ظفر
آغا
جولائی
کامہینہ ختم ہوا چاہتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ہر ماہ کی طرح جولائی بھی تیس اکتیس دنوں کی
مدت سے زیادہ تو ہو نہیں سکتا۔ یعنی ہر ماہ
کی طرح ماہ جولائی کو بھی اپنی معینہ مدت میں ہی ختم ہونا ہے لیکن جولائی کا مہینہ
ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔سچ پوچھیے تو اس ماہ کا ہر ایک دن اہم ہےکیونکہ اسی مہینے
میں ہی ہندوستان میں یونیورسیٹیوں اور کالجوں کا سطح کے داخلے ہوتے ہیں ۔ وہ طلبا جو
بارہویں جماعت پا س کر کے یونیورسٹی یا کالج میں داخلے لینا چاہتے ہیں ان کی قسمت کا
فیصلہ اسی ماہ جولائی میں ہوتا ہے ، جس طالب علم کو جتنے اچھے کالج میں داخلہ مل گیا
بس اس کا مستقبل اتنا ہی درخشاں سمجھئے ۔تب ہی تو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخل
ہونے والے طلبا ہی کیا ان کے والدین بھی ماہ جولائی میں سخت ‘‘ٹینشن’’یعنی اضطرابی
کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں اور کہیں کسی کو اس کےمن پسند کالج میں داخلہ مل گیا تو پھر
جولائی کامیاب وسرخر و سمجھئے ،جو بچے اچھے کالجوں میں نہیں پہنچ پاتے وہ ہی نہیں ان
کے والدین بھی اس ماہ جولائی میں منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
اب غور
فرمائیے ہندو ستان میں ماہ جولائی کی اہمت یعنی اسی ماہ میں لاکھوں کروڑوں ہندوستانی
نوجوانوں کے مستقبل کا فیصلہ ہوجاتا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ماہ جولائی میں محض
نوجوانوں کے مستقبل کا ہی نہیں بلکہ قوموں کے مستقبل کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو یہ بات
یہ شاید بے جانہ ہوگی لیکن افسوس کہ ہندوستانی مسلمان اسی داخلے کی دوڑ میں ملک میں
آج بھی سب سے پیچھے ہیں۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل آبادی کا محض چار
فیصد حصہ ہی گریجویٹ ڈگری حاصل کرپاتا ہے۔اسی رپورٹ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے
کہ مسلمانوں کا یہ تعلیمی تناسب اس ملک کے دلتوں سے بھی کم ہے۔یعنی اعلیٰ تعلیم کے
میدان میں مسلمان اس ملک کی سب سے پسماندہ قو م ہیں۔ اللہ کی پناہ!وہ قوم جو قرآن
حکیم میں اعتقاد رکھتی ہو اس کا شمار ہندوستان جیسے ملک میں اعلیٰ تعلیمی سطح پر سب
سے پسماندہ قوم میں ہوتا ہو، اس سے زیادہ حیرت ناک بات اور کیا ہوگی کیونکہ اللہ ربالعزت
کا پہلا پیغام ،جو جبریل امین نے رسول کریم کودیا وہ تھا ‘‘اقرا’’ یعنی پڑھو ۔گویا
مذہب اسلام کی بنیاد ہی تعلیم پر ہے اور اس مذہب کے ماننے والے ہندوستانی اعلیٰ تعلیم
کے میدان میں سب سے پسماندہ قوم کہلائیں اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے
۔میرے نزدیک یہ بات تو ہر مسلمان کے لیے باعث شرم ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ شرمناک
بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو یہ عادت ہوگئی ہےکہ اپنی جہالت کا ٹھیکرا بھی ہم فرقہ
پرستی اور حکومت وقت کے سر پر پھوڑ دیتے ہیں۔
ذرا
غور فرمائیے! اگر کوئی قوم تعلیم حاصل کرنا چاہے تو کوئی کیا اس کو کوئی حکومت تعلیم
حاصل کرنے سے روک سکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔تعلیم وہ شے ہے جو کسی شخص یا کسی قوم کے پاس
خود نہیں جاتی ہے اور اگر کےکوئی شخص یا کوئی قوم تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اس کو تعلیم
حاصل کرنے سے روک نہیں سکتا ہے۔ اس لیے یہ عذر پیش کرنا کہ فرقہ پرستی یا حکومت کی بے توجہی کے سبب مسلمان تعلیمی میدان میں
پسماندگی کےشکار ہیں شاید درست نہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بھی عرض کرنا لازمی ہے کہ ہندوستانی
مسلمان ہمیشہ سے اعلیٰ تعلیم میں پسماندہ نہیں تھا ۔ ابھی حال میں ہندوستان میں مقیم
ایک انگریز مصنف ولیم ڈیر یمپل نے بہادر شاہ ظفر پر ایک کتاب لکھی ،جس کا عنوان تھا
‘‘دی لاسٹ مغل’’ اس کتاب میں انہوں نے مغلیہ دور کے آخری وقت کا سماجی، معاشی اور
تعلیمی جائزہ پیش کیا ہے۔بہادرشاہ ظفر کے ہندوستان میں مسلمانوں کے معیار تعلیم کا
ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس کتاب میں اس دور کے ایک انگریز مصنف کے حوالے سے لکھا ہے
کہ ہندوستانی مدارس کا معیار تعلیم انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے کم نہیں ہے۔ (جاری )
بشکریہ۔
روزنامہ وقت
URL: