بھی شروع کر دیا۔ دو لوگ اس کی دکان پر گئے اور اسے دھمکیاں دیں۔ یہاں تک کہ
کنہیا نے بھی پولیس کو اپنی جان کا خطرہ بتاتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ اس
نے اپنی جان کے خوف سے چھ دن تک دکان نہیں کھولی۔ یہاں تک کہ جب کبھی وہ اپنی دکان
کھولتا بھی تو شام کو جلد ہی بند کر دیتا۔ یہ سب گزشتہ بارہ دنوں سے چل رہا تھا۔
پولیس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا حالانکہ توہین رسالت کے معاملے پر
چاروں طرف کشیدگی تھی۔
اب ذرائع کے حوالے سے
میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ غوث نے 2014 میں کراچی کا سفر کیا
تھا اور دونوں کا تعلق پاکستان کی ایک اسلامی تنظیم سے تھا۔ تاہم حکومت پاکستان نے
ان خبروں کی تردید کی ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ
کوئی بھی اسلامی تنظیم جو پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والوں کے سر قلم کرنے کی
حمایت کرتی ہے ضروری نہیں کہ وہ دہشت گرد یا عسکری تنظیم ہو۔ توہین رسالت کا مسئلہ
ایک ایسا مسئلہ ہے جہاں مرکزی دھارے کی اسلامی تنظیم اور دہشت گرد تنظیمیں دونوں
ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آتی ہیں۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ جو لوگ بالواسطہ یا
بلاواسطہ طور پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں انہیں مار دیا جائے
اگرچہ وہ معافی ہی کیوں نہ مانگے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے توہین کی تھی حتیٰ
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھروں سے حملہ کیا گیا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
پر گندگی ڈالی گئی، تو وہ یہ کہتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ معاف کرنا حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کا حق تھا۔
لیکن چونکہ وہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم جسمانی طور پر موجود نہیں ہے، اس لیے ایک مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ
اپنی طرف سے کسی کو معاف کر دے: اس لیے توہین کرنے والے کو قتل کر دیا جائے۔ ممتاز
عالم دین اور مفسرین ڈاکٹر طاہر القادری کا بھی یہی موقف ہے۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر
طاہر القادری نے دس سال قبل دہشت گردی اور خودکش بم حملوں کے خلاف فتویٰ تحریر کیا
تھا اور دنیا بھر میں ان کے تحقیقی کام کو سراہا جاتا ہے۔ اس لیے ریاض اور غوث کا یہ
عمل ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے حواریوں کی نظر میں اسلامی فعل ہوگا نہ کہ دہشت گردی۔
ایک اور رواج جو خاص طور
پر پاکستان میں عام ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ توہین کرنے والے کا سر قلم کر دیا جائے۔
اس کے لیے کسی قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں ریلیوں میں 'گستاخ رسول
کی ایک سزا، سر تن سے جدا سر تن سے جدا' کا نعرہ خوب لگایا جاتا ہے۔
یہ نعرہ نوپور شرما کے
بیان کے خلاف مظاہروں کے دوران بھارت میں بھی خاصا مقبول ہوا۔ یہ نعرہ نہایت باریک
بینی سے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ توہین رسالت کی سزا صرف سر قلم کرنا ہے۔
اس سے یہ حقیقت جھوٹی معلوم ہوتی ہے کہ ہر جرم کے لیے قانونی چارہ جوئی ہے۔
لیکن آج پاکستان میں
علمائے اسلام اس عقیدے کی تبلیغ کر رہے ہیں کہ توہین رسالت کرنے والے کو سرعام
پھانسی دی جانی چاہیے تاکہ جو بھی مسلمان اس سے اختلاف کرے اسے گستاخ قرار دیا
جائے۔ پاکستانی پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل
کیا جانا، ایسی ہی ایک مثال ہے۔
ہندوستان کی اسلامی
تنظیموں نے کنہیا لال کے قتل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے غیر
اسلامی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی
ہند، اے آئی ایم آئی ایم، اے آئی ایم پی ایل بی اور اجمیر شریف درگاہ کے سربراہ نے
کھل کر ریاض اور غوث کے اس فعل کی مذمت کی ہے لیکن پاکستان کی اسلامی تنظیموں نے
اس کی مذمت نہیں کی ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹر طاہر القادری جنہوں نے دہشت گردی اور
خودکش بم حملوں کے خلاف فتویٰ دیا تھا اور جو توہین رسالت کے جرم میں سر قلم کرنے
کی حمایت کرتے ہیں، انہوں نے بھی اس کی مذمت میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ کیا انہیں
دہشت گرد سمجھا جائے گا یا ان پر ریاض اور غوث کی ذہن سازی کرنے کا مقدمہ درج کیا
جائے گا؟ وہ پاکستان کے واحد اسلامی اسکالر نہیں ہیں جنہوں نے اس مسئلے پر کتاب
لکھی ہے بلکہ اور بھی ہیں جنہوں نے توہین رسالت کرنے والوں کے سر قلم کرنے کی
حمایت کرتے ہوئے اسی مسئلے پر بہت کچھ لکھا ہے۔
یہ فعل قابل مذمت ہے
کیونکہ کوئی بھی مہذب معاشرہ انفرادی طور پر شہریوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے
اور انصاف کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ نہ ہمارا آئین اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت
دیتا ہے۔ بہر حال، مقتول نے کہا تھا کہ میں نے یہ پوسٹ شیئر نہیں کیا تھا اور اگر
کیا بھی تو میں نے مسلم برادری کے سامنے معافی مانگ لی تھی۔ اور نبی پاک صلی اللہ
علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کو معاف کر دیا جب انہوں نے معافی مانگی۔ مکہ مکرمہ میں
ایسے ہزاروں لوگ تھے جو دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے اور آپ کو
اذیتیں دیتے لیکن فتح مکہ کے دن جب مکہ والوں نے انتقام اور سزا کے خوف سے اپنے آپ
کو محصور کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ لیکن آج
بہت سے علمائے اسلام یہ عقیدہ پھیلاتے ہیں کہ معافی مانگنے کے بعد بھی توہین رسالت
کے جرم میں مجرم کو قتل کر دیا جانا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں، کسی بھی فرد کو کیا
حق حاصل ہے کہ وہ خود ہی جج خود ہی فیصل اور خود ہی جلاد بھی بن جائے۔ ہم قانون کی
پاسداری کرنے والے ملک ہیں اور اگر ہمیں کسی کے خلاف کوئی شکایت ہے تو ہمیں
عدالتوں میں جانا چاہیے۔
جب بھی کوئی اہم مسئلہ
سامنے آتا ہے تو علمائے کرام کی الجھنیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے
ہیں کہ اسلام دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا لیکن ان میں سے کچھ نے 2014 میں داعش
کی حمایت کی اور 2021 میں طالبان کی حمایت کی۔ ان کے نزدیک داعش خلافت کے دعویدار
تھے اور طالبان آزادی پسند تھے۔ ان کی الجھن کی قیمت وہ مسلمان نوجوان ادا کر رہے
ہیں جنہیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اسلام کے نام پر تشدد اور خونریزی جائز ہے اور
اس کا انہیں آخرت میں اجر ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism